|تحریر: سوشلسٹ اپیل ایڈیٹوریل بورڈ، ترجمہ: آصف لاشاری|
موجودہ عہد میں جتنے بڑے پیمانے کی تباہی و بربادی موجود ہے اسکی ماضی میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ موجودہ بحران سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی معمولی بحران نہیں ہے۔ پوری دنیا میں انقلابی واقعات دھماکوں کی صورت میں رونما ہو رہے ہیں۔ آج ہمیں ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو انقلابی ذمہ داری کو سرانجام دے سکے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آج دنیا ایک ایسے بحران کا شکار ہے جو آسانی سے حل ہونے والا نہیں۔ ایک جانب مہلک وباء ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی اور دوسری جانب عالمی معیشت کی کبھی نہ دیکھی جانے والی بہت بڑی تباہی و بربادی ہے۔
اس تباہی و بربادی کا موازنہ ماضی کے کسی دور سے نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی کی ایک انتہائی مہلک وباء کے دوران کی صورتحال کو، جو چودہویں صدی کی سیاہ موت (Black Death) کے نام سے جانی جاتی ہے، ہی ممکنہ طور پر آج کی صورتحال سے قریب ترین کہا جا سکتا ہے۔ ماضی کی اس وباء میں دنیا کی ایک تہائی یا اس سے زیادہ آبادی موت کا شکار ہوئی تھی۔ یہ جان لیوا وباء ہر طرف پھیل گئی تھی اور اس نے سنجیدہ مذہبی، سیاسی اور معاشی طوفانوں کو جنم دیا تھا اور یورپ کی تاریخ پر انتہائی نمایاں اثرات مرتب کیے تھے۔
تاریخ دان فلپ زیگلر کے مطابق:
”اگرچہ سیاہ موت ہی صرف ایک واحد وجہ نہیں تھی لیکن اس نے جس کرب اور ٹوٹ پھوٹ کو جنم دیا اس نے ایک عہد کے خاتمے میں واحد اور سب سے زیادہ اہم کردار ادا کیا“۔
ایک اور تاریخ دان جے جُزرینڈ نے وضاحت کی:
”عقیدہ یا تو غائب ہوگیا تھا یا پھر مکمل طور پر تبدیل ہوگیا تھا، انسان اچانک تشکیک پرست اور غیر متحمل بن گئے۔ یہ کوئی جدید، انتہائی سرد مزاج اور مردہ قسم کی تشکیکیت نہیں تھی بلکہ یہ ایک پوری فطرت کی انتہائی اشتعال انگیز تحریک تھی۔۔۔“۔
جاگیردارنہ نظام اپنی موت آپ مر رہا تھا۔ طاعون وباء نے بس اس مرتے ہوئے نظام کو کھائی میں دھکیل دیا۔
ابھی تک موجودہ کورونا وباء نے طاعون وباء کی نسبت انتہائی کم لوگوں کو قتل کیا ہے۔ تاہم اس نے خاطر خواہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ موجودہ بحران، جس کا آغاز کورونا وباء نے کیا اور اسے مزید بگاڑا، 300 سال کی تاریخ کا سب سے گہرا بحران ہے۔ موجودہ بحران بھی سرمایہ داری کو کھائی سے نیچے دھکیل رہا ہے لیکن زیادہ جدید اور تباہ کن شکل میں۔
ایک بے مثال زوال
کورونا کی وباء ایشیا اور لاطینی امریکہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ میں بھی وائرس 60 لاکھ مصدقہ کیسز کے ساتھ تباہی کو جنم دے رہا ہے۔ یورپ کو وباء کی ایک اور لہر کے خطرے کا سامنا ہے۔
یو این ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ 2 کروڑ 65 لاکھ سے زیادہ افراد کو قحط کے خطرے کا سامنا ہے۔ یہ ایک مکمل تباہی و بربادی ہے۔ سرمایہ داری کے منصوبہ ساز مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ سرمایہ دارانہ حکومتوں نے اپنے نظام کو بچانے کے لیے تیزی سے بیل آؤٹ پیکجز کے اعلانات کیے اور اس عمل میں قرضوں کے پہاڑ کھڑے کر دیے۔ اگرچہ اس طرح کے اقدامات کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی لیکن موجودہ بحران بھی ماضی کے کسی بحران سے کہیں زیادہ تباہ کن ہے۔ 2020ء کی دوسری سہ ماہی میں امریکہ کی جی ڈی پی میں سالانہ بنیادوں پر 32.9 فیصد کے حساب سے کمی ہوئی۔ جاپان کی معیشت اپریل سے جون کے دوران حقیقی معنوں میں سالانہ بنیادوں پر 27.9 فیصد تک سکڑ گئی جو کہ تاریخ کا سب سے تیز ترین سکڑاو ہے۔ اسی طرح انڈیا کی معیشت دوسری سہ ماہی میں 23.9 فیصد کے حساب سے سکڑ گئی جو کہ ایشیا میں سب سے بڑا سکڑاؤ ہے۔ برطانیہ کی جی ڈی پی میں اسی عرصے کے دوران 20 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔
کروڑوں لوگ اپنی نوکریاں گنوا بیٹھے ہیں یا گنوانے کے قریب ہیں۔ لیکن ابھی بھی نیویارک سے لے کر ٹوکیو تک سٹاک مارکیٹیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں اور سٹہ بازوں کی موج لگی ہوئی ہے۔ دی ایم ایس سی آئی ورلڈ انڈیکس آف سٹاکس اگست کے مہینے میں 6.6 فیصد تک گیا اور یہ 44 سالوں کی تاریخ میں اگست کے مہینے میں ہونے والی سب سے تیز ترین چھلانگ تھی۔ ایڈ یارڈینی نے اسے آج تک ہونے والی ’بحرانوں کی ماں‘ قرار دیا۔
خوش فہمیاں ہوا ہو گئیں
یہ سرمایہ داری کا کوئی معمولی بحران نہیں ہے۔ عالمی وباء کے بحران کو مزید گہرا کرنے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام اپنی حدود تک پہنچ گیا ہے اور ایک مستقل زوال کی جانب گامزن ہے۔ کوئی تیز بحالی ہونے والی نہیں ہے۔ اس کی بجائے ایک مسلسل جاری رہنے والی کساد بازاری کے لیے تمام تیاریاں مکمل ہیں۔ خیر کا کوئی بھی راستہ ممکن بھی ہوا تو وہ بھی ایک عارضی مظہر ہی ہوگا۔ سرمایہ کاری، جو کہ اس نظام کی روح ہے، مسلسل زوال کا شکار ہے اور اس کے ساتھ کھپت بھی زوال پذیر ہے۔
2008ء کی طرح آج بھی محنت کش طبقے کو اس نظام کے بحران کا تمام تر بوجھ اٹھانے پر مجبور کیا جائے گا۔ کئی سالوں سے جاری محنت کشوں پر کٹوتیوں اور معاشی حملوں کے بعد اس طرح کے اقدامات ایک بہت بڑی مزاحمت کا باعث بنیں گے۔ ایک نہ ختم ہونے والی ترقی و کامیابی کی تمام خوش فہمیاں آج ہوا ہو چکی ہیں۔
جارج فلوئڈ کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے بعد امریکہ میں کھڑا ہونے والا طوفان ہمیں دکھاتا ہے کہ عوام کے اندر باغیانہ روش جنم پا چکی ہے۔ کم از کم کُل امریکی آبادی کے دس فیصد نے ’بلیک لائیوز میٹر‘ احتجاجوں کے اندر حصہ لیا اور اس سے کہیں زیادہ تعداد نے ان احتجاجوں کی حمایت کی۔ حال ہی میں کینوشا، وسکونسن میں ایک اور سیاہ فام شخص جیکب بلیک کو پولیس نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا اور اس اقدام نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اسی ٹاؤن میں مزید دو سیاہ فام شخص ایک سفید نسل پرست شخص کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے۔
اکانومسٹ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ”امریکہ ایک بند گلی میں پھنس چکا ہے“۔ نومبر میں چاہے کوئی بھی صدارتی الیکشن جیت جائے، کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہے گا۔ یہ عمل اس انقلابی عہد کی تصدیق کرتا ہے جس کے اندر ہم داخل ہو چکے ہیں۔
انقلابی پیش رفتیں
اسی دوران لبنان میں عوامی مظاہروں نے ایک اور حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا، حالیہ احتجاجی سلسلہ پچھلے سال کے اختتام تک جاری رہنے والے احتجاجوں کا ہی تسلسل ہے۔ یہ بلاشبہ ایک انقلابی پیش رفت ہے۔
عوامی مظاہروں نے حتیٰ کہ اسرائیل کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے جہاں لوگ نتن یاہو کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اور بیلا روس میں ڈرامائی مگر متضاد کردار کے حامل واقعات رونما ہو رہے ہیں جہاں محنت کش طبقہ ایک عام ہڑتال کی جانب بڑھ رہا ہے۔
ہر جگہ ہی ایک مستقل عدم استحکام موجود ہے۔حتیٰ کہ برطانیہ میں بھی چند ماہ کے عرصے میں ٹوری حکومت کی حمایت ختم ہو گئی ہے۔ اب ملک ایک ’نو ڈیل بریگزٹ‘ کی جانب بڑھ رہا ہے جس کے نتائج صرف برطانیہ کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے یورپ کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ فنانشل ٹائمز نے لکھا کہ”آنے والے چھ ماہ جانسن کے مقدر کا تعین کریں گے“۔ سماجی دھماکے برطانیہ میں بھی باقی جگہوں کی طرح روز کا معمول بن جائیں گے۔
آج سرمایہ داری محنت کش طبقے کو بڑے پیمانے کی بے روزگاری، گرتے ہوئے معیارِ زندگی اور معاشی حملوں کے علاوہ اور کچھ نہیں دے سکتی۔ لیکن یہی سب کچھ پھر ہر جگہ پر طبقاتی جدوجہد کو بھی مزید تیز کرے گا۔
حالت یہ ہے کہ حتیٰ کہ فنانشل ٹائمز نے بھی ”انقلاب نہ سہی، لیکن ایک وسیع پیمانے کی سماجی بے چینی“ کے امکانات کی طرف اشارہ دیا ہے۔ انہوں نے بھی وہی نتائج اخذ کیے ہیں جو مارکس وادی کافی عرصہ پہلے کر چکے ہیں مگر انہوں نے وہ نتائج محنت کش طبقے کے متضاد طبقاتی مفاد یعنی حکمران طبقے کے طبقاتی مفاد کے زیر اثر اخذ کیے۔
قیادت کا بحران
بڑے بڑے واقعات سماجی شعور کے اندر تیز ترین تبدیلیوں کے لیے راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ پہلے ہی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بڑے پیمانے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ نوجوانوں کے لحاظ سے تو یہ بات کہیں زیادہ درست ہے جنہوں نے زندگی میں صرف کٹوتیوں اور بحرانات کا ہی سامنا کیا ہے۔ یہ صورتحال بائیں جانب ایک بہت بڑے جھکاؤ کو جنم دے رہی ہے۔ سرمایہ داری کے تحت محنت کشوں کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔
لیکن سرمایہ داری خود ہی اپنی مرضی سے منظر سے غائب نہیں ہو جائے گی۔ اسے اکھاڑ کر پھینکنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی دیکھا ہے، آنے والے عرصے میں بھی انقلابی مواقعوں کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ انقلابی امکانات تمام تر صورتحال کے اندر پہلے سے موجود ہیں۔ ایک مستقل زوال کی علامات کے نیچے ایک نیا سماج جنم لینے کی جدوجہد کر رہا ہے۔
تاہم ایک حقیقی انقلابی قیادت کا فقدان ہے۔ مزدور اور ٹریڈ یونین رہنما، جو کہ ماضی کے واہموں سے چمٹے ہوئے ہیں، پوری صورتحال میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں۔ حتیٰ کہ بائیں بازو کی اکثریت بھی مصالحت کو ترجیح دے رہی ہے کیونکہ ان کے پاس سماج کو تبدیل کرنے کا کوئی تناظر موجود نہیں ہے۔ وہ سرمایہ داری کی اصلاح کرنے کے واہمے کا شکار ہیں جو کہ آج ممکن نہیں ہے۔ مسائل کو حل کرنے کی تمام تر کوششیں بالآخر بے سود ثابت ہوں گی۔
لہٰذا آج اصل بحران صرف محنت کش طبقے کی انقلابی قیادت کے فقدان کا ہی ہے۔ آج ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو آخر تک لڑنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہو۔ یہ سب کچھ مارکسزم کی قوتوں کو تعمیر کرنے کے فوری فریضے کو اجاگر کرتا ہے اور مارکسز کا نظریہ ہی آج کے تمام تر حقائق کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ مارکسزم کیلئے جتنے سازگار حالات آج ہیں اتنے پوری تاریخ میں نہیں رہے۔
ہم محنت کشوں اور نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ برطانیہ اور پوری دنیا میں سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے لیے راہ ہموار کرنے کے انقلابی فریضے کی تکمیل میں ہمارا ساتھ دیں۔