اسٹیج ڈرامہ: وہ صبح ہم ہی سے آئے گی

یہ کھیل یوم مئی کے پروگرام میں پیش کیا گیا۔

[تحریر: آدم پال]

کردار
سیٹھ کرم داد خان: 50 سال سے زائد عمر کا سیٹھ۔ خط والی داڑھی، توند نکلی ہوئی، سر پر خضاب لگایا ہوا ہے۔ کاٹن کی سفید رنگ کی مائع والی شلوار قمیض اور کالی واسکٹ، کالے چمکتے جوتے۔ ہاتھ میں گولڈن گھڑی۔
شیخ محمود: سیٹھ کا ہم عمر دوست ، ملتے جلتے حلیے میں۔
فیکٹری مینیجر: 40 سال کی عمر، سوٹ بوٹ میں ملبوس، کلین شیو۔
وکی: سیٹھ کا 15 سالہ بیٹا۔
تھانیدار: مقامی تھانے کا 35 سالہ SHO۔ توند نکلی ہوئی۔
ظفر: فیکٹری کا ادھیڑ عمر مزدور۔ مونچھیں رکھی ہوئی ہیں۔ کمر تھوڑی جھکی ہوئی۔ سادی سی شلوار قیمض پہنے ہوئے۔ کچھ بال سفید ہیں۔
عارف: نوجوان فیکٹری مزدور۔ عمر 25 سال
پروین: فیکٹری کی مزدور عمر 23 سال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(عید کی آمد آمد ہے۔ سیٹھ کرم داد خان کے گھر کا برآمدہ جہاں سیٹھ صاحب شہر کے سرکاری افسران اور شرفا کے لیے تحفے تحائف بھیج رہے ہیں۔ بغل میں ایک سوٹ بوٹ میں ملبوس مینیجر بھی موجود ہے)
مینیجر: سر وہ کمشنر صاحب، ڈی سی صاحب اور پولیس کے تمام افسران کو تو عید کے تحفے چلے گئے ہیں۔
سیٹھ: ہاں ہاں!لیکن ابھی بھی بہت سے رہتے ہیں۔ جلدی جلدی کرو اور بھی بہت سے کام ہیں کرنے کو! عید کیا ہے بس خرچہ ہی خرچہ ہے۔ مِل کے مسئلے پہلے ہی ختم نہیں ہو رہے۔
مینیجر: سر وہ سیکرٹری صاحب نے نئی شادی بھی کی ہے اس دفعہ۔
سیٹھ: (گردن ہلاتے ہوئے) اچھا یا د کرایا، ان کے لیے یہ دو لاکھ والا جیولری کا سیٹ بھی ڈال دو۔
مینیجر: سر وہ اپنے رانا صاحب بھی اب وزارت کا حلف لے چکے ہیں۔
سیٹھ: بہت کمینہ ہے وہ، ایک روپیہ نہیں چھوڑتا۔ الیکشن کا سارا خرچہ کرانے کے بعد دارو بھی ہمارے پیسوں سے ہی پیتاہے۔ (سوچتے ہوئے) لیکن اب کام تو پڑے گا اس سے بھی۔ اس کی بیٹی کے لیے یہ چار لاکھ والا نیکلس بھیج دو۔
مینیجر: سر وہ آغا صاحب کے لیے؟
سیٹھ: ہاںںں! وہ بہت ضروری ہے۔ آج کل میڈیا والوں کو ہاتھ میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ آغا صاحب کے علاوہ میڈیا کے تمام اہم گروپوں کے مالکان کو یہ نیلے رنگ والے بڑے پیکٹ بھیج دینا۔ وہ پچھلے سال والی لسٹ دیکھ لینا۔
مینیجر: سر وہ میڈم پنکی ، جو NGO چلا رہی ہیں۔
سیٹھ: اس کو سارا سال چندہ دیتا تو رہتا ہوں۔ کبھی کوئی معذوروں کا پروگرام کرا لیتی ہے اور کبھی کسی بیماری کو ختم کرانے کی کمپئین شروع کر دیتی ہے۔ اس کے بعد کئی خیراتی اداروں کو بھی پیسے بھیجتا رہتا ہوں سارا سال۔ اور کیا کروں اب! اپنے اشتہار پر بس میری ایک تصویر لگا دیتے ہیں اور پیسہ کھاتے رہتے ہیں۔ مجھے پتہ ہے میرا پیسہ کہاں جاتا ہے۔
مینیجر: (دانت نکال کر) سر !پھر کیا کروں؟
سیٹھ: تمہیں بڑی فکر ہے اس کی، یہ چھوٹے والا ہرا پیکٹ بھیج دو اس کو۔
(اتنے میں ایک 14,15سال کا لڑکا، جو سیٹھ کا بیٹا ہے تیزی سے آتا ہے)
وکی (ہاتھ میں گاڑی کی چابی ہے): (غصے میں) پا پا، میں تنگ آگیا ہوں اپنی گاڑی سے، مجھ سے نہیں چلتی اب یہ۔
سیٹھ: (پیار سے) پتر، ابھی چھ مہینے بھی نہیں ہوئے، نئی تو لے کے دی تھی تجھے، ستر لاکھ کی۔
وکی: پاپا، آپ پتہ نہیں کس دنیا میں رہتے ہیں۔ بی ایم ڈبلیو کا نیا ماڈل کب کاآ چکا ہے۔ میرے کتنے فرینڈز نے لے لی ہے اور میرے پاس یہی پرانا ماڈل ہے۔
سیٹھ: میرے پتر، غصہ نہیں کرتے، دو مہینے ٹھہر جا، نئے فلائی اوور کا ٹینڈر کھلنے والا ہے۔ پھر تجھے لے دوں گا۔
وکی: مجھے نہیں پتہ پاپا، مجھے ابھی چاہیے۔ میں ممی سے کہہ دوں گا پھر۔ مجھے عید پر نئی بی ایم ڈبلیو چاہیے۔ (موبائل پر نمبر ڈائل کرنا شروع کرتا ہے)
سیٹھ: ( بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے)اچھا پتر، ضد نہ کر۔ ماں کو نہ بتا میرا پتر، نہیں تو وہ اپنے لیے بھی نئی گاڑی مانگ لے گی۔ تجھے لے دیتا ہوں۔ لیکن غصہ نہ کیا کر میرا پتر۔ چل جا مجھے کام کرنے دے۔
(وکی چلا جاتا ہے، ساتھ ہی سیٹھ کا دوست داخل ہوتا ہے)
شیخ: او کرم داد، ابھی تک لگا ہوا ہے۔ میں تو سمجھا تھا فارغ ہو گیا ہو گا۔
سیٹھ: او میرا جگر آیا! ( گلے ملتے ہیں)۔ یار بس تھوڑی دیر اور لگے گی۔
شیخ: تیرے اس چکر میں وہ ناراض ہو جائے گی پھر۔
سیٹھ: آہستہ بول کمینے! لیلیٰ، انتظار کر رہی ہو گی میرا؟
شیخ: لے !تو اور کیا! اس کے سارے پروگرام کینسل کرا دیے ہیں۔ (کان کے قریب ہو کر) سونے کی چین بھیجی ہے اس کو!آج بس ہم دو اور وہ!
(دونوں قہقہہ لگاتے ہیں، مینیجر بھی دانت نکال کر خاموشی سے ہنستا ہے،اسی دوران مینیجر کے موبائل پر فون آتا ہے)
مینیجر(فون سنتے ہوئے): اوئے تم سے یہ مزدور قابو نہیں آتے۔ اتنے دنوں سے تمہیں کہہ رہا ہوں کہ دو چار فارغ کرا دو۔ کچھ پر چوری کا پرچہ کرا دو۔ طبیعت ٹھیک ہو جائے گی سب کی۔
سیٹھ(پریشانی سے): کیا ہوا؟
مینیجر: سر وہ آج مزدو رفیکٹری میں ہڑتال شروع کر رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں عید پر تمام بقایا جات اور عید الاؤنس ادا کیا جائے۔
سیٹھ( پریشانی سے ): حرامزادے! کام وام کرتے نہیں اورتنخواہوں کی پڑی رہتی ہے۔ (مینیجر سے) تم حرام خوروں کو اتنی زیادہ تنخواہ کس بات کی دیتا ہوں ، تم سے یہ کنٹرول نہیں ہوتے۔
مینیجر: سر !سر! وہ تین مہینے سے تنخواہیں نہیں ملی ان کو۔ آگے عید آ رہی ہے۔ بڑا مشکل ہو گیا ہے ان کو کنٹرول کرنا۔ کوئی سر پھرے سے لڑکے ان کے لیڈر بھی بنے ہوئے ہیں۔
سیٹھ: سب کا دماغ ٹھیک کرتا ہوں۔ ڈی پی او صاحب کو فون لگانا ذرا۔ ان سب کی چھترول ہو گی تو ٹھیک ہوں گے۔
مینیجر: (فون ملا کر دیتا ہے) سر! یہ با ت کریں۔
سیٹھ: ( دھیمے مگرسخت لہجے میں) کیا حال ہیں جناب! ہم پر مصیبت پڑتی ہے تو آپ کو یاد کرنا پڑتا ہے۔ (دوسری طرف سے بات سنتا ہے) جناب، وہ مِل کے مزدوروں نے پھر تنگ کیا ہوا ہے۔ اتنے پر مسرت موقع پر ہڑتال کرنے جا رہے ہیں۔ دو چار کی چھترول ہو گی تو سب کی عقل ٹھکانے پر آ جائے گی۔ ویسے وہ آپ کے تحائف بھجوا دیے تھے۔ بھابھی کو سیٹ پسند آیا۔ ہا ہا ہا۔ اپنی بیٹی کے لیے بھی گفٹ بھیجا تھا(دوسری طرف سے سن کر)۔ جی جی۔ تھانیدار کو بھیج دیں میں سمجھا دوں گا۔ جی وہ پولیس لائن میں شجر کاری کے لیے چندہ بھی بھیج رہا ہوں۔
مینیجر( جو اس دوران دوسرے فون پر بات کر رہا تھا): سر سارے مزدور اکٹھے ہو گئے ہیں۔ وہ ہمارے مخبر تھے ان کے اندر وہ بھی بھاگ گئے ہیں۔ دوسری مزدور تنظیموں سے بھی رابطے کر رہے ہیں۔
سیٹھ: وہ HR والے ادھر کیا کر رہے ہیں؟کس بات کی تنخواہ لیتے ہیں؟
مینیجر: سر! وہ کسی کی بات نہیں سن رہے!
شیخ: اس موقع پر ان کو آپس میں تقسیم کرنا بہت ضروری ہے۔ کوئی سکیم لڑانی پڑے گی۔ برادری کے نام پر ، فرقے کے نام پر، قوم کے نام پر۔ کسی طرح آپس میں لڑاؤ انہیں۔ پٹھانوں کو مقامی مزدوروں سے لڑا دو۔
مینیجر: سر! ایسا کرتے ہیں کہ پہلے کنٹریکٹ والوں اور مستقل مزدوروں کو علیحدہ کرتے ہیں۔ آپ کی اجازت ہو تو کنٹریکٹ والوں کے لیے کوئی پیکج بنا لوں۔
سیٹھ: جلدی کرو۔ لیکن پیسے اگلے مہینے ہی دوں گا میں۔ ابھی صرف وعدہ کر لو۔
مینیجر: سر میں کنٹریکٹ والوں کو کہتا ہوں کہ انہیں پیسے ملیں گے وہ ہڑتال نہ کریں۔
سیٹھ: ہاں ہا ں ، کہہ دو۔ باقیوں کو بھی کسی طرح ہڑتال سے دور رکھنا ہو گا۔
(اتنے میں تھانیدار داخل ہوتا ہے)
تھانیدار: جی سر! میں نے نفری بھجوا دی ہے۔ سب کچھ ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔
سیٹھ: (غصے سے) تم لوگ بس پیسے کھانے کے لیے بیٹھے ہو۔ پہلے اتنے دن سے کیا کر رہے تھے۔
تھانیدار: سیٹھ صاحب، کام زیادہ ہے اور لوگ کم ہیں۔ ادھر ایپکاوالوں نے بھی دھرنا دیا ہوا ہے۔ اور یہ ینگ ڈاکٹر بھی قابو میں نہیں آ رہے۔ میرے تھانے کے بہت سے بندے وہاں لگے ہوئے ہیں۔
سیٹھ: مجھے ان باتوں کا نہیں پتہ۔ جلدی سے ایف آئی ار بھی دو چوری کی۔ ایک ایف آئی ار مشتعل کرنے کی بھی دو۔ دو چار اور بھی ڈال دو۔
تھانیدار: سر ! اتنی مشکل ہو جائیں گی۔ ایک ہی ذرا ٹائٹ قسم کی کر دیتا ہوں۔ دماغ ٹھیک ہو جائے گا ان کا۔ آج کل میڈیا والے بھی بڑا شور مچا دیتے ہیں۔
سیٹھ: میڈیا کی تم فکر نہ کرو۔ ابھی پچھلے مہینے ہی لاکھوں کے اشتہار دیے ہیں۔ ویسے بھی مجھے ان کا منہ بند کرنا آتا ہے۔
مینیجر: جی سر! میں ابھی اس کو لیڈروں کے نام لکھوا دیتا ہوں۔
سیٹھ: جلدی کرو، ہا ں جلدی! مِل کا کام بند نہیں ہونا چاہیے۔ آرڈر لیٹ ہو گئے تو بہت نقصان ہو جائے گا۔
مینیجر: جی سر، میں جانتا ہوں ایک گھنٹہ کام بند ہو تو کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔ اس سال نئی مِل لگنی مشکل ہو جائے گی اور وہ ہاؤسنگ سوسائٹی والا پراجیکٹ بھی چل رہا ہے۔
سیٹھ: تمہاری زبان زیادہ چلتی ہے۔ اتنے ہی تیز تھے تو پہلے ہی مزدوروں کو کنٹرول کرنا تھا۔ اب بڑبڑ کر رہا ہے۔
مینیجر: سر! بغیر تنخواہ کے کیسے کنٹرول کروں ان کو۔ پہلے ہی اتنی کم تنخواہوں پر رکھا ہوا ہے۔ (فخر سے)پورے علاقے میں سب سے کم تنخواہیں ہماری مل میں ہیں۔ اس میں سے بھی کبھی لیٹ آنے پر اور کبھی کسی دوسرے چکر میں کٹوتی کرتا رہتا ہوں۔
سیٹھ: بہت بکواس کرتا ہے۔ دفع ہو یہاں سے اور جا کر سنبھال سب کو! (شیخ کو دیکھتے ہوئے )سارے پروگرام کا ستیا ناس کر دیا۔ (تھانیدار کو دیکھتے ہوئے) تم بھی کچھ کرو میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو۔ (مینیجر اور تھانیدار تیزی سے باہر جاتے ہیں )
شیخ: ویسے یار تو کما بھی تو بہت رہا ہے آج کل۔ کتنی تنخواہ بنتی ہے ٹوٹل ان سب کی۔
سیٹھ: تو مجھ سے جلتے رہنا بس۔ تو جو کچھ اپنی فیکٹری میں کرتا ہے مجھے سب پتہ ہے۔ جب تیری فیکٹری میں کرنٹ لگنے سے مزدور مر گئے تھے۔ اس وقت میں نے ہی سارا سنبھالا تھا۔ تیرا ایک پیسہ بھی نہیں لگنے دیا۔
شیخ: ہاں ہا ں مجھے یا د ہے۔ تیرے تعلقات کا یہی تو فائدہ ہے۔ اسی لیے تو چیمبر سمیت ہر جگہ تیری حمایت کرتا ہوں۔ لیکن ابھی تھوڑی بہت تنخواہ دے کر جان چھڑا اس پھڈے سے۔
سیٹھ: تو بیوقوف ہے۔ ان کی تنخواہ کاٹ کر تو سارا منافع ملتا ہے۔ اس طرح ٹائم پر تنخواہیں دینی شروع کر دوں تو نئی ملیں کہاں سے لگاؤں گا۔
شیخ: تیس چالیس لاکھ کے لیے ساری مل میں ہڑتال نہ کروا۔
سیٹھ: مسئلہ پیسوں کا نہیں پورے سسٹم کا ہے۔ ایک دفعہ ان کی ہڑتال کی دھمکی سے ڈر گیا تو پھر یہ زیادہ مضبوط ہو جائیں گے۔ یونین بھی بنائیں گے۔ تنخواہوں میں اضافہ بھی کروائیں گے۔ سوشل سکیورٹی کارڈ، سیفٹی اور پتہ نہیں کیا کیا مانگیں گے۔
شیخ: یہ تو تو ٹھیک کہتا ہے۔ یہ مضبوط ہو گئے تو میری فیکٹری کے مزدور بھی سر اٹھائیں گے۔ بڑی مشکل سے ان کو دبا کر رکھا ہوا ہے۔ روز دو چار کی ٹھکائی کرواتا ہوں تو کام چلتا ہے۔
(مینیجر اور تھانیدار واپس بھاگتے ہوئے اندر آتے ہیں)
مینیجر(پریشانی سے): سر ! وہ سارے مزدور اسی طرف آ رہے ہیں۔
(باہر سے نعروں کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ پہلے دور سے اور پھر آہستہ آہستہ قریب ہوتی جاتی ہیں)
(ظلم کے یہ ضابطے ، ہم نہیں مانتے۔ ساڈا حق، ایتھے رکھ۔ ساڈی تنخواہ ایتھے رکھ۔ ہمارے مانگیں ، پوری کرو۔ آٹا مہنگا، ہائے ہائے، بجلی مہنگی ہائے ہائے۔ پچھدا کوئی نہ ہائے ہائے۔ تنخواہ نئیں ملدی ہائے ہائے۔ )
سیٹھ(گھبرا کر): یہ ادھر کیوں آ گئے؟ ان کو ادھر ہی روکنا تھا؟ (تھانیدار سے) تمہاری نفری کہاں ہے۔ کیا کر رہے ہو۔ تمہاری شکایت کرتا ہوں ابھی۔
تھانیدار: سر، میں نے لاٹھی چارج کروایا تھا۔ اس میں کچھ مزدور زخمی ہو گئے۔ جس پر بجائے بھاگنے کے یہ زیادہ پر جوش ہو گئے اور اس طرف کا رخ کر لیا۔
مینیجر: پہلے جو مزدور ان کے ساتھ شامل نہیں تھے وہ بھی ساتھ مل گئے ہیں۔ علاقے کی ساری فیکٹریوں میں خبر پھیل رہی ہے۔
شیخ: اوہ میرے خدا! یہ تو بہت برا ہوا۔
سیٹھ(غصے میں پاگل ہوتے ہوئے): کسی کام کے نہیں تم لوگ۔ میں سب کی طبیعت ٹھیک کر دوں گا۔ ایسا سبق سکھاؤں گا زندگی بھر یاد رکھیں گے۔ میرے سے مقابلہ کرنے چلے ہیں یہ کمی۔ میرے باڈی گارڈ کہاں ہیں۔ ان سے کہو اپنا اسلحہ نکال کر لے آئیں۔
مینیجر(ڈرتے ہوئے): سرسر ! ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہو گا۔ اس سے حالات زیادہ خراب ہوں گے۔
تھانیدار(پریشانی سے): سیٹھ صاحب! میرے خیال میں کوئی درمیانہ رستہ نکالنا ہو گا۔ آپ جذبات پر قابو رکھیں نہیں تو صورتحال زیادہ بگڑے گی۔
سیٹھ: اس سے زیادہ اور کیاحالت خراب ہو گی۔ ان لوگوں کی جرات میرے گھر کی طرف آ رہے ہیں۔ ہڑتال کرتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں ان کو۔ بلاؤ میرے گارڈوں کو۔ اڑا دیں ان سب کو۔
شیخ( گھبراتے ہوئے): اوئے کرم داد! انسان بن! تیری اس حرکت سے سب فیکٹری والوں کو نقصان ہو گا۔ یہ بات پھیل گئی تو ساری فیکٹریوں میں ہڑتال ہو جائے گی۔ بڑی مشکل سے ان یونینوں سے جان چھڑائی ہے۔ دوبارہ بن جائیں گی۔ تجھے اب ان سے بات کرنی ہو گی!
سیٹھ: میں؟ میں ان مزدوروں سے بات کروں گا؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مینیجر: سر! آپ سمجھیں ، اب یہی رستہ رہ گیا ہے۔ میں دوچار مزدوروں کو بلاتا ہوں۔ آپ ان کی بات سن لیں گے تو وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ باقی میں سنبھال لوں گا۔
سیٹھ( ٹھنڈی آہ بھر کر بیٹھتے ہوئے): بڑا آیا سنبھالنے والا۔ کچھ نہیں ہوتا تم سے۔
شیخ( مینیجر سے): بلاؤ دو تین کو اندر۔ کرتے ہیں ان سے بات!
( مینیجر باہر جاتا ہے۔ واپسی پر اس کے ساتھ تین مزدور ہیں۔ دو نوجوان لڑکا لڑکی ہیں اور ایک ادھیڑ عمر ہے۔ اس دوران باہر نعروں اور خوشی کا شور بلند ہوتا ہے )
سیٹھ(بہت پیار سے ): میرے بچو! آؤ ، آ جاؤ میرے بچو۔ ۔ کیا مسئلہ بن گیا۔ مجھے بتاتے میں آ جاتافیکٹری۔ کیا ہو گیا ہے؟
عارف(سخت لہجے میں): سیٹھ صاحب! آپ کو پتہ ہے کہ ہمیں تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور آگے عید آ رہی ہے۔ یہ مینیجر ہمیں ابھی بھی صبر کرنے کا سبق دے رہا ہے۔
سیٹھ: اچھا بیٹا!یہ مینجمنٹ والے بتاتے ہی کچھ نہیں۔ سب فیکٹری کا نظام خراب کر دیا ہے ان حرامیوں نے۔ مجھے پہلے پتہ ہوتا تو ایسا ہونا ہی نہیں تھا۔
پروین: سیٹھ صاحب!ہمیں یہ لوگ آپ کی طرف سے بتاتے رہے کہ تنخواہ کے پیسے نہیں ہیں ابھی!
سیٹھ: بیٹی! حالات بھی تو تمہارے سامنے ہیں۔ بجلی ، گیس کی پوزیشن بھی تو دیکھو۔ کتنا مشکل ہو گیا ہے فیکٹری چلانا۔ پورے ملک کے حالات تمہارے سامنے ہیں۔ میں تو سوچ رہا ہوں فیکٹری بند ہی نہ کرنی پڑ جائے۔ لیکن پھر تم لوگوں کا خیال آتا ہے۔
عارف: سیٹھ صاحب! ہم سب جانتے ہیں۔ پہلے سے زیادہ مال تیار ہو رہا ہے فیکٹری میں۔ اگلے تین سال کے آرڈر بک ہیں۔ دھڑا دھڑ مال بک رہا ہے۔ لیکن ہمیں اوور ٹائم تو کیا تنخواہ بھی نہیں مل رہی۔
سیٹھ: (ادھیڑ عمر مزدور سے مخاطب ہو کر): کسی نے بہکایا ہے میرے بچوں کو۔ ظفر صاحب آپ ہی سمجھائیں ان بچوں کو۔ آپ تو اتنے عرصے سے فیکٹری میں ہیں۔ ویسے مجھے توقع نہیں تھی کہ آپ بھی اس بیوقوفی میں ان کا ساتھ دیں گے۔ مجھے بہت بھروسہ تھا آپ پر۔
ظفر: سیٹھ صاحب میں کیا کروں! میری بس ہو گئی ہے! پچھلے چالیس سال سے فیکٹری میں کام کر رہا ہوں۔ کبھی تنخواہ ٹائم پر نہیں ملی۔ کبھی اوور ٹائم رہ جاتا ہے اور کبھی چھٹیوں میں پیسے کٹ جاتے ہیں۔ پوری زندگی دن رات اس فیکٹری میں محنت کرتا رہا لیکن قسم ہے جو ایک بھی دن خوشی کا دیکھا ہو۔ میرے بچوں نے کبھی پیٹ بھر کے کھانا نہیں کھایا۔ کبھی اچھے کپڑے اور جوتے نہیں پہنے۔ پڑھ لکھ وہ نہیں سکے۔ اور اب انہیں نوکری نہیں مل رہی۔ بچیوں کی شادی کے لیے کوئی ادھار دینے کو تیار نہیں۔ میں اب سسک سسک کر مزید زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
سیٹھ: میں آپ تینوں کے بقایا جات اور اوورٹائم دے دوں گا۔ تم لوگوں کی ترقی بھی کر دوں گا اور تنخواہ بھی بڑھ جائے گی فکر نہ کرو۔ اس پھڈے سے جان چھڑاؤ۔
پروین: سیٹھ صاحب! ہم بھیک نہیں مانگ رہے۔ اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ ہمیں خریدنے کی کوشش نہ کریں۔ ہمارا ایک ہی نعرہ ہے۔ ایک کا زخم، سب کا زخم۔ ہم اپنے محنت کش ساتھیوں سے دھوکہ نہیں کر سکتے۔ ان کے خون کا سودا نہیں کر سکتے۔ ہمارے طبقے کے ساتھ پہلے ہی بہت غداریاں ہو چکی ہیں۔ آج ہمیں حق نہ ملا تو ہم چھین کر لیں گے۔ یہ فیکٹری اب اسی وقت چلے گی جب ہمارے مطالبے پورے ہوں گے۔
سیٹھ: تھانیدار صاحب ! آپ دیکھ رہے ہیں ان کو یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کو قانون کی کوئی پروا نہیں۔ مذاق سمجھا ہے۔ بیٹا! تم حالات کو سمجھو۔ ابھی بینک کو بھی قرضے کے پیسے دینے ہیں۔
شیخ: برخوردار قانون کو اپنے ہاتھ میں مت لو۔ عدالتیں اورپولیس انصاف کے لیے بیٹھی ہیں۔ تمہارے ساتھ ناانصافی نہیں ہو سکتی۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ بھی موجودہے۔ ویسے سیٹھ صاحب کی آفر بری نہیں۔ تمہارے اوپر یہ پرچے بھی ختم کروا دیں گے۔
عارف: سیٹھ صاحب! ہم قانون وانون سب جانتے ہیں۔ آج ہم اپنا حق لینے آئے ہیں۔ تمام مزدور ہمارے ساتھ ہیں۔ ہمیں جیلوں سے نہ ڈرائیں ‘ ہم سر پر کفن باندھ کر نکلے ہیں۔ ہم نے علاقے کی دوسری فیکٹریوں میں بھی پیغام بھیجا ہے۔ وہ لوگ بھی ہمارے ساتھ اس ہڑتال میں ساتھ دیں گے۔ اس ہڑتال کو تمام فیکٹریوں تک لے جائیں گے۔
تھانیدار: دیکھو تم لوگ حد سے آگے بڑھ رہے ہو! قانون کی طاقت کا اندازہ نہیں تمہیں۔
پروین: ہمیں سب پتہ ہے کہ قانون کی لگام کس کے ہاتھ میں ہے (سیٹھ کی طرف اشارہ کرتی ہے)۔ یہ دھمکیاں کسی اور کو دینا۔ یہاں سب ادارے پیسے کے غلام ہیں۔
سیٹھ( غصے سے): تم لوگ جانتے نہیں مجھے! جانتے نہیں۔ میں ! میں! میں!
عارف: آج تم جو مرضی کر لو۔ ہماری آواز نہیں دبا سکتے۔ ہمارے ساتھ ہزاروں مزدور ہیں۔ اور آج سب متحد ہیں۔
پروین: (گانا) اتنے بازو! اتنے سر! گن لے دشمن دھیان سے۔ ۔ ۔ ہارے گا وہ ہر بازی جب کھیلے ہم جی جان سے
مینیجر: (ڈر کر): اپنے اپنے مطالبات تو بتاؤ۔ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔
سیٹھ: ہاں! ایک مہینے کی تنخواہ کی کوشش کرتا ہوں۔
ظفر(گرجتی ہوئی آواز میں): سیٹھ صاحب! آج ہمارے ساتھ بھاؤ تاؤ نہ کرو! ان بچوں نے ابھی صرف اپنی تنخواہ مانگی ہے۔ اگر انہوں نے اپنے بچوں اور بزرگوں کے آنسوؤ ں کا حساب مانگ لیا تو بہت پچھتاؤ گے۔ تم نے ہماری محنت لوٹ کر اپنی کئی کوٹھیاں بنا لی ہیں۔ باہر کے ملکوں میں کئی بینک اکاؤنٹ ہیں۔ تمارے نوکر بھی گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ اور تمہارا علاج مہنگے ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ ہم! جن کی محنت سے فیکٹریاں چلتی ہیں وہ زندگی کے آخر میں بھی خالی ہاتھ ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے بچے تمہارے بچوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ جانے کتنی نسلوں سے چل رہا ہے۔ کئی حکومتیں آئی اور چلی گئی۔ لیکن یہ غلامی کا نظام نہیں بدل سکا۔ یہ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی عیاشی اور مزدور کی محرومی کا نظام۔ یہ ظالم اور مظلوم کا نظام۔ یہ امیر اور غریب کا نظام۔ جانے وہ دن کب آئے گا جب میں بھی خوشی دیکھ سکوں گا۔ میرے بچوں کے زرد چہرے پر رونق آئے گی۔
پروین: وہ دن بھی آئے گا بزرگو! وہ دن بھی آئے گا!
عارف:
وہ صبح کبھی تو آئے گی‘ و ہ صبح کبھی تو آئے گی
ان کالی صدیوں کے سر سے‘جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دکھ کے بادل پگھلیں گے‘جب سکھ کا ساگر چھلکے گا
جب عنبر جھوم کے ناچے گا‘جب دھرتی نغمے گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
جس صبح کی خاطریُگ یُگ سے، ہم سب مر مر کر جیتے ہیں
جس صبح کے امرت کی دھن میں ‘ ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں
ان بھوکی پیاسی روحوں پر‘ ایک دن تو کرم فرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر‘ انسانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
انسانوں کی عزت جب جھوٹے سکوں میں نہ تولی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
بیتیں گے کبھی تو دن آخریہ بھوک کے اور بیکاری کے
ٹوٹیں گے کبھی تو بت آخردولت کے اجارہ داری کے
جب ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مجبور بڑھاپا جب سونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا
معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا
حق مانگنے والوں کو جس دن سولی نہ دکھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
فاقوں کی چتاؤں پر جس دن انسان نہ جلائے جائیں گے
سینے کے دھڑکتے دوزخ میں ارمان نہ جلائے جائیں گے
یہ نرک سے بھی گندی دنیا، جب سورگ بنائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
سیٹھ: یہ کیا کر رہے ہو ! کیا ہو رہا ہے یہاں!
شیخ: پاگل ہو گئے ہیں یہ لوگ! اپنے انجام سے ڈرو۔ تمہارے ساتھ بہت برا ہوگا!
تھانیدار: سیٹھ صاحب! ان پر گانے بجانے کا پرچہ کر دوں؟
ظفر: ہمیں ہمارے انجام سے نہ ڈراؤسیٹھ! ہماری زندگیاں پہلے ہی اتنی ڈراؤنی ہیں کہ خود زندگی اپنا وجود دیکھ کر کانپ جاتی ہے۔ ہمارا انجام جو بھی ہو آج کے دن ہمیں جو طاقت اور حوصلہ ملا ہے اس کے سامنے پوری زندگی کی کوئی حیثیت نہیں۔ آج ہمیں اپنے وجود کا احساس ہوا ہے۔ ہمیں ہمیشہ لگا کہ ہم کمزور اور چھوٹے ہیں۔ جیسے کیڑے مکوڑے۔ ہمیں لگا کہ یہ امیر اور بڑے بڑے لوگ بہت طاقتور ہیں اور یہ سب کچھ چلاتے ہیں۔ لیکن ہم پر آج حقیقت کھلی ہے۔ یہ سب دولت تو ہم پیدا کرتے ہیں۔ یہ کوٹھیاں، یہ گاڑیاں، یہ جہاز یہ سب ہماری محنت سے بنتے ہیں۔ ہم کام بند کر دیں تو کوئی دولت پیدا نہیں ہو سکتی۔ وہ دولت جو پیدا ہم کرتے ہیں لیکن یہ سرمایہ دار ہم سے چھین لیتے ہیں۔ جو کپڑے، جوتے ہم بناتے ہیں ، ساری زندگی پہن نہیں سکتے۔ جو ٹائلیں ، سیمنٹ، لوہا ہم بناتے ہیں کبھی ہمارے گھروں میں نہیں لگتا۔ ہسپتال میں کام کرنے والے کو خود علاج نہیں ملتا، اس کے گھر والے بغیر علاج کے مر جاتے ہیں۔ سکول کالج میں کام کرنے والے کے بچے پڑھ نہیں پاتے۔ آٹے کی مل کے مزدور کے گھر میں فاقے ہوتے ہیں۔ سیٹھ! ہمیں تو اس ہڑتال نے وہ سبق سکھائے ہیں جوہم پوری زندگی سیکھ نہیں پائے۔ آج ہمیں پتہ چلا کہ اصل طاقت مزدور کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنا ہاتھ روک دے تو کوئی ٹیلی فون کی گھنٹی نہیں بج سکتی، کوئی بلب نہیں جل سکتا، کوئی پہیہ نہیں گھوم سکتا، کوئی سکول ، کالج، ہسپتال نہیں چل سکتا، کوئی دولت پیدا نہیں ہو سکتی۔ بس جس دن اسے اپنی طاقت کا احساس ہوگیا ، وہ اکٹھا ہو گیا وہ تمہارا اور تمہارے سرمایہ دارانہ نظام کا آخری دن ہو گا سیٹھ۔ تمہارا آخری دن۔
پروین: وہ دن بھی آئے گا! اور ہم ہی لائیں گے وہ دن ! کوئی اور نہیں ہم ہی لائیں گے! جب ملوں اور جاگیروں پر مزدور کا راج ہو گا۔ کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ کوئی بھوکا نہیں سوئے گا، کوئی بغیر علاج اور تعلیم کے نہیں رہے گا۔ سب کا اپنا اپنا گھر ہو گا!
(تینوں مل کر گاتے ہیں جبکہ باقی سب کردار خوفزدہ ہو کر بھاگ جاتے ہیں)
وہ صبح ہمیں سے آئے گی
ان کالی صدیوں کے سر سے‘جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دکھ کے بادل پگھلیں گے‘جب سکھ کا ساگر چھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا‘جب دھرتی نغمے گائے گی
وہ صبح ہمیں سے آئے گی!
(نعرے)
مزدو راج۔ ۔ ۔ زندہ باد
سرمایہ داری۔ ۔ ۔ مردہ باد
جاگیر داری۔ ۔ ۔ مردہ باد
انقلاب انقلاب۔ ۔ ۔ سوشلسٹ انقلاب