سال 2018ء: تہہ و بالا ہوتی دنیا!
بیتا سال سیاسی زلزوں کا سال تھا۔ اور وائٹ ہاؤس کے نئے مکین کی گیدڑ بھبکیوں کے باوجود، 2018ء کا سال عالمی سرمایہ داری کے لئے اور بھی کٹھن ثابت ہو گا
بیتا سال سیاسی زلزوں کا سال تھا۔ اور وائٹ ہاؤس کے نئے مکین کی گیدڑ بھبکیوں کے باوجود، 2018ء کا سال عالمی سرمایہ داری کے لئے اور بھی کٹھن ثابت ہو گا
19 ستمبر 2017ء کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنا پہلا خطاب کیا جس میں اس نے دنیا، کائنات اور عمومی زندگی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
حالیہ جی 7ممالک اور نیٹو کے طوفانی اجلاس عالمی تعلقات میں بڑھتے ہوئے تناؤ کی عکاسی کرتے ہیں۔ نام نہا د ’’فری ورلڈ‘‘ کے لیڈر ٹرمپ اور یورپی یونین کی لیڈر جرمن چانسلر اینجلا مرکل کے درمیان تند و تیز اختلافات میں اس کا واضح اظہار ہوتا ہے
مخصوص حالات میں چیزیں اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں نئے صدر کی آمد سے پہلے یہ عمارت امریکی سیاسی انتظام میں اعتماد اور استحکام کی علامت تھی۔ آج یہ عمارت دیوہیکل سیاسی انتشار کا منبع بن چکی ہے
مشرق وسطی میں سب سے زیادہ رجعتی قوتیں مغربی سامراجی اور ان کے حامی ہیں جو اس خطے کی عوام کو زیر کر کے غلامی کی بیڑیوں میں باندھ کر ان کا اندھا دھند استحصال کرنے کے خواہشمند ہیں اور اس کام کیلئے معاشرے کے سب سے رجعتی گروہوں اور پرتوں پر اکتفا کر رہے ہیں
یہ تمام تر صورتحال امریکی سماج میں آنے والی ایک تاریخی تبدیلی کی غمازی کرتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ امریکہ کا سماج مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ امریکی صدر کی حلف برداری اور اقتدار کے پہلے ہفتے کے دوران اتنے بڑے پیمانے پر تحریکیں پہلے کبھی نہیں ابھریں
ٹرمپ کو جلد ہی اندازہ ہو جائیگا کہ انتخابی وعدوں اور اقتدار کی حقیقتوں میں کتنا فرق ہے۔ امریکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی بھی یہی خواہش ہے۔ یہ امید پوری ہوتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ پہلے اشارے یہی مل رہے ہیں کہ ٹرمپ اپنے انتخابی وعدوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ آخر میں ٹرمپ ایک مزیدا دائیں بازو کا صدر ہو گاجو بڑے کاروباروں کے مفادات کا دفاع کرے گا
قوم پرستی کے ارتقا اور اہمیت و افادیت کوتاریخی واقعات کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے ہی جدید عہد میں قومی سوال کے کردار کا تجزیہ اور تناظر کو تشکیل دیا جا سکتا ہے
الیکشن کسی بھی لمحے میں سماج کی کیفیت کا ایک اہم لیکن ناقص عکس ہوتے ہیں۔ اگرچہ سطح سے نیچے موجود محرکات کی وہ بھرپور عکاسی تو نہیں کرتے لیکن بہرحال ان کے ذریعے اہم نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ وہ عوامل جو خاموشی سے سالوں اور دہائیوں میں پنپ رہے ہوتے ہیں الیکشن میں اچانک سطح پر نمودار ہو کر ٹھوس شکل اختیار کر جاتے ہیں۔
|تحریر: سوشلسٹ اپیل، امریکہ، ترجمہ: ولید خان| ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے بعد دیوہیکل احتجاجوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ لاکھوں کروڑوں نوجوان اور محنت کش اس کی حکومت کی شدید مخالفت کریں گے۔ ٹرمپ سرمایہ داری کے بحران اور اس سے جڑی غربت، تعصب اور عدم استحکام کو […]
ہم نے انتخابات سے پہلے تجزیئے میں لکھا تھا کہ:’’اگر بریگزٹ ہوسکتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ بھی امریکہ کا صدر بن سکتا ہے۔‘‘سینڈرز کی کمپین اور ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد، کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ امریکہ میں کبھی کچھ تبدیل نہیں ہوتا؟