شام: حلب کی جنگ؛ عالمی تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ

|تحریر: حمید علی زادے|
|ترجمہ: انعم پتافی|

دسمبر میں بشار الاسد کی حامی قوتوں کے حلب پر دوبارہ قبضے نے، نہ صرف شام کی خانہ جنگی کو بلکہ خطے میں موجود بحران کو فیصلہ کن موڑ پر پہنچا دیا ہے۔ لیکن آنے والے دنوں میں عالمی تعلقا ت پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

To read this article in English,click here

گزشتہ سال دسمبر کے اختتام پر استانہ میں ہونے والے مذاکرات میں شام میں جنگ بندی کا فیصلہ کیا گیاتھا، یہ مشرق وسطیٰ کی جدید تاریخ میں ہونے والی سب سے اہم کانفرنس تھی جس میں امریکہ کی عدم موجود گی واضح طور دیکھی جا سکتی ہے۔ بشارالاسد کے مخالف دھڑے میں سے صرف ایک ہی ملک ترکی موجود تھا ۔جس نے گزشتہ گرمیوں میں اس وقت اپنی حکمت عملی بدلناشروع کی جب شام کی حزب مخالف کے کمزور ہونے کے عمل کا آغاز ہو چکا تھا۔

کانفرنس میں موجود دیگر طاقتوں میں ایران ،روس اور شام جیسے ممالک شامل تھے جنہیں مغربی میڈیا میں سخت بدنام کیا جا تا تھا۔ اس کے باوجود بھی جب کانفرنس میں معاہدے کو پیش کیا گیا تو جان کیری کو اس کی حمایت کرنا پڑی۔ عالمی معاملات میں امریکی پالیسیوں کو نافذ کروانے والے ادارے ،اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے بھی معاہدے کو متفقہ طور پر قبول کر لیا جبکہ کچھ ہفتے پہلے ہی اس ادارے میں موجود امریکی سفیر سمنتھا پاورز نے روس کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا ۔

حلب

حلب پر دوبارہ قابض ہوتے ہی اسد حکومت نے شام میں موجودسٹریٹجک اور اہم معاشی مقامات پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ جن میں بحیرہ روم کا ساحل، لبنان کی سرحد، جنوب میں واقع درعا نامی قصبہ اور اس کے علاوہ دمشق،حلب ، حمص اور حماہ جیسے چار اہم شہر شامل ہیں ۔ نام نہاد’’ فائدے مند شام‘‘ پر منحصر علاقے، جو تما م اہم معاشی اداروں اور ستر فیصد آبادی کے گڑھ پر مشتمل ہیں، اب مکمل طور پر شکست خوردہ اور تھکے ہارے باغیوں کی دسترس سے دور ہو چکے ہیں۔ اسد حکومت کو گرانے کا خیال، اب ناقابل حصول خواب بن چکا ہے۔

اسلامی باغیوں کے لیے حلب کی شکست تباہی کے مترادف ہے۔ آخری اہم شہری علاقے سے ہاتھ دھوبیٹھنے اور گزشتہ سال سے کوئی کامیابی نہ مل سکنے کی وجہ سے زیادہ تر جہادی گروہوں کے حوصلے پست ہورہے ہیں۔گزشتہ ڈیڑھ سالوں میں مصالحت اور جنگ بندی کے گیارہ سو معاہدے ہوئے ہیں۔ہزاروں جہادیوں اور ان کے خاندانوں نے اسد کے حامیوں کے آگے ہتھیار پھینک دئیے ہیں جس سے اہم علاقوں پر حکومت کی رٹ مزید مضبوط ہو رہی ہے۔

مزید پچیس ہزار حامی دستوں کی تعیناتی کی صورت میں جنہیں حلب شہر کے معاملات سے آزاد کر دیا جائے گا،ان کی موجودگی میں جہادیوں کو آنے والے وقتوں میں حکومت کے خلاف کوئی عسکری کامیابی ملنے کے امکانات مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔پسماندہ دیہی علاقوں کے کناروں تک محدود ہو جانے کی وجہ سے اب ان جہادیوں کے مغربی ، ترکی اورخلیجی آقاؤں کی ان میں دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے جو داعش کو اسد حکومت کے خلاف مالی اور عسکری امداد فراہم کیا کرتے تھے۔

اس وجہ سے پہلے ہی کئی بحرانات پیدا ہو چکے ہیں، جن میں سب سے اہم احرار الشام) (AAS میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ ہے، جس نے اپنی قریبی اتحادی اور القاعدہ سے منسلک جبہت فتح الشام (JFS) کے ساتھ مل جہادیوں کے دو بڑے گروہ تشکیل دیئے تھے۔دسمبر میں یہ گروہ اس وقت ٹوٹ کر تقریباًٹوٹ گیا جب ترکی نے احرارالشام کے جبہت فتح الشام کے ساتھ اتحاد کی اپنی سابقہ حمایت واپس کھینچ لی اور اس پر شمالی شام میں ترکی کی جانب سے شروع کئے جانے والے Operation Euphrates Shield کا حصہ بننے کے لئے دباؤ ڈالا۔ درحقیقت، ترکی کی اسی طرح کی ایک چال نے موسمِ خزاں میں حلب میں موجود باغیوں کو اسد کی حامی افواج کے ہاتھوں محصور ہونے اور شکست کھانے سے قبل شدید کمزور کیا تھا۔ جہادیوں کو بنیادی عسکری اور معاشی تعاون فراہم کرنے والا مرکز ترکی ،اب منظرنامے پر اپنی شکست محسوس کرتے ہوئے عسکریت پسندی سے ہاتھ کھینچ رہا ہے۔اس وجہ سے جہادی اور ان کے دیگر حامی ممالک، امریکہ ،سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں ، شدید ہیجان کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔

امریکی سامراج

سب سے بڑھ کر حلب کا دوبارہ بشار کے قبضے میں چلے جانا، ان ممالک اور شام میں ان کے سامراجی مفادات کے لیے شدید تضحیک کا باعث ہے۔ چھ سال اور سینکڑوں بلین ڈالر جھونکے کے بعد بھی امریکہ، کرۂ ارض پر موجود سب سے بڑی عسکری قوت اور خطے کی دو بڑی امیر ترین اورسب سے طاقتورقوتوں کی جانب سے شروع کی ہوئی عسکریت پسندی اپنا ایک بھی ہدف حاصل نہیں کر سکی۔

اسد کے حامی فوجی دستے اُس وقت حلب میں پیش قدمی کر رہے تھے جس وقت امریکی فوجی دستے واقعتااُس سڑک سے محض چند میل کے ہی فاصلے پر موجود تھے اور لڑاکا طیارے اس علاقے پر حملہ کرنے کے لئے فضا میں موجود تھے۔ روس کی فضائی قوت اور میزائل شیلڈ کے سامنے یہ ’سپر پاور ‘کچھ بھی کرنے سے قاصر تھی۔
مہم کے آخر میں روس کے خلاف ہونے والا سارا شور شرابا اچانک خاموشی میں بدل گیا اور ولادیمیر پیوٹن سے ملنے کے لیے خلیجی شہزادوں اور مغربی سفارتکاروں کی لمبی قطار لگ گئی۔

امریکہ کی ایسی عوامی تضحیک ایک نایاب چیز ہے جو عالمی تعلقات میں ایک اہم موڑ کی غمازی کرتی ہے۔ جب سے روس نے شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کرنا شروع کی ہے تب سے لے کر پیوٹن نے تین بار امریکہ کو مشترکہ کاروائی ، امن مذاکرات اور شام میں پاور شئیرنگ ڈیل کی دعوت دے چکا ہے۔ پہلی مرتبہ شام میں اپنی مداخلت کا بالکل آغاز میں، دوسری مرتبہ مارچ 2016 ء میں اورپھر سے تیسری مرتبہ ستمبر میں جب حلب پر قبضہ مکمل ہو گیا۔ لیکن امریکہ نے اپنی سامراجی زعم اوراپنے خلیجی اتحادیوں کے اکسانے پر ہر معاہدے کو سبوتاژ کیا۔

حتیٰ کہ سقوطِ حلب کے بعد بھی، ایک امریکی سرکاری اہلکار نے رائٹرز کو بیان دیتے ہوئے نخوت سے کہا کہ:

’’ یہ ملک جس کی معیشت بنیادی طور سپین کے حجم کے برابر ہے، یعنی کہ روس،اکڑ رہا ہے اور یوں ظاہر کر رہا ہے کہ جیسے وہ جانتا ہوکہ وہ کیا کر رہا ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ ترکی اور روس ہمارے بغیر سیاسی مذاکرات کر سکتے ہیں۔‘‘

لیکن انہوں نے ایسا کیا اور وہ ایسے کرتے رہیں گے۔شام کے اندر امریکہ اب روس کے رحم و کرم پر ہے۔ اس کے علاوہ اب امریکی حکمران طبقے کے پاس کیا رستہ ہے؟ روس کی مداخلت سے پہلے بھی ، اوبامہ انتظامیہ شام پر بمباری کرنے کا ووٹ تک پاس نہیں کروا سکتی تھی۔ آج کسی قسم کی شدت امریکہ کو روس کے مقابل لا کھڑا کرے گی،جو دنیا کی دوسری بڑی عسکری طاقت ہے۔اس طرح کی کسی بھی صورتحال میں روس کے ساتھ ساتھ شامی اور ایرانی افواج کی جانب سے ملنے والی مزاحمت، امریکہ کے لئے دوبارہ عراق اور افغانستان جیسے حالات پیدا کرسکتی ہے۔

زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکی عوام جنگ اور مہنگے عالمی کھلواڑوں سے تنگ آ چکے ہیں۔معاشی بحران ، گرتا ہوا معیار زندگی اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف بڑے پیمانے پر پھیلتا غم و غصہ کسی بھی بڑی جنگ کو طبقاتی جدوجہد کے پھوٹنے کا نقطۂ آغاز بنا دے گی۔ اس گہری ہوتی سماجی تقسیم نے پہلے ہی حکمران طبقے میں دراڑیں اورایک گہرے سیاسی و اداراجاتی بحران کو جنم دیا ہے۔

شام کے معاملے پر امریکہ کی حدود وقیود واضح ہو کر سامنے آ گئیں تھیں۔ شام میں مداخلت کی جزوی وجہ اپنے اتحادیوں کو خطے میں خوش کرنا اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیش نظر اِن کا خوف تھا۔لیکن یہ کاروائی فوری طور پر کنٹرول سے باہر ہوگئی اور اس سے داعش کا وجود عمل میں آیا۔براہ راست مداخلت کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث داعش کے خلاف جنگ میں ،انہیں حزب اللہ اور ایران جیسی طاقتوں پر انحصار کرنا پڑا۔

ایران کے ساتھ جوہر ی معاہدہ اور عراق اور شام میں شروع کئے گئے کھلواڑ کو منطقی انجام تک پہنچانے میں عدم دلچسپی نے امریکہ کے روایتی اتحادیوں کو اس سے مزید بیزار کر دیا، جنہوں نے اسد کے خلاف مہم میں کافی کچھ داؤ پر لگا دیا تھا اور زیادہ اہم یہ کہ ان کا ایران سے شدید مقابلہ جاری تھا۔ یہ امریکی اتحادی قوتوں اور حتیٰ کہ خود امریکی اسٹیبلشمنٹ میں بڑی شدید دراڑیں پڑنے کا باعث بنا۔ایک طرف تو پنٹاگون اور ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی (DIA) داعش کے خلاف مہم کر رہے تھے ،دوسری طرف سعودی عرب اور سی آئی اے ، مختلف جہادی گروہوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے تھے۔

جزوی طور پر سعودی عرب کی بیزاری کو دور کرنے کے لیے ،جسے امریکہ کا ایران کی حمایت کرنا کسی طور نہیں بھا رہا تھا، اس کے باوجود بھی پنٹا گون نے اپنا وزن کُرد وائی پی جی کے پلڑے میں ڈالا،جو شام میں سب بہترین لڑاکا قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہی تھی۔ اس سے ،بہر حال ،ترک حکومت نالاں ہو گئی جو وائی پی جی کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتی ہے اور جسے اپنی جنوبی سرحد پر ابھرتی ہوئی کُرد ریاست سے شدید خطرات لاحق ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ علاقائی تنازعے پر تین مخالف دھڑوں اور آپس میں برسر پیکار قوتوں کے ساتھ کام کر رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے دو اہم اتحادیوں کو بھی نالاں کر دیا تھا۔خود اپنے ہی تضادات کی دلدل میں پھنس جانے کی وجہ سے امریکہ مفلوج ہو کر کچھ بھی کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا۔اس سے پیدا ہونے والے خلا میں روس نے اپنے قدم رکھے اور زمین پر طاقتوں کے توازن کو فیصلہ کن انداز میں تبدیل کر دیا۔

سعودیہ عرب

امریکہ کو شام میں سخت دھچکا لگا ہے مگر در حقیقت، یہ سعودی عرب ہے جسے اس کھیل میں شہہ مات ہوئی ہے۔ اس وقت جب ترکی اپنے حمایت یافتہ گروہوں کو حلب شہر اور ادلب سے نکال رہا تھا، ایسے میں سعودی اور قطری حمایت یافتہ گروہ ہی بشار کی افواج کی یلغار کا نشانہ بننے کے لئے باقی بچے تھے۔ ان کا شمار اب شام میں موجود سب سے کمزور قوتوں میں ہوتا ہے۔

یہ عالمی معاملات میں سعودی عرب کی عمومی کمزوری کا اظہار ہے۔ عراق اور شام میں موجود اس کی پراکسیاں پسپائی کا شکار ہیں، مصر کی حکومت پر اس کا اثر و رسوخ ماند پڑتا جا رہا ہے، اردن نے بہت پہلے ہی یمن اور شام کے حوالے سے سعودی منصوبوں سے پیٹھ پھیر لی تھی، سعودی عرب اب ایک ایسی جنگ پر پیسے بہا رہا ہے جسے وہ ہار چکا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے نزدیک ترین اتحادی بھی سعودی عرب کو خطے میں اپنے ایک اثاثے کی بجائے، بوجھ سمجھتے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ عراق میں موصل شہر کا کنٹرول واپس لینے وقت، ایک فریق کے طور پر سعودی عرب کا نام تک نہیں لیا گیا تھا جبکہ ترکی اورا یران آپریشن کے لیے ہونے والے مذاکرات اور تیاریوں میں پوری طرح مداخلت کر رہے تھے۔

شام کی خانہ جنگی اور سقوطِ حلب نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے جس کا مغربی طاقتوں کو کچھ عرصے سے اندازہ تھا کہ اب خطے میں سعودی عرب کو ایک قابل بھروسہ اتحادی کے طور استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔ مستحکم کرنے والی قوت تو درکناربلکہ اس کے بر خلاف سعودی عرب نے یمن اور شام میں داعش اور القاعدہ کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور معاملات کو مزید بگاڑتے ہوئے، وہ اپنے کسی بھی ہدف کے حصول میں ناکام ہوا ہے۔

اہم علاقائی قوت کے طور پر سعودی سلطنت کا اثر و سورخ تنزلی کا شکار ہو کر کنا رے لگتا جا رہا ہے۔ یہ سعودی حکومت کے گہرے بحران کی غمازی کرتا ہے۔ مختلف سمتوں میں کھینچتی مخالف مذہبی، قبائلی اور طبقاتی قوتوں نے خاندانِ آل سعود کے ٹکڑے کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ دہائیوں تک تیل کی بلند قیمتوں اور امریکہ کے ساتھ خاص تعلقات کی بدولت، جس کے لئے سعودی تیل کی سٹریٹجک اہمیت تھی، یہ استحکام قائم رکھے ہوئے تھا۔ لیکن سرمایہ داری کے بحران کا مطلب تیل کی قیمتوں میں گرواٹ تھا اور امریکہ اب خود تیل پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔

بحران اس کے اندرونی تضادات کو شدید کرتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں آنے والوں وقت میں اس کا اپنا وجود غیر یقینی کا شکار ہو گیا ہے۔ جیسے جیسے سعودی سلطنت ٹوٹ کر بکھر رہی ہے، ایران کے ساتھ ساتھ ترکی اس خلاء کو پُر کرنے اور خود کو خطے کی اہم طاقت بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ آنے والے وقت میںیہ تضاد خطے کے تعلقات میں اہم کردار ادا کرے گا۔

ترکی

سلطنت عثمانیہ کو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر زندہ کرنے کا خیال دل میں بسائے، اردگان حکومت ایک لمبے عرصے سے مشرق وسطیٰ پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ یہ اناطولیہ کی بورژوازی کی نمائندگی کرتا ہے، جو کہ ہمیشہ سے کمالیوں کی مغرب پرست اور عمومی طور پر علیحدگی پسند خارجہ پالیسی، جس سے محض ترکی کی مغرب پرست کمالیہ بورژوازی کو ہی فائدہ پہنچا، کے خلاف تھی۔ تاریخی طور پر عثمانیت پرستی کو اپنے آخری حامی اناطولیہ میں میسر آئے، خاص کر وہاں موجود اسلامی تحریکوں میں ۔

اردگان کی شام اور عراق میں مداخلت، جس کی کمالوی فوج نے مخالفت کی تھی، اپنی اس سامراجی خارجہ پالیسی کی جانب ایک قدم تھا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ’’سنی دنیا‘‘ پرحاکمیت میں سعودی عرب سے مقابلہ کرنے کی کاوش تھی۔ شام میں مداخلت کرنے کے فیصلے کی خودفوج کے اندر سے شدید مخالفت کی گئی، جو ترک فوجی دستوں کو شام بھیجنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔

تاہم شام کی مہم جوئی اسد حکومت کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ روجاوا میں کُرد قومی تحریک کے ابھار کا بھی باعث بنی، اور جس کے نتیجے میں ترکی میں ابھرتی طبقاتی جنگ کو کرد تحریک میں بنیادیں ملیں۔ ترک پارلیمنٹ میں کُرد اکثریتی پارٹی، ایچ ڈی پی(پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی) کی شمولیت نے طاقت کے توازن کو بدلتے ہوئے ادرگان کی اکثریت کو کم کر دیا ہے۔

کمالیوں کی جانب آنے والی سیاسی مخالفت کو کمزور کرنے کے بعد، اب کُردقومی سوال اردگان کی بقاء کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ایچ ڈی پی میں طبقاتی جدوجہد کا نقطۂ آغاز بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ صرف یہی نہیں، شام کے اندر ایک آزاد کُرد اکائی کے ابھرنے سے مستقبل میں کُردآزادی کے امکانات کو روشن ہو گئے ہیں۔ اسی لیے شام میں موجود کُرد قومی سوال اب خود ترک بورژوازی کے وجود کے لیے مسئلہ بن چکا ہے۔ امریکہ کی جھولتی حمایت کُرد وائے پی جی کے پلڑے میں گرنے سے معاملات مزید گھمبیر ہوگئے ہیں۔

مزید برآں شام میں روس کی مداخلت اسلامی اپوزیشن اور اردگان کے لئے ایک شدید دھچکا تھا۔ خود کو منوانے کی کوشش میں، اکتوبر2015ء میں ترکی نے روس کا ایک طیارہ مار گرایا۔ لیکن اس سے معاملات مزید بگڑ گئے، پیوٹن نے اس کے جواب میں اہم ترک گروہوں کا صفایا کر ڈالا اور ملک پر سخت پابندیاں عائد کر دیں ۔

مغربی حمایت کی غیر موجودگی سے نا خوش ہو کر اردگان نے یو ٹرن لیا اور روس سے سمجھوتہ کر لیا۔ امریکہ سے بڑھتے ہوئے فاصلوں کے عمل کو جولائی میں ہونے والی فوجی بغاوت نے شدید ترکر دیا۔ یہ بات اب بڑے پیمانے پر تسلیم کی جارہی ہے کہ روس اور ایران نے اردگان کو بغاوت کے بارے میں پیشگی آگاہ کر دیا تھا،جبکہ مغربی طاقتوں نے بغاوت کی ناکامی کی حتمی خبریں آنے تک مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی۔ نتیجتاً ہونے والی فوج کی تطہیر سے تناؤ میں مزید اضافہ ہو گیا کیونکہ افسروں کی اس پرت کا امریکہ اور نیٹو سے قریبی تعلق تھا۔

اس صورتحال میں پیوٹن، ترکی کو شام میں جگہ دیتے ہوئے ضرورت سے زیادہ خوش تھا۔ روس کے لیے، نیٹو کے اہم ترین ممبر، ترکی کو اپنی جانب جھکانا اپنے اندر ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ پیوٹن، اسد اور ایرانیوں کے لیے ایک ایسا سوداکرنے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ جو کردوں کو نکال باہر کرے۔

لگ بھگَ مکمل پسپائی کا شکار ہونے کے بعد، روس نے(جو شام کے فضائی علاقے پر اپنا موثر کنٹرول رکھتا ہے ) ترکی کو نا صرف شام میں دوبارہ داخل ہونے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تحفظِ فرات آپریشن میں شمالی حلب کے دیہی حصے میں ایک بڑے علاقے پر قبضے کی بھی اجازت دی۔ ستمبر میں حلب کے محاصرے سے قبل ترک پراکسیوں کو شہر چھوڑکر آپریشن میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی۔ یہی گروہ بندی دسمبر میں داعش کے گروہوں کوہونے والی شکست کا سیاسی موجب بنی۔ اسی سے ترکی اس قابل ہو ا کہ وہ شام میں اپنے نئے ہدف، روجاوا کو شکست دینے، کے حصول میں آگے بڑھے اور اس کے ساتھ ساتھ سلطنت عثمانیہ کے احیا کے اپنے خواب کو بھی زندہ رکھ سکے۔

اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ترکی اب روس کا اتحادی بن چکا ہے، لیکن اپنا جھکاؤ روس کی جانب رکھ کر یہ امریکہ اور یورپی یونین سے زیادہ سے زیادہ رعایتیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ سب سے اہم، اردگان چاہتا ہے کہ امریکہ کُردوں سے دستبردار ہوجائے۔

روجاوا

داعش کے غلبے سے قبل، شام میں ہونے والے ا نقلاب میں اسد حکومت شمال مشرق میں واقع بڑے علاقوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئی تھی۔اس خلاء کی کیفیت میں ڈیموکریٹک یونین پارٹی(PYD) علاقے میں ایک موثر قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی، جو کہ کُردش ورکرز پارٹی(PKK) اور اس کے مسلح ونگ پیپلز پروٹیکشن یونٹ (YPG)،سے منسلک تھی۔ انقلاب کے فرقہ وارانہ خانہ جنگی کی صورت میں پسپائی اختیار کر جانے کے بعد، YPG پچاس ہزار جنگجوؤں کے ساتھ ایک طاقتور عسکری قوت بن گئی۔

کُرد تحریک نے حکمرانی کے لیے اپنے مقبول جمہوری اوزار ایجاد کئے جو کہ واضح طور پر غیر فرقہ وارانہ بنیادوں پر مشتمل تھے۔ روجاوا، جیسے کہ یہ علاقہ جانا جاتا ہے، ایک حقیقی خود مختار اکائی بن گیا اور اس کی افواج، جو کہ اپنے وطن کے لئے نبرد آزما ہیں، بہت موثر ثابت ہوئی ہیں۔ چونکہ امریکہ اپنی زمینی فوج بھیجنے کے قابل نہیں تھا، اس لیے اس نے کُرد تحریک کو اسد مخالف، داعش مخالف اور غیرایرانی قوت کے متبادل کے طور دیکھا۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ ترکی داعش کے لیے اپنی سرحد بند کرنے سے انکار کر دیا ہے، امریکہ نے کُرد فوجوں کی ترکی کی سرحد کے ساتھ پیش قدمی کی حمایت کی۔ ترک فوج کا شام میں داخل ہونا ان تمام حاصلات کو پلٹانے اور کُردوں کے زیر کنٹرول علاقے کو ملیا میٹ کرنے کی ایک کاوش تھی۔ اپنی سبھی پراکسیوں کی ناکامی کے بعد، امریکہ کے پاس کُردوں پر آسرا کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ امریکہ کُرد تحریک کی حمایت جاری رکھے گا۔درحقیقت، امریکہ کے لیے ترکی کو اتحادی رکھنا،خواہ وہ کتنا ہی کمزور ہے، کُرد جدوجہد کی حمایت کرنے سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ در حقیقت، PKK کو امریکہ ابھی بھی ایک دہشت گرد تنظیم ہی گردانتا ہے۔ 1998ء میں تحریک کے رہنماعبداللہ اوکلان کی ترکی کو حوالگی میں سی آئی اے نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ امریکہ کے نزدیک روجاوا ایک بنجر زمین ہے جہاں سوائے داعش سے لڑنے کے اورکوئی معاشی فائدہ نہیں ہے۔ دوسری جانب ترکی نیٹو کا ممبر ہے، جس کے کئی اہم فوجی اڈے ہیں اور جہاں امریکی نیوکلیئر میزائل بھی نصب ہیں۔

اپنے مقاصد کے تحفظ کے لیے کُرد تحریک امریکی سامراج پر اعتماد نہیں کر سکتی۔ جیسے جیسے مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں، امریکہ محض تحریک کو بیچنے کے لیے درست وقت کا انتظار کر رہا ہے۔ اسی طرح وہ عراقی یا ایرانی حکومت پر بھی اعتماد نہیں کر سکتے جو اس کی عراق میں پیپلز موبلائیزیشن یونٹ میں شمولیت چاہتے ہیں۔ اس وقت ایرانی، ترکی اور ان کے کُرد گماشتے مسعود برزانی کے خلاف، PKK پر انحصار کر رہے ہیں، لیکن ایک مرتبہ جب سودا ہو گیا تو وہ کُروں کو چھوڑنے میں کوئی خلش محسوس نہیں کریں گے، جنہیں وہ خود ایران کے لیے بھی خطرہ سمجھتے ہیں۔

جیسا کہ مارکسسٹوں نے ہمیشہ کہا ہے کہ کُرد بڑی طاقتوں کے آپسی تعلق میں ،ایک معمولی سی وقتی تبدیلی کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ انہیں کُردوں کی آزادی یا خود مختاری میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، جو ان کی سرحدوں کے لیے بھی ایک خطرہ ہے ۔ایک بار جب متحارب فریقین مشرق وسطیٰ کی تقسیم کرنے کا سودا کرنے میں کامیاب ہوگئے، تو خطے میں موجود سبھی طاقتیں تحریک کو کچلنے کے لئے ان کے خلاف صف آرا ہوں گی۔

کُردوں کو امریکہ ،ایران یا کسی بھی دوسری قوم کے رجعتی حکمرانوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔ وہ صرف اور صرف اپنی قوتوں اور خطے کے محنت کشوں پر ہی بھروسہ کر سکتے ہیں۔ کُرد تحریک کے لیے آگے بڑھنے کا واحد رستہ اپنی جدوجہد کو وسیع کرتے ہوئے ایک انقلابی طبقاتی جنگ لڑنا ہے، جس کا اولین مقاصد میں شام ،ترکی ،ایران اور عراق میں موجود سارے کُرد علاقوں کو متحد کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان تمام ممالک کے محنت کشوں سے اپنے حکمران طبقات کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کرنا ہوگی جو خطے میں کہربپا کررہے ہیں۔

روس کا ابھار

سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ نے، مشرقی یورپ کے اندر تک نیٹو فوجی اڈے بناتے ہوئے اور تاریخی طور پر روس کے حلقۂ اثر کے علاقوں میں روسی اثرورسوخ کو کمزور کرتے ہوئے، روس کو کچلنے کی کوشش کی۔ لیکن جارجیا اور یوکرائن کے معاملے پر روس نے اس عمل کو لگام دی اور واضح کردیا کہ وہ اپنے حلقۂ اثر کے علاقوں میں نیٹو کی مزید پیش قدمی گوارہ نہیں کرے گا۔ بہر حال، شام کے اندر روس نے امریکہ کو کاری ضرب لگائی ہے۔

شام میں روس کی مداخلت، امریکی سامراج کی کمزوری ہوتی ہوئی کیفیت کی وجہ سے ممکن ہو پائی۔ تاہم، اپنے اندرونی معاشی بحران کی وجہ سے یہ بھی واضح نظر آرہا ہے کہ روس اس قابل نہیں کہ لمبے عرصے تک شام میں کسی آپریشن کو جاری رکھ سکے۔ ابھی تک شام کے آپریشن پر جو لاگت آرہی ہے وہ کسی بھی عام عسکری ٹریننگ آپریشن پر آنے والی لاگت سے کچھ ہی زیادہ ہے، لیکن ایک بڑے مشن کی طرف بڑھنے سے ریاستی بجٹ میں شدید شگاف پڑے گا۔

مزید برآں، روس شام کے اند رروس اپنے بنیادی مقاصد، جن میں اسد حکومت کی بقاء اور اپنے بحری اڈوں کا دفاع شامل ہیں،حاصل کر چکا ہے۔پیوٹن کے نزدیک، ایک ملک کے طور پر شام کی سٹریٹجک اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے، جو مشرقی یورپ، وسطیٰ ایشیاء اور یہاں تک کہ مشرق بعید کے علاقوں میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ پیوٹن شام کو دیگر معاملات میں اپنی دھاک بٹھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رکھنا چاہتا ہے، جہاں روس تمام طاقتوں کو ایک دوسرے خلاف استعمال کرتے ہوئے اپنی پوزیشن کو مضبوط کر سکے۔

یہ روس کا حقیقی سامراجی چہرہ بے نقاب کرتا ہے۔ اسد، ایران اور غالباً کئی شامیوں کی خواہشات کے برعکس، روس شام میں بر سر پیکار متحارب قوتوں کو باہر نہیں نکالنا چاہتا۔ ترکی کو شام میں واپس لا کر اس نے طاقتوں کے توازن کو ایران کے خلاف درست کیا ہے، کیونکہ کسی مخالفت کے بغیر ایران، خطے میں روس سے بھی زیادہ طاقت ور بن سکتا ہے۔

آج اگر ایران اور اسد اپنے حملے جاری رکھنا چاہتے ہیں تو روس کی حمایت کے بغیر وہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتے۔ اگر سارے شام کو واپس لے لیا جاتا ہے تو روس کو بہر حال صورتحال قابو میں رکھنے کے لیے ایران پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اور کسی طور بھی روس اس کی اجازت نہیں دے سکتا جو کہ خود کوہ قاف پر غلبے کے لیے ایران (اور ترکی) کے ساتھ بھی مقابلے میں ہے۔ پیوٹن ایک ایسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کرے گاجس سے شام میں مقامی قوتیں آپس میں توازن میں آجائیں اور جن کے اوپر وہ خود بیٹھا ہو، بجائے اس کے کہ ایران خطے میں ایک غالب قوت بن جائے۔ یہاں تک کہ روس کے زیر اثر ہونے والے کسی معاہدے میں، ادلب میں موجود داعش کو بھی( ظاہر ہے چھوٹی داڑھی اور نئے نام کے ساتھ) مستقبل میں کوئی محدود کردار مل سکتا ہے ۔ یہ مستقبل میں روس اور ایران کے مابین کشمکش کو بڑھاوا دینے کا باعث بنے گا۔

اس سے زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ پیوٹن مغرب کو شام میں طاقت کی تقسیم کے معاہدے میں شامل کرنے کے لئے بیتاب ہے۔پوری مہم کے دوران روس اور امریکہ کا ایک ’مشترکہ آپریشن‘ اُس کا اعلانیہ مقصد تھا۔ اس میں اب شائد کچھ تبدیلی آئی ہو، لیکن پیوٹن ابھی بھی امریکہ تک رسائی حاصل کرنے کی کوششوں میں ہے۔ اگلے ہفتے جب ڈونلڈ ٹرمپ کرسی اقتدار پر براجمان ہوگا تو اُس کو اِس مسلمہ حقیقت کا سامنا ہوگا اور یہ اس کے فیصلے کو آسان بنا دے گا۔ اس کے بدلے میں ممکنہ طور پر ٹرمپ پیوٹن کو، ایران کے خلاف اقدامات کرنے کا کہے گا۔۔۔ ایک ایسی خواہش جسے پیوٹن بخوشی پورا کرے گا۔

ایک فیصلہ کن موڑ!

تاہم، شام کی خانہ جنگی ابھی اپنے اختتام سے کوسوں دور ہے۔ تنازعہ لمبے عرصے تک چلے گا لیکن اس کی شدت میں اتار چڑھاؤ آتے رہیں گے۔ اسد حکومت ،اہم شہروں کے گرد موجود باغی حلقوں کا صفایا کرنے کے ساتھ ساتھ، ادلب میں داعش اور ممکنہ طور پر AAS اور JFS کے خلاف بھی کاروائیاں جاری رکھے گی۔ اس دوران ترکی اپنی توجہ الرقہ اور روجاوا کی جانب مبذول کرے گا ۔ ابتدائی سمت کم از کم یہی ہوگی۔

حلب کی جنگ کے بعد، اگرچہ کسی حتمی فاتح کا تعین واضح طور پر نہیں ہوا ، مگر یقینی طور پر ہارنے والے سامنے ہیں۔ امریکی حکمران طبقے نے مشرق وسطیٰ کو ہمیشہ سے اپنا قلمرو سمجھا ہے۔ ماضی میں اس نے پلک جھپکے بنا دو مرتبہ عراق پر حملہ کیا اور خطے میں موجود دوسری اقوام کے معاملات میں سازشوں اور چال بازیوں کے ذریعے دخل اندازی کرنے کبھی جھجھک محسوس نہیں کی۔ لیکن اس کے باوجود وہ حلب میں کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔

یقینا، امریکی سامراج تاحال کرہ ارض پر موجود سب سے مضبوط ترین طاقت ہے اور یہ کیفیت جلدی بدلنے والی نہیں ہے۔ لیکن ایک لمبے سے جاری زوال پذیری کی وجہ سے، اب یہ دنیا کے ’ہر خطے میں‘سب سے بڑی طاقت نہیں رہا۔ مشرق وسطیٰ میں اس کی حدود منظر عام پر آ چکی ہیں۔

کسی بھی سلطنت کی طرح امریکی سامراج بھی اپنی انتہا تک پہنچ کر اب اپنی زوال پذیری کے عہد میں داخل ہو چکا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کا سرمایہ دارانہ ورلڈ آرڈر امریکہ نے ترتیب دیا تھا، اس لیے قطعی طور پر یہ حیران کن امر نہیں ہے کہ سرمایہ داری کا بحران امریکی سامراج اور اس کے ترتیب دئیے گئے ورلڈ آرڈر کا بھی بحران ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے وقت امریکی معیشت دنیا کے کل جی ڈی پی کا پچاس فیصد بناتی تھی۔ آج یہ عدد پچیس فیصد پر آ گیا ہے۔ امریکہ قرض دینے والا سب سے بڑا ملک تھااورآج سب سے بڑا مقروض ملک ہے۔ یہ معاشی بحران نتیجتاً، ابھرتی ہوئی طبقاتی جنگ، سیاسی اور اداراجاتی بحران کو جنم دے رہا ہے۔امریکی فوج کو اس زوال کے اثرات بھگتنا پڑ رہے ہیں۔

امریکی سامراج کی زوال پذیری کا عمل تو دہائیوں سے جاری تھا، لیکن اب اس عمل میں شدت آ چکی ہے ،جس کی وجہ سے یہ سپر پاور اب ماضی کی طرح عالمی معاملات کو چلانے کی گارنٹی نہیں دے سکتی۔ تاریخ ایک سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھا کرتی۔ حلب میں امریکہ کی شکست انہی مجتمع شدہ تضادات کی وجہ سے ہوئی ہے ۔اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کا منتخب ہونا بھی کوئی حادثہ نہیں ہے۔ ٹرمپ کی تنہائی پرست خارجہ پالیسی عالمی تعلقات میں امریکہ کے حقیقی مقام کا اظہار کر رہی ہے۔

امریکہ کے لیے مشرق وسطیٰ کی اب پہلے جیسی سٹریٹجک اہمیت نہیں رہی۔ مزید برآں، اس کے پاس خطے کو مستحکم کرنے کے ذرائع بھی موجود نہیں۔ چنانچہ روس کے ساتھ ایک معاہدہ یقینی ہے، خاص کر ایک ایسی کیفیت میں کہ اگر یہ امریکہ کو چین کی طرف متوجہ ہونے کا موقع فراہم کرے جو اس کے لیے عالمی پیمانے پر خطرہ بن چکا ہے۔تاہم، شام کی شکست سے امریکہ پر دباؤ میں اضافہ ہوگا اور جیسے جیسے امریکہ کمزور ہوگا، علاقائی مخالفین اور اتحادی جیسا کہ چین اور جاپان اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لئے کوشش کریں گے۔

آنے والے عرصے میں عالمی جنگ کے امکانات نہیں ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب یہ نہیں ہے کہ عالمی تعلقات پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ ہم ایک بڑھتے ہوئے عدم استحکام کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام جیسے جیسے اپنے گہرے بحران میں دھنستا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں نہ ختم ہونے والی علاقائی جنگیں اور تنازعات دیکھنے کو ملیں گے،جہاں مختلف طاقتیں اپنے اپنے حلقۂ اثر کے تحفظ اور دوسروں کے حلقۂ اثر پر تسلط قائم کرنے کی کوششیں کریں گی۔ دنیا میں موجود کروڑوں لوگوں کو یہ امر دیکھنے کا موقع ملے گا کہ کس طرح حکمران طبقات اپنی طاقت، مراعات اور منافعوں کے تحفظ کے لیے پوری انسانیت کو بربریت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے پر آمادہ ہیں۔ یہ صورتحال، ہر جگہ طبقاتی جنگ اور انقلابی تحریکوں کے ابھار کی راہ ہموار کرے گی۔ سو سال پہلے بالشویکوں نے روس سے سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینک کر پہلی عالمی جنگ کا خاتمہ کیا تھا۔ آج بھی یہی فریضہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام جنگوں کو جنم دیتا ہے اور امن کے لیے لڑنے کا صرف یہی واحد رستہ ہے کہ ہم سوشلزم کے لیے انقلابی جدوجہد کا آغاز کریں ۔

Comments are closed.