گوادر: ”گوادر کو حق دو“ تحریک کی حمایت میں خواتین کی تاریخی احتجاجی ریلی

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|

”گوادر کو حق دو“ تحریک جس کا نام اب ”بلوچستان کو حق دو“ رکھ دیا گیا ہے، کی جانب سے 15 نومبر 2021ء سے گوادر کے پورٹ روڈ پر جاری دھرنے کی حمایت میں 29 نومبر کو سینکڑوں خواتین نے گوادر میں احتجاجی ریلی نکالی جسے شہر کی تاریخ میں خواتین کی سب سے بڑی ریلی قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ شرکاء کی تعداد کے لحاظ سے اس ریلی کو نہ صرف گوادر بلکہ بلوچستان کی تاریخ کی سب سے بڑی خواتین ریلی قرار دیا جاسکتا ہے۔

یاد رہے کہ گوادر کے عوام پچھلے کچھ سالوں سے بنیادی سہولیات جیسے پانی، بجلی، صحت و تعلیم کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔ عام عوام کا کہنا ہے کہ سی پیک کے جگمگاتے خواب نے ان کو دو وقت کی روٹی حاصل کرنے سے بھی محروم کر دیا ہے۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ جب سے یہ نام نہاد ترقی کا پراجیکٹ شروع ہوا ہے ان سے ان کا مقامی روزگار جسے عام لفظوں میں ماہی گیری کہتے ہیں، بھی چِھن چکا ہے۔

ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں کے فشنگ ٹرالرز (ایک بڑا جہاز ایک ہی چکر میں کئی ٹن مچھلیوں کو انڈوں سمیت پکڑ لیتا ہے) نے مچھلیوں کی نسل کشی اور مقامی ماہی گیروں کو فاقہ کشی سے زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا ہے، ساتھ ہی متعدد اقسام کی نایاب مچھلیوں کی نسل کشی کی گئی ہے، جو اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ذیل مطالبات کے گرد پچھلے کچھ عرصے سے ”گوادر کو حق دو“ کے بینر تلے ماہی گیروں نے پورٹ روڈ پر دھرنا دیا ہوا ہے جو تاحال جاری ہے۔

1۔ ٹرالنگ پر مکمل پابندی کا عملی نفاذ
2۔ سیکورٹی چیک پوسٹوں کا خاتمہ
3۔ مکران بھر میں شہریوں کی تذلیل کا خاتمہ
4۔ بارڈر ٹریڈ پر روک ٹوک اور کمیشن و ٹوکن کا خاتمہ
5۔ بنیادی شہری و انسانی حقوق کی بحالی
6۔ ریاستی جبرو استبداد کاخاتمہ
7۔ سی پیک کی اولین ترجیحات کو مقامی لوگوں کے موافق استوار کرنا
8۔ ڈرگ مافیا پر پابندی
9۔ بلوچ مسنگ پرسنز کی ماورائے عدالت گمشدگی کو بند کرنا
10۔ بلوچ مسنگ پرسنز کو بازیاب کرنا
11۔ منشیات کا مکران بھر میں خاتمہ نیز ان کے مقامات سیل کرنا اور آئین و قانون کے تحت سزا دینا
12۔ گوادر میں یونیورسٹی کا قیام
13۔ جدید آلات سے آراستہ ہسپتال کا قیام اور ڈاکٹرز کی دستیابی کو ممکن بنانا

گوادر کے ماہی گیروں کی حق دو تحریک کو پورے بلوچستان میں پزیرائی مل رہی ہے، جس سے بلوچستان کے کئی علاقوں جیسے تربت، پسنی جیونی، آواران، پنجگور سے لوگوں نے گوادر دھرنے میں شرکت کی ہے اور ابھی تک کئی دوسرے اضلاع سے بھی لوگ اس دھرنے میں شرکت کرنے آرہے ہیں۔

”بلوچستان کو حق دو تحریک“ کی جانب سے پچھلے ہفتے پورے مکران ڈویژن میں مکمل شٹر ڈاؤن کی کال دی گئی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تربت، گو ادر، پسنی، اورماڑہ، جیونی اور پنجگور مکمل بند تھے۔

دھرنے میں مذاکرات کے لیے حکومت کی طرف سے ایک وفد بھی بھیجا گیا تھا جس سے مذاکرات ایک دفعہ ناکام ہوگئے تھے۔ دوسری دفعہ وہ ایک نوٹیفکیشن کے کاغذات کے ساتھ پہنچے جس میں دو مطالبات منظور ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی، ان میں ایک ٹرالرز مافیا پر پابندی، جو لوگوں کا کہنا ہے ابھی تک آزاد سمندر میں مچھلیوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں، اور دوسرا بارڈر ٹریڈ پر ٹوکن سسٹم (ایک ٹیکس جو فورسز کی جانب سے لیا جاتا ہے، فی گاڑی ایک چکر کا پچاس ہزار کے قریب ادا کرتی ہے) کا خاتمہ شامل تھا۔

لیکن عوام کی جانب سے دیگر مطالبات کی منظوری کے ساتھ ساتھ نوٹیفکیشن والے مطالبات پر عمل در آمد تک دھرنا جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پیر کے دن پورے گوادر کی خواتین کی جانب سے دھرنے کی حمایت میں ایک بڑی ریلی نکالی گئی جس میں ہزاروں کے تعداد میں خواتین اور بچوں نے پرجوش نعروں کے ساتھ شرکت کی، ریلی کے شرکاء نے میرین ڈرائیو پر الجوہر پبلک سکول سے لے کر جی ڈی اے پارک تک پیدل مارچ کیا جس کے بعد یہ ریلی جلسے کی صورت میں تبدیل ہوگئی اور وہیں کئی شرکاء جن میں طلباء و طالبات بھی شامل تھے، جن کا کہنا تھا کہ سیکورٹی چیک پوسٹ ہمیں ہر ایک کلومیٹر پر یہ یاد دلاتے ہیں کہ ہم ایک بالادست طبقے کے غلام ہیں۔ احتجاجی دھرنے میں شامل دیگر خواتین کا کہنا تھا کہ وہ مجبور ہو کر سڑکوں پر آ نکلے ہیں، ان کے بچوں کا روزگار اس سمندر سے وابستہ ہے، ان کی زندگی اس بارڈر کے کاروبار سے وابستہ ہے، اگر آپ ہمارے بچوں کو روزگار نہیں دیتے تو کم از کم ان سے مزدوری کرنے کا حق تو نہ چھینو۔

حق دو تحریک کا آگے کا لائحہ عمل یہ طے کیا گیا ہے کہ بلوچستان کی اہم شاہراہوں پر دھرنا دیا جائے گا اور اپنے مطالبات کی منظوری تک وہ دھرنا جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

10 دسمبر کو اسی تحریک کی جانب سے گوادر شہر میں گرینڈ ریلی کا انعقاد ہوگا، جس میں پورے بلوچستان کے عوام کو اس گرینڈ ریلی میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔

تحریک تیزی سے پورے بلوچستان میں پھیل رہی ہے اور سوشل میڈیا کی وجہ سے بالخصوص باقی صوبوں میں بھی اس کے حوالے سے بات چیت ہونا شروع ہو گئی ہے، جس سے خوفزدہ ہو کر وقتی طور پر حکومت کی جانب سے مطالبات کے حوالے سے کچھ نہ کچھ عملی پیش رفت بھی ہونا شروع ہو گئی ہے۔ مثلاً سیکورٹی چیک پوسٹوں میں کمی، پاک ایران بارڈر پر ٹوکن کے حوالے سے اصلاحات، غیر قانونی ٹرالرز میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ حکومت کی جانب سے تمام مطالبات کو مان لیا گیا ہے اور اب سب پر عمل بھی کیا جائے گا۔ درحقیقت یہ حکومت کی ایک چال ہے جس کے ذریعے وہ کچھ وقت حاصل کرنا چاہتی ہے تا کہ تحریک کو آہستہ آہستہ ذائل کر سکے اور دوسری طرف اسے باقی ملک میں پھیلنے سے بھی روک سکے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان، گوادر کے عوام کے تمام مطالبات کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے اور انہیں باور کراتا ہے کہ مسلسل جدوجہد اور عوامی اتحاد جس میں پورے بلوچستان سمیت ملک بھر کے محنت کشوں سے اتحاد شرط اول ہے، سے کامیابی یقینی ہے۔ اس جدوجہد میں ریڈ ورکرز فرنٹ گوادر کے عوام کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔

اس ساری جدوجہد کے اندر جو کہ گزشتہ پانچ سالوں سے مختلف نشیب و فراز کے ساتھ جاری رہی ہے، تمام محنت کش عوام کی جرات، مستقل مزاجی اور حوصلہ قابل ستائش ہے۔ بالخصوص محنت کش خواتین کا گوادر میں اس پورے احتجاجی تحریک کے اندر جو کردار رہا ہے وہ اس وقت بلوچستان سمیت پورے پاکستان کی محنت کش خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

اس تحریک کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس میں کسی بھی قوم پرست جماعت کو سیاست چمکانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایک موقع پر خواتین کی جانب سے ایک قوم پرست جماعت کے جھنڈوں کو اتار دیا گیا۔

درحقیقت یہ ایک عوامی تحریک تھی جو اچانک سے ابھری اور کسی بھی بڑی حقیقی بائیں بازو کی قوت کی عدم موجودگی اور روایتی قوم پرست تنظیموں کی غداریوں کی وجہ سے (جس کے نتیجے میں عوام ان سے نفرت کرتے ہیں اور ان پر رتی برابر بھی یقین نہیں کرتے) مولانا ہدایت الرحمن نامی شخص ایک حادثاتی کردار کے طور پر اس تحریک کا قائد بن کر سامنے آیا۔ مگر ایک حادثاتی کردار کی اپنی محدودیت ہوتی ہے۔ مولانا کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ جماعت اسلامی ریاست کی وہ پروردہ جماعت ہے جس کا کام موجودہ سیٹ اپ کو جائز قرار دینا اور اس کے استحکام کیلئے کام کرنا ہے۔ اسی طرح مولانا کے پاس اس تحریک کی قیادت کرنے اور اسے آگے کا راستہ دکھانے کی کوئی واضح حکمتِ عملی موجود نہیں تھی، اسی وجہ سے اب غیر ضروری مطالبات جیسے شراب خانوں پر پابندی لگانا، کی آڑ میں اس تحریک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ گوکہ تحریک کی ثابت قدمی اور حوصلہ قابلِ ستائش ہے، مگر تاحال اس تحریک میں قیادت کا واضح فقدان نظر آ رہا ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کے غیر ضروری مطالبات سے گوادر میں جاری عوامی تحریک کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نہ صرف کمزور کیا جائے گا بلکہ تحریک کو درست سمت سے بھٹکاتے ہوئے اس عوامی مزاحمت کو غیر ضروری مطالبات کی آڑ میں زائل کرنے اور تحریک کو سبوتاژکرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کام کیلئے اب جماعت اسلامی دلالی پر مبنی اپنا روایتی قردار ادا کرے گی۔ اسی لیے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو خصوصی طور پر آج (6 دسمبر) گوادر بھیجا گیا ہے۔

ہم روزِ اول سے گوادر کے عوام کے تمام دیرینہ مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے آرہے ہیں، اور اس تحریک کے تمام مطالبات کی منظوری تک اس تحریک میں اپنی بساط کے مطابق شانہ بشانہ موجود بھی رہیں گے، مگر ہم واضح طور پر ایک بار پھر یہ کہتے ہیں کہ گوادر کی لوٹ مار اور ریاستی جبر کا مکمل خاتمہ موجود سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن نہیں، اس کے لیے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ ایک مزدور ریاست ہی ان بنیادوں کا خاتمہ کر سکتی ہے جو قومی جبر سمیت دیگر مظالم کو جنم دیتے ہیں۔

Comments are closed.