سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمرانوں کی سفاکی: ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین خطرے کا شکار

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ|

آج اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (UNFPA) کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں تقریباً 6 لاکھ 50 ہزار حاملہ خواتین شدید خطرات اور مسائل کا شکار ہیں۔ اگلے ایک ماہ میں تقریباً 73 ہزار خواتین کی ڈلیوری متوقع ہے جس کے لیے ان علاقوں میں صحت اور زچگی کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے جبکہ سابقہ نام نہاد سہولیات سیلاب کی نذر ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ 10 لاکھ سے زائد گھرانے برباد ہو جانے کے بعد کئی خواتین اور بچیاں کو ممکنہ جنس کی بنیاد پر تشدد کا خطرہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں سولہ لاکھ سے زیادہ خواتین زچگی کی عمر میں ہیں۔ پاکستانی حکومت کے مطابق پورے ملک میں تین کروڑ تیس لاکھ لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جن میں 82 لاکھ خواتین زچگی کی عمر میں ہیں۔ UNFPA پاکستان کی نمائندہ ڈاکٹر باخ تیور کادیروف کے مطابق ”زچگی اور بچے کی پیدائش ایمرجنسیوں اور قدرتی آفات کے ختم ہونے کا انتظار نہیں کرتے۔ یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب ایک عورت اور نومولود سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں اور انہیں سب سے زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے“۔

ریاست پاکستان اور حکمران طبقے کا نظر انداز کردہ شعبہ صحت پہلے ہی تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ شعبہ صحت پر سرکاری خرچہ جی ڈی پی کا 0.35-0.45 فیصد ہے اور اگر اس میں نجی شعبہ ملا لیا جائے تو یہ تقریباً 1.5-2.2 فیصد بنتا ہے۔ یعنی ملک کی وسیع ترین آبادی کو کہیں بھی معیاری صحت عامہ کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ یہ بنیادی حقائق ان حکمران مداریوں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہیں جو دن رات مگرمچھ کے آنسو رو کر عوامی خدمت کا دم بھرتے ہیں۔ آج ملک میں برباد شعبہ صحت سے مایوس 40 فیصد ڈاکٹر سالانہ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ پورے ملک میں ایک انداز ے کے مطابق 4 لاکھ ڈاکٹر، 2 لاکھ ڈینٹسٹ، 16 لاکھ نرسز اور لاکھوں پیرامیڈیکس کی شدید کمی ہے۔ اس ملک میں لاکھوں بچے پیدائش کے پہلے پانچ سالوں میں صاف پانی کی عدم موجودگی میں بیماریوں کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں اور دو لاکھ سے زائد خواتین زچگی کے دوران ایک نئی زندگی کو جنم دینے کی جنگ ہار جاتی ہیں۔ جو نومولود موت سے بچ جاتے ہیں ان میں سے 44 فیصد غذائی قلت کی وجہ سے ذہنی معذوری اور کم تر نشو نماکا شکار ہو جاتے ہیں۔ تپ دق، بلڈ پریشر اور ذیابیطیس دیمک بن کر کروڑوں عوام کو چاٹ کھا رہی ہیں۔ شدید سماجی اور معاشی مسائل کی وجہ سے 60 فیصد سے زیادہ آبادی شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہی ہے جبکہ غذائیت کی کمی کا عفریت جسموں اور ذہنوں کو مسلسل کمزور کر رہا ہے۔ دیہات اور شہروں میں پرائمری ہیلتھ کیئر، سیکنڈری ہیلتھ کیئر اور ہسپتال فنڈز کی کمی، مشینری، سہولیات، ادویات کی عدم موجودگی اور عملے کی کمی کی وجہ سے برباد ہو چکے ہیں۔ اگر آج شعبہ صحت کچھ کام کر بھی رہا ہے تو اس کی وجہ محنت کش ڈاکٹر، نرسز اور پیرامیڈیکس ہیں جو اس بھاری بوجھ کو بغیر کسی مدد اور تعاون کے اٹھائے کھڑے ہیں۔

اس ظالمانہ نظام میں یہ ذہنی و جسمانی کمزوریاں، بیماریاں، اموات سب محنت کش طبقے کا مقدر بنا دی گئی ہیں۔ پچھلے 30 سالوں میں اس دیو ہیکل منافع بخش شعبے میں نجی کاروبار سرمایہ داروں، حکومتی اہلکاروں، ریٹائرڈ فوجیوں اور سینئر ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے کھمبیوں کی طرح اُگے ہیں۔ دانستہ طور پر سرکاری ہسپتالوں کو برباد کر کے عوام کو نجی علاج پر مجبور کیا جاتا ہے۔ حکمران طبقہ کسی مسئلے کا شکار ہو تو اس کا علاج لندن یا نیو یارک میں ہوتا ہے جبکہ مڈل کلاس کی اوپری پرت انتہائی مہنگے نجی ہسپتالوں میں علاج کرواتی ہے۔ نجی ہسپتالوں اور کلینکس میں کس طرح لوٹ مار کی جاتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹروں کی معائنہ فیس اوسطاً 2000 روپیہ اور داخلے کے بعد ایک معمولی کمرے کا کم از کم کرایہ بھی 10-12 ہزار روپیہ ہے۔ غریب انسان ان لوٹ مار کے اڈوں کے آگے سے گزرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سائنسی علاج ہسپتال میں ہی ممکن ہے غریب عوام عطائیوں، حکیموں اور پیروں کے ہاتھوں مرنے پر مجبور ہے کہ شائد کوئی آسرا ہو۔ حکمران طبقہ نہ صرف محنت کشوں کامعاشی قتل کر رہا ہے بلکہ جسمانی طور پر بھی قتل کر رہا ہے اور اس سماج کی دولت پیدا کرنے والوں کی زندگی اور موت سے بھی بے پرواہ ہو چکے ہیں۔

اس وقت ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا حکمران طبقے کے نوسر باز نمائندوں اور فوجی اشرافیہ کے ڈراموں سے بھرے پڑے ہیں جو سیلاب زدہ علاقوں میں جا کر منافقانہ ڈھونگ رچا کر متاثرین کو گلے لگا رہے ہیں اور بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیر رہے ہیں۔ عام حالات میں یہ محنت کشوں کی طرف دیکھنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ جب سے مختلف ممالک اور عالمی اداروں نے امداد کا اعلان کیا ہے اس وقت سے سب کی لوٹ مار میں حصہ بٹورنے کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے وزیرِ خزانہ تیمور جھگڑا کی کسی اور معاملے کے حوالے سے ایک آڈیو لیک ہوئی ہے جس میں اس نے واضح طور پر کہا ہے کہ میں نے اپنا حصہ نہیں چھوڑنا۔ گو اس آڈیو لیک کا شعبہ صحت کے حوالے سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس سے حکمران طبقے کی سوچ اور لوٹ مار کا اندازہ ہوتا ہے۔ آج ارب پتی حکمران، جرنیل، سرمایہ دار اور این جی او مالکان رونی صورتیں بنائے ساری دنیا سے پیسہ مانگ رہے ہیں لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ اپنے کاروباروں، جاگیروں اور سلطنتوں سے کتنے پیسے اس کارِ خیر میں ڈال رہے ہیں۔ سندھ کے وڈیروں اور بلوچستان کے سرداروں کی انتہائی غلیظ اور مکروہ ویڈیوز آئی ہیں جن میں وہ سیلاب زدہ عوام سے دور کھڑے ہو کر انہیں گناہوں سے توبہ کی تلقین کر رہے ہیں یا پچاس پچاس روپیہ دے کر ہاتھ جھاڑے جا رہے ہیں۔ یہ ویڈیوز پورے حکمران طبقے کے عوام کی جانب نفرت سے بھرے سفاک رویے کا اظہار ہیں۔ پچھلے 75 سالوں میں عطیات اور چندے کی لوٹ مار کی ایک طویل داستان ہے جو آج ایک بار پھر بڑے پیمانے پر دہرائی جا رہی ہے۔ اس کا آخری تجربہ عوام کو کورونا وبا کے دو سالوں میں ہو چکا ہے۔

اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری شعبہ صحت کی یونینز اور ایسوسی ایشنز پر آتی ہے۔ یہ مجرمانہ خاموشی یا ذاتی مفادات کے تحفظ کا نہیں بلکہ انسانیت کے دکھوں کے مداوے اور ان پر ظلم ڈھانے والے نظام پر سنجیدہ سوالات اٹھانے کا وقت ہے۔ اس حوالے سے شعبہ صحت کے محنت کشوں کو صحت کے بجٹ، سہولیات اور سیلاب متاثرین کی داد رسی کے حوالے سے بحث مباحثے کا آغاز کرتے ہوئے عملی طور پر آگے بڑھنا چاہیے۔ صحت کے شعبے کے محنت کشوں کو دوسرے اداروں کی مزدور یونینوں سے مل کر اس حوالے سے ایک احتجاجی و یکجہتی کمپئین فوری طور پر شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اس حوالے سے پہلے ہی کمپئین کا آغاز کر چکا ہے۔ اس کمپئین کا حصہ بنتے ہوئے بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاروائیوں کا آغاز کیا جا سکتا ہے لیکن ساتھ ہی تمام محنت کشوں کو حکمران طبقے کے مظالم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے فوری مطالبات پیش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

ریاست کو فوری طور پر شعبہ صحت کا کم ازکم بجٹ 15 فیصد کرتے ہوئے ہنگامی طور پر فیلڈ ہسپتال اور ڈاکٹروں کی مسلسل موجودگی کو یقینی بنانا چاہیے۔ سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں پر بھاری ٹیکس عائد کرتے ہوئے یہ تمام آمدن سیلاب زدگان کے لیے وقف کی جانی چاہیے اور خواتین کو ترجیحی بنیادوں پرخوراک اور صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ تمام سرکاری عمارتوں بشمول گورنر ہاؤسز، ڈی سی، کمشنر کے گھر، سرکٹ ہاؤس اور دیگر ایسی تمام عمارتوں میں سیلاب متاثرین کو رہائش دی جائے۔ اس کے علاوہ ایک خاندان کی ضرورت سے بڑے گھر وں اور کوٹھیوں کو سرکاری تحویل میں لیتے ہوئے سیلاب متاثرین کو مدد فراہم کی جائے۔ تمام نجی ہسپتالوں کو ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے سیلاب سے متاثرہ خواتین کو مفت علاج کی فراہمی ترجیحی بنیادوں پر شروع کی جانی چاہیے۔ ادویات بنانے والی تمام صنعتیں بھی ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے ادویات کی عوام تک مفت فراہمی فوری طور پر شروع کرنی چاہیے۔ تمام نجی ہیلی کاپٹر اور جہازوں سمیت نجی بسوں اور دیگر ٹرانسپورٹ ضبط کر کے سیلاب متاثرین اور مریضوں کی ٹرانسپورٹ کا نظام بنانا چاہیے۔ اس کام کے لئے افواج اور دیگر اداروں کی فضائی سہولیات کو بھی بروئے کار لانا چاہیے۔ حتمی طور پر یہ تمام مسائل اور غلاظت سرمایہ دارانہ نظام اور مٹھی بھر اقلیت کی ہوس کا نتیجہ ہیں اس لیے اس نظام کے خلاف ایک جدوجہد کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی سماج کو تبدیل کر کے ایک منصوبہ بند معیشت تعمیر کی جا سکتی ہے جسے ایک مزدور ریاست کے ذریعے منظم کیا جائے اور اس کا مقصد انسانی بہبود و فلاح ہو۔ ایسے ہی ایک انقلاب کے ذریعے انسانیت کو ان تمام مصائب سے چھٹکارا دلایا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.