|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، ”آزاد“ کشمیر|

تین سال سے جاری عوامی مزاحمت ”آزاد“ کشمیر میں ایک اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے اب 29 ستمبر کی احتجاجی تحریک اور ریاست گیر لاک ڈاؤن کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جس میں کشمیر بھر میں لاکھوں عوام نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ ریاست بھر میں مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال تھی اور کشمیر کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں پر عملاً عوام کا کنٹرول تھا۔ نہ صرف کشمیر کے حکمران طبقے بلکہ پاکستانی ریاست جو کہ وہاں پر قابض ریاست ہے، کے حکمران طبقے اور اس کے نمائندوں کی طرف سے اس عوامی تحریک کو کچلنے کی بھرپور منصوبہ بندی کی گئی تھی اور عوام کے اوپر ننگے جبر کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہے۔
لیکن تحریک کا مومینٹم اتنا مضبوط ہے اور اس درجے کی عوامی شمولیت ہے کہ ریاست براہ راست جبر کرنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہی ہے اور اس مقصد کے لیے اپنی پالتو تنظیموں اور نام نہاد سیاسی پارٹیوں کو استعمال کر رہی ہے۔ جہادی تنظیمیں جو کہ کشمیر میں حکمران طبقے اور ریاست کا ایک روایتی ٹول رہی ہیں وہ گزشتہ عرصے میں اس حد تک غیر مقبول ہو چکی ہیں کہ اب ان کو استعمال بھی نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا اب غلیظ قسم کی حکمران طبقے کی عوام دشمن سیاسی پارٹیوں کو استعمال کیا جا رہا ہے جس کے اندر جے کے پی پی یعنی جموں کشمیر پیپلز پارٹی کا نام سامنے آ رہا ہے۔ راولاکوٹ میں ایسی ویڈیوز موجود ہیں جہاں پہ جے کے پی پی کے کارکنوں کو اسلحہ دیا جا رہا ہے تاکہ وہ لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے اسلحے کا استعمال کر سکیں۔
اسی طرح مظفرآباد میں اندوہناک واقعات سامنے آئے ہیں، جہاں پر مسلم کانفرنس کے غنڈوں نے عوام پر گولیاں چلائیں اور اطلاعات یہ ہیں کہ ایک حریت پسند نوجوان، سدھیر اعوان جو تحریک کا کارکن تھا، کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مزید 16 لوگوں کو گولیاں لگنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن کی حالت تشویش ناک ہے۔ سیدھے الفاظ میں ریاست اور حکمران طبقہ ننگے جبر پر اتر آیا ہے۔ ان کو یہ خوف اور تشویش لاحق ہے کہ کشمیر کے عوام کی جو جدوجہد اور ان کے جو جذبات اور جو سوچ ہے وہ پاکستان کے محنت کش عوام تک نہ پہنچ جائے۔ اسی لیے 29 ستمبر کی ہڑتال سے قبل ہی سب سے پہلے ”آزاد“ کشمیر میں انٹرنیٹ بند کر دیا گیا اور وہاں میڈیا چینلز بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ اخبارات وغیرہ کی وہاں تک رسائی ممکن نہیں۔ جیو اور دیگر چینلز جو کہ حکمرانوں کے گماشتہ چینلز ہیں وہ جھوٹی اور بے بنیاد خبریں نشر کر رہے ہیں کہ ”جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے کارکنوں نے ایمبولینس کو روک دیا جس کی وجہ سے مریض جاں بحق ہو گیا“۔

اس کے علاوہ اے آر وائے نیوز بھی کشمیر کی عوامی تحریک کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک غلیظ اور جھوٹا ریاستی پراپیگنڈہ ہے جس سے واضح طور پر ریاست کا خوف جھلکتا ہے۔ انگریزی روزنامے ڈان میں بھی اس تحریک کی خبر کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے اور مظفرآباد میں مسلم کانفرنس کے غنڈوں کی جانب سے کیے گئے حملے کو ”امن ریلی“ کے شرکا کے ساتھ تصادم بنا کر پیش کیا گیا ہے جو کہ صحافت اور رپورٹنگ کے نام پر ایک اور کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکمران طبقے کا میڈیا کس طرح اپنے آقاؤں کے مفادات کا دفاع کرتا ہے اور عوامی تحریکوں کے خلاف زہر اگلتا ہے جبکہ عوام دشمن قوتوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے جرائم کو تحفظ دیتا ہے۔
ریاست پاکستان کو یہ ڈر ہے کہ جن جمہوری اور بنیادی حقوق کے مطالبات کے گرد کشمیری عوام منظم ہو رہی ہے، یہی مسئلے لاہور میں، کراچی میں اور پاکستان کے دیگر اہم شہروں اور یہاں تک کہ دیہاتوں کے اندر بھی موجود ہیں۔ پہلے بھی کشمیر میں بجلی کا ایک یونٹ 3 روپے کا کروانا اور آٹے پر سبسڈی لینا اس تحریک کی بہت شاندار کامیابی تھی جس کے بعد پورے پاکستان میں یہ بحث زور پکڑ گئی تھی کہ ہمیں بھی ایسی ہی تحریک برپا کرتے ہوئے بجلی کی قیمتوں کو کم کروانا چاہیے۔

اس وقت بھی اس تحریک کے پورے پاکستان میں پھیلنے کے امکانات موجود ہیں جس سے حکمران خوفزدہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کو کچلنے کے لیے پورا زور لگایا جا رہا ہے اور دوسرا اس کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے تاکہ دوسرے علاقوں کے محنت کشوں میں اس کے خلاف نفرت پھیلے جبکہ اس پوری ریاست کی تاریخ رہی ہے کہ یہ ہمیشہ کشمیر کی آزادی کا واویلا کرتی رہی ہے اور کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا ناٹک کرتی رہی ہے لیکن آج جب کشمیر کے عوام اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں تو اپنے پالتو غنڈوں کے ذریعے ان پر گولیاں چلائی جا رہی ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کے محنت کش عوام میں اس تحریک کے پھیلنے کے امکانات موجود ہیں۔ خاص طور پر جو سیلاب کے بعد تباہی و بربادی ہوئی ہے، کے پی کے اور بالخصوص وسطی اور جنوبی پنجاب کے دیہی علاقوں میں، اس کے حوالے سے عوام میں حکمران طبقے کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصہ موجود ہے۔ اب تو سیلاب زدہ علاقوں سے لوگوں نے اس تحریک سے یکجہتی کرنا شروع کر دی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔ باقی علاقوں کے محنت کش عوام بھی اس مثال کو فالو کر سکتے ہیں۔
حکمرانوں کو یہی ڈر ہے کہ یہ تحریک کہیں پھیل نا جائے اس لیے حکمران طبقہ ہمیشہ کہ طرح عوام کو حقائق سے دور رکھنے کی کوشش میں سوشل میڈیا کو بند کر کے ریاستی اور کارپوریٹ میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ کوئی عوامی تحریک نہیں ہے۔ حالانکہ ”آزاد“ کشمیر کے 99 فیصد لوگ اس تحریک کا حصہ ہیں اور حکمران طبقے کی رِٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ 29 ستمبر کی ہڑتال اس خطے کی تاریخ کی کامیاب ترین ہڑتالوں میں سے ایک تھی۔ ”بند مطلب بند“ کے نعرے کے تحت پورا کشمیر بند تھا۔ کوئی ایک گاؤں، کوئی ایک شہر کوئی، کوئی ایک بازار نہیں کھلا، ہر چیز بند تھی۔ اس میں تمام سیکٹرز اور تمام علاقوں کے لوگ مکمل طور پر موجود تھے جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھری پڑی ہیں۔
حکمرانوں کے خوف کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں کشمیری کمیونٹی اور نوجوانوں کی طرف سے ہونے والے یکجہتی احتجاج پہ کریک ڈاؤن کر کے لوگوں کو گرفتاریاں کی گئیں جن کو بعد میں عوامی دباؤ کے تحت چھوڑنا پڑ گیا۔
اب عوامی ایکشن کمیٹی نے مظفرآباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے، جس پر بھی ریاستی تشدد کے امکانات ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف دیے گئے چارٹر آف ڈیمانڈ میں زیادہ تر مطالبات بالکل جائز ہیں،اور کشمیری عوام کی امنگوں کے عین مطابق ہیں اور ہم ان کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ان مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ تحریک جاری رہنی چاہیے اور ہم پورے ملک میں اس کی حمایت کے لیے جدوجہد کریں گے۔
جن لوگوں نے اور خاص طور جن پارٹیوں کو ریاست کی جانب سے فرنٹ مین کے طور پر استعمال کر کے لوگوں پر جبر کیا جا رہا ہے ان میں خاص طور پر جے کے پی پی اور مسلم کانفرنس کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دے کر کالعدم قرار دیا جانا چاہئے۔ یہ بالکل سفاک اور دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو نہتے لوگوں پر گولیاں چلا رہی ہیں۔ ابھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ لداخ میں بھی جو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آتا ہے، بہت بڑی عوامی مزاحمت جاری ہے۔ ہم اس کے بھی جائز جمہوری اور عوامی مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا دونوں سامراجی ریاستیں ہیں جو کشمیر پر قابض ہیں اور وہاں اپنی لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہم انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے واضح اعلان کرتے ہیں کہ ہم اپنے کشمیری محنت کش بہن بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں ان کے تمام جائز اور برحق مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور اگر پاکستانی ریاست اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتی اور اس جبر کی پالیسی کو جاری رکھتی ہے تو پھر ہم نا صرف ملک گیر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس تحریک کو آگے بڑھائیں گے اور کشمیری محنت کشوں کی طبقاتی بنیادوں پہ حمایت کو جاری رکھیں گے۔
پاکستانی ریاست کا یہ گھناؤنا جبر کوئی نیا نہیں۔ ریاستی جبر کی ایک لمبی تاریخ ہے جو آج بھی جاری ہے۔ بلوچستان میں ہزاروں نوجوان جبری طور پر لاپتہ کر دیے گئے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو غیر قانونی طور پر جیل میں ڈالا ہوا ہے۔ کے پی کے میں عوامی مزاحمت اور نہتے عوام پر ریاست کی بربریت جاری ہے اور سندھ اور پنجاب میں بھی جب بھی موقع ملا ریاست نے محنت کش عوام پر جبر ڈھایا اور آنے والے دنوں میں جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی و ملکی بحران مزید شدت اختیار کرے گا اس میں اضافہ ہو گا۔
اس لیے ہم پاکستان سمیت دنیا بھر کے محنت کشوں سے”آزاد“ کشمیر کی عوامی مزاحمت سے یکجہتی کی اپیل کرتے ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ ریاست ایک جبر کا آلہ ہے اور اسے طبقاتی یکجہتی کی بنیاد پر ہی شکست دی جا سکتی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے نہ صرف کشمیر کے تمام مقبوضہ حصوں کو آزاد اور یکجا کرنے کا آغاز کیا جا سکتا ہے بلکہ سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے ذریعے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، علاج، روزگار، بجلی، پانی سمیت ضرورت کی ہر چیز عوام کو مفت مہیا کی جا سکتی ہے۔
ایک کا دکھ سب کا دکھ!
کشمیر کی عوامی مزاحمت زندہ باد!
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!