یمن کی بربادی اور مغربی سامراج کی مجرمانہ خاموشی

|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: ولید خان|

مغربی میڈیا آج کل شام کے شہر حلب میں ہونے والی تباہ کاریوں کی تصاویر دن رات نشر کر رہا ہے جبکہ یمن میں انسانی بربادی سے کم و بیش تمام میڈیا منہ موڑ ے ڈھیٹ بنا بیٹھا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ مغرب اپنی گردن تک یمن کے ہولناک المیے میں دھنسا ہوا ہے۔

saudi-led-coalition-air-strike-on-funeral-killed-hundreds

یمنی دارالحکومت صنعا میں ہونے والے ایک جنازے پر اتحادیوں کی فضائی بمباری کے نتیجے میں قریباً 200 لوگ ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ جنازہ ایک نامور حوثی رہنما کے والد کا تھا۔ اس جنازے میں چوٹی کے سیکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ کئی سو عام شہری بھی شامل تھے۔ ہلال احمر کے مطابق، جائے وقوعہ پر تین فضائی حملے کئے گئے جس کے نتیجے میں کچھ عینی شاہدین کے مطابق جگہ ’’خون کی جھیل‘‘ کا منظر پیش کر رہی تھی۔ ہلال احمر کے مطابق انہوں نے 300لاشوں کی تدفین کی تھی۔

To read this article in English, click here

سعودی قیادت میں بنے اتحاد نے اس بمباری سے لاتعلقی کا اظہار کیا حالانکہ اس علاقے میں کسی اور فضائی قوت کی موجودگی کا تصور ہی محال ہے۔ بہرحال، سعودیوں کی لیت و لعل کو اس کے اپنے ہی اتحادیوں امریکہ نے بے نقاب کر دیا ہے۔ نیشنل سیکورٹی کونسل کے نمائندے نیڈ پرائس کے جاری کردہ بیان کے مطابق، امریکہ سعودی قیادت میں بنے اتحاد کی حمایت کا ’’فوری طور پرواقعے کا جائزہ‘‘ لے گا اور اس میں ضروری تبدیلیاں کر تے ہوئے ’’امریکی اصولوں، روایات اور دلچسپیوں کے ساتھ بہتر ہم آہنگ کیا جا ئے گا‘‘۔
لیکن یہ نئی تباہ کاری جتنی بھی ہولناک ہو، اس میں اور پہلے سے سعودیوں کے ہاتھوں برباد ہوتے یمنیوں کو جن ہولناکیوں کا سامنا ہے ، کوئی فرق نہیں۔ مشرقی میڈیا حلب کے واقعات پر مسلسل مگرمچھ کے آنسو بہا رہا ہے جبکہ اسی اثنا میں یہ بتانا ضروری نہیں سمجھتا کہ حوثی علاقوں میں رہنے والے یمنی سعودیوں کی طرف سے لگائے گئے جبری محاصرے میں کس کیفیت میں ہیں۔ یہ خوفناک محاصرہ اور بھی زیادہ سنگین صورتحال کا حامل ہے کیونکہ اس کے شروع ہونے سے پہلے یمن پہلے ہی دنیا کے غریب ترین، پانی کی شدید قلت کا شکار اور پسماندہ ترین ملکوں میں سے ایک تھا جہاں 40فیصد آبادی غربت کا شکار تھی اور تازہ صاف پانی ایک عیاشی سمجھا جاتا تھا۔

سعودی جنگی کیمپین نے سویلین انفراسٹرکچر کو بری طرح حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ تمام بڑی سڑکیں، بندرگاہیں اور کلیدی انفراسٹرکچر برباد ہو چکا ہے جس کی وجہ سے زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی شدید مسائل کا شکار ہے۔ یہاں تک کہ ایک تہائی فضائی حملے غیر عسکری تنصیبات مثلاً سکولوں، ہسپتالوں، مساجد اور بازاروں پر کئے گئے ہیں۔ ماریب صوبے میں سِروہ کے ڈسٹرکٹ میں موجود ایک بازار پر اب تک 24 فضائی حملے کئے جا چکے ہیں۔ ستمبر 2015ء میں، تائز میں ایک شادی پر بمباری کے نتیجے میں 135 لوگ ہلاک ہوئے، اس سال اپریل میں حجہ صوبے کے ایک بازار میں 100 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے جبکہ ہائیفان صوبے میں نام نہاد جنگ بندی کے دوران بازار میں بم دھماکے میں 30 لوگ ہلاک ہو ئے ہیں۔ صعادہ کے صوبے میں، جہاں حوثیوں کی کافی حمایت ہے، غیر عسکری اور عسکری تنصیبات پر حملے کا تناسب 3:1 ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، کئی ہسپتالوں اور امدادی کیمپوں، بشمول Medecins Sans Frontieresکے ، پر تواتر سے بمباری ہو رہی ہے۔
لامتناہی عسکری حملوں کے ساتھ اتحادیوں نے شدید معاشی بندشیں لگا دی ہیں۔ اس کے علاوہ حوثی علاقے جہاں عوام کی زیادہ تعداد رہائش پذیر ہے، اس کی مکمل ناکہ بندی کر دی گئی ہے۔ سمندری ناکہ بندی کی وجہ سے مال بردار بحری جہاز باغیوں کے علاقوں میں زیادہ تر بندرگاہوں تک پہنچ نہیں پاتے۔ بہت ساری بندرگاہوں کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر برباد کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے جہاز بندرگاہوں پر لنگر نہیں ڈال سکتے اور نہ ہی سامان اتارا جا سکتا ہے۔ ۔ سوائے سعودی زیر تسلط علاقوں کے۔
جنگ کی وجہ سے کروڑوں لوگ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، 2.8 کروڑ کی عوام میں آدھے سے زیادہ شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ سب سے زیادہ خراب حالات بچوں کے ہیں جن میں سے لاکھوں کو غذائی قلت کی وجہ سے موت کا سامنا ہے۔ 3,70,000 بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور 15لاکھ بچے بھوک کا شکار ہیں۔
یونیسیف کے یمنی نمائندے میرٹ ریلانو کے مطابق’’یمن میں جاری جنگ کی وجہ سے عوامی مشکلات کا پیمانہ وحشت انگیز ہے۔ اندازاً2.12کروڑ لوگوں کو، جو کہ آبادی کا 80فیصد بنتے ہیں، فوری بنیادی امداد کی ضرورت ہے۔ جن کو امداد کی ضرورت ہے ان میں تقریباً آدھے بچے ہیں‘‘۔

یمن میں اقوام متحدہ کی انسانی امداد کے کوآرڈینیٹر جیمی میک گولڈرک نے سی این این کو بتایا کہ ’’یہ شاید دنیا کے بڑے ترین بحرانات میں سے ایک ہے لیکن یہ خاموش بحران کی طرح ہے، خاموش حالات اور بھولی بسری جنگ‘‘۔
جنگ کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کی وجہ سے امریکی اور برطانوی حکمران طبقہ سعودی جبر اور ہولناکیوں پر ’’تحفظات‘‘ کا اظہار کر رہا ہے۔ لیکن رویے میں اس بدلاؤ میں سے دوغلے پن کی بو آتی ہے۔ امریکی سامراج۔ ۔ اپنے پالتو پلے برطانیہ کے ساتھ۔ ۔ سعودی عرب اور مشرق وسطی کی ریاستوں کو بے پناہ اسلحہ فروخت کر رہا ہے۔ صرف پچھلے سال امریکہ نے مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو 33ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا۔ برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق، اوبامہ حکومت نے ’’اپنے دور حکومت کے آٹھ سالوں میں سعودی عرب کو 115ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کی پیش کش کی جو کہ پچھلی کسی بھی امریکی حکومت کی پیش کش سے سب سے زیادہ ہے‘‘۔
لیکن قصہ صرف یہیں نہیں ختم ہو جاتا۔ امریکی بحریہ یمن کی سمندری ناکہ بندی میں مستعدی سے حصہ لے رہی ہے اور امریکہ کی طرف سے لگائی گئی بینکاری کی پابندی تجارت کے اوپر ایک کلیدی قدغن ہے، خاص طور پر ان بنیادی اشیائے ضرورت پر جس کی عوام کو شدید ضرورت ہے۔
امریکی افواج جنگ کی رسد میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں خاص طور پر ہوائی جہازوں کو فضا میں ایندھن کی فراہمی میں۔ ملٹری ٹائمز کے مطابق، اس سال اگست تک امریکی ائر فورس نے یمن کی فضاؤں میں فضائی ایندھن فراہمی کیلئے 1,144 فلائٹس کی ہیں جن کے 9,793 گھنٹے بنتے ہیں اور 40,535,20 پاؤنڈ کا ایندھن فراہم کیا ہے جس سے 5,525 مرتبہ جہازوں کو ایندھن فراہم کیا گیا ہے۔ فضائی ایندھن دینے کا ایک ہی مقصد ہے کہ شدید بمباری کو مستقل جاری رکھا جائے تاکہ جنگی جہاز ایندھن بھرنے کیلئے ائرپورٹ پر ’’ وقت نہ ضائع کریں‘‘۔ فروری کے بعد سے سعوی عرب کو ری فیولنگ کے لئے امریکی سپورٹ میں 61فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی اور برطانوی جنگی ماہرین اور حاضر سروس فوجی سعودی کمانڈ سنٹروں میں جنگ کے پہلے دن سے موجود ہیں تاکہ سعودی بمباری کیمپین کیلئے اہداف کی نشاندہی کی جا سکے۔
امریکہ اور برطانیہ، خود گولی چلانے کے علاوہ اس جنگ کے ہر مرحلے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ صرف اس لئے کہ گلے سڑے شاہی خاندان کو خوش رکھا جا سکے جو خود اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ سی این این سے بات کرتے ہوئے چانتھام ہاؤس کے پیٹر سالسبری نے معاملات کی نازکی کو انتہائی نپے تلے الفاظ میں بیان کیا کہ

’’یمنی جنگ ابھی تک علاقائی ہے صرف اس وجہ سے کہ کوئی کلیدی انٹرنیشنل حمایتی دوسری طرف جنگ کی پشت پناہی نہیں کر رہاہے۔ امریکیوں اور برطانیوں کے یمن میں کوئی خاص سامراجی عزائم نہیں ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے سعودیوں کی پشت پناہی کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کیلئے یمن میں دلچسپی بس اتنی ہے کہ سعودی خوش رہیں اور مشرق وسطی میں ایک طرح کا استحکام قائم رہے۔ ‘‘

’’بنیادی طور پر، مغرب کے پالیسی ساز دنیا کو ایک بہت بڑی رسک(ایک مغربی بورڈ کھیل) کے کھیل کی طرح دیکھتے ہیں اور وہ یمن کے معاملے میں برے امیج سے جان چھڑوانے کے مقابلے میں سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں‘‘۔

جب ایک صحافی نے امریکی نمائندے جان کربی سے یہ پوچھا کہ یمن میں امریکی بمباری اور حلب میں روسی بمباری میں کیا فرق ہے تو کربی نے جواب دیا کہ سعودیوں کو ’’اپنے دفاع کی اشد ضرورت ہے‘‘۔ جب اس سے کہا گیا کہ اس موقف پر ذرا تفصیلی روشنی ڈالی جائے تو کربی پھنس گیا۔ اس مکالمے کو یہاں بیان کرنا ضروری ہے(ویڈیو یہاں دیکھیں):
سوال: ٹھیک ہے۔ ۔ لیکن آپ نے کہا کہ سعودی اپنا تحفظ کر رہے ہیں۔ کیا یہ۔ ۔ یہ والا نہیں۔ ۔
کربی: وہ تھے۔ ۔ دیکھو، وہ۔ ۔
سوال: خاص طور پر یہ بات، لیکن مکمل۔ ۔ اپنی پوری حالت میں
کربی: انہیں یمنی حکومت نے دعوت دی۔ سعودیوں کے زیر کمان اتحادیوں کو یمنی حکومت نے دعوت دی۔ اب، مجھے پتہ ہے کہ آپ کیا کہیں گے: اچھا، روسیوں کو توشام نے دعوت دی، اسد نے دعوت دی تاکہ۔ ۔
سوال:نہیں،نہیں۔ نہیں،نہیں،نہیں،نہیں،نہیں۔
کربی: مجھے پتہ ہے۔ میں کوئی یہاں بہت زیادہ لمبی چوڑی تاریخی تشبیہ نہیں بنا رہا۔
سوال: میں یہ نہیں کہہ رہا تھا۔ ۔ میں یہ نہیں۔ ۔ یہ
کربی: لیکن وہ۔ ۔ ہاں وہ۔ ۔ ہاں، انہیں یمنی حکومت نے دعوت دی تھی اور وہ اپنی طرف سے بھی حقیقی خطرات میں تھے۔ ۔ اپنے بارڈر کی یمنی سائیڈ سے
جوابات واضح طور پر سامنے ہیں: ہزاروں، لاکھوں معصوم یمنیوں کے قتل کیلئے امریکی پشت پناہی کی کوئی خاص وجہ نہیں۔ یمن میں جنگ کا آغاز شاہ سلمان اور اس کے بیٹے محمد بن سلمان نے شدید عجلت میں کیا تاکہ اپنی راجدھانی میں موجود وہابی پاگلوں کو خوش کیا جا سکے اور عالمی طور پر اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دیا جا سکے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ امریکہ نے کبھی اس جنگ کی حمایت نہیں کی لیکن اس سے امریکی سرد مہری اور بھی زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔ حوثیوں کا ابھار ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں ہوا جبکہ ’’سرکاری طور پر منظور شدہ‘‘ ہادی حکومت کی کوئی خاص حمایت موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے حامی، جن میں مختلف قسموں کے علیحدگی پسند اور اسلامی انتہا پسند گروہ شامل ہیں، انہوں نے ہمیشہ اپنے اتحاد کی عارضی ہیت کا پرچار کیا ہے۔ جنازے پر بمباری، ڈیڑھ سال کی تباہ کن بمباری کے بعد، صرف ایک ہی کام کرے گی اور وہ یہ کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے خلاف مزید نفرت بڑھے گی جبکہ حوثیوں کی حمایت اور زیادہ بڑھے گی، خاص طور پر شمال میں۔ جلد یا بدیر، پیسہ اور وقار، جسے سعودی عرب پانی کی طرح بہا رہا ہے، اس کی شدید کمی کے باعث سعودیوں کو پسپائی اختیار کرنی پڑے گی جس کے نتیجے میں اس علاقائی رجعتی ریاست کا شیرازہ اور تیزی سے بکھرے گا اور اس کی مکمل تباہی یقینی ہو جائے گی۔