گوجرانوالہ: واسا ملازمین زندگیاں خطرے میں ڈال کر کام کرنے پر مجبور، انتظامیہ بے حِس

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، گوجرانوالہ|

گوجرانوالہ میں واسا ملازمین بد ترین حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں جس کے باعث ان کی زندگیاں شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ اکتوبر میں ایک ملازم سیمسن اسی باعث شہیدبھی ہو چکا ہے اور اس کے ورثا کا کوئی پرسان حال نہیں۔سیفٹی کِٹ کی عدم دستیابی، علاج کی عدم فراہمی، ورک فورس کی کمی کے باعث کام کا بڑھتادباؤ،تنخواہوں میں جابرانہ کٹوتیاں، انتظامیہ کی بے حسی اور بڑھتے جبر کے باعث واسا ملازمین بد ترین مظالم کا شکا ر ہیں۔

گزشتہ روز واسا یونین آفس میں یونین قیادت کی ریڈ ورکرز فرنٹ کے ایک وفد سے ملاقات ہوئی جس میں یونین قیادت نے ملازمین کو درپیش مسائل پر کھل کر گفتگو کی۔

ملاقات میں یونین کے صدر سہیل سہوترا بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ جنرل سیکرٹری رانا توقیر، سرپرست جہانزیب چٹھہ، طارق وسیم ڈار اور دیگر بھی موجود تھے۔ ریڈ ورکر فرنٹ کی جانب سے صبغت وائیں اور آدم پال موجود تھے جبکہ گوجرانوالہ کے معروف صحافی اور مزدور راہنما ڈاکٹر عمر نصیر بھی اس موقع پر خصوصی طور پر موجود تھے۔

یونین قیادت نے انتظامیہ کی بے حسی اور جابرانہ ہتھکنڈوں کو کھل کر بیان کیا اورکہا کہ یونین ملازمین کے مسائل کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ دیگر اداروں کے محنت کشوں سے یکجہتی کے لیے اپیل بھی کر رہی ہے۔

اس وقت گوجرانوالہ کے واسا ملازمین کے پاس جدید سیفٹی کِٹ موجود نہیں جبکہ انتظامیہ کے افسران انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ بغیر کِٹ کے گٹر کے غلیظ پانی میں اتر کر صفائی کا کام کریں۔

سیفٹی کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور افسران اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے ملازمین کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے گزشتہ اکتوبر میں ایک ملازم سیمسن گٹر کی صفائی کے دوران شہید بھی ہو گیا تھا۔

28 سالہ یہ نوجوان واسا کا ملازم تھا اور اسے انتظامیہ کی جانب سے مجبور کیا گیا کہ وہ بغیر سیفٹی کِٹ کے گٹر میں اتر کر صفائی کرے۔

گو کہ تجربہ کار ملازمین جانتے تھے کہ اس گٹر میں زہریلی گیسیں موجود ہیں اور یہ سیمسن کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔لیکن افسران کے مسلسل دباؤ کے باعث وہ جب صفائی کے لیے گٹر میں اترا تو اترتے ہی اس کا دم گھٹ گیا اور وہ موقع پر ہی شہید ہو گیا۔ اس کے بعد اس کو بچانے کے لیے ایک دوسرے ملازم کو بھیجا گیا تو وہ بھی بے ہوش ہو گیا جسے انتہائی مشکل سے واپس نکالا گیا جبکہ سیمسن کی نعش کو نکالنے کے لیے ریسکیو کی مدد طلب کی گئی۔

یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ اکیسویں صدی میں جب موبائیل فون اور کمپیوٹر تک دسترس عام ہو چکی ہے اس وقت بھی یہاں ملازمین انتہائی پسماندہ طریقوں سے کام پر مجبور ہیں۔

جو ملک ایٹمی طاقت ہونے پر فخر کرتا ہے وہاں اس ملک کے مزدور دشمن حکمران ابھی تک گٹر کی صفائی کرنے کے لیے کوئی جدید طریقہ کار مہیا نہیں کر سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر مزودر کی زندگی سب سے زیادہ سستی ہے۔

یہاں پر افسران کی گاڑیوں، بنگلوں اور دیگر مراعات پر تو کروڑوں، اربوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں، ڈپٹی کمشنر سے لے کر گورنر اور صدر، وزیر اعظم کی رہائش کے لیے تو دنیا کی جدید ترین سہولیات موجود ہیں لیکن اس ملک میں گٹر کی صفائی جیسے بنیادی نوعیت کے کام کے لیے کوئی سائنسی طریقہ کار موجود نہیں۔ آج بھی واسا کے ملازمین کو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گٹر کے غلیظ اور بدبودار پانی میں بغیر کسی خصوصی لباس اور ہیلمٹ کے اترنا پڑتاہے اور اپنے ہاتھوں سے گٹر کی صفائی کرنی پڑتی ہے۔

اس کے علاوہ ان ملازمین کے لیے سب سے اہم اوزار ایک لمبا بانس کاہوتا ہے جس کا ایک سرا گٹر کے اندر گھسانا پڑتا ہے اور دوسرے سرے سے اس کو دھکیلنا پڑتا ہے تاکہ وہاں پر کسی بھی رکاوٹ کو دور کیا جا سکے۔

جس وقت اس ملک کے حکمران اپنے جدید میزائیلوں کی نمائش کر رہے ہوتے ہیں، چاک و چوبند فوجی دستوں سے سلامی لے رہے ہوتے ہیں اور دشمنوں کی کمرتوڑنے کے اعلان کر رہے ہوتے ہیں اس وقت اس ملک میں واسا کے ملازمین گٹر میں اتر کر اپنے برہنہ ہاتھوں سے سیوریج کا بوسیدہ نظام کسی نہ کسی طرح چالو رکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اس عمل میں ہر سال بہت سے ملازمین شہید بھی ہوجاتے ہیں لیکن اس ملک کے گماشتہ حکمرانوں کو نہ اس کی پرواہ ہے اور نہ اس بوسیدہ نظام کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کا کوئی منصوبہ ہے۔

یونین قیادت نے بتایا کہ سمیسن کے ورثا کوکسی بھی قسم کا سرکاری اعزاز یاخصوصی پیکج دینا تو دور کی بات ابھی تک اس کے بقایا جات اس کی بیوہ کو نہیں مل سکے اور وہ ابھی تک دفتروں کے چکر لگا کر ایڑیاں رگڑ رہی ہے اور اس کے بچے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ جو ملازم سیمسن کو بچاتے وقت بیہوش ہوا تھا وہ مستقل طور پر بیمار ہو چکا ہے لیکن اس کے علاج کی کوئی سہولت فراہم کرنا تو درکنار اس کو بیماری کی چھٹی بھی نہیں دی جاتی اور جبری طور پر اس کی تنخواہ میں کٹوتی کی جاتی ہے۔

یونین نے مطالبہ کیا کہ جس طرح پولیس، فوج اور دیگر محکموں میں ڈیوٹی کے دوران ہلاک ہونے والے ملازمین کو خصوصی پیکج دیے جاتے ہیں ویسے ہی واسا ملازمین کو بھی دیے جائیں اور انہیں سرکاری اعزا ز سے بھی نوازا جائے۔

یونین قیادت نے یہ بھی بتایا کہ ملازمین کے علاج کے لیے کوئی محکمانہ سہولت موجود نہیں۔ اکثر ملازمین جلد کی بیماریوں سمیت، ہیپاٹائٹس اور دیگر موذی امراض کا شکار ہیں لیکن محکمے کی جانب سے علاج معالجے کی کوئی باقاعدہ سہولت موجود نہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ پولیس، فوج، واپڈا اور دیگر محکموں کی طرز پر انہیں بھی علاج کی جدید سہولیات مفت مہیا کی جائیں اور تمام ملازمین کی سکریننگ فوری طور پر کروائی جائے تا کہ ان کا سائنسی طریقے سے علاج شروع کیا جا سکے۔ یونین قیادت نے یہ بھی کہا کہ اگر ضلعی انتظامیہ چاہے تو فوری اقدام لیتے ہوئے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں انہیں خصوصی پیکج کے تحت علاج کی سہولیات ترجیحی بنیادوں پرفراہم کی جا سکتی ہیں تاکہ واسا ملازمین تشخیص، علاج اور ادویات کی فراہمی تک رسائی جلد ازجلد حاصل کر سکیں۔

اس وقت واسا گوجرانوالہ میں سٹاف کی بھی شدید کمی ہے اور پانچ سو نئے ملازمین کی بھرتی کی ضرورت ہے لیکن عوام دشمن حکمران اپنی عیاشیوں میں مگن ہیں اور دن رات لوٹ مار کرر ہے ہیں جبکہ نئی بھرتیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔اسی وجہ سے موجودہ ملازمین پر کام کا شدید دباؤ ہے اور ایک آپریٹر کو ایک ہی وقت میں چارٹیوب ویل آپریٹ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔اسی طرح مون سون یا دیگر ایمرجنسی صورتحال میں کام کا دباؤ کئی گنا بڑھ جاتا ہے جس میں جان لیوا حادثے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

یونین کے دیگر اہم مطالبات میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ انہیں دفتری اوقات کے بعد جبری طور پر کام پر مجبور نہ کیاجائے۔ اور اگر کسی مخصوص ایمرجنسی میں ایسا کیا جائے تو انہیں باقاعدہ اوور ٹائم ادا کیاجائے یا اسے ہفتہ وار کام کے گھنٹوں میں شمارکیا جائے۔اکثر ایمرجنسی صورتحال میں انتظامیہ رات دیر تک ملازمین سے کام کرواتی ہے اور اگلے دن پھر صبح چھ بجے حاضری کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اگر ملازم صبح چھ بجے کام پر نہ پہنچے تو اس کی تنخواہ میں جبری طور پر کٹوتی کر لی جاتی ہے۔یونین نے مطالبہ کیا کہ کسی بھی ملازم کی کٹوتی صرف اس وقت کی جائے جب اس کے خلاف انکوائری مکمل ہو جائے۔

اس کے علاوہ واسا گوجرانوالہ میں دو سو ملازمین عارضی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ یونین انہیں ریگولر کروانے کی بھی کوشش کر رہی ہے تاکہ انہیں پنشن اور دیگر مراعات بھی حاصل ہو سکیں۔

ریڈ ورکرز فرنٹ نے یونین کے تمام مطالبات کی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ ان مسائل کے حل کے لیے یونین کے شانہ بشانہ جدوجہد کریں گے اور تما م رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے ملازمین کو ان تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کریں گے اور دیگر اداروں کے محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل بھی کریں گے۔

Comments are closed.