عالمی سطح پر ڈالر کی اجارہ داری میں زوال اور ٹوٹتا ورلڈ آرڈر

|تحریر: ایڈم بوتھ، ترجمہ: ولید خان|

وال سٹریٹ سے وائٹ ہاؤس اور پھر امریکی مغربی کنارے تک اس وقت امریکہ معاشی، سیاسی اور سماجی انتشار اور بحران کی تصویر بنا ہوا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

حالیہ دنوں میں لاس اینجلز احتجاجوں سے پھٹ پڑا جب محنت کش اور نوجوان مسلح امیگریشن ایجنٹوں، پولیس افسران اور قومی محافظوں کے جتھوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔

اس دوران واشنگٹن مسلسل اندرونی لڑائیوں میں غرق ہو رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سمت کے تعین کے حوالے سے حکومت میں لڑائیاں اور اس سے پہلے کانگریس میں ڈونلڈ ٹرمپ کا ”بڑا خوبصورت قانون“۔

ٹرمپ کا قانون شدید بحث مباحثے اور لڑائیوں کے بعد منظور ہو چکا ہے جو امریکی حکومت کا بجٹ خسارہ اور قومی قرضہ شدید سے شدید تر کرنے پر تلا ہوا ہے۔ کانگریس مالیاتی نگران ادارہ بتا چکا ہے کہ صدر کا قانون 2034ء تک امریکہ کے پہلے سے موجود دیوہیکل قرضوں میں 2.4 ٹریلین ڈالر اضافہ کر دے گا۔

اس پر ٹرمپ اور ہر جگہ برقی آری گھمانے والے اس کے سابق دوست ایلون مسک میں اعلانیہ لڑائی ہو چکی ہے۔ لبرٹیرین ٹیسلا کمپنی مالک نے قانون پر خوفناک حملہ کر رکھا ہے کہ یہ ایک ”غلیظ مکروہ“ قانون ہے جو اس کی DODGE (محکمہ برائے حکومتی کارکردگی) کی حکومتی اخراجات میں کمی کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دے گا۔

لیکن یہ صرف مسک ہی نہیں جو حکومت کے ٹیکس اور اخراجات منصوبوں پر اعلانیہ حملہ کر رہا ہے۔ ریپبلیکن پارٹی اس وقت ٹرمپ کی تجاویز پر منقسم ہے۔ پھر سرمایہ کار بھی اس کے معاشی پروگرام پر شدید پریشان ہیں۔

امریکی صدر نے ”امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے“ کا وعدہ کر رکھا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر سرمایہ دار طبقہ اعتبار کرنے کو تیار ہی نہیں کہ ٹرمپ کے ایجنڈے کا یہی نتیجہ ہو گا۔

قلیل مدت میں امریکی چیف ایگزیکٹیوز اور قرض خواہ دونوں صدر کی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انتشار اور غیر یقینی کی صورتحال سے شدید ہراساں ہیں۔ ایک طرف محصولات اور تجارت کے حوالے سے اس کا انتہائی بچگانہ اور غیر سنجیدہ رویہ ہے اور دوسری طرف بجٹ پر اس کی لاپرواہ پوزیشن ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورتحال میں بے لگام منافع خوری محال ہے۔

اس دوران امریکی سامراج کے سنجیدہ حکمت کار پریشان ہیں کہ ٹرمپ پوری دنیا میں امریکی ساکھ تار تار کر رہا ہے۔ امریکی سرمایہ داری پر اعتماد، جس میں اس کے اثاثہ جات اور کرنسی شامل ہیں اور اس طرح ملک کا نسبتی انحطاط تیز تر ہو رہا ہے۔

پوری دنیا اس وقت اس دھما چوکڑی پر نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ ظاہر ہے وہ مقولہ تو سب کو یاد ہے کہ جب امریکہ چھینک مارتا ہے تو دنیا کو بخار چڑھ جاتا ہے۔ اس وقت امریکی سرمایہ داری کو زکام سے کچھ زیادہ ہی مسائل درپیش ہیں۔

ایک عہد کا اختتام ہو چکا ہے

وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد ڈونلڈ جے ٹرمپ اندرون اور بیرون ملک دونوں جگہوں پر ایک بدمست ہاتھی بنا ہوا ہے۔

اپنے دوسرے دور حکومت کے پہلے سو دنوں میں امریکی صدر عالمی لبرل نظام کے ہر ستون پر ہتھوڑا لے کر چڑھ دوڑا ہے اور اس وقت سے مسلسل حملے جاری ہیں۔

نام نہاد ”قانون کی بنیاد“ پر عالمی تعلقات کی سفارت کاری کوڑے دان میں پھینکی جا چکی ہے۔

ٹرمپ نے کینیڈا، گرین لینڈ اور پانامہ پر قبضہ کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ اس نے یورپ میں تاریخی امریکی اتحادیوں کو کھڈے لائن لگا دیا ہے اور روس جیسی ”معتوب“ ریاستوں کے ساتھ تعلقات کا خواہش مند ہے۔ اس نے امریکی سامراج کی ”نرم طاقت“ کا ہتھیار USAID جلا کر راکھ کر دیا ہے۔

اسی طرح ٹرمپ حکومت کے کلیدی ممبران امریکہ اور یورپ کے درمیان بین البحر تعلقات کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ اس سے NATO فوجی اتحاد کا مستقبل مشکوک ہو چکا ہے جو پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والے نظام کا ایک اہم ستون تھا۔

اپریل کے اوائل میں ”لبریشن ڈے“ کے نام سے محصولاتی جنگ کا آغاز کرنے کے بعد امریکی صدر نے ”دوستوں“ اور دشمنوں دونوں پر امریکی تجارتی جنگ مسلط کر دی ہے۔

ٹرمپ سمیت کسی کو نہیں معلوم کہ ان تمام اقدامات کا کیا نتیجہ ہو گا۔ لیکن سب کو یہ ضرور نظر آ رہا ہے کہ تاریخ کے ایک نئے باب کا آغاز ہو چکا ہے۔

آزاد تجارت اور عالمگیریت کا عہد ختم ہو چکا ہے۔ تحفظاتی پالیسیاں اور معاشی قومیت سبقت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ لبرل نظام کا ایک اور ستون تھا جو پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار تھا اور اب زخموں سے چور ہو چکا ہے۔

اب امریکی قرضہ جات کو نئی تاریخی اور غیر پائیدار سطح پر پہنچانے کے بعد ٹرمپ امریکی خزانہ (فیڈرل حکومت کے بانڈز) کو عالمی سرمایہ داری کے لیے ”محفوظ“ سے غیر محفوظ اور مشکوک بنا رہا ہے۔

پھر اس کے ”بڑا خوبصورت قانون“ میں کچھ شقیں شامل ہیں (سیکشن 899) جو امریکی حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاروں پر ”تادیبی ٹیکس“ لاگو کرنے کی طاقت دیتی ہیں۔ یہ ایک طرح کا سرمائے پر کنٹرول ہے جس سے یقینا دیگر ممالک کے سرمایہ کار اور مالیاتی منیجر خوفزدہ ہو کر امریکی اثاثوں سے دور بھاگیں گے۔

ٹرمپ کی مسلسل غیر یقین تجارتی پالیسی کے ساتھ یہ تمام صورتحال استحکام، سیکیورٹی اور امریکی سرمائے کی طاقت کے حوالے سے مسلسل سوالات اور شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے اور اس کے نتیجے میں سب سے بڑا سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا مستقبل میں بھی امریکی ڈالر موجودہ عالمی کرنسی کا کردار ادا کرتا رہے گا۔

اس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والے نظام کا ایک اور ستون گر رہا ہے۔۔ ڈالر کی بنیاد پر کھڑا پورا عالمی مالیاتی نظام۔ سرمایہ دار ی کے اس کلیدی ستون کی ٹوٹ پھوٹ شاید سب سے زیادہ دور رس اور ہیبت ناک ثابت ہو سکتی ہے۔

بریٹن وُوڈز (Bretton Woods)

دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والے نظام کا ہر ایک ستون ایک متوازی ادارے یا انتظام کے ساتھ وجود میں آیا۔

اقوام متحدہ کا مقصد ”عالمی قانون“ کی پاسداری اور ”قانون کی بنیاد پر“ سفارتی تعلقات کا تحفظ تھا۔ NATO (نارتھ اٹلانٹک آرگنائزیشن ٹریٹی) مغرب کی سیکیورٹی چھتری تھی۔ GATT (1947ء میں جنرل اگریمنٹ آن ٹیرفز اینڈ ٹریڈ)، بعد میں WTO (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کو آزاد تجارت کے لبرل خیال کی ترویج کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔

پھر 1944ء میں بریٹن وُوڈز (Bretton Woods) کانفرنس میں شریک مندوبین نے ایک نئے عالمی مالیاتی اور مانیٹری نظام کے لیے امریکی تجاویز سے اتفاق کیا جسے مکمل طور پر ڈالر کے گرد منظم کیا گیا۔

اس میں IMF (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) اور انٹرنیشنل بینک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ شامل ہے جو بعد میں ورلڈ بینک بنا۔

پھر بریٹن ووڈز مانیٹری نظام منظم کیا گیا جس نے پرانے ”سونے کا معیار“ تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد امریکی ”گرین بیک“ دنیا کی حقیقی کرنسی بن گیا جو عالمی فنانس اور تجارت کی رگوں میں دوڑتا خون تھا۔

اس سب کی بنیاد امریکی سرمایہ داری کا دیوہیکل تسلط اور اثر و رسوخ تھا۔ بریٹن ووڈز مذاکرات کے وقت امریکی معیشت پوری دنیا کے GDP (کل مجموعی پیداوار) کا 35 فیصد تھی۔ اس وقت پوری دنیا اور خاص طور پر یورپ میں تعمیر نو کے لیے ڈالر کی عمومی مانگ موجود تھی۔

انکل سام پوری دنیا سے پیسہ کھا رہا تھا۔ امریکی اجارہ داریاں بے تحاشہ برآمدات کے ذریعے دیوہیکل تجارتی سرپلس بنا رہی تھیں۔ پھر دنیا کا دو تہائی سونا فارٹ ناکس (Fort Knox) کی تجوریوں میں پڑا ہوا تھا۔ اس لیے امریکی ڈالر کو ”سونے کے برابر“ سمجھا جاتا تھا۔

سادہ الفاظ میں بریٹن ووڈز نظام ڈالر کی بنیاد پر ایک سونے کے معیار کا نظام تھا جس کو امریکی سامراج چلا رہا تھا۔

اجارہ دار پوزیشن

یہ ساری بات مغربی سامراجیت کے جال کے حوالے سے بھی درست ہے جس کا ہر معاملے میں مرکز واشنگٹن اور نیویارک تھا۔

UN، NATO، WTO اور IMF؛ یہ تمام اس وقت اور آج بھی امریکی سامراج کا ہتھیار ہیں جن کا مقصد امریکی مالکان اور بینکاروں کے مفادات کا تحفظ ہے۔

لیکن دوسری عالمی جنگ کی راکھ سے ابھرنے والی دوسری اور تیسری درجے کی سامراجی قوتوں کو بھی مفاد یہی نظر آیا کہ سرمایہ داری کے اس ناقابل چیلنج جن کے ہاتھوں پر بیعت کر لی جائے۔

اگرچہ آزاد تجارت اور ڈالر کی بنیاد پر ایک مالیاتی نظام سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والے امریکی بینک اور اجارہ داریاں تھے لیکن دیگر مغربی حکمران طبقات بھی اس نئے عالمی نظام کا دم چھلہ بننے پر بہت خوش تھے جس نے بظاہر پورے سماج پر امن اور خوشحالی کو نچھاور کر رکھا تھا۔

ایک غیر چیلنج شدہ سامراجی قوت جس کو عالمی تھانیدار اور عالمی سرمایہ داری کا محافظ تسلیم کیا جا چکا تھا، اس معاشی اور سیاسی استحکام کا امین تھا جس کی بنیاد پر کاروبار کرتے ہوئے تاریخی منافع لوٹا جاتا تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں امریکی سامراج کی ناقابل چیلنج پوزیشن جنگ کے بعد تاریخی سرمایہ دارانہ خوشحالی کا ایک اہم ستون تھا۔

امریکی قیادت میں محصولات اور تحفظاتی پابندیوں کا خاتمہ عالمی تجارت میں دیوہیکل وسعت کی بنیاد تھا۔ اس کے نتیجے میں عالمی معیشت تیزی سے مدغم ہوئی اور عالمی سطح پر محنت کی تقسیم ممکن ہوئی جس نے پھر تاریخی معیشتوں اور پیداواری قوتوں کو تخلیق کیا۔

اس دوران امریکی مارشل پلان نے یورپ میں انقلاب کا راستہ روک دیا جس نے سرمایہ داروں اور ان کے نظام کو شدید ریڈیکلائزڈ محنت کشوں کی انقلابی تحریکوں سے بچا لیا۔

ایک خاموش معاہدہ موجود تھا۔ دیگر ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک میں جدید معیشتیں امریکی عسکری اخراجات کا سہارا لیتے ہوئے آزاد تجارت کا میٹھا پھل ہڑپ کر سکتی تھیں۔ اس کے بدلے میں ان کا ایک ہی فرض تھا؛ امریکی سامراج کو سجدہ۔

معروضی ضروریات

انفرادی سرمایہ داروں اور اقوام کی سطح پر امریکی سامراج کو اس سجدہ زیری کی بنیاد ننگا اور تنگ نظر مفاد تھا۔

بہرحال یہ واضح ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک مدغم عالمی کل ہے جس کی معروضی ضرورت ایک مانیٹری اور مالیاتی فریم ورک کی اکائی ہے جس میں معاشی سرگرمیاں فعال رہ سکتی ہیں۔

ہر سرمایہ دار کوشش کرتا ہے کہ وہ دوسرے سرمایہ دار کے ساتھ مسابقت میں جیت جائے۔ لیکن پھر بھی انہیں ایک متفق شدہ معیارات کا اجتماعی فائدہ بھی رہتا ہے، یعنی فنانس اور تجارت کا ایک اجتماعی ڈھانچہ۔

تاریخی طور پر پیسہ بھی اسی لیے تخلیق ہوا تھا۔ ابتدائی طبقاتی سماجوں میں اشیاء کی پیداوار اور تبادلے کا ظہور ایک پیسہ شے کی بنیاد بنا، ایک واحد شے جسے سب کے تبادلے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے یعنی جو قدر کا اظہار اور تعین ہے۔

روایتی طور پر یہ سونا اور چاندی جیسی نایاب دھاتیں ہیں جو عالمی تجارت اور تجارتی سرگرمیوں کی رگوں میں خون کا کام دیتی ہیں، یعنی گردش اور تبادلہ کے ذریعے۔

اس حوالے سے مارکس نے وضاحت کی کہ پیسہ ایک اشیاء کی بنیاد پر تعمیر کردہ معیشت میں کئی اہم فرائض سر انجام دیتا ہے۔ ہزاروں سالوں اور کئی صدیوں میں مختلف اشکال میں اظہار کے باوجود ہر جگہ اور ہمیشہ یہ تبادلے کا ذریعہ اور قدر کا خزانہ رہا ہے۔

اس سارے عمل میں ایک مدغم عالمی معیشت ایک عالمی مانیٹری نظام اور قابل اعتماد عالمی کرنسی کا تقاضہ کرتی ہے تاکہ فنانس اور تجارت میں آسانی ہو۔

عالمی تجارت سب کے لیے آسان ہے اگر ایک مشترکہ کرنسی کے ذریعے ترسیلات اور معاہدے کیے جا رہے ہیں۔ پھر عالمی سرمایہ کاروں کی خواہش ایک عمومی قابل اعتماد زر نقد ہے جس میں پیسوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

اس مظہر کو بورژوا معیشت دان ”نیٹ ورک اثرات“ کا اظہار کہتے ہیں۔۔ جدلیاتی طور پر ابھرنے والا ایک ایسا نظام جو بظاہر بے ترتیب، حادثاتی تعاملات کا نتیجہ ہوتا ہے؛ عوام، کاروبار اور پوری اقوام میں ایک رجحان پیدا ہوتا ہے کہ انہی اوزار اور ڈھانچوں سے رجوع کیا جائے جو باہمی مفاد اور آسانی کے ضامن ہوں۔

مثلاً دوستوں کے درمیان رابطہ آسان اور سہل ہوتا ہے جب سب ایک ہی مسیج ایپ پر موجود ہوں۔ اس طرح مخصوص ٹیکنالوجی اجارہ دار پلیٹ فارموں میں صارفین کا ارتکاز ہو جاتا ہے۔

اسی طرح یہ اشیاء کے تبادلے اور گردش کے سماجی و معاشی طریقہ کار کے ابھار سے بھی منسلک ہے۔۔ چاہے یہ ابتدائی طبقاتی سماجوں میں پیسہ شے (money commodity) کا عمومی مساوی اظہار ہو یا جدید دور میں ایک مؤثر عالمی کرنسی کا اظہار ہو۔

سونے کا معیار

انیسویں اور ابتدائی بیسویں صدیوں میں جب برطانوی سامراج کا سورج سر بلند تھا تو عالمی فنانس اور تجارت کا تمام عمل سونے کے معیار کے تحت بنائے گئے فریم ورک میں متحرک ہوتا تھا۔

اُس وقت برطانوی سامراج عالمی سطح پر اجارہ دار تھا اور اس کا وہی کردار تھا جو بعد میں دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سامراج کا کردار بنا۔۔ ایک مستحکم معاشی اور سیاسی بنیادوں کا ضامن جس پر عالمی تجارت اور صنعت کو پروان چڑھایا جا سکے۔

یہ ایڈم سمتھ اور ڈیوڈ ریکارڈو جیسے برطانوی مفکر تھے جنہوں نے بورژوا ”سیاسی معیشت“ کا خیال پروان چڑھایا اور لبرل ازم، آزاد تجارت اور سرمایہ دارانہ منڈی کے ”خفیہ ہاتھ“ کو وضع کیا۔

لیکن انیسویں صدی کے اختتام تک واضح ہو چکا تھا کہ برطانوی سرمائے کے حریف اس پر سبقت حاصل کر چکے ہیں۔

پہلی عالمی جنگ نے قوتوں کے درمیان بدلتے توازن میں عمل انگیز کا کردار ادا کیا۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی سب اس ہولناک جنگ میں شدید کمزوری کا شکار ہو گئے۔ ان کے مقابلے میں امریکی سرمایہ داری واضح طور پر تندرست و توانا تھی۔

وارسائی معاہدے (The Treaty of Versailles) کے نتیجے میں جرمنی، برطانیہ اور فرانس کا شدید مقروض ہو گیا جو خود امریکہ کے سب سے بڑے مقروض تھے۔ پھر جنگ نے عالمی فنانس سرگرمیوں کو لندن سٹی (لندن میں فنانس مرکز) سے وال سٹریٹ (نیو یارک میں فنانس کا گڑھ) منتقل کرنے کے عمل کو تیز کر دیا۔

اب برطانیہ عالمی تجارت اور فنانس کا عالمی تھانیدار رہنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ اس دوران امریکی سامراج فی الحال اتنا طاقتور نہیں تھا کہ وہ یہ ذمہ داری سنبھال پاتا۔

اس صورتحال نے دو عالمی جنگوں کے درمیانی عرصے میں شدید ہیجان اور انتشار برپا کیے رکھا جس میں سرمایہ دارانہ نظام کے تمام مجتمع شدہ تضادات نے اپنا کھل کر اظہار کیا۔

کئی سالوں کے تناؤ اور انتشار کے بعد بالآخر سونے کا پرانا معیار عظیم کساد بازاری میں ہمیشہ کے لیے منہدم ہو گیا۔

عالمی معیشت گہری کھائی میں گری پڑی تھی، یکے بعد دیگرے ممالک ایک دھات کی بنیاد پر مانیٹری پالیسی ترک کر رہے تھے تاکہ بغیر لگام پیسہ چھاپا جائے، اپنی قومی کرنسیوں کو مسابقتی طور پر کمزور کیا جائے اور اندرونی بحران کو بیرون ملک منتقل کر دیا جائے۔

اس کے ساتھ سرمایہ دارانہ سیاست دانوں نے تحفظاتی ”ہمسائے کو بھکاری بنا دو“ پالیسیاں لاگو کرنی شروع کر دیں، جن میں درآمدات کی روک تھام کے لیے دیوہیکل محصولاتی پابندیاں بھی شامل تھیں۔ لیکن اس کے نتیجے میں بحران اور انتشار شدید سے شدید تر ہوتے چلے گئے۔

نیا توازن

دوسری عالمی جنگ کی وسیع اور ہولناک تباہی و بربادی کے نتیجے میں ہی سرمایہ داری کو ایک نیا توازن نصیب ہوا اور یہ امریکی سامراج تھا جو اس بعد از جنگ عالمی نظام کا تھانیدار بن کر ابھرا۔

سرمایہ داری کے نئے تھانیدار کے طور پر انکل سام نے وہ ”عوامی سہولیات“ فراہم کیں جن پر مغربی حکمران طبقات کو کھڑا ہونا نصیب ہوا تھا۔۔ تمام اتحادیوں کے لیے عسکری تحفظ کی ضمانت، آزاد منڈیوں کا تحفظ، ایک مستحکم عالمی کرنسی اور عالمی معیشت کے لیے آخری قرض خواہ کا کردار۔

اس کردار کو پہلے مندرجہ بالا اداروں اور انتظامات میں مستحکم کیا گیا جن میں مانیٹری معاملات پر بریٹن ووڈز معاہدہ بھی شامل تھا۔

لیکن جنگ کے بعد گزرنے والے سالوں اور دہائیوں میں عالمی معیشت خوشحال رہی اور امریکی سرمایہ داری نسبتی انحطاط کا شکار ہو گئی۔

امریکی حریف معاشی طور پر زیادہ مسابقتی ہو گئے۔ امریکی اجارہ داریاں منڈی میں اپنا حصہ جرمنی اور جاپان کو ہارنے لگیں۔ 1970ء کی دہائی کے اوائل تک امریکی مالیاتی اور تجارتی سرپلس خساروں میں تبدیل ہو گیا۔

اس کے ساتھ بعد از جنگ عرصہ میں یکے بعد دیگرے وائٹ ہاؤس حکومتیں مسلسل ڈالر پر اعتماد کو کمزور کرتی رہیں۔

امریکی سرمایہ داری کی کمزوری کو روکنے کے لیے امریکی حکمران طبقے نے شتر بے مہار پیسہ چھاپ کر جنگوں کی فنڈنگ، بیرونی اثاثہ جات کی خریداری اور سٹہ باز اسکیموں میں سرمایہ کاری کی۔ اس کا نتیجہ امریکہ اور عالمی معیشت میں دیوہیکل افراط زر دباؤ کا پیدا ہونا تھا۔

پورے نظام میں زائد ڈالرز کا سیلاب ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور اس کے متوازی بہت کم امریکی دھاتی خزانہ اس کی قدر کو سہارا دے رہا تھا۔ اس صورتحال میں ایک بداعتمادی پیدا ہو گئی کہ کیا موجودہ ڈالر کے متوازی سونا موجود ہے یا خریدا جا سکتا ہے۔۔ یہ بریٹن ووڈز کی بنیاد تھی۔ اس کے نتیجے میں کئی مرتبہ امریکی کرنسی کو بیچا گیا کیونکہ واضح طور پر اس کی دیوہیکل گردش اور سہارا دینے والی دھاتوں میں توازن مکمل طور پر بگڑ چکا تھا۔

15 اگست 1971ء کو امریکی صدر نکسن نے یکطرفہ طور پر امریکی ڈالر اور سونے کا تبادلہ معطل کر دیا۔ جلد ہی بریٹن ووڈز کو ترک کر کے کرنسیوں کی قدر کو منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جبکہ قدر میں مسابقتی کمی کرنے کا ایک مسلسل سلسلہ چل پڑا۔

اس بنیاد پر 1973-75ء کا عالمی بحران برپاء ہوا۔ یہ صدمات کے تسلسل کا ایک حصہ تھا جس نے طویل خوشحالی کے دور کے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے سرمایہ داری کے ارتقاء کو ایک نئی راہ پر گامزن کر دیا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد منظم ہونے والے معاشی نظام کی موت کا اعلان ہو گیا تھا۔

لامحدود استحقاق

لیکن تضاد یہ موجود تھا کہ بریٹن ووڈز نظام کے خاتمے اور منڈی کے رحم و کرم پر کرنسیوں کو چھوڑنے کے باوجود ڈالر عالمی فنانس نظام میں پہلے سے بھی زیادہ مرکزی حیثیت حاصل کر گیا۔

اب ڈالر سرکاری عالمی کرنسی نہیں تھا۔ لیکن تمام مندرجہ بالا وجوہات کی بنیاد پر وہ اس کردار کے لیے درکار ایک عمومی ضرورت کو پوری کرتا رہا۔

خاص طور پر جب بعد کی دہائیوں میں عالمی معیشت وسیع تر ہوئی اور ادغام مسلسل گہرا ہوتا رہا تو سرمایہ داری عالمی طور پر اور بھی زیادہ ایک بالاتر کرنسی پر منحصر ہوتی چلی گئی جس کے ذریعے بلا روک ٹوک تجارت جاری رہے اور جو ایک ایسا محفوظ اثاثہ ہو جس میں سرمایہ کار اپنی دولت ذخیرہ کر سکیں۔

کسی بھی واضح متبادل کی عدم موجودگی میں ڈالر اور امریکی بانڈز مسلسل یہ کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

اس نے باقی دنیا کے سرمایہ داروں کو بھی خوشحال رکھا ہے۔ بہرحال، ڈالر کا عالمی کردار امریکی سرمایہ داری کو (بورژوا معیشت دانوں کے الفاظ میں) ایک ”لامحدود استحقاق“ بھی فراہم کرتا ہے۔

ڈالر کی بنیاد پر موجود اثاثہ جات کی بلند تر مانگ جن میں امریکی اسٹاک اور بانڈز شامل ہیں، امریکی بینکوں اور کاروباروں کو استحقاق فراہم کرتے ہیں کہ وہ کم شرح سود پر قرضہ لے سکیں جس کا مطلب بلند تر شرح منافع ہے۔

اسی طرح عالمی سرمایہ کار امریکی بانڈز کے لیے بیتاب رہتے ہیں جس نے امریکی وفاقی حکومت کو قومی قرضہ بڑھانے اور بجٹ خسارے برداشت کرنے کی زیادہ آزادی دے رکھی ہے۔ جب امریکی قرضہ جات خریدنے کا سوال ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ لامتناہی پیاس ہے جو کبھی نہیں بجھے گی۔

پھر امریکی مرکزی بینکار مانیٹری پالیسی کے حوالے سے زیادہ آزاد کردار کے حامل ہیں۔ لیکن ان کا ہر فیصلہ پوری دنیا پر فوری اور دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے۔ مثلاً حالیہ چند سالوں میں فیڈرل ریزرو نے شرح سود بڑھائی ہے اور مقداری آسانی کو ”کم“ کیا ہے جس نے باقی عالمی معیشت میں لرزہ طاری کر دیا ہے۔

پھر پورا عالمی مالیاتی نظام ڈالر کی بنیاد پر منظم ہے جو امریکی سامراج کو ایک طاقتور معاشی ہتھیار فراہم کرتا ہے۔۔ بیرونی اثاثہ جات پر قبضہ، دشمنوں پر معاشی پابندیاں، عالمی معیشت سے باہر کر دینا اور وسیع پیمانے پر تکلیف و مسائل پیدا کرنا۔

لیکن ہر موڑ پر امریکی حکمران طبقے نے ان مراعات کا غلط استعمال کیا ہے۔

امریکی سرمایہ دار ماضی کی کامیابیوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں اور انہیں سستے قرضوں کی لت پڑ چکی ہے۔ اس لیے امریکی اجارہ داریاں مسلسل عالمی اجارہ داریوں، خاص طور پر چینی، کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوتی جا رہی ہیں۔

اس دوران یکے بعد دیگرے حکومتوں نے امریکی قرضوں کے پہاڑ کو مسلسل بڑھایا ہے اور گراں قدر نئے قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ بینکوں اور بڑے کاروباروں کے لیے ہر نئے بحران کا حل بیل آوٹ اور بلینک چیک ہیں۔ نام نہاد ”عمومی“ دور میں بھی خسارہ فنانسنگ اور آسان پیسہ ایک کم تر سطح پر معاشی گلوکوز کی مسلسل ڈرپ بن چکے ہیں۔

لیکن امریکی حکمران طبقے کی تنگ نظر حکمت عملی نے پوری عالمی معیشت کو خوفناک نقصانات پہنچائے ہیں۔ اس وقت مصنوعی سرمائے کا ایک سمندر ہر جگہ ڈھٹائی سے مسلسل بلند افراط زر میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ پورا نظام دھماکہ خیز تضادات سے لبریز ہو چکا ہے اور مسلسل انتشار کا شکار ہے۔

پھر امریکی سامراج واشنگٹن کی ڈالر کو مسلسل مسلح کرنے کی کوششوں میں خود ہی سولی پر لٹکا جا رہا ہے۔

روس اور چین کوششیں کر رہے ہیں کہ امریکی پابندیوں اور رکاوٹوں کا توڑ نکالا جائے۔ کئی ممالک اپنے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو متنوع کر رہے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کار اپنا پیسہ امریکی پہنچ سے دور اثاثہ جات میں سرمایہ کر رہے ہیں تاکہ کہیں انہیں بھی اچانک ایک دن وائٹ ہاؤس اپنے عتاب کا شکار نہ بنا دے۔

پھر کئی سالوں کا غرور اور تکبر امریکی سرمایہ داری اور اس کے نمائندوں کو شل کر رہا ہے۔ اس وقت تمام تضادات ایک دیوہیکل آتش فشاں بن کر پھٹنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

پہلے کون پلک جھپکے گا؟

یہ عمل پچھلے کچھ عرصے سے جاری ہے۔ لیکن ٹرمپ کی پالیسیاں تمام مسائل کو تیزی سے تباہی کے دہانے تک پہنچا رہی ہیں جس سے امریکی سرمایہ داری اور اس کی کرنسی میں عدم اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔

”لبریشن ڈے“ سے اب تک اسٹاک منڈیاں مسلسل اتار چڑھاؤ کی شکار ہیں۔ پینشن فنڈز جیسے بڑے پیسہ منیجر امریکی اثاثہ جات سے جان چھڑوا رہے ہیں اور یورپی بانڈز اور شیئرز میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ کئی مہینوں سے ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔۔ جنوری سے اب تک قدر میں 10 فیصد کمی ہو چکی ہے اور گراوٹ تین سال کی کم تر سطح تک پہنچ چکی ہے۔

اس کے برعکس 2021ء کے آغاز سے لے کر 2025ء کے آغاز تک ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔

ایک طرف یہ امریکی اسٹاک منڈی اور خاص طور پر ”بِگ ٹیک“ [پانچ سب سے بڑی امریکی اور عالمی ٹیکنالوجی اجارہ داریاں جن میں گوگل، ایپل، ایمازون، فیس بک اور مائیکروسافٹ شامل ہیں۔ مترجم] میں دیوہیکل سٹہ بازی کا نتیجہ تھا۔ دوسری طرف یہ عالمی سرمایہ کاروں اور دولت مندوں کی امریکی بانڈز میں سرمایہ کاری کا نتیجہ تھا جو عالمی سرمایہ داری کو لاحق عدم استحکام اور بے یقینی کی کیفیت میں کسی محفوظ سرمایہ کاری کی تلاش میں تھے۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ ڈالر کی قدر میں حالیہ گراوٹ ٹرمپ کی لاگو کردہ محصولات اور پابندیوں کے ممکنہ نتائج سے یکسر مختلف ہے۔

ان تحفظاتی پالیسیوں کا مقصد ہی امریکی تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے۔ اگر سب معاملات متناسب ہوں تو اس کا نتیجہ امریکی کرنسی کی قدر میں اضافہ ہونا چاہیے جس کی بنیاد ڈالر کی عالمی مانگ میں اضافہ ہو گا کیونکہ پوری دنیا اور امریکہ کے درمیان تجارتی توازن امریکہ کے حق میں چلا جائے گا۔

ان اقدامات کے نتیجے میں ڈالر کی قدر میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ کار امریکی اثاثوں سے جان چھڑا رہے ہیں جس نے ڈالر کی مانگ میں کمی پیدا کر دی ہے۔

اس وقت قدر کے حوالے سے امریکی اسٹاک منڈی پوری دنیا کی مالیاتی منڈی کا 60 فیصد ہے۔ جبکہ غیر ملکی سرمایہ کار 62 ٹریلین ڈالر مالیت کے امریکی اثاثہ جات کے مالک ہیں جن میں ایک تہائی امریکی ریاستی قرضہ بھی شامل ہے جس کی مالیت 9 ٹریلین ڈالر بنتی ہے۔ بانڈ منڈی کی کل مالیت 29 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ یہ 2008ء میں 5 ٹریلین ڈالر تھی۔

لیکن اب حالیہ واقعات کی روشنی میں عالمی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں۔ منڈی کا انتشار سرمایہ داروں کو مجبور کرر ہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے پروگرام پر اپنے خیالات کا اعلانیہ اظہار کریں۔

بڑے امریکی کاروباروں کے شیئرز کی قدر اب مصنوعی لگنا شروع ہو چکی ہے کیونکہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس، ائرلائنز اور کار سازی میں نئی مسابقتی کمپنیاں داخل ہو رہی ہیں۔ ٹرمپ کی تجارتی جنگ کے ساتھ سیکشن 899، جس کے ذریعے بیرونی سرمایہ کاروں پر اضافی ”تادیبی“ ٹیکس لگائے جا سکتے ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پریشان کر رہا ہے۔ امریکی قرضہ بے قابو ہوتا نظر آ رہا ہے اور بانڈز اب عالمی سرمائے کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ نہیں رہ گئے۔

اثاثہ جات کی منیجر اوک ٹری کیپیٹل (Oaktree Capital) کے شریک بانی ہاورڈ مارکس (Howard Marks) کا کہنا ہے کہ، ”ایک صدی تک امریکہ سرمایہ کاری کرنے کے لیے دنیا میں بہترین جگہ تھا۔ لیکن اب میں سرمایہ کاروں کو سوال کرتے سن رہا ہوں کہ امریکی غیر معمولی استثناء اب اتنی غیر معمولی نہیں رہی اور وہ سوچ رہے ہیں کہ اس کے حوالے سے اپنے اثاثہ جات میں رد و بدل کیا جائے۔“

عالمی سرمایہ کار کمپنی الائنس برنسٹین کے چیف ایگزیکٹیو نے اسی فنانشل ٹائمز مضمون میں تبصرہ کیا ہے کہ، ”میرا خیال ہے کہ امریکہ اب اسی تیز رفتاری کے ساتھ مزید قرضہ حاصل نہیں کر سکتا۔“ برنسٹین نے مزید کہا کہ، ”اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اگر اس کے ساتھ آپ ہماری غیر یقینی تجارتی پالیسی کو بھی شامل کر لیں تو لوگ ایک لمحہ توقف کر کے سوچتے ہیں کہ ایک منڈی میں اور کتنا ارتکاز کرنا ہے؟“

پچھلے مہینے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی مُوڈی (Moody) نے S&P اور فچ (Fitch) کی تقلید میں امریکہ کو چوٹی کی AAA ریٹنگ سے محروم کر دیا۔

اس تنبیہ کی وجہ ٹرمپ کا ”بڑا خوبصورت قانون“ ہے جس سے قرضوں اور GDP کا تناسب 25 پوائنٹس بڑھ کر 2034ء کے اختتام تک تاریخی 125 فیصد ہو سکتا ہے۔

مُوڈی میں سابق سنیئر تجزیہ کار این روتلیج (Ann Rutledge) کا تبصرہ تھا کہ، ”یہ فیصلہ ایک طویل عرصہ سے ناگزیر ہو چکا تھا اور یہ ایک خوفناک چتاونی ہے۔“

اس کے نتیجے میں امریکی قرضوں کا حصول مزید مہنگا ہو چکا ہے۔ اس کی جھلک 30 سالہ طویل مدت امریکی بانڈز کی شرح سود میں اضافے سے ملتی ہے جو اب 5 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔ امریکی بانڈز کی قیمتوں میں عمومی گراوٹ واقع ہو رہی ہے کیونکہ سرمایہ کاروں کی مانگ میں کمی ہو رہی ہے۔

سادہ الفاظ میں ٹرمپ اور منڈیوں میں مقابلہ چل رہا ہے کہ پہلے کون پلک جھپکے گا اور لگتا ایسا ہے کہ امریکی صدر شکست خوردہ ہو گا۔

درحقیقت ٹرمپ پہلے بھی کئی مرتبہ کھائی کے دہانے سے پسپائی اختیار کر چکا ہے۔۔ کمر توڑ محصولات لاگو کرنے کی دھمکی لگانے کے بعد اسے یہ قدم واپس لینا پڑا کیونکہ بانڈ منڈی اور بڑے کاروباروں کا شدید رد عمل فوراً واضح ہو گیا تھا۔

ظاہر ہے سرمایہ داری میں یہ بینکاروں اور ارب پتیوں کی آمریت ہے جو حتمی فیصلے کرتی ہے۔

منڈی کی اصلاح

صدر کے پرانتشار طریقہ کار؛ مثلاً محصولات کا اعلان اور پھر معطلی کی ایک قیمت ہے۔ ہر مرتبہ جارحیت کے فوری بعد پسپائی سرمایہ کاروں کا امریکی سرمایہ داری میں اعتماد مسلسل برباد کر رہی ہے۔

اس صورتحال میں بینکار اور مالکان مجبور ہو رہے ہیں کہ اپنے پیسوں کے لیے محفوظ سرمایہ کاری کہیں اور تلاش کریں؛ ایسے ممالک جن میں منافع خوری کا ماحول زیادہ پراعتماد ہے۔ امریکہ کو عظیم بنانے اور صنعتی نوکریوں کی واپسی کے برعکس یہ اقدامات امریکی سرمایہ داری کے انحطاط کو اور تیز کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کی معاشی پالیسیاں منڈی میں اس تباہی و بربادی کے لیے ایک عمل انگیز ہو سکتی ہیں لیکن اس عمل کے لیے حالات ایک طویل عرصے سے پک رہے تھے۔

بنیادی طور پر حالیہ عرصے میں سرمایہ کاروں کی امریکی ڈالر، بانڈز اور اسٹاک منڈی سے دوری ایک طویل عرصہ سے زیر التواء از سر نو ترتیب کا اظہار ہے۔۔ ”منڈی کی اصلاح“ جس نے امریکی کرنسی اور اثاثوں کی مالیت حقیقت سے مساوی کر دی ہے۔

درحقیقت امریکی سرمایہ داری دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود اب ماضی کی طرح مزید مسابقتی اور منافع بخش نہیں رہی۔

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ بریٹن ووڈز کانفرنس کے وقت امریکہ کا عالمی GDP میں 35 فیصد حصہ تھا۔ 1985ء میں کچھ اتار چڑھاؤ کے بعد عالمی پیداوار میں امریکی حصہ اسی سطح پر بحال ہو گیا تھا۔ لیکن اب یہ شرح 26 فیصد ہو چکی ہے۔

اس دوران پچھلے 40 سالوں میں چین کا عالمی GDP میں حصہ 2.5 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو چکا ہے۔

اسی طرح ڈیپ سیک اور BYD جیسی چینی اجارہ داریاں اب امریکی کمپنیوں کو چوٹی کے میدانوں جیسے جدیدی ٹیکنالوجی اور الیکٹرک گاڑیوں میں چیلنج کر رہی ہیں جس کا مطلب امریکی بڑے کاروباروں کے منافعوں اور منڈی میں حصوں میں کمی ہے۔

اس دوران دہائیوں میں امریکی حکمران طبقے کی لاپرواہ اور تنگ نظر پالیسیوں نے، جن میں کرنسی کی بے دریغ چھپائی، ریاستی مداخلت اور مالیاتی ڈی ریگولیشن شامل ہیں، امریکی ریاستی قرضوں کی افادیت کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں کہ کیا ان دیوہیکل قرضوں کو واپس کرنے کی کوئی اہلیت رہ گئی ہے۔

کچھ افراد کو تو یہ خطرہ لاحق ہے کہ ٹرمپ سیاسی طور پر تکلیف دہ فیصلوں، کہ وفاقی بجٹ میں کہاں اور کتنی کٹوتیاں کرنی ہیں، کے برعکس امریکی قرضہ جات کی واپسی سے ہی انکار کر سکتا ہے!

اس کا مطلب امریکی ریاستی قرضوں کا اعلانیہ دیوالیہ ہو گا۔ یا پھر یہی کام اور طریقے سے بھی ہو سکتا ہے جیسے کرنسی کی بے دریغ چھپائی، جس سے کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہو گی اور امریکی قرضہ جات کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا یا پھر یکطرفہ طور پر موجودہ بانڈ ہولڈرز پر نئی شرائط کا جبری اطلاق۔

اگر ٹرمپ پاگل پن میں ان میں سے کوئی بھی راستہ چنتا ہے تو وہ ایک عالمی مالیاتی قیامت برپا کر دے گا۔

تباہی و بربادی منڈیوں کو جکڑ لے گی کیونکہ سرمایہ کار خطرناک یا برباد امریکی اثاثہ جات سے جان چھڑانے کی فوری اور بھرپور کوشش کریں گے تاکہ کوئی محفوظ ٹھکانہ مل سکے۔ تمام بڑے بینکوں اور دیوہیکل اثاثہ جات منیجروں کے کھاتے تلپٹ ہو جائیں گے۔ یقینا منڈی میں کرنسی ناپید ہو جائے گی کیونکہ چاروں اطراف سے قرض دہندہ قرضوں کی وصولی کے لیے حملہ آور ہو جائیں گے۔

پوری دنیا ایک نئے مالیاتی بحران میں دھنس جائے گی جس کے سامنے 2007-08ء کا مالیاتی بحران ایک سہانا خواب لگے گا۔ اس کے نتیجے میں عالمی معیشت ایک گہرے بحران یا کساد بازاری کا شکار ہو سکتی ہے۔

محصولات کی طرح جب 36 ٹریلین امریکی ڈالر قرضہ جات کا سوال آتا ہے تو ٹرمپ منڈی کی یلغار کے سامنے پسپائی اختیار کر سکتا ہے۔۔ جیسے سابق برطانوی وزیراعظم لز ٹرس (Liz Truss) کو پسپائی اختیار کرنی پڑی تھی جب ستمبر 2022ء میں منڈی نے اس کو مالیاتی فیصلہ جات پر آڑے ہاتھوں لیا تھا۔

لیکن اس طرح کی قیامت سے بچنے کے لیے امریکی صدر کو پھر دیوہیکل امریکی محنت کش طبقے کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ بینکاروں کے منافعوں کو یقینی بنانے کے لیے ٹرمپ کو خوفناک جبری کٹوتیاں لاگو کرتے ہوئے نوکریوں، معیار زندگی اور سوشل سیکیورٹی کو تباہ و برباد کرنا پڑے گا۔

سادہ الفاظ میں معاشی استحکام کو قائم کرنے کے لیے امریکی حکمران طبقے کو محنت کشوں اور غربا پر ایک طبقاتی جنگ مسلط کرنی پڑے گی جس کا نتیجہ دیوہیکل سماجی دھماکے اور سیاسی عدم استحکام ہو گا۔

کوئی متبادل موجود نہیں

امریکی حکمران طبقہ حتمی طور پر وہی کرے گا جو اس نے 2008ء سے مسلسل تجربات کی بنیاد پر کیا ہے۔۔ ذمہ داری مستقبل پر ڈالنا؛ ریاست اور مرکزی بینک کی حمایت کو کسی بھی شاک یا بحران کو ٹالنے کے لیے استعمال کرنا اور قرضوں کی سطح کو مزید بڑھا کر سخت فیصلوں سے اجتناب کرنا۔

لیکن ہر کام کی ایک حد ہوتی ہے اور بدقسمتی سے متلون مزاج ٹرمپ حکمران طبقے کا بااعتماد نمائندہ نہیں ہے۔

اس لیے سرمائے کے سنجیدہ حکمت کار بہت پریشان ہیں کہ صدر نظام میں موجود تمام مجتمع شدہ تضادات کو اپنے اشتعال انگیز رویے سے مہمیز فراہم کر رہا ہے اور نتیجتاً کوئی بھی غیر متوقع واقعہ یا حادثہ ایک مالیاتی بحران کا عمل انگیز بن سکتا ہے۔

اس بنیاد پر بورژوازی کے ذہنوں میں قیامت کا سماں برپاء ہے اور فنانشل ٹائمز جیسے جریدے مایوس کن ہیڈلائنز لگا رہے ہیں کہ، ”ڈالر کی تباہی کا بھوت منڈلا رہا ہے۔“

اب سوال یہ ہے کہ حکمران طبقے کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

یہ مسئلہ بڑی آسانی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف معیشت کی معروضی ضرورت ہے کہ ایک عالمی کرنسی اور فنانس کا محفوظ ٹھکانہ ہو۔ دوسری طرف اس کردار کے حوالے سے امریکی ڈالر اور بانڈز کا کوئی فعال متبادل موجود نہیں ہے۔

امریکی سرمایہ داری ایک نسبتی انحطاط کا شکار ہوئی ہے۔ لیکن ڈالر کا عالمی مالیاتی نظام میں ایک دیوہیکل غیر متوازی وزن ہے۔۔ عالمی معیشت میں امریکی تناسب کے حساب سے کرنسی کا عدم توازن۔

مثلاً عالمی کرنسی ذخائر میں 58 فیصد حصہ امریکی ڈالر کا ہے۔ 2001ء میں یہ شرح 73 فیصد تھی۔ لیکن یہ پھر بھی یورو کے 20 فیصد یا چینی یوان کے 2 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔

فیڈرل ریزرو میں معیشت دانوں نے ایک ”عالمی کرنسی استعمال کا انڈیکس“ مرتب کیا ہے جس میں بڑی کرنسیوں کا عالمی سطح پر استعمال کا موازنہ کیا گیا ہے۔ امریکی ڈالر اس فہرست میں 60.7 ہے جو یورو سے دگنا بنتا ہے جو خود 29.7 پر کھڑا ہے۔

ڈالر کی بنیاد پر 88 فیصد بیرون ملک ایکسچینج ٹرانزیکشن ہوتی ہیں؛ SWIFT کے عالمی ادائیگی نظام میں 81 فیصد تجارتی فنانس ڈالر ہے؛ عالمی برآمدات میں 54 فیصد ڈالر ہے؛ عالمی بانڈز کا 48 فیصد ڈالر ہے اور ممالک کے درمیان بینکاری دعووں کا 47 فیصد ڈالر ہے۔

کئی اثناء میں کاروباروں کی تجارت ڈالر میں ہو گی چاہے لین دین کرنے والے دونوں ہی امریکہ میں موجود نہ ہوں۔۔ یہ پہلے زیر بحث ”نیٹ ورک اثرات“ کا ایک اظہار ہے۔ نتیجتاً 45 فیصد ڈالر امریکہ سے باہر باقی دنیا میں موجود ہے۔

عالمی تجارت اور فنانس کا ایک کلیدی ستون بن جانے کے بعد اب بہت مشکل ہو چکا ہے کہ کوئی اور کرنسی ڈالر کی جگہ لے۔

اس کردار کو نبھانے کے لیے چند مخصوص شرائط ہیں۔ ایک ریزرو کرنسی یا محفوظ اثاثہ با اعتماد اور زر نقد ہو، اس کی قدر مستحکم ہو، اس کا تبادلہ آسان ہو، اور وہ اتنی مقدار میں موجود ہو کہ نجی سرمایہ کاروں اور عوامی اداروں (بشمول خودمختار ریاستیں) کی محفوظ جگہ پر دولت محفوظ کرنے کی پیاس کو بجھا سکے۔

پھر ایسا کوئی بھی اوزار سماج کے دولت مندوں کے لیے قابل اعتماد ہونا چاہیے۔ سادہ الفاظ میں ایک عالمی کرنسی کی پشت پناہی کے لیے طاقتور سرمایہ دارانہ سیاسی ادارے درکار ہیں؛ پشت پر ”قانون (بورژوازی) کی حکمرانی“ موجود ہو اور ایک عالمی مالیاتی اور تجارتی تعلقات کے حوالے سے ایک مستحکم، مسلسل اور قابل پیش گو طریقہ کار موجود ہو۔

ان تمام معاملات میں ٹرمپ امریکی سرمایہ داری کی ساکھ مجروح کر رہا ہے۔ لیکن امریکہ کا کوئی بھی مخالف ان میں سے کئی شرائط پوری کرنے کا اہل نہیں ہے۔

یورپ کا ایک مخصوص وزن ہے۔ ڈالر کے بعد دنیا کی دوسری سب سے قابل اعتماد کرنسی یورو ہے۔ لیکن یورپی یونین ایک اکائی نہیں ہے۔ یہ درجنوں سرمایہ دار ممالک کا ایک اکٹھ ہے جو اکثر مختلف اطراف میں چلتا ہوا اپنے اپنے مخصوص مفادات کی بھاگ دوڑ میں لگا ہوتا ہے۔

یورپ کی ایک واحد منڈی اور مشترکہ کرنسی ہو گی لیکن اس کی معیشت اور مالیاتی نظام بکھرا ہوا ہے۔ یعنی مجموعی طور پر ان حقائق کی روشنی میں یورو ڈالر کا متبادل نہیں بن سکتا۔

یہی مسائل دیگر بلاکوں جیسے BRICS (برازیل، روس، انڈیا اور چین) کو لاحق ہیں، لیکن ان مسائل کا حجم اور بھی دیوہیکل ہے کیونکہ یہ تمام بلاک غیر سرکاری، ڈھیلے ڈھالے اور مبہم ہیں۔

اس دوران چین کے پاس کرنسی کی وہ گردش، اعتماد اور آزادی موجود نہیں ہے جو عالمی سرمایہ کاروں کی بنیادی ضرورت ہے۔ مثلاً بیجنگ ریاست سختی سے پیسوں کی اندرونی، بیرونی اور سرحد پار گردش کو کنٹرول کرتی ہے جس سے یوان اور چینی اثاثوں کی ڈالر کے مقابلے میں اپیل متاثر ہوتی ہے۔

ڈالر زدہ عالمی مالیاتی نظام واضح طور پر کمزور اور تحلیل ہو رہا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی حدود میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو اس کی جگہ لے سکے۔

اس لیے فوری طور پر ڈالر کا عالمی متبادل پیدا ہونے کے کوئی امکانات موجود نہیں ہیں۔ لیکن اس کی کمزوری اور تحفظاتی پالیسیوں کا اجراء عالمی معیشت کا شیرازہ بکھیرنے کا عمل تیز تر کر رہا ہے۔۔ پیداوار، تجارت اور مالیات کی متحارب بلاکوں میں تقسیم اور ان کے مرکز میں بیٹھی متحارب سامراجی قوتیں۔

اس سے سرمایہ دارانہ نظام کی مشینری میں مزید زنگ لگے گا۔۔ معاشی کارکردگی متاثر ہو گی؛ افراط زر مزید بڑھے گا اور نتیجتاً معیار زندگی مزید تباہ و برباد ہو گا۔

عالمی معیشت کا منظر نامہ جنگوں کے درمیانی عرصے کی تصویر بن جائے گا۔۔ تقسیم زدہ، دراڑوں اور تضادات سے بھرپور کیونکہ پرانی سامراجی قوت انحطاط پذیر ہے؛ پرانا نظام دم توڑ رہا ہے اور نیا سماج پیدا ہونے کی جدوجہد کر رہاہے۔

کثیر قطبی دنیا (Multipolar world)

بعد از جنگ عالمی نظام کے دیگر ستونوں کی طرح موجودہ مانیٹری اور مالیاتی نظام ایک رات میں منہدم نہیں ہو گا۔ لیکن اس کا انحطاط اور گلنا سڑنا سرمایہ داری کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دے گا جس سے پورا نظام مزید عدم استحکام کا شکار ہوتا جائے گا۔

اس کا اظہار سامراجی قوتوں کے درمیان مسلسل بڑھتی مسابقت اور تمام ممالک میں طبقاتی جدوجہد میں مسلسل تیزی سے ہو گا۔

پوری صورتحال ایک ”کثیر قطبی“ کیفیت سے لبریز ہے جس کا عالمی تعلقات میں اظہار واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔

عسکری طور پر امریکی سامراج آج بھی دنیا کا طاقتور ترین اور رجعتی ترین سامراج ہے۔ لیکن اس کا نسبتی انحطاط اس بات کا اقرار ہے کہ اب اس میں دنیا کا مزید تھانیدار بننے کی اہلیت ختم ہو چکی ہے، منافعوں، منڈیوں اور حلقہ اثر و رسوخ کے حصول کے لیے اب بدمعاشی کی اہلیت ختم ہو رہی ہے۔

اس کے ساتھ امریکی سامراج پوری دنیا میں کئی مقامات پر تزویراتی پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوا ہے تاکہ ”قریبی خطوں“ میں اپنے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ یہ ٹرمپ کی ”سب سے پہلے امریکہ“ پالیسی کی خارجہ پالیسی کی حقیقت ہے۔

اس کے ساتھ امریکی پسپائی نے مشرق وسطیٰ اور وسطی افریقہ سمیت کئی علاقوں میں دیوہیکل خلاء چھوڑ دیا ہے اور دیگر سرمایہ دارانہ قوتیں جیسے چین، روس، ترکی اور عرب امارات اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سامراجی عزائم کو آگے بڑھا رہی ہیں۔

اس کا نتیجہ بہتر تزویراتی استحکام کے برعکس عدم استحکام میں مسلسل اضافہ ہے۔۔ منڈیوں اور وسائل کے لیے زیادہ شدید مسابقت؛ زیادہ استحصال، جنگیں، مایوسی اور بربریت۔

ڈالر کا انحطاط معاشی سطح پر ایسی ہی پرانتشار صورتحال کو جنم دے رہا ہے۔

امریکی سامراج ماضی کی طرح عالمی تجارت اور فنانس کا مرکز نہیں رہا؛ یہ اب بکھرتی سرمایہ داری کا بوجھ اٹھانے کا مزید اہل نہیں ہے۔

اس کے ساتھ ایک ”کثیر قطبی“ دنیا میں سیارے کی دیوہیکل سامراجی قوتوں کی آپسی لڑائی میں بھی استحصال زدہ اور جبر کی شکار عوام کے لیے کوئی نجات نہیں ہے۔

واحد حل انقلابی ہے جس کا مقصد اس گلے سڑے غلیظ نظام کا خاتمہ ہو۔

عالمی انقلاب زندہ باد!

1930ء کی دہائی میں سونا معیار اور 1970ء کی دہائی میں بریٹن ووڈز معاہدے کا انہدام ہو یا آج ڈالر کا انحطاط ہو؛ یہ واضح ہے کہ سرمایہ داری کا ہر بڑا نامیاتی بحران موجودہ دور میں رائج مانیٹری اور مالیاتی نظام کے بحران میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔

لیکن ماضی میں ان زمانہ ساز بحرانوں سے نیا معاشی نظام تخلیق ہو جاتا تھا؛ ایک نیا استحکام جس کی بنیاد قوتوں میں تبدیل شدہ توازن ہوا کرتا تھا۔

لیکن آج تناظر عدم استحکام، انتشار اور غیر یقینی کا ہے؛ یعنی ایک ایسی دنیا جو اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔

اس کے ساتھ پچھلے عہدوں میں پرانے نظام سے نئے نظام میں تبدیلی کا دور باغیانہ جدوجہدوں اور انقلابات کا پرانتشار دور ہوتا تھا جس میں سرمایہ داری کی سالمیت پر محنت کش طبقہ سنجیدہ سوال کھڑے کر دیتا تھا۔ اسی طرح جبری کٹوتیوں کے اس دور میں اگلے کئی سال یہی صورتحال رائج رہے گی۔

موجودہ بحران سرمایہ دارانہ منڈی کے انتشار اور پیداواری قوتوں کی مزید بڑھوتری کے راستے میں حائل رکاوٹوں کا اظہار ہے؛ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور قومی ریاست کی حدود۔

جب تک معیشت پر کلیدی کنٹرول بینکاروں اور مالکان کا ہو گا اور پیداوار کو منافع، مسابقت اور قومی سرحدوں کی جکڑ بندیوں کا سامنا ہو گا اس وقت تک امن اور استحکام کا سوچنا بھی بیکار ہے۔

آگے بڑھنے کا راستہ تاریخ کو دہرانے سے روشن نہیں ہو گا، ایک ایسا وقت جب آزاد تجارت اور ڈالر کی حاکمیت کامل تھی جیسے لبرلز اور اصلاح پسند واویلا مچائے رکھتے ہیں۔ نہ ہی یہ راہ تحفظاتی پالیسیوں اور معاشی قومیت سے ہو کر گزرتی ہے۔ یہ دونوں پوزیشنیں یکساں رجعتی ہیں۔

اسی طرح سرمایہ داری کی بنیاد پر ایک کنٹرول زدہ عالمی کرنسی یا کریپٹو کرنسی یا ڈیجیٹل سکوں کی بنیاد پر ایک مانیٹری نظام کا مطالبہ مکمل طور پر یوٹوپیائی مطالبات ہیں۔

ایک عالمی سوشلسٹ منصوبہ بندی جس کی بنیاد اشتراکی ملکیت اور محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول ہو، مالیاتی نظام کو ایک حقیقی ”عوامی فلاح و بہبود“ میں تبدیل کر سکتی ہے؛ ایک ایسا اوزار جو حقیقی طور پر انسانیت کے لیے فائدہ مند اور سود مند ہو۔۔ سماج کے معاشی وسائل کو بامقصد طریقہ کار سے بروئے کار لایا جائے اور استعمال کیا جائے تاکہ ارب پتیوں کی اندھا دھند منافع خوری کے برعکس انسانی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

ڈالر کی بنیاد پر عالمی مالیاتی نظام کو 80 سالوں میں تخلیق کیا گیا ہے۔ پھر اس کی تخلیق اور ارتقاء شعوری کے برعکس تجربیت کی بنیاد پر ہوا ہے۔ آج سرمایہ داری کے تحت اس کے علاوہ اور کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔

اصلی بریٹن ووڈز معاہدہ پہلے ہی ایک پیوند زدہ نظام تھا اور اِس وقت سے یہ مالیاتی گنجھل مسلسل پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس پیچیدہ مالیاتی نظام کو کھولنا اور اس کو ایک نئے منطقی، مستحکم نظام میں تبدیل کرنا سرمایہ داری میں ناممکن ہے۔

اس کے برعکس دنیا کے محنت کشوں کو اس گنجھلک گرہ کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے کاٹنا ہو گا۔

Comments are closed.