ریاستی پشت پناہی میں دہشت کا کاروبار

|تحریر: کریم پرہر|

سرمایہ داری کے موجودہ تاریخی بحران میں پوری دنیا دہشت گردی، انتہا پسندی اور مذہبی بنیاد پرستی کے سانحات سے بھری پڑی ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا اندوہناک واقع ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس سیارے کے باسی دنگ رہ جاتے ہیں۔ 16 دسمبر 2014ء کو APS کا خونریز اور دل دہلا دینے والاسانحہ جس نے پوری دنیا کے مظلوم عوام کو اپنی بقاء اور مستقبل کے حوالے سے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ وہاں دوسری طرف 8اگست کے جیسے سانحہ ہوتا ہے۔ ابھی تک اس واقعے کے سوگ سے عوام خاص کر شہداء کے لواحقین کے گھروں میں غم کا عالم تھا اور وہ اپنے پیاروں کے صدمے سے نہیں نکلے تھے ‘کہ کوئٹہ کو اک دفعہ پھر خون کی ندیوں میں ڈبو دیا جاتا ہے‘اور 26 اکتوبر کی رات 3 مسلح دہشت گرد پولیس ٹریننگ کالج کی محض 3 فٹ اونچی دیوار کو باآسانی پھلانگ کر اندر گھس کر فائرنگ اور خودکش دھماکے میں62 سے زیادہ نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارد یا اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا۔

16 دسمبر2016ء کو جہاں APS کے ننھے شہداء کے لواحقین اپنے پیاروں کی برسی منا رہے تھے، اسی دن سانحہ8 اگست کو ہونے وا لی دہشت گردی کے خونریز واقعے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے انکوائری کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر آئی۔ رپورٹ میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ قانونی وانتظامی اداروں کی نااہلی، وسائل کی کمی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے صوبائی اوروفاقی حکومت خصوصاًوزارت داخلہ کی غیر ذ مہ داری اور دہشت گردی کے خلاف پالیسیوں پر عملدرآمد نہ ہوناہے۔ رپورٹ کے نتائج کو کمیشن نے 26 نکات میں بیان کیا ہے۔ جنھیں دستاویزی ریکارڈ، شہادتوں اور تحریری ثبوتوں کی تصدیق کرنے کے بعد مرتب کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں8 اگست کے دونوں حملوں(ٹارگٹ کلنگ)اور ہسپتال کے اندر خودکش دھماکہ ایک ہی گروہ کی کاروائی قرار دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مندرجات میں پولیس کرائم اور فرانزک ریکارڈکی عدم موجودگی، سیکیورٹی اداروں کی جانب سے بلا ضرورت کی ہوائی فائرنگ، ہسپتال اور زخمیوں کا علاج کے حوالے سے سہولیات کا فقدان جس کی وجہ سے قیمتی جانوں کا بروقت علاج نہ ہونے سے ضیاع، نیکٹا ایکٹ اور نیکٹا کی غیر فعالی، میڈیا کا غلیظ کردارغرض ہر حوالے سے اس میں تفصیلاً ذکر موجود ہے۔ رپورٹ میں صوبائی حکومت کی نااہلی اور وفاقی حکومت خصوصاً وفاقی وزیر داخلہ کے غیر ذمہ دارانہ کردار کے حوالے سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کا رپورٹ کو یک طرفہ اور اس کو ذاتی الزام سے تعبیر کیا ہے۔ عوامی غم وغصے کے مدنظر کمیشن کی رپورٹ نے ایک حد تک عوام کے شعوری معیار اور ان کی امنگوں کے مطابق نتائج اخذ کیے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ سیکیورٹی اداروں کے حقیقی کردار کو سامنے نہیں لایا گیا جو کہ خود کالے دھن کے زیر اثر دہشتگردی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں۔

بلوچستان کافی عرصے سے دہشت گردی اور مذہبی بنیاد پرستی کا گڑھ بنا ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہاں کی عوام ذہنی طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اورکاروبار زندگی شدید متاثر ہو رہا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذہبی بنیاد پرستی بلوچستان کی تاریخ میں وہ جڑیں اور بنیادیں نہیں رکھتی تھی جسے ایسے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ تاریخی لحاظ سے بلوچستان میں واحد قومی سوال ہی وجود رکھتے ہے جس میں ثور انقلاب کے بعد مذہبی بنیاد پرستی کا زہر گھول دیا گیا۔ اور بلوچستان میں پشتون بیلٹ میں انقلاب ثور کو کاؤنٹر کرنے کے لیے مذہبی بنیاد پرستی کو خوب پروان چڑھایا گیااور اسی طرح بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لیے پھر سے مذہبی بنیاد پرستی اور فرقہ پرستی کا سہارا لیا گیاجس میں سعودی اور ایران کی پراکسیوں کا غلیظ کردار سب پر عیاں ہے۔

رپورٹ میں جہاں ریاستی اداروں کی زبوں حالی کا ذکر ہے وہاں اس امر کی نشاندہی نہیں کی گئی کہ آخر یہ دہشت گرد تنظیمیں کس کی بنائی ہوئی ہیں اور وہ کس مقصد کے لیے بر سر پیکار ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں ریاست کی اپنی بنائی ہوئی ہیں جو کہ اب خود ریاست کے گلے کا طوق بن گئی ہیں۔ اور ریاستی ادارے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے انڈیا اور افغانستان پر الزام لگاتی ہیں، جس سے بلوچستان کے اندر ’’ایف سی‘‘ کی ہر گام پر چیک پوسٹوں کے حوالے سے سوال اٹھتا ہے کہ ان کا کیا مقصد ہے؟ درحقیقت ریاست کی اس مشینری کاکام محض عام عوام کو تنگ کرنااور صوبے بھر کے اندر نوجوانوں، طلبہ اور محنت کشوں کو ہراساں کرنا ہے جو کہ اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں۔

دوسری طرف حکمران طبقات ان تمام دہشت گردی کے واقعات کو ’’سی پیک‘‘ پر حملے تصور کرتے ہیں جو کہ حکمرانوں کی بے حسی اور مفاد پرستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکمران طبقات جو سی پیک کے حوالے سے من و سلویٰ کا ڈھونگ رچا کر عوام کو الو بنانے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں بلوچستان کے اندر ہم سیندک اور ریکوڈک پروجیکٹس کی لوٹ مار دیکھتے ہیں جس نے اسی عوام کو کیا دیا ہے؟ سی پیک جو کہ چینی سامراج کا ایک استحصالی اور سامراجی منصوبہ ہے جس کا مقصد صرف یہاں کے وسائل کو لوٹنا اور اپنے سامراجی عزائم کو طول دینا ہے اور اس سب لوٹ مار میں پاکستان کا حکران طبقہ چینی سامراج کی دلالی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ سی پیک کے حوالے سے تجزیہ نگاروں کے مطابق کہ کاشغر سے گوادر تک سامان کو سڑک کے ذریعے پہنچانا انتہائی کٹھن اور مشکل کام ہے جبکہ سمندری راستہ اگرچہ طویل ہے مگر آسان ہے اس کے باوجود اس منصوبے پر کام جاری ہے۔ جو کہ اس امر کی وضاحت کرتاہے کہ اس منصوبے کا مقصد صرف کاروبار نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے چین کے سامراجی عزائم ہیں۔ اس منصوبے سے عوام کو ریلیف ملنا، خصوصاً وزیر اعلیٰ بلوچستان کے گزشتہ روز کے بیان کے مطابق کہ سی پیک سے لاکھوں روزگار کے مواقع مہیا کیے جائیں گے، صرف لفاظیاں ہیں۔

حکومت کے اندر قوم پرست پارٹیاں اقتدار کی ہوس میں ان کے بقول ’پنجابی سامراج‘ کی گود میں بیٹھی ہیں۔ یہی پارٹیاں اقتدار سے پہلے قومی تعصب کی سیاست سے عوام کو ورغلا رہے تھے مگر اقتدار ملنے کے بعد اس تعصب سے بالاتر ہو کر پنجابی سامراج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر اپنے زاتی مفادات کے تحفظ اور لوٹ مار میں مصروف ہیں مگر ان کے یہ آپسی تعلقات بھی منافع اور لوٹ مار میں حصے داری پر خلفشار کا شکار ہیں۔ بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فوجی آپریشن ان نام نہاد قوم پرستوں کے دور اقتدار میں ہوا ہے اور دونوں پارٹیوں کی حقیقت عام عوام سے ہٹ کر ان کے اپنے کارکنان پر عیاں ہو چکی ہے۔ جس کا اندازہ پارٹیوں کی آپس میں اور پارٹیوں کے اندر اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ سے ہوتا ہے۔ یہ قوم پرست پارٹیاں اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہیں اور عوام کے دینے کے لئے ان کے پاس کچھ بھی نہین ہے اور یہ بس ریاستی دلالی کرسکتی ہیں۔

آج بلوچستان بھر میں سیکیورٹی اداروں اور چیک پوسٹوں کی بھر مار ہے جو کہ سماج کی ہر پرت پر شعوری اثرات مرتب کر رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کے ساتھ ہر سرکاری ادارہ جیل کی سی کیفیت پیش کر رہا ہے۔ مگر باوجود اس کے عوام کسی بھی جم غفیر میں جانے سے کتراتے ہیں بالخصوص سیکورٹی اداروں کی موجودگی میں۔ کیونکہ عوام اب ان ریاستی عزائم کو خوب جان چکی ہے کہ یہ دہشت گردی وغیرہ کے واقعات کے پیچھے انہی اداروں کا ہاتھ ہے۔ جس کا سپریم کورٹ کے کمیشن کے رپورٹ نے بھی دبے لفظوں میں ذکر کیا ہے کہ یہ سب واقعات ریاستی اداروں کی ’کمزوری‘ کا شاخسانہ ہے مگر ان سیکیورٹی اداروں کی دہشت گردی کے ان واقعات میں براہ راست ملوث ہونے کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

بلوچستان میں ریاستی جبر اپنی بد ترین شکل میں موجود ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ریاستی اداروں نے بلوچستان میں لاتعداد لوگوں کو غائب کیا ہے جن میں اکثریت کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں اور قوم پرستوں نے یہاں پر چپ کا روزہ رکھا ہے اور افغان مہاجرین کو ان تمام مسائل کی جڑ قرار دے رہی ہیں۔ کسی حقیقی متبادل کی غیر موجودگی کے باعث بلوچ نوجوان قومی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے جس کی وجہ سے منزل ان سے دور ہوتی جا رہی ہے اور ریاست کا جبر بڑھتا جا رہا ہے۔ اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان اس ریاستی جبر کا نشانہ بن کر دل میں آزادی کا ارمان لیے خاک ہو گئے۔

بلوچستان کے اندر قومی تحریک حقیقی آزادی کے لئے کو اس طبقاتی جدوجہد سے جوڑنا پڑے گا جو کہ پورے پاکستان نہیں بلکہ پورے برصغیر میں ایک نئی اٹھان لے رہی ہے۔ برصغیر محنت کش عوام کے ساتھ ایک طبقاتی جڑت بناتے ہوئے ہی قومی آزادی کی لڑائی صحیح معنوں میں لڑی جا سکتی ہے۔ دہشت گردی کا ناسور اس کالے دھن کی کی پیداوار ہے جو سماج کی ہر پرت میں سرایت کرتا جا رہا ہے اور اس کا خاتمہ اس ظالم نظام کے خاتمے کے ساتھ جڑا ہے اور یہ ضرب عضب کی بس کی بات نہیں ہے جو کہ محض ایک سراب ہے۔ دہشت گردی سمیت سماج میں موجود ان تمام مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف منظم جد وجہد کی ضرورت ہے جس کے لیے ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جو کہ سماج کی ان مشتعل پرتوں، قومی تحریکوں سمیت دوسری چھوٹی بڑی تحریکوں کو محنت کشوں کی بین الاقوامی جدوجہد سے جوڑ کر پوری دُنیا میں اس ظلم کے اندھیرے کو مٹا کر ایک سُرخ سویرے کی نوید سنائے گی!

Comments are closed.