5 فروری: منافقانہ یوم یکجہتی؟ یا یوم عوامی حقوق!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کشمیر|

نام نہاد آزاد کشمیر میں تقریباً دس ماہ سے جاری عوامی حقوق کی تحریک 5 فروری 2024 کو ہونے والی ایک روزہ عام ہڑتال کے ساتھ ہی ایک نئے مرحلے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے 5 فروری کی ہڑتال کے اعلان کے ساتھ ہی تمام عوام دشمن اور حکمرانوں کی گماشتوں قوتوں نے اس ہڑتال کے خلاف ایک زہریلی مہم کا آغاز کر دیا تھا۔جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے خلاف جھوٹے بہتان لگائے جارہے ہیں اور انہیں غدار اور بیرونی قوتوں کا ا یجنٹ ثابت کرنے کے لیے انتہائی غلیظ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ دس ماہ کے دوران کشمیر میں کم وبیش نصف درجن کے قریب ایک روزہ عام ہڑتالیں ہو چکی ہیں لیکن 5 فروری کو ہونے والی ہڑتال کی اہمیت اس وجہ سے کئی گنا بڑھ چکی ہے کہ اس کے حلاف حکمران اور ان کی تمام گماشتہ سیاسی قوتیں متحد ہو چکی ہیں۔ حکمرانوں اور ان کے گماشتوں کا کہنا یہ ہے کہ 5 فروری چونکہ تاریخی طور پر پاکستانی حکمران طبقات کی جانب سے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے طور پر منایا جاتا رہا ہے اور اس دن کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے اسی روز عام ہڑتال کی کال دے دی ہے اس لیے یہ لوگ کسی بیرونی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ دوسری جانب جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا موقف یہ ہے کہ پاکستان اور کشمیر کے حکمران اس خطے کے اکثریتی عوام کی دس ماہ سے جاری تحریک کے بجلی پر ناجائز ٹیکسوں کا خاتمہ اور آٹے پر سبسڈی کی بحالی جیسے معمولی مطالبات تسلیم نہیں کر سکتے تو یہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا منافقانہ ڈھونگ کیوں رچا رہے ہیں؟ عوامی ایکشن کمیٹی کا 5 فروری کو یوم عوامی حقوق قرار دینا اس حوالے سے بھی درست ہے کہ جب تک اس خطے کے محنت کش عوام ان ظالم حکمرانوں سے اپنے حقوق نہیں چھین لیتے اس وقت تک وہ کشمیر کے کسی دوسرے حصے کے عوام کی بھی کوئی مدد کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔ پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے عوامی حقوق کے حصول کی جدوجہد کرنے والوں پر یہ الزام بالکل بھی نیا نہیں ہے۔ 2021 میں آٹے کی قیمتوں کے خلاف جب پونچھ ڈویژن میں عوام سراپا احتجاج تھے تو اس وقت بھی ان حکمرانوں نے عوامی ایکشن کمیٹی پر یہی الزام لگایا تھا کہ یہ لوگ کسی بیرونی سازش کا حصہ ہیں۔ اس بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حکمرانوں کی اس دلیل کی کوئی اہمیت نہیں کہ 5 فروری کو ہڑتال کی کال دینے سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی بیرونی سازش ہے۔ کیا حکمران اور ان کے گماشتے اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ 2021 کی احتجاجی تحریک میں تو 5 فروری کو ہڑتال کی کوئی کال نہیں دی گئی تھی پھر کیوں اس وقت بھی پونچھ ڈویژن کے عوام کو غدار اور ایجنٹ کہا گیا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ جب بھی عوام اپنا حق مانگنے کے لیے کسی احتجاجی تحریک میں متحرک ہوتے ہیں تو یہ حکمران عوام کے مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے اس تحریک کو منظم کرنے والے کارکنان پر غدار اور بیرونی ایجنٹوں جیسے الزامات لگا کر سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنا کر تحریکوں کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمران عوام کے ٹیکسوں پر خود عیاشیاں کرتے ہیں اور جب بھی عوام کسی آسائش کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان حکمرانوں کی اپنی عیاشیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں اسی لیے حکمران عوام کے مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے ان پر جھوٹے اور غلیظ الزامات لگا کر عوام کی تحریکوں کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری جانب اگر یوم یکجہتی کشمیر کی تاریخی حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بھی حکمرانوں کی منافقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 1990ء میں جماعت اسلامی نے کیا تھا جسے بعد ازاں حکمرانوں نے نیم سرکاری اور سرکاری سطح پر منانا شروع کر دیا تھا۔ اس دن کو منانے کی بنیاد پاکستانی ریاست اور حکمرانوں کی جانب سے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ یکجہتی اور حمایت کے موقف پر ہے۔

اس یکجہتی اور حمایت کا مطلب یہ تھا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کی بھارتی جبر سے آزادی کی جدوجہد کو جب بھی عملی حمایت کی ضرورت پیش آئے گی تو پاکستانی ریاست عملی اقدامات کو یقینی بنائے گی اور کشمیری عوام کو بھارتی جبر سے نجات دلانے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ اسی کی دہائی کے اواخر اور نوے کی دہائی کے اوائل میں جب بھارتی مقبوضیہ کشمیر کے عوام نے آزادی کے لیے ایک سرکش بغاوت کا آغاز کیا تو پاکستانی ریاست نے اپنی پالتو دہشت گرد جماعتوں، جن میں جماعت اسلامی سر فہرست تھی، کے ذریعے اس تحریک کو مذہبی فرقہ وارانہ دہشت گردی کی جانب دھکیل کر پوری تحریک کو پاکستان کی پشت پناہی سے چلنے والی پراکسی جنگ اور دہشت گردی ثابت کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یوں ہندوستان کی جابر ریاست کو وحشیانہ تشدد اور فوجی جبر کے ذریعے اس تحریک کو خون میں ڈبونے کا موقع فراہم کیا۔ ہندوستانی فوج کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کو دکھا کر پاکستانی ریاست اور اس کی پروردہ جماعت اسلامی جیسی دیگر بنیاد پرست جماعتوں نے پاکستان سمیت پوری دنیا سے کشمیر کے جہاد کے نام پر اربوں روپے چندے کی صورت میں کمائے اور اپنی تجوریاں بھریں۔

کشمیریوں کے خون کو بیچ کر جو مال جمع کیا جا رہا تھا اسی خونی کھیل کے ایک حصے کے طور پر یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا تھا لیکن 5 اگست 2019ء کو جب مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر تے ہوئے اسے جبری طور پر ہندوستانی وفاق کا حصہ بنایا تو پاکستانی ریاست کے ساتھ کشمیر کے ان سبھی جھوٹے اور مکار ہمدردوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ کسی بھی قسم کی عملی حمایت یا یکجہتی کرنا تو درکنار الٹا نام نہاد آزادکشمیر کے عوام نے جو احتجاج کرنے کی کوشش کی ان پر بھی وحشیانہ ریاستی جبر کیا گیا۔ پاکستانی ریاست اور اس کے سبھی گماشتوں کی منافقت کا یہ کھیل اب عوام کے سامنے بالکل ننگا ہو چکا ہے اور ان کے چہروں سے نقاب اتر رہے ہیں اسی لیے اب ان کی چیخ و پکار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جو حکمران نام نہاد آزادکشمیر کے عوام کی دس ماہ سے جاری تحریک کو کبھی ریاستی جبر اور کبھی مذاکرات کے پر فریب ڈھونگ کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنہوں نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے پیٹھ میں بارہا چھرے گھونپے۔ جن کے اپنے پالیسی ساز اداروں کے سربراہ عالمی میڈیا کے سامنے یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ ہم صرف ہندوستان کی فوج کو پھنسانے کے لیے کشمیر میں دخل اندازی کر رہے تھے۔ جو حکمران برملا یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ ڈالر جہاد کا سارا کھیل انہوں نے امریکہ اور سعودی عرب کے کہنے پر شروع کیا تھا اور ہمارا کبھی بھی نہ کوئی ارادہ تھا اور نہ خواہش کہ کشمیر آزاد ہو ایسے حکمرانوں کے سیاسی گماشتوں کی یوم یکجہتی کے فریب اور چالبازی کو عوام کے سامنے ننگا کرنااب سب سے اولین فریضہ بن چکا ہے۔ یہ حکمران ایک جانب بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے خون کو بیچ پر مال بناتے آئے ہیں وہیں دوسری جانب نام نہاد آزاد کشمیر کے عوام کے وسائل کو لوٹ کر، ان کا معاشی قتل عام کر کے اپنی عیاشیوں اور لوٹ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جب بھی کوئی تحریک ان حکمرانوں کے منافعوں، ان کی عیاشیوں اور لوٹ مار کے لیے خطرہ بنتی ہے تو یہ حکمران اس تحریک پر اسی قسم کے الزامات لگا کر اس کو بدنام کرنے اور دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔

راولاکوٹ میں منعقد ہونے والی ایک آل پارٹیز کانفرنس میں ایک صاحب نے کشمیری عوام کے خلاف جو لغو اور گھٹیا زبان استعمال کی ہے وہ صرف ایک اس فرد کے خیالات نہیں ہیں بلکہ اس کانفرنس میں شریک سبھی پارٹیاں اس فرد کے استعمال کیے گیے الفاظ سے متفق ہیں۔ اگر کسی پارٹی کو ان الفاظ پر اعتراض ہوتا تو وہ لازماً اس کے خلاف احتجاج کرتی اور ایسے اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کردیتی لیکن ابھی تک کسی بھی پارٹی کی جانب سے ان الفاط کی تردید سامنے نہیں آئی جس کے معنی یہی ہیں کہ اس کانفرنس میں شریک تمام لوگ اور سیاسی جماعتیں عوام کے بارے میں اسی قسم کی رائے رکھتی ہیں۔ کشمیر کے مزاحمتی عوام کو اکیلے اس فرد کی نہیں بلکہ اس کانفرنس میں شریک سبھی پارٹیوں کی بھرپور انداز میں مذمت کرنے اور ان کی بد زبانی اور غلیظ گالیوں کا سیاسی انداز میں پوری جرات اور طاقت کے ساتھ جواب دینا ہو گا۔ ان سبھی جماعتوں کی عوام دشمنی کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ عوامی حقوق کی تحریک میں شریک سبھی لوگوں کا یہ مشترکہ فریضہ ہے کہ 5 فروری کو کشمیر کی تاریخ کی سب سے بڑی اور کامیاب ہڑتال منظم کرتے ہوئے ہم ان عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے عوام کے دشمنوں کو منہ پر ایک زور دار تھپڑ رسید کریں۔ 5 فروری کی ہڑتال کو کامیاب بنا کر ہمیں ان حکمرانوں کو یہ بتانا پڑے گا کہ عوامی حقوق کی تحریکوں کو اب نہ تو ریاستی جبر کے ذریعے روکا جا سکتا ہے اور نہ اس قسم کے جھوٹے اور غلیظ الزامات کے ذریعے۔

صرف نام نہاد آزادکشمیر کے عوام کو ہی اس قسم کے گھٹیا الزامات کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا بلکہ بلوچستان کی بہادر خواتین کی قیادت میں بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہونے والے لانگ مارچ اور جاری احتجاجی تحریک کے خلاف بھی یہ حکمران اور ان کے گماشتے اسی قسم کی بکواس کر رہے ہیں۔ اس وقت گلگت بلتستان کے عوام بھی اسی قسم کے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے آٹے پر سبسڈی کی بحالی کے لیے ایک شاندار تحریک منظم کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان تمام تحریکوں میں یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ایک طرف ان خطوں کے اکثریتی غریب اور محنت کش عوام ہیں جو اپنے مسائل کے حل کی کٹھن جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں اور دوسری جانب ان تمام علاقوں میں موجود حکمران اور ریاست کے گماشتے ان عوام کو غدار اور ایجنٹ قرارا دے رہے ہیں۔ درحقیقت اس تمام تر عمل کے ذریعے حاکم اور محکوم، ظالم اور مظلوم، غریب اور امیر، استحصال اور لوٹ مار کرنے والوں اور اس کا شکار ہونے والوں کی تفریق واضح ہو رہی ہے اور ان کی الگ الگ صف بندی کا عمل جاری ہے۔

کسی بھی خطے کے مظلوم و محکوم عوام اور اس خطے کے ظالموں اور ان کے گماشتوں کے درمیان جب تک فرق واضح نہیں ہوگا، جب تک ان کی الگ الگ صف بندی نہیں ہو گی تب تک مظلوموں اور محکوموں کے مسائل کے حل کی لڑائی درست انداز میں آگے نہیں بڑھ سکتی۔ کشمیر میں 5 فروری کی ہڑتال کی حمایت اور مخالفت کا تنازعہ درحقیقت اسی صف بندی کے عمل کو آگے بڑھا رہا ہے اس لیے ہمیں حکمرانوں اور ان کے گماشتوں کی جانب سے لگائے جانے والے جھوٹے الزامات اور بہتان تراشی سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ہڑتال کی کامیابی کے لیے پہلے سے زیادہ جوش و خروش سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک کسی بیرونی قوت کا ایجنٹ ہونے کا سوال ہے تو ہمارے حکمران اور ریاست کے اعلی عہدیدار اس خطے میں بیرونی قوتوں کے سب سے بڑے ایجنٹ ہیں۔ یہ حکمران اور ریاست آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے سامراجی اداروں کے ساتھ اس خطے میں لوٹ مار کرنے والی دیگر عالمی سامراجی کمپنیوں اور سامراجی ریاستوں کے ایجنٹ ہیں۔

اس ملک کے محنت کشوں، غریب او رمظلوم و محکوم عوام کے خون کا آخری قطرہ نچوڑ کر اپنی عیاشیوں کی غرض سے لئے گیے سامراجی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کو یقینی بنانا ان حکمرانوں کا فرض ہے۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی اور گیس سمیت تمام بنیادی ضروریات کی اشیا پر ظالمانہ ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔ نجی بجلی گھروں کے مالکان کے منافعوں کو یقینی بنانے کے لیے انہیں ایندھن سمیت دیگر چیزوں پر نہ صرف سبسڈی دی جاتی ہے بلکہ ان کے ساتھ کیے گیے معائدوں کی اس شق پر بھی عملدرآمد کیا جاتا ہے کہ اگر بجلی کی طلب کم ہونے کی صورت میں یہ ادارے بجلی پیدا نہیں کرتے تو پھر بھی ان کی کل پیداواری صلاحیت کے ساٹھ فیصد کے برابر ان کو ادائیگی کی جاتی ہے۔ سامراجی کمپنیوں کی خواہشات کے مطابق مزدوروں کے یونین سازی اور ہڑتال جیسے بنیادی جمہوری حقوق پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔

اسی طرح ان حکمرانوں کی سامراجی غلامی کے کارناموں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ جس طرح پاکستان کے حکمران طبقات اور ریاست اپنے سامراجی آقاؤں کی ایجنٹ اور غلام ہے اسی طرح کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان جیسے علاقوں کے حکمران گروہ اسلام آباد میں بیٹھے اپنے آقاؤں کے غلام ہیں۔کشمیر ی عوام کے انتہائی بنیادی مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے عوام پر گھناؤنے الزامات لگائے جا رہے ہیں چونکہ ان مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں اور لوٹ مار میں معمولی سی کمی لانا پڑے گی۔ عوام اور حکمرانوں کے درمیان اصل لڑائی ہی یہ ہے کہ اس ملک کے محنت کشوں کی پیدا کردہ دولت کا زیادہ حصہ کس کو ملے گا۔ حکمرانوں اور ریاست کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں اس لیے وہ اس دولت کا سب سے حصہ بڑا خود ہڑپ کر جاتے ہیں اور جب بھی عوام ظالمانہ ٹیکسوں کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو ان حکمرانوں کی عیاشیوں کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اسی لیے وہ ہر عوامی تحریک کے خلاف غلیظ الزامات لگا کر یا اسے ریاستی جبر کے ذریعے کچل دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی عیاشیاں جاری رہ سکیں۔

حکمران اور ان کے گماشتے عوامی تحریک پر ان غلیط الزامات کے پس پردہ جس حقیقت کو چھپانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر عوام کو مفت بجلی اور آٹے پر سبسڈی فراہم کی جائے گی تو حکمرانوں اور بیوروکریسی کی مراعات میں کمی کرنی پڑے گی۔دوسرا یہ کہ اگر کشمیر کے عوام کو مفت یا بلا ٹیکس پیداواری لاگت پر بجلی دی جائے گی تو دیگر علاقوں کے عوام بھی اسی قسم کے مطالبات کی مانگ کریں گے جس سے ان کی زیادہ تر مراعات خطرے میں پڑ جائیں گی۔ ہمارے حکمرانوں کے الزامات کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ تم غریب لوگ غدار، بیرونی ایجنٹ اور کافر ہو کیوں کہ تم لوگ یہ چاہتے ہوں کہ ہم اپنی عیاشیوں میں صرف اس لیے کمی کر یں تا کہ غریب لوگ دو وقت کی روٹی کھا سکیں؟ درحقیقت اس وقت کشمیر سے لے کر بلوچستان تک غریب اور محنت کش عوام مختلف مطالبات کے ذریعے ان حکمرانوں کی لوٹ مار کے خلاف ہی سراپا احتجاج ہیں۔یہ سبھی لڑائیاں اپنے ظاہری اور فوری مطالبات کے حوالے سے مختلف ضرور ہیں لیکن اپنے جوہر میں یہ اس ریاست، حکمران طبقے اور اس نظام کے خلاف بغاوت کی عکاس ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے ان لڑائیوں کو اپنے اپنے خطے میں تمام عوام دشمن قوتوں کے خلاف متحد کرتے ہوئے آگے بڑھانا ہوگا تا کہ آنے والے عرصے میں ان تمام تحریکوں کو ایک مشترکہ انقلابی پروگرام اور نظریے پر متحد کرتے ہوئے اس حکمران طبقے کے خلاف فیصلہ کن لڑائی لڑی جا سکے۔ کشمیر کے عوام کو 5 فروری کی ہڑتال کو کامیاب بناتے ہوئے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اب حکمرانوں کو کوئی بھی ہتھکنڈہ عوامی تحریک کو کمزور نہیں کر سکتا۔کشمیری عوام کی کامیاب ہڑتال گلگت اور بلوچستان کی تحریکوں کو ایک نئی شکتی اور طاقت فراہم کرے گی۔دس ماہ سے جس عزم، جرات، استقامت اور جوش و خروش سے کشمیر کے عوام نے اس تحریک کو آگے بڑھایا ہے اس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کشمیر کے باشعور عوام 5 فروری کو ایک نئی تاریخ رقم کریں گے۔

عوامی تحریک زندہ باد!
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی زندہ باد!

Comments are closed.