اداریہ ورکرنامہ: امریکہ ایران جنگ کے منڈلاتے سائے

 

نئے سال کے آغاز پر امریکہ اور ایران کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کرچکا ہے اور جنگ کے سائے پورے خطے پر منڈلا رہے ہیں۔ 3جنوری کو امریکہ نے بغداد ائیر پورٹ پر ایران کے اہم ترین اور مقبول جنرل قاسم سلیمانی کو ساتھیوں سمیت نشانہ بنایا اور پورے خطے کو آگ اور جنگ کے ایک نئے چکر میں دھکیل دیا۔ اس واقعے کے اثرات کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے اور جنگ کے امکانات پر بحث کے ساتھ ساتھ ممکنہ جنگ کیخلاف امریکہ سمیت مختلف ممالک میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔ لیکن واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ آنے والے عرصے میں اس تنازعے میں مزید شدت آئے گی اور دونوں جانب ابھی سے اس حوالے سے صف بندی کی جارہی ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ایران اس حملے کا ”شدید انتقام“ لے گا جبکہ امریکہ تین ہزار سے زائد مزید فوجی مشرقِ وسطیٰ روانہ کر چکا ہے۔

دونوں ممالک گزشتہ چار دہائیوں سے ایک دوسرے کیخلاف مسلسل کاروائیوں میں مصروف ہیں لیکن کشیدگی کبھی بھی موجودہ شدت تک نہیں پہنچی۔ اس صورتحال کی بنیادیں مشرق وسطیٰ سمیت پوری دنیا کے تبدیل شدہ حالات میں پیوست ہیں جہاں سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں کمزور ہو کرلڑکھڑا رہا ہے۔ اس نظام کے مالیاتی بحران نے پوری دنیا کی سامراجی طاقتوں اور سرمایہ دارانہ ممالک کو کمزور کر دیا ہے اور ہر جانب ایک سماجی معاشی بحران پرانے تمام سماجی تعلقات کو توڑتا ہوا شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ نظام کے بحران کا سب سے اہم اظہار امریکی سامراج کی کمزوری میں ہوا جو آج پوری دنیا پر واضح ہو چکی ہے۔ اس سامراجی طاقت کی کمزوری کی بنیادیں عالمی مالیاتی بحران کے ساتھ ساتھ امریکہ کے معاشی بحران میں بھی موجود ہیں جو اب امریکی ریاست کا بحران بن چکا ہے اور دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور عسکری قوت ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزر رہی ہے۔

اس تمام تر عمل کا اظہار امریکہ کے سیاسی بحران میں بھی ہو رہا ہے جہاں حکمران طبقے کی دونوں پارٹیاں اس وقت عوام میں اپنی بنیادیں تیزی سے کھو رہی ہیں اور داخلی بحرانوں میں گھرے ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر بد ترین حملے بھی کر رہی ہیں۔ اس تمام عمل میں امریکی حکمران طبقے کے باہمی تضادات بھی شدت اختیار کر رہے ہیں اور ان کا عوام دشمن کردار بھی مزید عیاں ہوتا جارہا ہے۔ اس صورتحال میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکیں بھی پھیلتی جا رہی ہیں اور مہنگائی، غربت، بیروزگاری، کم اجرتوں اور گرتے ہوئے معیار زندگی کیخلاف ہونے والے مظاہروں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ حکمران طبقے کی تمام تر پالیسیوں کیخلاف نفرت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور بائیں بازو کے نظریات تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ امریکہ کے ایران کیخلاف حالیہ حملوں نے بھی امریکی سماج میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے اور سامراجی جنگوں کیخلاف احتجاجی مظاہروں کا دوبارہ آغاز ہو چکا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کا بحران مشرقِ وسطیٰ میں بھی پوری شدت کے ساتھ اپنا اظہار کر رہا ہے جہاں پہلے ہی آگ اور خون کی ہولی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس دوران عرب انقلابات جیسے اہم واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں جس نے پورے خطے کے عوامی شعور کو ایک نئی جست عطا کی تھی۔ ایک حقیقی انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی کے باعث یہ انقلابات نظام کی تبدیلی کا باعث نہیں بن سکے تھے اور سامراجی طاقتوں اور ان کے گماشتوں کو دوبارہ اپنے خونی پنجے گاڑنے کے مواقع ملے۔ لیکن گزشتہ عرصے میں دوبارہ عوامی تحریکوں اور انقلابات کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے جو پہلے کی نسبت ایک بلند سیاسی اور نظریاتی معیار پر لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں کو سڑکوں پر کھینچ لایا ہے۔ سوڈان میں یہ انقلابی تحریک گزشتہ سال اپنے نقطہ عروج پر نظر آئی تھی جب سوشلسٹ انقلاب کرنے کے کئی مواقع موجود تھے لیکن سوڈان کی کمیونسٹ پارٹی اور پروفیشنل ایسوسی ایشن نے سیاسی ناپختگی کا ثبوت دیا اور یہ تاریخ موقع ضائع کر دیا گیا۔ اس کے باوجود ابھی یہ سفر رواں دواں ہے اور الجزائر سے لے کر لبنان، عراق اور ایران تک عوامی تحریکیں اہم مرحلے عبور کر رہی ہیں۔

امریکہ اور ایران کی حالیہ کشیدگی کی بنیاد بھی عراق کی اسی عوامی تحریک نے رکھی تھی جس نے نہ صرف عراق کے تمام کٹھ پتلی سیاستدانوں کو رد کیا بلکہ ایران اور امریکہ کے سامراجی کردار کی بھی شدید مذمت کی اور ان کے اپنے ملک سے نکل جانے کا مطالبہ کیا۔ ح

امریکہ اور ایران کی حالیہ کشیدگی کی بنیاد بھی عراق کی اسی عوامی تحریک نے رکھی تھی جس نے نہ صرف عراق کے تمام کٹھ پتلی سیاستدانوں کو رد کیا بلکہ ایران اور امریکہ کے سامراجی کردار کی بھی شدید مذمت کی اور ان کے اپنے ملک سے نکل جانے کا مطالبہ کیا۔ حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار کیخلاف ابھرنے والی یہ تحریک ریاست کے بد ترین مظالم اور قتل و غارت کے باوجود آگے بڑھتی گئی اور پورے ملک میں لاکھوں افراد سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے۔ گزشتہ عرصے میں ایسی تحریکوں کی قیادت کرنے والا لیڈر مقتدیٰ الصدر بھی اب حکومت کا حصہ بن چکا تھا، اس لیے ملک میں کوئی بھی ایسی سیاسی پارٹی نہیں تھی جو اس تحریک کو ایک قیادت فراہم کر سکتی اور اسے اس نظام کی حدود و قیود میں رکھنے کے لیے جھوٹے وعدوں، انتخابی عمل یا قانون سازی جیسے ناٹکوں میں الجھا کر زائل کر سکتی۔ اسی صورتحال میں یہ تحریک آگے بڑھتی رہی اور اس نے نہ صرف ایران اور امریکہ کی سامراجی مداخلت کو براہ راست چیلنج کرنا شروع کر دیا بلکہ ایک جگہ ایرانی قونصلیٹ کو آگ بھی لگا دی گئی۔ اسی دوران ایران کے اندر بھی ایک عوامی تحریک کا آغاز ہو گیا جو مغربی علاقے اہوازسے شروع ہو کر چند ہی دنوں میں پورے ملک میں پھیل گئی اورایک بغاوت میں تبدیل ہو گئی۔ ایرانی حکمرانوں کو اس تحریک کو کچلنے کے لیے بد ترین جبر کرنا پڑا اور ایک اندازے کے مطابق صرف دو ہفتے میں پندرہ سو افراد کو قتل کر دیا گیا جبکہ ہزاروں زخمی اور گرفتار ہوئے۔ اس عوامی تحریک میں پورے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں محنت کشوں اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ایسے پسے ہوئے غریب لوگوں نے بھی حصہ لیا جو اس سے پہلے ایرانی ریاست کی حمایت کرتے تھے اور حکمران طبقے کی محنت کشوں کیخلاف لڑائی میں حکمرانوں کا ساتھ دیتے تھے۔

 

عراق کے بعد ایران میں احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا جو ایک بغاوت میں تبدیل ہو گئی۔ ایرانی حکمرانوں کو اس تحریک کو کچلنے کے لیے بد ترین جبر کرنا پڑا اور ایک اندازے کے مطابق صرف دو ہفتے میں پندرہ سو افراد کو قتل کر دیا گیا جبکہ ہزاروں زخمی اور گرفتار ہوئے۔

اس تمام عمل نے پورے خطے کی سیاست کو تبدیل کر دیا اور تمام حکمران طبقات تمام ترخونی جبر کے باوجود ان تحریکوں کو زائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے تھے۔ یہی بوکھلاہٹ اور بحران حکمرانوں کے باہمی تضادات کو بھی شدیدکرنے اور بالآخر پھاڑنے کا باعث بنا اور اب پورا خطہ ایک نئی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ یہ جنگ جس شکل میں بھی آگے بڑھے گی یہ حکمران طبقے کے تمام فریقین کو حتمی طور پر کمزور کرے گی اور ان کیخلاف عوامی نفرت اور غم و غصے میں کئی گنا اضافہ ہو گا اور نئے انقلابات جنم لیں گے۔ ایران، عراق، ترکی اور سعودی عرب سمیت پورے خطے کے حکمران طبقات اسی لیے اس جنگ کے نتائج سے خوفزدہ ہیں اور اس سے بچنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ لیکن حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اب وہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ امریکی سامراج سمیت مشرق وسطیٰ کے تمام حکمرانوں کو تقویت دینے والا سرمایہ دارانہ نظام اب اپنے زوال کے ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اگر اس نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ختم نہ کیا گیاتو یہ پوری دنیا کو مزید آگ اور خون میں دھکیلتا چلا جائے گا اور نسل انسانیت کے ہی خاتمے کا باعث بنے گا۔ اس لیے آج مشرقِ وسطیٰ سمیت پوری دنیا میں محنت کش طبقے کا اولین فریضہ بن چکا ہے کہ وہ اپنے بنیادی حقوق کے حصول اورنسل انسانی کی بقا کے لیے فیصلہ کن انداز میں منظم ہو کر آگے بڑھیں اور سرمایہ دار طبقے کی حکمرانی کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ نظام کی بنیاد رکھیں۔

Comments are closed.