ٹراٹسکی کی شہادت کے 82 سال: اس کے نظریات آج بھی زندہ ہیں!

|تحریر: آدم پال|

مزدور طبقے کے عظیم قائد کو لال سلام!

آج 21اگست کو لیون ٹراٹسکی کی شہادت کو 82 سال مکمل ہو جائیں گے۔ 1940ء میں اسی تاریخ کو میکسیکو کے ایک ہسپتال میں ٹراٹسکی آخری سانسیں لیتے ہوئے انتقال کر گیا تھا۔ ایک روز قبل اس کے گھر میں سٹالن کے ایک ایجنٹ نے اس کے سر پر لوہے کے ہتھوڑے سے متعدد وار کر کے زخمی کر دیاتھا جس کے بعد اسے فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جبکہ قاتل گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ہسپتال میں ایک رات موت و حیات کی کشمکش میں گزارنے کے بعد ٹراٹسکی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہادت کی منزل حاصل کر گیااور دنیا بھر کے مزدور طبقے کا ایک عظیم لیڈر ان سے جدا ہو گیا۔

82 سال گزرنے کے باوجود بھی ٹراٹسکی کے نظریات زندہ ہیں اور دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ یہی وہ نظریات تھے جن سے خوفزدہ ہو کر سٹالن نے اس کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔ جس وقت ٹراٹسکی کو قتل کیا گیا اس وقت وہ میکسیکو میں جلا وطنی میں انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہا تھا جبکہ سٹالن اس وقت سوویت یونین کا سربراہ تھا اور پورے ملک کے تمام وسائل اس کے کنٹرول میں تھے۔ اس وقت سوویت یونین اپنی منصوبہ بند معیشت کے باعث دنیا بھر میں ایک طاقت کے طور پر موجود تھی اور سٹالن اقتدار پر اپنی آہنی جکڑ کو مضبوط کر چکا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگوں کے لیے یہ حیران کن ہے کہ دنیا کا اتنا طاقتور شخص جلاوطنی میں رہنے والے ایک بوڑھے شخص سے اتنا خوفزدہ تھا کہ اسے قتل کرنے کی منصوبہ کر رہا تھا۔ جس وقت ٹراٹسکی کو قتل کیا گیا اس وقت اس کے نظریاتی ساتھیوں کی تعداد بھی انتہائی کم تھی اور وہ دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے تھے۔ سوویت یونین سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں وہ اقتدار میں موجود نہیں تھے اور نہ ہی کسی بہت بڑی عوامی حمایت کے ساتھ اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ایسے میں سوویت یونین کی طاقتور بیوروکریسی نہ صرف ٹراٹسکی کے قتل کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی بلکہ انقلاب روس کی تاریخ سے اس کے کردار کو بھی کھرچ کھرچ کر ختم کیا جا رہا تھا۔

انقلاب روس 1917ء میں ٹراٹسکی نے لینن کے ساتھ مل کر قائدانہ کردار ادا کیا تھا اور ان دونوں کی حکمت عملی، فیصلہ سازی اور نظریاتی پختگی کے باعث ہی انقلاب روس کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا۔ روس میں بالشویک پارٹی کی موجودگی کے بغیر مزدور طبقہ اقتدار پر قبضہ نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی سرمایہ دارنہ ا نظام کو اکھاڑ کر پھینکا جا سکتا تھا۔ اور بالشویک پارٹی یہ سب کچھ نہیں کر سکتی تھی اگر لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت اس کو میسر نہ ہوتی۔ اسی طرح انقلاب کی کامیابی کے بعد اس انقلاب کے دفاع اور تعمیر و ترقی میں ٹراٹسکی کا کردار لینن کے ساتھ انتہائی کلیدی اہمیت کا حامل تھا۔ سرخ فوج کی انتہائی کم وقت میں انقلابی بنیادوں پر تعمیر سے لے کر تیسری انٹرنیشنل جسے کمیونسٹ انٹرنیشنل بھی کہا جاتا ہے کی بنیاد رکھنے اور پہلے پانچ سال میں اس کے اجلاس باقاعدگی سے منظم کرنے اور اسے دنیا بھر کے مزدور طبقے کی نمائندہ قوت بنانے کے لیے ٹراٹسکی کے کردار کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے نہ صرف سوویت یونین کے اندر بلکہ دنیا بھر کی بائیں بازو کی پارٹیوں اور مزدور تنظیموں میں ٹراٹسکی کے قائدانہ کردار کو تسلیم کیا جا چکا تھا اور اس کے نظریاتی اور سیاسی کردار کی حیثیت مسلمہ تھی۔

لیکن سٹالن کے برسر اقتدار آنے کے بعد ٹراٹسکی کی کردار کشی کی ایک مہم کا آغاز کر دیا گیا اور اس کے نظریات کو غلط ثابت کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ درحقیقت یہ عمل خود سٹالن کی قیادت میں ابھرنے والی بیوروکریسی کی مارکسزم کے حقیقی نظریات سے دشمنی کے باعث ہوا۔ لینن کی وفات کے بعدٹراٹسکی مارکسزم کے حقیقی نظریات کا دفاع کرتا رہا اور سوویت یونین سمیت دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں کو مارکسزم کے نظریات کی بنیاد پر راہنمائی فراہم کرتا رہا۔ جبکہ اس دوران سوویت یونین میں بیوروکریسی کی جکڑ بندی مضبوط ہوتی جا رہی تھی اور وہ مارکسزم کے انقلابی نظریات پر اپنا سفر جاری رکھنے کی بجائے اپنے مخصوص مفادات کے لیے غلط نظریات کو پروان چڑھانا چاہتی تھی جن کا مارکسزم سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ بیوروکریسی کے سوویت یونین میں اس ابھار اور اس کی گرفت مضبوط ہونے کی وجوہات بھی ٹراٹسکی نے ہی بیان کی تھیں اور اس نے واضح کیا تھا کہ عالمی سطح پر سوویت یونین کے انقلاب کا تنہا رہ جانا اس کی بنیادی وجہ ہے۔ 1917ء کے انقلاب روس کے بعد یورپ سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں مزدور طبقے کو سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے متعدد مواقع ملے تھے لیکن انقلابی قیادت کی عدم موجودگی یا غلط فیصلوں کے باعث یہ انقلابات پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے۔ جرمنی، اٹلی، سپین سمیت بہت سے ممالک میں مزدور طبقہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے سرگرم عمل تھا لیکن بالشویک پارٹی کی طرز پر کوئی پارٹی موجود نہیں تھی جو اس عمل کو منطقی انجام تک پہنچا پاتی۔ 1925-27ء کے چین کے انقلاب میں بھی یہی کچھ ہوا تھا اور سٹالن کے غلط فیصلوں کے باعث چین کی کمیونسٹ پارٹی کو سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ پارٹی کومنٹانگ کے ساتھ اتحاد پر مجبور کیا گیا جس کے باعث نہ صرف سرمایہ دار طبقے نے انقلاب کو خون میں ڈبو دیا بلکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ہزاروں کارکنا ن کو بھی قتل کر دیا گیا۔

اس تمام صورتحال میں سوویت یونین اس کرۂ ارض پر واحد مزدور ریاست تھی جبکہ باقی کی تمام دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر تھی۔ ایسے میں سوویت یونین کے اندر بھی زوال پذیری کا آغاز ہوا اور مزدور ریاست پر بیوروکریسی کی پرت نے اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط کر لیا۔ اس دوران سٹالن نے ”ایک ملک میں سوشلزم“ اور ”مرحلہ وارانقلاب“ کے غلط نظریات کی ترویج کا آغاز کیا جو مارکسزم کے حقیقی نظریات سے مکمل طور پر انحراف تھا۔ ٹراٹسکی 1905ء میں ہی اپنا ”نظریہ مسلسل انقلاب“ پیش کر چکا تھا اور واضح کر چکا تھا کہ پسماندہ ممالک کا مزدور طبقہ جب انقلابی تحریک میں سرگرم ہو گا تو وہ خود کو صرف جمہوری مطالبات تک محدود نہیں رکھے گا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی رشتوں کو بھی چیلنج کرے گا اور سوشلسٹ انقلاب کی جانب پیش قدمی کرے گا۔ ایسے میں پسماندہ ممالک میں بھی سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ٹراٹسکی نے واضح کیا تھا کہ ایک ملک سے شروع ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کو ناگزیر طور پر عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جانب بڑھنا پڑے گااور پوری دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر نا ہوگا تب ہی یہ انقلاب اپنا دفاع بھی کر سکتا ہے اور اپنے دشمن کا خاتمہ بھی کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے ”ایک ملک میں سوشلزم“ کی تعمیر کا پروگرام دینا مارکسزم کی انٹرنیشنلزم پر مبنی اساس پر حملہ کرنا ہے اور ”دنیابھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ“ جیسے عظیم نعرے سے انحراف ہے۔

درحقیت روس میں برپا ہونے والا سوشلسٹ انقلاب ”نظریہ مسلسل انقلاب“ کا عملی نمونہ تھا اور اس امر کا اظہار تھا کہ پسماندہ اور پچھڑے ہوئے ممالک میں بھی سوشلسٹ انقلاب نہ صرف برپا کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے ذریعے محنت کش طبقے کے تمام بنیادی مسائل کو حل بھی کیا جا سکتا ہے۔ لینن بھی اپنے تجزیے سے اسی نتیجے پر پہنچا تھا اور اسی نظریے کے تحت انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کروایا تھا۔ روس میں سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کے بعد لینن سمیت تمام بالشویک قیادت اس نکتے پر متفق تھی کہ اس انقلاب کے دفاع کا سب سے مؤثر طریقہ اسے دنیا بھر میں پھیلانا ہی ہے اور بالخصوص جرمنی کا انقلاب اس حوالے سے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وجہ تھی کہ روس میں انقلاب کے بعد ملک کے نام سے روس کا لفظ ہی ختم کر دیا گیا اور اسے سوویت یونین کا نام دیا گیا۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ جن ممالک میں انقلابات برپا ہوتے چلے جائیں گے وہ اسی سوویت یونین کا حصہ بنتے جائیں گے اور ایک ہی جمہوری مرکزیت پر مبنی منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ان تمام خطوں پر مبنی سماج کو چلایا جائے گا۔

لیکن سٹالن کی قیادت میں ابھرنے والی بیوروکریسی کے لیے یہ نظریات زہر قاتل تھے اور وہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے انقلاب کے اس ادھورے سفر کو روکنے کے خواشمند تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تمام تر ریاستی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے مارکسزم مخالف نظریات کو مزدور طبقے کے نظریات بناکر پیش کیا گیا اور دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں کو انہی غلط نظریات کی پیروی پر مجبور کیا گیا۔ اس کے لیے لینن کی تحریروں کو بھی توڑ مروڑ کر اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا گیا اور بالشویک پارٹی کی تمام تر تاریخ سمیت انقلاب روس کی تاریخ بھی انہی مفادات کے تحت دوبارہ مرتب کی گئی۔

اس تمام عمل میں انہیں ٹراٹسکی اپنا سب سے بڑا دشمن نظر آ رہا تھا جو مارکسزم کے حقیقی نظریات کا پرچار کر رہا تھا اور مارکسزم اور لینن ازم کی اس بھونڈی اور مسخ شدہ شکل کی حقیقت مزدور طبقے پر عیاں کر رہا تھا۔ اس لیے بیوروکریسی اسے رستے سے ہٹانا چاہتی تھی۔ اسی مقصد کے تحت پہلے ٹراٹسکی کو جھوٹے الزامات لگا کر پارٹی سے نکالا گیا اور پھرجلا وطن کیا گیا۔ اس دوران ٹراٹسکی کی حمایت کرنے والے ہزاروں کارکنان کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا اور سوویت یونین میں موجود لیفٹ اپوزیشن کا سٹالن نے بتدریج قلع قمع شروع کر دیا۔

اس دوران ٹراٹسکی نے جلاوطنی میں بھی اپنی انقلابی جدوجہد کو جاری رکھا اور اپنی زندگی کی اہم تصنیفات شائع کروائیں۔ یہ تمام تحریریں مارکسزم کے علم میں بہت شاندار اضافہ تھیں اور دنیا بھر کے مزدوروں اور انقلابی کارکنان کے لیے آج بھی مشعل راہ ہیں۔ ٹراٹسکی نے انقلاب روس کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششوں کا جواب دینے کے لیے ”انقلاب روس کی تاریخ“ کے نام سے ایک انتہائی اہم کتاب لکھی جس میں نہ صرف سٹالن کے حملوں کا جواب دیا گیا بلکہ سرمایہ دار طبقے اور سامراجی طاقتوں کی جانب سے انقلاب روس کے کردار اور اس کی عظیم حاصلات کو مسخ کرنے کی کوششوں کا بھی جواب دیا۔

ٹراٹسکی جلا وطنی کے دوران صرف سٹالن کے جبر کا شکار نہیں تھا بلکہ عالمی سطح پر موجود سامراجی طاقتوں اور حکمران طبقات کے نشانے پر بھی تھا۔ ہر ملک کا حکمران طبقہ اسے اپنے لیے خطرہ محسوس کرتا تھا اور انسانی تاریخ کے عظیم ترین انقلاب کو برپا کرنے والے قائد سے ان کا خوف کھانا بے وجہ بھی نہیں تھا۔ ٹراٹسکی دنیا بھر میں موجود مزدور تحریکوں اور انقلابات کی راہنمائی بھی اپنے قلم سے کرتا رہا اور مارکسزم کے حقیقی نظریات کے تحت انقلابی قوتوں کے لیے درست حکمت عملی اور طریقہ کار وضع کرتا رہا۔ یہی وجہ تھی کہ سرمایہ دار طبقہ اور سامراجی طاقتیں اس سے خوفزدہ تھیں اور اسے اپنے ملک میں نہیں رکھنا چاہتی تھیں۔ اپنی سوانح عمری ”میری زندگی“ میں ٹراٹسکی نے اس صورتحال کو ”ویزے کے بغیر سیارہ“ کے نام سے ایک باب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔

سپین میں 1930ء کی دہائی کے انقلابی واقعات میں ٹراٹسکی کی تحریریں انقلابیوں کے لیے درست راہنمائی فراہم کرتی رہیں اور ان نظریات پرخاطر خواہ تعداد میں قوتیں بھی تعمیر ہوئی تھیں لیکن وہاں پر موجود قائدین کی کوتاہیوں اور ٹراٹسکی کی راہنمائی کو درست طور پر تسلیم نہ کرنے کے باعث وہاں پر ناقابل تلافی نقصانات ہوئے۔ اسی طرح جرمنی میں ہٹلر کے ابھار کے حوالے سے بھی ٹراٹسکی نے سٹالن پر درست تنقید کی تھی اور اسے اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا کیونکہ سٹالن نے جرمنی کی بائیں بازو کی قوتو ں کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا تھا جس کے باعث ہٹلر نے فائدہ اٹھایا۔ اسی طرح ٹراٹسکی مزدوروں کی چوتھی انٹرنیشنل کی تعمیر و ترویج میں بھی مصروف رہا اور عالمی سطح پر مزدور تحریک کی راہنمائی کرتا رہا۔ اس دوران اس کی تصنیف ”انقلاب سے غداری“ بھی اہمیت کی حامل ہے جس میں اس نے سوویت یونین کی ریاست کے کردار کی درست طور پر نشاندہی کی تھی اور واضح کیا تھا کہ اپنی مسخ شدہ حالت میں بھی یہ سرمایہ دارانہ ممالک سے بہت آگے ہے اور مزدور طبقے کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے جس کا ہر ممکن طریقے سے دفاع کرنا چاہیے۔

ٹراٹسکی کے قتل کے بعد بھی اس کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ جاری رہا اور اس کی تحریریں دنیا بھر کے کروڑوں بائیں بازو کے کارکنوں کی پہنچ سے دور رہیں۔

یہاں پر ہمیں ٹراٹسکی کی عظمت اور درست نظریات پر اس کا یقین واضح نظر آتا ہے۔ اس وقت سوویت یونین کی ریاست اسے قتل کروانے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی، اس کے بیٹوں کو قتل کر دیا گیا تھا جبکہ خاندان کے دیگر افراد اور تمام تر دوستوں اور رفقائے کار کو بدترین جبر اور قتل و غارت کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہٹلر اور دیگر سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں اس ریاست کے دفاع کے لیے مزدور طبقے کو قائل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ دوسری جانب وہ اس سوویت ریاست پر اندھا اعتماد اور جذباتی لگاؤ بھی نہیں رکھتا تھا اور اس میں موجود خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی بھی کر رہا تھا کہ اگر اس انقلاب کو بچانا ہے تو یہاں ایک سیاسی انقلاب کے ذریعے بیوروکریسی کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا اور مارکسزم کے حقیقی نظریات پر اس کو دوبارہ سے استوار کرنا ہوگا۔

قتل کے بعد زہریلے پراپیگنڈے کا تسلسل

ٹراٹسکی کے قتل کے بعد بھی اس کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ جاری رہا اور اس کی تحریریں دنیا بھر کے کروڑوں بائیں بازو کے کارکنوں کی پہنچ سے دور رہیں۔ چین اور کیوبا سمیت دیگر ممالک میں منصوبہ معیشت قائم ہونے کے باوجودسٹالنزم کی پیروی جاری رہی اور ٹراٹسکی کے نظریات کو مزدور طبقے تک پہنچنے سے روکا گیا اور انقلاب روس میں اس کے کردار کو حذف کرنے کا عمل جاری رہا۔ اس دوران ٹراٹسکی کے نظریات پر چلنے والے اکثر کارکنان بھی انتہائی مشکل معروض میں درست سمت کھو بیٹھے اور کبھی موقع پرستی اور کبھی الٹرا لیفٹ رجحانات کا شکار ہو کر مایوسی اور بد گمانی کا شکار ہوتے رہے۔ اس دوران ٹراٹسکی کے نظریات دنیا میں بہت ہی کم انقلابی کارکنان کی پہنچ میں تھے اور اس کی کتابیں بھی یا تو شائع ہی نہیں ہو پاتی تھیں یا زیادہ تعدا د میں فروخت نہیں ہو رہی تھیں۔ اس عرصے میں برطانیہ میں ٹیڈ گرانٹ کا انقلابی کردار نمایاں نظر آتا ہے جو ٹراٹسکی کے نظریات کو درست سمت میں لے کر آگے بڑھتا رہا اور تمام ترنظریاتی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اس نے انقلابی پارٹی کی تعمیر کے عمل کومحدود قوتوں کے باوجود جاری رکھا۔

دوسری جانب دنیا بھر کے بائیں بازو کے کارکنان کے لیے سٹالن کے پیش کیے گئے غلط نظریات ہی مارکسزم کا حقیقی روپ بن چکے تھے جن کے مطابق پسماندہ ممالک میں سوشلسٹ انقلاب آ ہی نہیں سکتے تھے اس لیے وہاں پر انقلابیوں کو عوام دشمن سرمایہ د ار طبقے کی حمایت کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ اسی طرح دیگر بہت سے غلط نظریات مارکسزم کے نام پر پروان چڑھائے گئے تھے جن کے تحت انقلابات کامیابی کی بجائے مسلسل ناکامی سے دوچار ہوتے رہے اور لاکھوں انقلابی کارکنان کی قربانیاں رائیگاں جاتی رہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پوری دنیا میں انقلابی تحریکیں ابھری تھیں اور ہندوستان سے لے کر لاطینی امریکہ تک بہت سے ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا تھا لیکن سٹالن کے امریکہ اور برطانیہ کی سامراجی طاقتوں سے معاہدوں کے باعث ان کو خون میں ڈبو دیا گیا۔ 1960ء اور 70ء کی دہائی کے عرب انقلابات سے لے کر 1978ء میں ایران کے انقلاب اور افریقہ سے لے کر ایشیا اور لاطینی امریکہ تک کے مختلف انقلابات کی ایک طویل فہرست ہے جنہیں سٹالنزم اور مقامی کمیونسٹ پارٹیوں کے غلط نظریات کے باعث کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ 1968ء میں فرانس میں ہونے والی عام ہڑتال کے دوران وہاں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جاسکتا تھا لیکن کمیونسٹ پارٹی کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے باعث تاریخ کا یہ نادر موقع ضائع کر دیا گیا۔

اس دوران سوویت یونین کی بیوروکریسی کی زوال پذیری بڑھتی چلی گئی اور جن خدشات کی نشاندہی ٹراٹسکی نے اپنی زندگی میں کی تھی وہ 1991ء میں حقیقت بن گئے اور سوویت یونین کا انہدام ہو گیا۔

اس کے بعد بائیں بازو کے کارکنوں اور دنیا بھر کے انقلابیوں میں مایوسی کا پھیلنا ناگزیر تھا جس کے باعث مفاد پرستی اور موقع پرستی کی دہائیوں کا آغاز ہوا۔ اس دوران ٹراٹسکی کے نظریات کا پرچار کرنے والی قوتیں معروضی حالات کے باعث انتہائی کم تعداد تک محدود رہ گئی تھیں لیکن اس کے باوجود انتہائی کٹھن اور مایوس کن حالات میں بھی درست تجزیہ، تناظر پیش کرتے رہے اور مارکسزم کے حقیقی نظریات کا دفاع کرتے رہے۔

آج تین دہائیاں گزرنے کے بعد دنیا بھر میں دوبارہ انقلابی تحریکیں ابھر رہی ہیں اور مارکسزم کے نظریات کی پیاس آج کروڑوں نوجوانوں میں موجود ہے۔ ایسے میں ٹراٹسکی کے نظریات دوبارہ مقبول ہو رہے ہیں اور اس کو قتل کرنے والے اورتاریخ میں اس کے کردار کو مسخ کرنے اور مٹانے کی کوششیں کرنے والے خود گمنامی میں جا چکے ہیں۔ سوویت یونین اور بیورکریسی کے کردار کے متعلق اس نے جو پیش گوئیاں کی تھیں وہ وقت اور حالات نے درست ثابت کر دی ہیں۔ بلکہ چین کی بیوروکریسی بھی اپنے سوویت لیڈروں کے نقش قدم پر چلتی ہوئی سرمایہ داری کی غلاظت میں غرق ہو چکی ہے اور ٹراٹسکی کے نظریات کی درستگی کا واضح ثبوت بن چکی ہے۔

نظریات کی طاقت

اس سارے عمل میں ہمیں سچے نظریات کی طاقت اور اہمیت کا انداز ہ لگانے کا موقع ملتا ہے۔ نظریے کی طاقت بظاہر نظر نہیں آتی اور عام تاثر یہی ہے کہ اسلحہ، عسکری قوت، ریاستی مشینری، بڑی بڑی عمارتیں اور انفرااسٹرکچر اور دیگر ایسے ہی آلات طاقت کی بنیاد ہوتے ہیں۔ جبکہ نظریہ خیالی دنیا کی بات ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی سچا نظریہ عوام کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی عسکری قوت بھی اس کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہے اور دنیا کی سب سے طاقتور ریاستیں بھی ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سچے نظریات کا پرچار کرنے والوں سے حکمران طبقات خوفزدہ رہتے ہیں اور ان کوصفحہ ہستی سے مٹانے اور عوام تک پہنچنے سے روکنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ لیکن وقت کے سیلاب کے آگے یہ تمام رکاوٹیں تنکوں کا ڈھیر ہی ثابت ہوتی ہیں اور تاریخ کا پہیہ ان فرسودہ نظریات پر مبنی طاقتوں کو کچلتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔

مارکس کے نظریات کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا گیا اور اس کی شہرۂ آفاق تصنیف”داس کیپیٹل“ کو اس وقت کے تمام اخباروں اور میگزین نے نظر انداز کیااور اسے گمنامی میں دھکیلنے کی تمام تر کوششیں کی گئیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ نظریات کسی طرح روس کے انقلابیوں تک پہنچ گئے اور انہوں نے ان نظریات کے تحت انقلابی پارٹی کی تعمیر شروع کی۔ یہی نظریات لینن اور ٹراٹسکی جیسے نوجوانوں تک پہنچے اور انہوں نے نہ صرف ان نظریات پر مکمل عبور حاصل کیا بلکہ ان میں گراں قدر اضافہ بھی کیا اور انہی کے تحت روس میں سوشلسٹ انقلاب کی قیادت بھی کی۔ اس انقلاب کی کامیابی کے بعد مارکسزم کے نظریات دنیا بھر میں کروڑوں افراد تک پہنچے اورآج تک سرمایہ دار طبقے کی نیند میں خلل ڈال رہے ہیں۔

ٹراٹسکی کو قتل کرنے اور اس کے نظریات کوکئی دہائیوں تک مزدور طبقے اور انقلابی کارکنا ن کی پہنچ سے دور رکھنے کے باوجودیہ آج دنیابھر میں پھیل رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ جولائی میں آئی ایم ٹی نے چار روزہ مارکسی یونیورسٹی کا آن لائن اہتمام کیا تھا جس میں 140 سے زائد ممالک سے سات ہزار سے زائد انقلابیوں نے شرکت کی اور انہی نظریات کے تحت مختلف موضوعات پر اہم بحثیں کیں۔ آج ضرورت ہے کہ ان نظریات پر عبور حاصل کیا جائے اور ان کے تحت انقلابی پارٹی کی تعمیر کے عمل کو تیز کیا جائے۔ اس کے لیے ٹراٹسکی کی تصنیفات کا مطالعہ اور اس کی انقلابی جدوجہد، عزم اور حوصلے سے قوت لیناآج کے انقلابیوں کا اہم فریضہ بن جاتا ہے۔ انہی نظریات کے تحت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں انقلابی تحریکوں کو کامیابی سے ہمکنار کیا جاسکتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کو ایک دفعہ پھر جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے۔ ٹراٹسکی کے نظریات اور انقلابی جدوجہد کے اسباق سے سیکھتے ہوئے انقلاب کی کامیابی کے بعد کا عمل بھی ماضی کی نسبت کئی گنا بلند پیمانے پر دہرایا جا سکتا ہے اور ماضی کی غلطیوں اور سٹالنزم کے جرائم سے سیکھتے ہوئے عالمی سوشلسٹ انقلاب کا سفر پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔

”عملی“ کام یا نظریاتی بحث؟

آنے والے عرصے میں سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر مزید گہرے بحرانوں کا شکار ہو گا اور حکمران طبقہ ہر جگہ محنت کشوں پر ظلم کے مزید بڑے پہاڑ توڑے گا۔ ایسے میں پوری دنیا کے محنت کش طبقے کی بغاوتیں اور انقلابات کے ابھرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ اس تمام صورتحال میں ٹراٹسکی کی جدوجہد اور انقلابی نظریات محنت کش طبقے کو کامیابی دلانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ درست نظریات کی عدم موجودگی یا لاعلمی بہت سی انقلابی تحریکوں کو پہلے ہی پسپائی کی جانب لے جا چکی ہے۔ انقلابی کارکنان اس کمزوری سے جتنی جلدی چھٹکارا حاصل کر سکیں انقلابی تحریکوں اور انسانیت کے مستقبل کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ آج بھی حکمران طبقات اور زوال پذیر عناصر کی جانب سے غلط نظریات کی بوچھاڑ پہلے کی نسبت کئی گنا بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہے۔ ایک طرف تعلیمی اداروں میں پوسٹ ماڈرنزم یا مابعد جدیدیت کی بکواسیات کے نام پر ”ترقی پسندی“ کا واویلا کیا جارہا ہے اور دوسری جانب ایسے نام نہاد ”ترقی پسندوں“ اور ”انقلابیوں“کو اپنے پالتو میڈیا کے ذریعے مشہور کروایا جاتا ہے جو سامراجی طاقتوں کی گماشتگی کرتے ہوئے ان کے نظریات کو مارکسزم کے لبادے میں پھیلاتے ہیں اور انقلابیوں کو کو گمراہ کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ ٹراٹسکی کے سچے نظریات سے نفرت پھیلانے کی کوششیں بھی کرتے ہیں اور مارکسزم کے دشمن نظریات کو ہی ”مارکسزم“ بنا کر پیش کرنے کابد ترین جرم کرتے ہیں۔

آج نظریاتی محاذ پر انقلابیوں کی ذمہ داریاں پہلے کی نسبت کئی گنا بڑھ چکی ہیں اور انہیں حقیقی نظریات کے دفاع اور ترویج کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ آج نام نہاد بائیں بازو کے کارکنان کی اکثریت کا سب سے بڑا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اکٹھا کرنا اور جلداز جلد مقبولیت حاصل کرنا ہی بن چکا ہے جبکہ نظریاتی تربیت، بحث و مباحثہ اور سنجیدہ تجزیے اور تناظر کی تخلیق کو سب سے غیر اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ نظریاتی بحثوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ”عملی“ کام کریں۔ گوکہ اس میں اکثر افراد کی موقع پرستی اور شہرت کے حصول کی گھٹیا خواہش کا بھی عمل دخل ہوتا ہے لیکن بنیادی طور پر یہ نظریات کی اہمیت سے مکمل انکار کا نتیجہ ہے۔ اس طریقے سے بہت سے سنجیدہ نوجوانوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کسی مخصو ص لیڈرکی پرستش کو ہی زندگی کا حتمی مقصد بنا لیا جاتا ہے اور نظریات یا تناظر پر حقیقی بحثوں میں ”الجھنے“ کو وقت کا ضیاع قرار دیا جاتا ہے۔ اس عمل کا مارکسزم یا بائیں بازو کی جدوجہد سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ سٹالن کے دور میں اور بعد ازاں بھی ٹراٹسکی پر غدار کی مہر ثبت کر دی گئی جس کے بعد اس کے نظریات کا نام لینا بھی غداری بن گیا۔ اس کی تصنیفات کو پڑھے بغیر ہی اس پر فتوے صادر کیے جانے لگے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آج بھی بہت سے شخصیت پرست کارکنان مخالف نظریات رکھنے والوں پر یہی الزامات لگاتے ہیں اور سٹالنسٹ طریقہ کار پر ہی چلتے ہوئے اپنے مخالفوں کا مؤقف سنے بغیر ہی انہیں غدار اور مجرم قرار دے دیتے ہیں۔ یہ کسی طور پر بھی مارکسزم کا سائنسی طریقہ کار نہیں۔

سوویت یونین کے دور میں بھی سٹالنسٹ افسر شاہی کے احکامات کے تحت نظریاتی بحثوں اور تناظر کواہمیت نہیں دی جاتی تھی اور ماسکو یا پیکنگ سے آنے والی پارٹی لائن پر ہی اکتفا کیا جاتا تھا۔ خود سے سوچنے سمجھنے کی کوشش کرنا یا اختلافی رائے رکھنا جرم سمجھا جاتاتھا۔ جمہوری مرکزیت کی بجائے بیوروکریٹک مرکزیت کو ہی عملی طور پر مسلط کیا جاتا تھا۔ اسی دوران ”داس کیپیٹل“ کو بھی مقدس درجہ دیتے ہوئے تعظیم تو کی جاتی تھی لیکن اسے پڑھنے یا سمجھنے کی کوشش کرنا بیوقوفی سمجھا جاتا تھااورایسی کاوش کرنے والے سنجیدہ افراد کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ اسی طرح مارکسی فلسفے کا علم یا فلسفے کی تاریخ کا مارکسی بنیادوں پر جائزہ کسی بھی جگہ نظر نہیں آتا اور نہ ہی مارکسی معیشت کے بنیادی اصولوں پر زیادہ بحثیں اور تحریریں نظر آتی ہیں۔ زیادہ تر توجہ ایجی ٹیشن، احتجاجی تحریکوں اور فوری مطالبات کے گرد ہوتی تھی۔ ان تمام سرگرمیوں کی اہمیت سے بھی قطعاً انکار نہیں کیا جا سکتا اور انقلابی پارٹی کی تعمیر کے دوران یہ تمام سرگرمیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں لیکن درست نظریات کے بغیر یہ تمام سرگرمیاں اپنے الٹ میں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں اور موقع پرستی یا دوسری انتہاؤں کی جانب بھی لے جا سکتی ہیں۔ یہی کچھ مسلح جدوجہد اور دیگر کاروائیوں کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے جنہیں بہت سے انقلابی اپنا نصب العین بنا لیتے ہیں لیکن درست نظریات کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ لینن سمیت تمام مارکسی اساتذہ کے نزدیک انقلابی پارٹی کی بنیادنظریہ، نظریہ اور صرف نظریہ ہی تھی اور اس کے بعد لائحہ عمل اور طریقہ کار آتا تھا۔

اسی لیے آج نظریات کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور انقلابی کارکنان کو نظریاتی بحثوں کے ذریعے مارکسزم کے بنیادی نظریات پر قائل کرنا اور ان کی ترویج کے عمل کو مسلسل جاری رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ٹراٹسکی کے نظریات پر بحثیں بھی انتہائی ضروری ہیں۔ بہت سے لوگ اسے ایک فرقہ وارانہ لڑائی قرار دے کر بائیں بازو کی قوتوں کو کمزور کرنے کی سرگرمی قرار دیتے ہیں جو سراسر غلط ہے اور مارکسزم کی تاریخ سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کی سائنسی وجوہات سے لاعلمی انقلابی کارکنان اور مزدور تحریک کو ایک انچ بھی آگے نہیں لے جا سکتی۔ اسی طرح ٹراٹسکی کے نظریات اور اس کی انقلابی جدوجہد کو تاریخ سے حذف کردینے سے انقلابی کارکنان اور مزدور طبقہ ان تمام ا سباق سے بھی محروم ہو جاتا ہے جو بیسویں صدی کی تاریخ کا اہم ترین نچوڑہیں۔ انقلابات کی تاریخ سے ہی اہم اسباق اخذ کرتے ہوئے ہم آج کی تحریکوں میں وہ غلطیاں دہرانے سے بچ سکتے ہیں جو ماضی میں کی گئیں اور جن کی وجہ سے انقلابی تحریکوں کو نقصان پہنچا۔ لینن نے ایک دفعہ کہا تھا کہ انقلابی پارٹی مزدور طبقے کا حافظہ بھی ہوتی ہے۔ یعنی وہ ماضی کے تلخ تجربات جن سے یہ طبقہ گزرا ہے ان کی یاد نہ صرف محفوظ رکھتی ہے بلکہ اسے اگلی نسل تک پہنچاتی بھی ہے تاکہ وہ ان سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھ سکیں۔ اس حوالے سے سٹالنزم کے جرائم سے آگاہی اور ٹراٹسکی کی تمام تر جدوجہد کویاد رکھنا اور اس کے اخذ کردہ نتائج کو اگلی نسل تک پہنچانا آج کے انقلابیوں کا اہم فریضہ ہے۔

اس کے بہیمانہ قتل کے 82 سال بعد ہم عہد کرتے ہیں کہ اس انقلابی فریضے کو تمام تر جوش اور ولولے سے پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے اور اس دھرتی پر ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے اس عظیم انقلابی کو ناقابل فراموش خراج تحسین پیش کریں گے۔

سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہی ہوگی!

Comments are closed.