عوامی اداروں کی ان بنڈلنگ اور نجکاری

|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|

گزشتہ تین دہائیوں میں آئی تمام حکومتوں کی طرف سے آئی ایم ایف کی نجکاری کی پالیسی کو پاکستا ن میں نافذ کرنے کے لئے ہر قسم کے اقدامات کئے گئے ہیں۔ اسی سلسلے میں موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی نجکاری کے عمل کو تیز تر کر دیا ہے۔ عوامی اداروں کی نجکاری کے لئے حکومتوں کی طرف سے استعمال کردہ حربوں میں سے ایک کسی ادارے کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنا ہے جو کہ پہلے ہی کچھ عوامی اداروں پر عمل میں لایا گیا ہے جیسے کہ واپڈا جسے مختلف کمپنیوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا اور اب ان کو مزید خود مختار ی دے کر نجکاری کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اس طرح اس حکومت نے بھی اس اقدام کو مزید کئی عوامی اداروں میں نافذ کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے جس کی واضح مثال پاکستان سٹیل ملز ہے جہاں سے حال ہی میں 45 سوملازمین کو جبری برطرف کر دیا گیا ہے جبکہ بقیہ ماندہ کو بھی جلد بیروزگار کر دیا جائے گا۔

پاکستان سٹیل ملز کو دو عدد کمپنیوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے جو کہ’کور‘ اور’نان کور‘ کاموں کی بنیاد پر ہوں گی۔ کور ڈیپارٹمنٹ میں پلانٹ کے تمام پروڈکشن یونٹ شامل ہیں اور نان کور میں تمام سروسز ڈپارٹمنٹس شامل ہیں۔ کور ڈپارٹمنٹ میں تقریباً 40 عمارتیں شامل ہیں۔ جبکہ نان کور میں مندرجہ ذیل عمارتیں شامل ہیں:
1۔ سٹیل ٹاؤن کے چھ ہزار گھر
2۔ سو بستروں پر مشتمل ورکرز کا ویلفیئر ہسپتال
3۔ ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ، جس میں کئی سکول و کالجز شامل ہیں بشمول ایک کیڈٹ کالج کے
4۔ گیسٹ ہاؤس، جو کہ 2 سو کمروں پر مشتمل ایک تین منزلہ عمارت ہے
5۔ آشیانہ کمیٹی سنٹر اور پارکس، جو کہ شادی وغیرہ کی تقریبات کے لئے بک کئے جاتے ہیں

اب پلان اس طرح کیا جا رہا ہے کہ کور کمپنی جس میں پروڈکشن پلانٹ کا 1200 ایکڑ رقبہ شامل ہے، اسے کسی نجی کمپنی کو بیچا جائے گا۔ جبکہ نان کور کمپنی پاکستان سٹیل ملز رہ جائے گی، سٹیل ملز کے تمام واجبات اور ملازمین اسی کمپنی کے کھاتے میں آئیں گے۔ اس کمپنی کے پاس سٹیل ملز کی زمین، جو کہ 19 ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے، میں سے تقریباً 17 ہزار 8 سو ایکڑ ہو گا۔ اس زمین میں سے 15 ہزار ایکڑ کمرشل بنیادوں پر بیچا جائے گا، 1 ہزار ایکڑ حکومت کو وزیر اعظم ہاؤسنگ سکیم کے لئے دیا جائے گا اور باقی ماندہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کوڈویلپمنٹ کے نام پر دیا جائے گا۔

ملازمین کو نان کور ڈپارٹمنٹ میں رکھ کر ان کی نوکری کے جواز کو ختم کر دیا گیا ہے، یعنی اگر ایک کمپنی کے پاس پر وڈکشن نہیں ہے تو اس کو ملازمین رکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اور کیوں کہ یہ ملازمین مستقل تھے اس وجہ سے پلانٹ کو خریدنے والی کمپنی ان کی جگہ کنٹریکٹ ملازمین کو ہی رکھنا مناسب سمجھے گی جس وجہ سے اس وقت ملازمین کی جبری بر طرفیاں شروع ہو چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نجی کمپنی کو ٹیکس کی بھی مکمل چھوٹ دی جائے گی۔ ملازمین کو حکومت کی طرف سے 19 ارب 68 کروڑ دیا جا رہا ہے جو کہ درحقیقت ان کے واجبات ہی ہیں یعنی پراویڈنٹ فنڈ، جی پی فنڈ وغیرہ، جو کہ ملازمین کی اپنی تنخواہوں سے ہی کٹا ہوا ہے اور وہ بھی 2011ء کی تنخواہ کی بنیاد پر، یعنی بعد میں ملنے والا تنخواہوں میں اضافے کوحساب میں لیا ہی نہیں جا رہا۔

حکومت اس نجکاری اور ملازمین کی برطرفیوں کی وجہ اداروں کا خسارہ بتا رہی ہے جبکہ اگر صرف سٹیل مل کے خسارے کی بات کی جائے تو اس کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے، سال 2000ء تک سٹیل مل ایک منافع بخش ادارہ تھا، یہاں تک کہ اس ادارے نے لاہور میں ایک بند پلانٹ کو خرید کر اس کو چلایا۔ لیکن 2005ء میں مشرف حکومت نے ادارے کی انتظامیہ تبدیل کی اور نئی انتظامیہ نے اعلیٰ کوالٹی کے تیار شدہ سٹیل کو خود B گریڈ کا کہہ کر مارکٹ میں بیچا اور ادارے کو اربوں روبے کا نقصان پہنچایا اس کے بعد سے ادارہ کبھی خسارہ سے باہر نہ آسکا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد ادارے کا نیا چیئرمین لایا گیا جس نے بتدریج ادارے کی پیدا وار کو اس کی انسٹالڈ پیداواری صلاحیت سے کم کیا، یہاں تک کہ مل پیداواری صلاحیت کے صرف 15 فیصدتک پیداوار دینے لگی، جبکہ کم ازکم ادارے کو بریک ایون پر چلانے کے لئے 60 فیصد تک پیداوار لازمی تھی۔ اس کے بعد سی پیک منصوبے کے تحت لگنے والے تمام منصوبوں میں نہ صرف چین سے درآمد شدہ سٹیل استعمال کرنے کے معاہدے کئے گئے بلکہ چینی سٹیل پر امپورٹ ڈیوٹی نہایت کم کرکے اسے ڈمپنگ کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ 2015ء میں مسلسل خسارے کا بہانہ بنا کر پیداوار بند کردی گئی اور پھر ملازمین کی تنخواہوں کو کئی کئی ماہ کے وقفے سے قرض کے طور پر حکومت کی طر ف سے دیا جانے لگا اور آج اس عوامی ادارے کو، جو تمام صنعتوں کی ماں کہلاتا تھا، برباد کر کے کوڑیوں کے مول بیچا جارہا ہے۔

یہ ایک مثال ہے اور یہی اسلوب تمام حکومتوں کا باقی اداروں کے ساتھ بھی رکھا گیا جسے اب نام نہاد تبدیلی سرکار پہلے کبھی نہ دیکھی گئی پھرتی کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان ریلوے، پی آئی اے، سوئی ناردرن اور دیگر اداروں کو اسی طریقے سے چھوٹے چھوٹے حصے کر کے بیچنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ ریلوے کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جارہا ہے جس میں سے جو منافع بخش حصہ ہے اسے نجی کمپنیاں چلائیں گی جس میں مسافر اور سامان بردار ٹرینیں شامل ہیں جو کہ ریلوے کا اصل کام ہے۔ حکومت صرف پٹریوں، انجنوں اور بوگیوں کی مرمت کا کام کرے گی جس کے ایک بڑے حصے کو بھی نجی کمپنیوں کو آؤٹ سورس کرنے کا پلان ہے۔ اسی طرح، پی آئی اے کے لئے بھی واضح ا علان 21 نومبر کو مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات اور کفایت شعاری ڈاکٹر عشرت حسین نے کیا ہے کہ اس ادارے کو تقسیم کر کے نجی کمپنیوں کو بیشتر کاموں کے ٹھیکے دیے جائیں گے جبکہ 7 ہزار ملازمین کو برطرف کر دیا جائے گا۔

اس وقت یہ عوام دشمن حکومت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سامراجی پالیسیوں کو محنت کش طبقے پر بزور طاقت نافذ کر نے پر تلی ہوئی ہے اور معاشی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش عوام کے کاندھوں پر ڈالنا چاہتی ہے۔ لیکن محنت کش طبقہ حکمران طبقے کے ناپاک عزائم کو پہچان چکا ہے اور اس کے خلاف نبرد آزما ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ محنت کش طبقے کو مزید منظم ہو کر اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لینے کی ضرورت اور تا کہ طبقاتی جڑت بناتے ہوئے ایک مشترکہ نجکاری مخالف تحریک کا آغاز کیا جا سکے جو اس خون آشام پالیسی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرا دے۔

Comments are closed.