کراچی: سندھ بھر میں نرسز کا احتجاج 15 روز سے جاری!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|

30 نومبر، منگل کے روز سے کراچی پریس کے باہر دو سال سے منظور شدہ نرسز کا فور ٹائیر فارمولا کے تحت پروموشن اور اپ گریڈیشن پر عملدرآمد، کووڈ نرسز کی مستقلی اور تنخواہوں کے اجراء، صوبے بھر کی نرسز کے ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس کی منظوری، مینیجمینٹ کیڈر میں نرسز کی شراکت داری اور خالی آسامیوں پر فی الفور بھرتی، شعبہ صحت میں نرسز کی شدید قلت کے پیش نظر کم از کم دس ہزار نرسز کی نئی اسامیوں اور فی الفور بھرتی، جناح ہسپتال اور قومی ادارہ برائے امراض قلب کے نرسز آڈٹ کی کاپی کے اجراء اور ڈاؤ ہسپتال کی نرسز کے سروس سٹرکچر میس و ڈریس الاؤنس کے اجراء کے مطالبات کے گرد گزشتہ پندرہ دنوں سے احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ اس سلسلے میں پریس کلب پر مرکزی دھرنے کے علاوہ بھی کراچی سمیت سندھ بھر کے تمام کے ہسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر نرسز سراپا احتجاج ہیں جس میں کام چھوڑ ہڑتال اور ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ 13 نومبر کو ایک بار پھر سی ایم ہاؤس کی جانب مارچ کیا گیا اور کئی گھنٹوں تک وہاں دھرنا دیا گیا۔

شعبہ صحت کے افسران نے دھرنے میں آکر کہا کہ ہم اتنے نرسز کے پروموشن اور الاؤنسز تو نہیں دے سکتے! پیسے نہیں ہیں! ایسی وباء کی صورتحال اور کراچی سمیت سندھ بھر کے پہلے سے شدید اوور لوڈڈ ہسپتالوں کے بد حال مریضے اور تمام تر عملہ پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ ایسے میں عوامی صحت کی سہولت مہیا کرنے والوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنا عوام دشمنی کے مترادف ہے۔ یہاں کے محنت کشوں اور عوام کا پیسہ لوٹ کر سرمایہ داروں کی سہولت کار بننے والی سندھ سرکار اپنے مزدور دشمن اقدامات میں سب کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔

احتجاج کے مرکز پریس کلب پر ینگ نرسنگ ایسوسی ایشن کے علاوہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، کووڈ نرسز و ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف سمیت گرینڈ ہیلتھ الائنس سندھ کے لوگ بھی شامل ہیں۔

گزشتہ کئی سالوں کے مسلسل احتجاج کے بعد منظور کی گئی سمری پر عملدرآمد نہ ہونا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ وہ سمری بھی محض احتجاج کو ختم کروانے کے لیے ہی منظور کی گئی تھی اور حقیقت یہی ہے کہ سندھ سرکار کا شعبہ صحت، اس کے محنت کشوں اور عوام کی صحت پر خرچ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

ایک ہفتہ دھرنے دینے کے بعد بھی جب مطالبات کی شنوائی نہ ہوئی تو نرسز نے سی ایم ہاؤس کی جانب احتجاجی مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی مارچ کے دوران نام نہاد جمہوریت کی علمبردار سندھ حکومت نے پر امن نرسز، ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس کے احتجاجی مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بڑی تعداد میں انہیں گرفتار کیا گیا۔ ان گرفتاریوں اور سندھ پولیس کے ناروا سلوک کے بعد نرسز نے صدر تھانے کے سامنے ہی احتجاج کا فیصلہ کیا اور سندھ بھر کے ہسپتالوں میں فوری طور پر مکمل کام چھوڑ ہڑتال کی کال دی گئی جس میں او پی ڈی اور ایمرجنسی کی تمام ڈیوٹیوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔

یہ شعبہ صحت کے وہ ملازمین ہیں جو کرونا جیسے جان لیوا وائرس سے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر لڑ رہے تھے اور اُس وقت سندھ سمیت وفاقی حکومت انہیں سفید جھنڈے اور جھوٹی سلامیاں پیش کر رہے تھے اور اب ان پر لاٹھیاں، ڈنڈے برسائے گئے اور گرفتار کیا گیا۔

گرفتار نرسز، ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس کو بروقت اور پرزور مزاحمت کی بنیاد پر رہا کروا لیا گیا اور ایک بار پھر سے اپنے مطالبات کے حصول کے لیے مارچ کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب جاری رکھا گیا۔

ریڈ ورکرز فرنٹ احتجاجی نرسز کے مطالبات کی حمایت کرتا ہے اور ہمارے ساتھی ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی احتجاجی نرسز کے ہمراہ موجود ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ نرسز کی اپنے جائز حقوق کی جدوجہد کی یہ طویل داستان بہت اہم اسباق لیے ہے۔ اس وقت بھی سندھ بھر کے ویکسینیڑر ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصے سے کراچی پریس کلب پر احتجاجی دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، جو کہ نرسز کی طرح ہی سندھ حکومت اور شعبہ صحت کے افسران کے جبر کا شکار ہیں۔ نہ صرف انہیں بلکہ شعبہ صحت کو اپنی محنت کے بلبوتے پر چلانے والے سبھی محنت کشوں کو ساتھ جوڑتے ہوئے پورے شعبہ صحت میں احتجاجی تحریک کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ شعبہ صحت کے ملازمین کی مشترکہ طاقت وہ بنیاد فراہم کرسکتی ہے جس کے ذریعے سبھی کے مسائل حل کروائے جا سکتے ہیں۔ ایک مکمل ہڑتال سے کم سے کم وقت میں بڑی قوت کا برملا اظہار کرتے ہوئے اشرفیہ اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس شعبے کی مکمل ہڑتال اور بندش عام عوام کی زندگیوں سے وابستہ ہے، جس سے حکومت تو بے پرواہی برتتی چلی آرہی ہے لیکن اس شعبے کے محنت کش عوام دشمنی کی ایسی کوئی نیت نہیں رکھتے ہیں۔ لیکن حکومت کی جانب سے بارہا انہیں احتجاج پر مجبور کیا جارہا ہے، یہ تمام صورتحال فی الفور اور مستقل حل کی متقاضی ہے جس کے لیے اس احتجاج میں شعبہ صحت کے ہر ایک محنت کش کی شرکت لازمی ہے۔

Comments are closed.