راولاکوٹ: تین روزہ نیشنل مارکسی سکول کا انعقاد

رپورٹ: | مرکزی بیوروPYA|

پروگریسیو یوتھ الائنس(PYA) کے زیر اہتمام تین روزہ نیشنل مارکسی سکول، سمر 2016ء مورخہ 5، 6 اور 7 اگست کو راولاکوٹ، کشمیر میں منعقد ہوا۔ سکول میں شرکت کے لئے ملک بھر سے 104نوجوان اور محنت کش 4اگست کو راولاکوٹ پہنچے۔ سکول مجموعی طور پر چھ سیشنز پر مشتمل تھا۔
Yasir Irshad Opening the Schoolسکول کا باقاعدہ آغاز 5اگست کی صبح 11بجے ہوا۔ سکول کے آغاز پر میزبان ریجن کشمیر کی طرف سے یاسر ارشاد نے شرکاء کو خوش آمدید کہا۔ اس کے بعد کامریڈ رئیس کجل کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔

سکول کے باقاعدہ آغاز سے پہلے کامریڈ رئیس کجل کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی

سکول کے باقاعدہ آغاز سے پہلے کامریڈ رئیس کجل کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی

Rashid Khalid presenting World Congress reportاس کے بعد سکول کے پہلے سیشن کا آغاز ہوا جس میں راشد خالد نے حالیہ دنوں میں اٹلی میں منعقد ہونے والی عالمی مارکسی رجحان(IMT) کی عالمی کانگریس کی مختصر رپورٹ پیش کی۔ راشد نے عالمی کانگریس میں زیر بحث آنے والے موضوعات کے حوالے سے مختصراً بات رکھی۔ عالمی کانگریس میں دنیا بھر سے مندوبین نے شرکت کی تھی جس میں پاکستان سے بھی پانچ رکنی وفد بھی شامل تھا۔ عالمی تناظر، برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا اور اس کے دنیا بھر پر اثرات، قومی سوال اور دنیا میں چلنے والی قومی آزادی کی تحریکیں جیسے موضوعات عالمی کانگریس میں زیر بحث آئے۔ اس کے علاوہ ایک سیشن پاکستان سیکشن کے بحران کے لئے مختص تھا جس میں گزشتہ عرصے میں پاکستان سیکشن میں ہونے والی سپلٹ کو زیر بحث لایا گیا۔ جس کے بعد عالمی کانگریس میں آئے نمائندگان نے اتفاق رائے سے لال سلام کو عالمی مارکسی رجحان کا آفیشل پاکستانی سیکشن قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں خواتین کے حالات کے حوالے سے بھی ایک کمیشن منعقد کیا گیا جس میں تمام سیکشنز کے کامریڈز نے بھرپور شرکت کی۔ کمیشن میں انعم خان نے پاکستان میں خواتین پر ہونے والے جبر اور ان کے کٹھن حالات زندگی کے حوالے سے بات رکھی۔ راشد کا کہنا تھا کہ کانگریس کی سب سے بڑی خوبی اس میں شریک نوجوانوں کی تعداد تھی۔ عالمی کانگریس کے قریباً 80فیصد شرکا نوجوان تھے۔ اس کے بعد انعم خان نے عالمی کانگریس کے حوالے سے بات رکھی۔

Rawal Asad leading off World & Pakistan Perspectiveوقفے کے بعد سکول کے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا جس کو آمنہ فاروق نے چئیر کیا۔ دوسرے سیشن کا موضوع ’’ عالمی و پاکستان تناظر ‘‘ تھا جس پر ملتان سے راول اسد نے بحث کا آغاز کیا اور تفصیل سے عالمی سیاسی، معاشی اور سماجی صورتحال کو بیان کیا۔ راول کا کہنا تھا کہ آج ہم جس عہد میں رہ رہے ہیں یہ ایک بالکل بدلا ہوا عہد ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آئے روز ہونے والے دھماکہ خیز واقعات نے عالمی صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ 2008ء کا معاشی بحران اور اس کے بعد دنیا بھر میں ابھرنے والی تحریکیں ایک نئے عہد کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہیں۔ انقلابات، رد انقلابات اور خانہ جنگیں اس عہد کا خاصہ نظر آتی ہیں۔ روایتی سیاست ختم ہورہی ہے اور دنیا بھر میں پولرائزیشن کی سیاست دیکھنے کو مل رہی ہے۔ عالمی طور پر مزدور تحریک ایک بار پھر سے زندہ ہوتی نظر آتی ہے۔ A view of School Participantsمعاشی بحران کے باعث عوامی غم و غصے میں اضافہ ہو رہا ہے اور عالمی سیاست میں دائیں اور بائیں جانب نئی صف بندیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ برطانوی عوام کا یورپی یونین سے انخلا کے بعد یورپی یونین ٹوٹنے کے قریب ہے ۔ خود برطانیہ کو اس ریفرنڈم کے بعد سیاسی، معاشی اور سب سے بڑھ کر نظریاتی بحران کا سامنا ہے جس میں دائیں اور بائیں بازو دونوں اطراف کے سیاستدان اور پالیسی میکرز کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اس بحران سے کیسے نکلا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں جیرمی کوربن ابھر کر ایک بڑی عوامی حمایت حاصل کرتا ہوا نظر آتا ہے اور ریفرنڈم کے بعد لیبر پارٹی کی ممبرشپ میں لاکھوں افراد کا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے جس میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ امریکہ پر نظر دوڑائیں تو امریکی سیاست ایک نیا رخ لیتی دکھائی دیتی ہے۔ عالمی سرمائے کے دل امریکہ میں جہاں سوشلزم کا لفظ گالی سمجھا جاتا تھا آج وہاں سوشلزم کا لفظ سب سے زیادہ مقبول ہے۔ امریکی صدارتی امیدوار کی دوڑ میں برنی سینڈرز کے گردمہنگائی، بے روزگاری، لاعلاجی اور مہنگی تعلیم کے خلاف بڑی تعداد میں نوجوان اور محنت کش متحرک ہوتے نظر آتے ہیں۔ راول کا کہنا تھا کہ برنی سینڈرز کی نوجوانوں اور محنت کشوں کی امنگوں سے غداری کے باوجود یہ معاملہ ادھر رکنے والا نہیں اور دن بدن گہرے ہوتے ہوئے معاشی بحران کی وجہ سے آنے والے دنوں میں امریکہ میں اس سے بڑے پیمانے پر نوجوانوں اور محنت کشوں کی تحریکیں دیکھنے کو ملیں گی۔ 2008ء سے شروع ہونے والا سرمایہ داری کا عالمی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ 2016ء کے آغاز سے ہی بورژوا معیشت دان ایک نئے عالمی معاشی بحران کی پیش گوئیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ بورژوا معیشت دان عالمی سرمایہ داری کو بچانے کے تمام حربے آزما چکے ہیں مگر اس بحران سے نکل نہیں پائے۔ چینی معیشت جس سے عالمی بورژوازی کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے تیل کی دولت سے مالا مال عرب ریاستیں بھی اس معاشی بحران کی زد میں ہیں۔ مگر اس بحران کی ساری قیمت بھی محنت کشوں کو چکانا پڑرہی ہے اور نجکاری اور کٹوتیوں کے نام پر محنت کشوں سے تمام حاصلات چھینی جا رہی ہیں۔ جس کے خلاف دنیا بھر میں تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ فرانس میں لیبر قوانین کے خلاف چلنے والی تحریک نے پوری دنیا پر اثرات مرتب کئے ہیں۔ نام نہاد سوشلسٹ پارٹی کی حکومت فرانسیسی عوام کے سامنے ننگی ہو چکی ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں جاری خانہ جنگی جس نے داعش جیسی انسانیت دشمن قوت کو جنم دیا، ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور امریکی سامراج کے خصی پن کا اظہار کر رہی ہے۔ یہی حال پاکستان کا ہے جہاں دہشت گردی، مہنگائی، غربت، لود شیڈنگ اور لاعلاجی نے جینا مشکل کر دیاہے۔ اس وقت تمام بڑی پارٹیاں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں شامل ہیں مگر سب اپنی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ اس پر ہونے پر سہاگہ نجکاری سے رہی سہی سہولیات بھی محنت کشوں سے واپس چھینی جارہی ہیں۔ اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور شرکا نے پاکستان اور عالمی صورتحال کے حوالے سے مختلف سوالات کئے جس کے بعد کوئٹہ سے کریم پرھر، فیصل آباد سے مجاہد پاشا، گوجرانوالہ سے سلمیٰ، خیبر A young comrade Salma intervening in dedate on World & Pakistan Perspectiveپختونخواہ سے عثمان، کشمیر سے قمر فاروق، شمالی پنجاب سے خیام، کراچی سے ظریف رند، ملتان سے انعم خان، کراچی سے پارس جان اورمرکز سے آدم پال نے بحث میں حصہ لیا۔ انہوں نے عالمی اور پاکستانی سیاست اور معیشت کے مختلف پہلوؤں کو مزید اجاگر کیا اور اس دوران مشرق وسطی کا بحران، پاک چائنہ اکنامک کاریڈور کے گرد بننے والے تضادات، افغانستان کی صورتحال، ترکی میں ہونیوالی فوجی بغاوت اور اس کے بعد بننے والی صورتحال، روایتی پارٹیوں کے انہدام، نئی سیاسی پارٹیوں کے ابھار، پاکستان میں جاری نجکاری کے خلاف تحریک بالخصوص پی آئی اے کی آٹھ روزہ ہڑتال، بھارت میں نریندرا مودی کی حکومت کے مزدور دشمن اقدامات، یونان میں سائریزا کی غداری، وینزویلا کا بحران، عالمی معاشی گراوٹ پر کھل کر اظہار خیال کیا گیا۔ راول نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ جس تیزی سے عالمی سطح پر بڑے بڑے واقعات رونما ہو رہے ہیں اس صورتحال میں تناظر کی بحث انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی جا رہی ہے۔ عالمی محنت کش طبقہ تاریخ کے میدان میں ایک فیصلہ کن جنگ کے کئے اترتا ہوا نظر آتا ہے۔ آج سرمایہ داری جس نہج پر ہے اس میں اصلاحات کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام پیداواری قوتوں کی مزید ترقی دینے سے قاصر ہے بلکہ اس نظام نے سائنس اور ٹیکنالوجی کو جس عروج تک پہنچایا آج اپنے زوال کے اس عہد میں ان پیداواری قوتوں کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ مگر پوری دنیا میں محنت کش اور نوجوان مختلف تحریکوں میں اس نظام کے خلاف جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر کسی انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی میں کوئی واضح کامیابی حاصل کرتے نظر نہیں آتے مگر وہ ان تجربات سے سبق حاصل کر رہے ہیں۔ اس انسانیت دشمن نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے بغیر انسانیت کو اس کرب سے نجات نہیں دلائی جاسکتی۔ درست مارکسی نظریات پر عمل پیرا ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر آج کے عہد کی سب سے بڑی ضرورت ہے وگرنہ سرمایہ داری کا یہ بحران کرہ ارض سے انسانی تہذیب کو تباہ و برباد کر ڈالے گا۔ انسانیت کا مستقبل ایک سوشلسٹ سماج میں ہی محفوظ ہو سکتا ہے۔
Sibghat Wyne leading off Commodityدوپہر کے کھانے کے بعد تیسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ اس سیشن کا موضوع بحث عظیم فلسفی اور مارکسی نظریہ دان کارل مارکس کی شہرہ آفاق تصنیف ’’داس کیپیٹل‘‘ کا پہلا باب ’’شے(Commodity)‘‘ تھا۔ اس سیشن کو چئیر خیبر پختونخواہ سے صدیق نے کیا۔ موضوع پر بحث کا آغاز گوجرانوالہ سے صبغت وائیں نے کیا۔ صبغت نے کہا کہ اس باب کو کیپیٹل کے باقی ابواب سے نسبتاً مشکل سمجھا جاتا ہے مگر بار بار پڑھنے سے یہ مشکل آسان ہو سکتی ہے۔ مارکس نے اس باب کواپنے نوٹس Grundrisse میں سب سے آخر میں لکھا مگر اس کو سب سے پہلے جگہ دی۔ صبغت نے کہا کہ اس باب کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے کہ مارکس اس میں یہ یہ بیان کرتا ہے مگر اصل چیز وہ میتھڈ ہے جس کو فالو کرتے ہوئے مارکس نے یہ لکھا ہے۔ اور اس میتھڈ کو سمجھنے کے لئے اصل ٹیکسٹ کو ہی پڑھنا پڑے گا اور کوئی تحریر اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ کموڈٹی کو بیان کرنے سے پہلے صبغت نے اس باب میں استعمال ہونے والی اور اس کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لئے مختلف اصطلاحات جیسے ہیگلین میتھڈ، جدلیاتی طریقہ کار، Identical Objects، مقدار(Quantity)، معیار(Quantity)، بنتر(Form)، جوہر(Essence)اور تجسیم(Realization) کو مثالوں سے واضح کیا۔ صبغت نے کہا کہ مارکس اس باب میں کہتا ہے کہ ہمارے اردگرد دولت کموڈٹیز کے ڈھیروں کی شکل میں موجود ہے۔ کموڈٹی اپنے خواص سے انسان کی جسمانی اور تخیلاتی حاجات کی تسکین کرتی ہے۔ انسان اس کو براہ راست استعمال کرتا ہے یا ذرائع پیداوار کو استعمال کرتے ہوئے فطرت میں موجود اشیاء پر کام کرکے بالواسطہ اپنی ضروریات کی تسکین کرتا ہے۔ شے کی یوٹیلٹی شے سے باہر وجود نہیں رکھتی بلکہ شے کے اندر ہی موجود ہوتی ہے۔ تمام کموڈٹیز میں قدر استعمال(Use Value) موجود ہوتی ہے۔ کموڈٹی کا درجہ پانے کے لئے قدر استعمال کا موجود ہونا لازمی ہے۔ جس شے میں قدر استعمال موجودہوتی ہے اس شے میں ہی قدر تبادلہ(Exchange Value) موجود ہوتی ہے اور صرف وہی شے دوسری شے کے ساتھ تبادلے میں آسکتی ہے۔ ایک قدر استعمال دوسری قدر استعمال کے ساتھ تبادلے میں آسکتی ہے مگر تبادلہ وقت، ضرورت اور جگہ کے لحاظ سے متعین ہوگا۔ مگر ایک شے کی دوسری شے کے ساتھ تبدیلی کس بنیاد پر ہوتی ہے اور شے میں ایسی کیا چیز موجود ہے جو دو اشیا کو مقابلے میں لے آتی ہے؟شے میں موجود قدر استعمال دو اشیا کے مابین تبادلے کا تعین کرتی ہے۔ کوئی بھی شے کسی دوسری شے کے برابر ہوسکتی ہے مگر ان کی مقدار(Quantity) مختلف ہوجاتی ہے۔ کسی شے میں قدر استعمال دیکھنی ہو تو اس کی کوالٹی جبکہ قدر تبادلہ کا تعین کرنا ہو تو اس کی مقدار(Quantity) دیکھتے ہیں۔ مگر کسی شے میں قدر(Value) کہاں سے آتی ہے؟ مارکس کہتا ہے کہ نیچر پر لگنے والی انسانی محنت اس میں قدر(Value) پیدا کرتی ہے تب جا کر کوئی شے پیدا ہوتی ہے۔ انسانی محنت صرف اور صرف نیچر کی فارم تبدیل کرتی ہے جیسے کپاس سے دھاگہ بنانا اور پھر دھاگے سے کپڑا۔ اسی طرح کسی فیکٹری کا مالک مزدوروں کو خام مال سے لے کر اوزار تک سب مہیا کرتا ہے۔ مزدور صرف اس کی فارم تبدیل کرتا ہے اور کوئی شے بناتا ہے۔ یہ انسانی محنت ہی ہے جو شے میں قدر(Value) پیدا کرتی ہے۔ مگر کسی شے میں کتنی قدر موجود ہے اس کو کیسے ماپا جائے گا۔ مارکس اس کے لئے وقتِ محن کو بطور معیار لیتا ہے۔ کسی بھی شے کو بنانے کے لئے اوسطاً جتنا وقت درکار ہوتا ہے اسے Socially Necessary Timeکہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک شے دس گھنٹے میں بنتی ہے اور کوئی دوسری شے دو گھنٹے میں تو دوسری 5اشیا پہلی کے برابر ہوں گی۔ مشین آنے سے محنت کی Productivity بڑھ جاتی ہے مگر قدر( Value) اتنی ہی رہتی ہے۔ اسی طرح مارکس انسانی محنت کے دہرے کردار(Two Fold Character of Human Labor) کی بات کرتا ہے جس کو وہ تجریدی انسانی محنت(Abstract Human Labor) اور حقیقی انسانی محنت(Concrete Human Labor) کہتا ہے۔ ایک ترکھان اور اور ایک لوہار کی تجریدی محنت ایک سی ہے مگر Concrete Human Laborمختلف ہے ترکھان فرنیچر وغیرہ بناتا ہے اور لوہار لوہے کی اشیا۔ اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ سکول کے شرکا نے مشکل موضوع ہونے کے باوجود بحث میں حصہ لیا اور کراچی سے Mishal Wyne intervening in debate on Commodityتصور قیصرانی، بہاولپور سے فضیل، لاہور سے عدیل، فیصل آباد سے اختر منیر، گوجرانوالہ سے مشعل وائیں اور ملتان سے عمیر نعیم نے بحث کو آگے بڑھایا۔ اس کے بعد صبغت نے شے کے استصنام( Commodity Fetishism) پر تفصیل سے بات کی۔ صبغت نے کہا کہ جب دو اشیا منڈی میں تبادلے کے لئے آتی ہیں تو ان کو لانے والے غائب یا بے معنی ہوجاتے ہیں اورصرف شے کا شے سے تعلق رہ جاتا ہے جو کہ سماجی ہوتا ہے۔ مگر ان کو لانے والے انسانوں کا تعلق مادی ہوجاتا ہے۔ شے پیدا تو انسان ہی کرتے ہیں اور فطرت پر لگنے والی انسانی محنت سے پیدا ہوتی ہیں مگر جب یہ منڈی میں تبادلے میں آتی ہیں تو انسانوں سے بلند ہو کر ان پر حکمرانی کرنے لگ جاتی ہیں۔ شے کو پیدا کرنے والے ہی اس شے کو نہیں خرید سکتے۔ یہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صبغت نے سوالات کے جواب دیتے ہوئے بحث کو سمیٹا۔

پہلا دن تصاویر میں


پہلے دن شام میں خواتین کمیشن منعقد ہوا جس کو انعم خان نے چئیر کیا۔ انعم نے عالمی کانگریس میں ہونے والی بحث سے تمام ریجن کے نمائندگان کو آگاہ کیا۔ اس کے علاوہ تمام ریجنز میں موجود خواتین ممبران کی تعداد اور ان میں ہونے والے اضافے کے بارے میں رپورٹس پر بحث ہوئی۔ اس کے علاوہ خواتین میں کام کے طریقہ کار اور خواتین ممبران کی تعداد کو بڑھانے کے حوالے سے مفصل بات رکھی۔
Paras Jan Leading off Role of Individual in Historyسکول کے چوتھے اور دوسرے دن کے پہلے سیشن کا آغاز 6اگست کی صبح گیارہ بجے ہوا۔ دوسرے دن کے پہلے سیشن کا موضوع ’’تاریخ میں فرد کا کردار‘‘ تھا اور اس سیشن کو شمالی پنجاب سے احمر علی نے چئیر کیا۔ پلیخانوف کے کتابچے کی روشنی میں پارس جان نے اس موضوع پر بحث کا آغاز کیا اور کہا کہ ویسے تو یہ موضوع ہر عہد میں زیر بحث رہا ہے مگر ہم آج جس تاریخی عہد میں جی رہے ہیں اس میں یہ اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور ہم مارکسسٹوں کے لئے اس کی صحیح سمجھ بوجھ بہت ضروری ہے۔ اس موضوع پر دو انتہائیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن کا ذکر پلیخانوف بھی اپنے کتابچے میں کرتا ہے۔ ایک انتہا پر وہ گروہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ واقعات پہلے سے ہی طے شدہ ہوتے ہیں اس کے لئے ان کا وقوع پذیر ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔ پلیخانوف اس کو تقدیر پرستی(Fatalism) قرار دیتا ہے کہ جس میں افراد کسی مابعدالطبیعاتی قوت کے آگے بے بس ہیں اور یہ قوت جو چاہے کرتی ہے اور کسی کو جواب دہ نہیں۔ عموماً مذہبی لوگ اس نقطہ نظر کے ماننے والے ہوتے ہیں۔ دوسری انتہا پر وہ گروہ جو انسان کو تمام تر بندھنوں سے آزاد خیال کرتا ہے۔ اسی نظریئے کے تحت ہمیں تاریخ پر چند لوگ ہی حاوی دکھائی دیتے ہیں جس میں چند عظیم بادشاہ پوری انسانی تاریخ پر چھائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس میں وہ اپنی مخصوص صلاحیتوں کی بدولت تاریخ واقعات پر اثر انداز ہوتے اور تاریخ کا دھارا موڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر ان دونوں نقطہ نظر کے برعکس مارکسسٹ تاریخ میں فرد کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے۔ افراد ہی تاریخ بناتے ہیں مگر وہ ایسا اپنی مرضی سے نہیں کرتے بلکہ دئیے گئے مادی حالات کے زیر اثر ایسا کرتے ہیں۔ افراد اور تاریخ میں کار فرما قوتوں کے جدلیاتی تعلق کو سمجھ کر ہی تاریخ میں فرد کے کردار کو سمجھا جا سکتا ہے۔ پارس نے بہت سی تاریخی مثالوں سے فرد کے کردار کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور ملتان سے ماہ بلوص، لاہور سے ولید خان، کراچی سے فارس، کوئٹہ سے کریم پرھر، فیصل آباد سے مجاہد، لاہور سے فرحان گوہر، گوجرانوالہ سے سلمیٰ اور صبغت وائیں اورمرکز سے آدم پال نے بحث کو آگے بڑھایا اور اس موضوع کے مختلف پہلوؤں زیر بحث لائے۔ بحث کے دوران پوٹینشل اور ایکچول، تاریخی ضرورت، فرد کی آزادی، برنی سینڈرز، سوویت یونین میں سٹالن کا کردار زیر بحث آئے۔ اس کے بعد پارس نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں فرد کے درست کردار کو متعین کئے بغیر ہم جو اس دنیا سے سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور ایک مارکسی قوت تعمیر کر رہے ہیں اس کو درست انداز میں سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ آج معروضی حالات سرمایہ داری کو اکھاڑنے پھینکنے کے لئے پک کر تیار ہو چکے ہیں مگر کسی حقیقی مارکسی قیادت کی عدم موجودگی انسانیت کو بربریت کی جانب دھکیل رہی ہے۔ اس عہد کا سب سے بڑا تقاضا ایسی مارکسی قوت کی تعمیر ہے جو محنت کشوں اور اور نوجوانوں کی تحریکوں کی قیادت کرتے ہوئے اس دنیا میں ایک سوشلسٹ سماج تعمیر کرے اور آج یہی فرد کا کردار ہے کہ وہ اس تاریخی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتیں اس فریضے کو سر انجام دینے کے لئے صرف کردے۔
Wali Khan Leading off Saur Revolution & Afghanistan Todayدوپہر کے کھانے کے بعد مجموعی طور پر سکول کے پانچویں اور دوسرے دن کے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ اس سیشن کا موضوع ’’ ثور انقلاب اور آج کا افغانستان ‘‘ تھا اور اس سیشن کو فیصل آباد سے مجاہد نے چئیر کیا۔ موضوع پر بحث کا آغاز ولی خان نے کیا اور کہا کہ افغانستان آج جس بربریت اور تباہی کا شکار نظر آتا ہے اس کو سمجھنے کے لئے ماضی میں جھانکنا بہت ضروری ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال ایک رد انقلاب کا نتیجہ ہے۔ اپریل 1978ء میں خلق پارٹی(PDPA) کی قیادت میں ایک مسلح سرکشی کے نتیجے میں ایک سوشلسٹ حکومت قائم ہوئی۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد نور محمد ترکئی کو نئی حکومت کا صدر اور حفیظ اللہ امین کو وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ خلق پارٹی نے اقتدار میں آتے ساتھ ہی افغانستان کو پسماندگی سے نکالنے کے لئے انقلابی اصلاحات کیں جن میں سودی قرضوں کی معافی، جاگیروں کی مزارعوں میں تقسیم، جہالت کے خاتمے اور تعلیم عام کرنے کے لئے نئے ادارے قائم کئے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کو پسماندہ روایات کی جکڑبندیوں سے آزاد کرنے کے لئے بھی انقلابی اقدامات اٹھائے۔ جہیز کے نام پر عورتوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی گئی۔ عورتوں کو یکساں ترقی کے مواقع فراہم کئے گئے۔ مگر امریکی سامراج اس خطے میں ایسی انقلابی حکومت پنپتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا اور اس حکومت کو برباد کرنے کے لئے پاکستان اور سعودی ریاست کی مدد سے تاریخ کے سب سے بڑے ’آپریشن سائیکلون‘ کا آغاز کیا گیا۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے ڈالر جہاد کا آغاز کیا گیا اور مذہبی انتہا پسند قوتوں کو پروان چڑھایا گیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ولی نے اس انقلاب کو ناکام بنانے اور اسے اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لئے سوویت بیوروکریسی کے مجرمانہ کردار پر بھی بات رکھی۔ اس کے بعد سوالات کا سلسہ شروع ہوا اور سوالات کی روشنی میں شمالی پنجاب سے صہیب، خیبر پختونخواہ سے صدیق، کوئٹہ سے سجاد، فیصل آباد سے مجاہد، لاہور سے زین العابدین، کراچی سے ثنا بلوچ اور ظریف رند، اور مرکز سے آدم پال نے بحث میں حصہ لیا۔ اس دوران انقلاب سے پہلے افغانستان کی سماجی اور معاشی صورتحال، خلق پارٹی کے اندرونی تضادات، پرچمیوں کا مجرمانہ کردار، قوم پرست پارٹیوں کے کردار، چینی بیوروکریسی کی ڈالر جہاد کی سپورٹ، افغانستان کی آبادی میں پرولتاریہ کا حصہ، بغاوت میں فوجیوں کا کردار، انقلاب مسلسل اور سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں انقلابات کی تاریخ اور تناظر پر بات رکھی گئی۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے ولی خان نے کہا کہ محنت کشوں کی ایک انقلابی تحریک ہی افغانستان کو اس بربادی سے نکال سکتی ہے مگر افغانستان کا انقلاب پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوسکتا۔ اس خطے میں انٹرنیشنل بنیادوں پر برپا ہونے والا انقلاب ہی افغانستان سمیت اس پورے خطے کی خوشحالی کا ضامن بن سکتا ہے۔

دوسرا دن تصاویر میں

Zain Ul Abideen Leading off Youth & Revolutionاگلی صبح 7اگست کو سکول کے آخری سیشن کا آغاز ہوا۔ اس سیشن کا موضوع ’’نوجوان اور انقلاب‘‘ تھا اور اس سیشن کو ملتان سے انعم خان نے چئیر کیا۔ سیشن میں بحث کا آغاز زین العابدین نے کیا اور کہا کہ آج سرمایہ داری اپنے تاریخی بحران میں پیداواری قوتوں کو مزید ترقی دینے سے قاصر ہو چکی ہے۔ دنیا بھر میں نوجوان اور محنت کش اپنے حقوق کے لئے لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مگر اصلاح پسند پارٹیوں کی غداریوں کا شکار ہیں۔ آج کی سب سے بڑی ضرورت ایک متبادل قیادت تعمیر کرنے کی ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ انقلابی پارٹیوں میں نوجوان کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ نوجوان انقلابات میں ہر اول دستہ ہوتے ہیں۔ یہ نوجوان ہی ہوتے ہیں جو خود کو انقلابی نظریات سے لیس کر کے یہ نظریات فیکٹریوں، ملوں، کھیتوں اور کھلیانوں تک لے کر پہنچتے ہیں۔ روایتی پارٹیوں کی غداریوں کے شکار نوجوانوں میں آج نئے نظریات کی شدید پیاس ہے اور یہ ہماری تاریخی ذمہ داری ہے کہ ہم مارکس ازم کے یہ نظریات نوجوانوں کی وسیع تر پرتوں تک لے کر پہنچیں۔ اس کے لئے ہمیں لائحہ عمل اور طریقہ کار مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اپنے ساتھ جوڑ سکیں اور ان کو مارکسی نظریات سے آراستہ کرتے ہوئے وہ قوت تعمیر کر سکیں جو اس خطے سے سرمایہ داری کا خاتمہ کرے اور ایک حقیقی انسانی سماج تعمیر کرے۔ اس کے بعد تمام ریجنز سے کامریڈز نے اپنے اپنے ریجن میں کام کی صورتحال اور آئندہ کے لائحہ عمل پر بات رکھی۔
Adam Pal Summing up National Schoolسکول کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے آدم پال نے کہا کہ ایک کامیاب سکول کے انعقاد پر تمام کامریڈز مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس سکول میں ہونے والی بحثوں کا مقصد دانشور تیار کرنا نہیں بلکہ یہاں سے مارکسی نظریات سیکھ کر نوجوانوں اور محنت کشوں تک لے کر جانے کی ضرورت ہے اور ان کو اپنے ساتھ جوڑناہے۔ آج پاکستان میں نجکاری، فیسوں میں اضافے، مہنگائی ، لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کے خلاف مختلف چھوٹی بڑی تحریکیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جلد یہ تحریکیں بڑے پیمانے پر بھی اپنا اظہار کریں گے۔ مگر ہمیں اس تحریکوں کے برپا ہونے سے پہلے اپنی تیاری کرنی ہے۔ تاکہ جب محنت کش اور نوجوان تاریخ کے میدان میں اتریں تو ان تحریکوں میں بھرپور طریقے سے مداخلت کرتے ہوئے ان تحریکوں کو حتمی منزل یعنی سوشلسٹ انقلاب کی طرف گامزن کیا جا سکے۔ اس حوالے سے ہمیں اپنی قوتوں میں تیز ترین بڑھوتری درکار ہے۔ آج نوجوانوں میں مارکسی نظریات کے لئے شدید پیاس موجود ہے۔ ہمیں ان تک یہ نظریات لے کر جانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کو ان نظریات سے لیس کرتے ہوئے وہ مارکسی قوت تعمیر کریں جو یہاں کے محنت کشوں کو مہنگائی، لاعلاجی، غربت اور دہشت گردی سے نجات دلا سکے اور یہاں سے سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج تعمیر کرے۔ انٹرنیشنل گا کر سکول کا باقاعدہ اختتام کیا گیا۔

Participants Singing Internationale at the End of SchoolGroup Photo at the End of Schoolتیسرا دن تصاویر میں

Comments are closed.