جدلیاتی مادیت کا پہلا سبق

|تحریر: لیون ٹراٹسکی، ترجمہ: صبغت وائیں |

جدلیات نہ تو کوئی افسانوی ادب ہے اور نہ ہی تصوف [کی بھول بھلیاں]۔ بلکہ یہ ہماری سوچ کی مختلف شکلوں سے متعلق ایک ایسی سائنس ہے جو کہ زندگی کے روز مرہ کے عام مسائل تک محدود نہیں ہے بلکہ زیادہ پیچیدہ اور وسیع عوامل کی تفہیم کی جانب پیش قدمی ہے۔ جدلیات اور رسمی منطق میں وہی رشتہ ہے جو اعلیٰ اور ابتدائی ریاضی میں ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

میں کوشش کرتا ہوں کہ یہاں مسئلے کے جوہر کو انتہائی مقرونی (concrete) شکل میں پیش کروں [فلسفے میں مادی مثالوں کا نہ پیش کرنا عام دستور ہے]۔ ارسطو کی سادے قیاس کی منطق یوں شروع ہوتی ہے کہ ’الف‘ برابر ہے ’الف‘ کے۔ اس مفروضے کو بے شمار انسانی اعمال اور ابتدائی نوعیت کے عمومی اصولوں کے لیے قبول کر لیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں ’الف‘ ’الف‘ کے برابر نہیں ہوتا۔ اس بات کو ان دونوں حرفوں کو محدب عدسے کے نیچے رکھ کر دیکھنے سے بآسانی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لیکن کوئی بھی اٹھ کر یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ یہاں پر لفظوں کے سائز کی یا ان کی شکل کی تو بات ہی نہیں کی گئی، یہ حروف تو ایک جیسی مقداروں کی محض علامت کے طور پر ہیں جیسے کہ ایک پاؤنڈ چینی۔ یہ اعتراض بھی ہمیں اصل نکتے سے دور نہیں لے جاتا، اصل میں ایک پاؤنڈ چینی کبھی بھی ایک پاؤنڈ کے برابر نہیں ہوتی۔ ایک زیادہ حساس ترازو یہ فرق واضح کر دے گا۔ لیکن کوئی دوبارہ بھی اعتراض کر سکتا ہے کہ: ایک پاؤنڈ چینی اپنے آپ کے تو برابر ہی ہو گی۔ یہ بھی درست نہیں ہے، تمام اجسام بغیر رُکے اپنے سائز، وزن اور رنگ وغیرہ کو تبدیل کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ کبھی بھی اپنے آپ کے برابر نہیں ہوتے۔ ایک سوفسطائی جواب دے گا کہ ایک پاؤنڈ چینی اپنے خود کے برابر تو ہو سکتی ہے، لیکن ”یہ بات محض وقت کے ایک دیے گئے لمحے میں ہو سکتی ہے“۔

اگر اس انتہائی مبہم بیان کی عملی حیثیت سے قطع نظر بھی کر لیا جائے تو بھی یہ نظریاتی تنقید کے سامنے نہیں ٹھہرے گا۔ مثلاً ہم لفظ ”لمحہ“ کو حقیقی طور پر کیسے جانتے ہیں؟ اگر یہ وقت کا ایک انتہا درجے پر چھوٹا وقفہ ہے، تو ایک پاؤنڈ چینی کو اس وقفے میں ناگزیر تبدیلی سے لازماً گزرنا ہو گا۔ یا پھر ایسا ہو کہ یہ ”لمحہ“ محض ایک ریاضیاتی تجرید کے سوا کچھ بھی نہیں، صفر وقت کی [یعنی یہ وقت کے نہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے]؟ لیکن [ہم جانتے ہیں کہ] ہر چیز وقت ہی میں موجود ہے؛ اور ہونا بجائے خود بغیر رکے ”ہو رہا ہونا“ ہوتا ہے [یعنی جو ہے، تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے]؛ نتیجتاً وقت ”ہونے“ [ہستی کا، وجود کا] کا ایک لازمی جزو ہے۔ لہٰذا قضیہ ’الف‘ برابر ہے ’الف‘ کے ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ایک چیز اپنے برابر محض اس وقت ہو سکتی ہے، جب یہ تبدیل نہ ہو، یعنی کہ اگر یہ ہو ہی نہ [اس کا وجود ہی نہ ہو]۔

پہلی نظر میں ہمیں یہ ”موُشگافیاں“ بالکل فضول لگ سکتی ہیں۔ درحقیقت یہ قطعی نوعیت کی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک طرف تو ’الف‘ کا ’الف‘ کے برابر ہونا ہمارے تمام علم کی ابتدا کے طور پر نظر آتا ہے، لیکن دوسری جانب ہماری گمراہی کی بنیاد بھی یہی ہے۔ ’الف‘ برابر ہے ’الف‘ کے مخصوص حدود کے اندر ہی ممکن ہے۔ جب ’الف‘ کے اندر ہونے والی مقداری تبدیلیوں سے بوجوہ قطع نظر کیا جائے تو ہی ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ ’الف‘ برابر ہے ’الف‘ کے۔ یہ مثال کے طور پر وہ طریقہ ہے جس پر چلتے ہوئے ایک دوکاندار اور ایک گاہک ایک پاؤنڈ چینی کو ایک پاؤنڈ تصور کرتے ہیں۔جس طرح سے ہم سورج کے درجہ حرارت کو تصور کرتے ہیں۔ اب تک تو ہم ڈالر کی قوتِ خرید کا تصور بھی اسی طرز سے کرتے آئے ہیں۔ لیکن ایک حد سے گزری ہوئی مقداری تبدیلیاں معیاری میں بدل جاتی ہیں۔ ایک پاؤنڈ چینی جب پانی میں مل جائے یا پھر مٹی کے تیل میں تو یہ ایک پاؤنڈ چینی تو نہیں رہتی۔ ایک ڈالر جب ایک صدر کی جیب میں ہو گا تو وہ ڈالر تو نہیں رہے گا۔ جس مخصوص وقت پر مقدار معیار میں تبدیل ہو جاتی ہے عین اس لمحے کا تعین کرنا عمرانیات سمیت علوم کے تمام شعبوں کیلئے بے حد اہم اور مشکل کام ہے۔

ہر کاریگر جانتا ہے کہ بالکل ایک جیسی دو چیزیں بنانا ناممکن ہے۔ پیتل کی سلاخ سے کون بیئرنگ بنائے جا سکتے ہیں، لیکن ہم یہ کام مخصوص حدود کے اندر رہتے ہوئے ہی کر سکتے ہیں، یہ تبدیلی ایک حد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے (اسے [مخصوص دھات کی] قوتِ برداشت ”ٹالرینس“ کہتے ہیں)۔ اس قوت برداشت کو مدنظر رکھتے ہوئے مان لیا جاتا ہے کہ تمام کونیں ایک جیسی ہیں (یعنی ’الف‘، ’الف‘ کے برابر ہے) جب یہ ”برداشت“ بڑھ جاتی ہے تو مقدار معیار میں تبدیل ہو جاتی ہے، دوسرے لفظوں میں کون بے کار یا برباد ہو جاتی ہے۔

ہماری سائنسی سوچ ہمارے روز مرہ کے معمول کا محض ایک حصہ ہوتی ہے جس میں تکنیک بھی شامل ہے۔ تصور کے لیے بھی ”برداشت“ کی ضرورت ہے جو کہ صوری (formal) منطق کا ’الف‘ برابر ہے ’الف‘ کا قضیہ نہیں بتاتا بلکہ یہ بات جدلیاتی منطق کی اس بات سے سمجھ آتی ہے کہ ہر شئے ہمہ وقت تبدیلی کی زد میں رہتی ہے۔ یہ ”کامن سینس“ کے خاصے کی ماہیت ہے کہ یہ بڑے طریقے سے جدلیاتی ”برداشت“ سے تجاوز کر جاتی ہے۔

سطحی سوچ [مارکس ولگر کا سطحی یا اتھلے پن کے معنوں میں استعمال کرتا ہے۔ جہاں سوچ، علم یا مفکر ظاہر سے ماہیت کی طرف نہ جائے۔ ٹراٹسکی نے بھی انہی معنوں میں برتا ہے] سرمایہ داری کو سرمایہ داری کے برابر مان کر چلتے ہوئے، سرمایہ داری، اخلاقی قدریں، آزادی، مزدور ریاست وغیرہ جیسے تصورات کو قطعی تجریدوں کی طرح استعمال کرتی ہے [جیسے یہ آخری سچ ہوں]۔ اخلاقی قدریں اخلاقی قدروں کے برابر ہیں، وغیرہ۔ جدلیاتی سوچ تمام چیزوں اور تمام مظاہر کا، ان میں ہونے والی مسلسل تبدیلی کے تناظر میں، ان مادی حالات میں متعین کرتے ہوئے، جس کی نازک حدوں سے پار ’الف‘ برابر ’الف‘ کے نہیں رہتا، ایک محنت کشوں کی ریاست محنت کشوں کی ریاست نہیں رہتی، تجزیہ کرتی ہے۔

سطحی سوچ میں بنیادی نقص کی پنہاں ماہیت ہے کہ یہ ایک ساکت و جامد حقیقت کے منجمد نقوش کے ساتھ چمٹی رہنے کی خواہاں ہے، اس حقیقت کی، جس کی فطرت ہی متحرک ہے۔ جدلیاتی سوچ تصورات کو، باریک بین اندازوں، درستیوں، مقرونیت، مواد اور لچک پذیری سے نوازتی ہے؛ بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ ایک ”دل کو موہ لینے والی“ ایسی کیفیت سے جو کہ [تصورات کو] زندہ اور متحرک مظاہر کے قریب لے آتی ہے۔ سرمایہ داری عمومیت میں نہیں، بلکہ ایک مخصوص سرمایہ داری جو کہ ارتقا کے ایک مخصوص مرحلے پر ہے۔ ایک قطعی محنت کشوں کی ریاست نہیں، بلکہ ایک ایسی مخصوص محنت کشوں کی ریاست جو کہ ایک پچھڑے ہوئے ملک میں سامراجیت کے حصار میں قید ہے، وغیرہ۔ جدلیاتی سوچ، عام اور سطحی سوچ سے اسی طرح سے مختلف ہے جیسے کہ ایک متحرک فلم ایک ساکت تصویر سے مختلف ہے۔ مووی فلم ساکت تصویر سے متضاد نہیں ہے بلکہ انہی ساکت تصویروں ہی کے ایک سلسلے کو قوانینِ حرکت کے زیر اثر جوڑتی ہے۔ جدلیات منطقی [ارسطو والی صوری منطق کے] استدلال کو [مطلق] غلط قرار نہیں دیتی، بلکہ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کس طرح ان منطقی قیاسوں یا استدلالوں کو اس طرح سے کیسے جوڑ کر دیکھا جائے کہ ہم اس حقیقت کو جان سکیں جو اپنی سرشت میں ازلی طور پر مبدل پذیر [ہر وقت تبدیل ہوتی رہتی] ہے۔ ہیگل اپنی کتاب ”منطق“ میں قوانین کا ایک سلسلہ تشکیل کرتا ہے: مقدار کا معیار میں تبدیل ہونا، تضادات کے ذریعے ارتقا کا ہونا، بُنتر اور مافیہا (form and content) کا تضاد، تسلسل میں رخنے، امکان کی ناگزیریت میں تبدیلی، وغیرہ، [اعلیٰ درجے پر] نظریاتی فکر کے لیے یہ سب اتنے ہی ضروری ہیں جتنے کہ عام اور سادہ کاموں میں سادہ منطقی قیاس۔

ہیگل نے ڈارون اور مارکس سے پہلے لکھا تھا۔ ہم انقلاب فرانس کے شکر گزار ہیں کہ جس نے [ہیگل کی] سوچ کو وہ زبردست تحریک دی کہ جس کی بدولت ہیگل نے پہلے سے اس بات کا اندازہ کر لیا کہ سائنس کا عمومی رجحان کس طرف کو ہے۔ کیوں کہ یہ محض ایک پیش بینی تھی، بے شک ایک جینئس کی طرف سے تھی، لیکن [عینیت پسند] ہیگل نے اسے خیال پرست خاصے میں لپیٹ دیا۔ ہیگل نے خیالی سایوں کو مطلق سچ کے طور پر مان کر کام کیا۔ مارکس نے ہمیں یہ بتایا کہ یہ خیالی سائے ہمیں مادی اجسام کی حرکت کے سوا اور کچھ نہیں بتاتے۔

ہم خود کو جدلیاتی مادیت پسند کہتے ہیں، کیونکہ اس کی جڑیں نہ تو آسمان میں ہیں اور نہ ہی ہمارے کسی ”آزاد ارادے“ کی گہرائیوں میں، بلکہ یہ معروضی حقیقت یعنی فطرت میں ہیں۔ شعور لاشعور سے جنم لیتا ہے، نفسیات فزیالوجی سے، زندہ نامیاتی دنیا غیر نامیاتی سے، نظام شمسی سدائم (نیبولا) سے۔ ارتقا کی اس سیڑھی کے ہر ایک ڈنڈے پر مقداری تبدیلیاں معیاری میں تبدیل ہوتی رہیں۔ ہماری سوچ بمع جدلیاتی سوچ، تغیر پذیر مادے کے اظہار کی صرف ایک شکل ہے۔ اس نظام کے اندر خدا کی جگہ ہے نہ شیطان کی، نہ غیر فانی روح کی اور نہ ہی قوانین اور اخلاقیات کی ابدی قدروں کی۔ سوچ کی جدلیات فطرت کی جدلیات سے پیدا ہوئی ہے، نتیجتاً یہ مکمل طور پر مادی کردار کی حامل ہے۔

ڈارون ازم جو کہ انواع کے ارتقا کی وضاحت مقداری سے معیاری تبدیلیاں ہونے کے بطور کرتا ہے، نامیاتی مادے کے سارے میدان میں جدلیات کی سب سے عظیم الشان جیت تھی۔ کیمیائی عناصر کے ایٹمی وزنوں کے جدول، اور اس سے بھی بڑھ کر ایک عنصر کی دوسرے میں تبدیلی کی دریافتیں دوسری عظیم ترین کامیابی تھی۔

(انواع اور عناصر وغیرہ میں) ان تبدیلیوں کے ساتھ درجہ بندی کا سوال قریبی طورپر وابستہ ہے جو فطرتی اور سماجی سائنسوں میں برابر کی اہمیت کا حامل ہے۔ لینائسؔ (اٹھارھویں صدی) نے اپنے نظام کی بنیاد اس بات پر رکھی تھی کہ انواع میں تبدیلی ہرگز نہیں ہوتی۔ اس میں پودوں کی تشریح اور درجہ بندی صرف ان کے خارجی خاصوں کے مطابق کی گئی تھی۔ علم نباتات کا وہ طفلانہ دور بالکل منطق کے طفلانہ دور سے مشابہ ہے۔ کیونکہ ہماری سوچ کی بُنتر ان ساری چیزوں ہی کی طرح ارتقا پذیر ہوتی ہے جو کہ زندگی کی حامل ہیں۔ غیر مبدل پذیر انواع کے [باطل] تصور کو صرف ایک طریقے سے فیصلہ کن انداز میں جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے، کہ پودوں کے ارتقا کی تاریخ اور ان کے علمِ تشریح اجزا (اناٹومی) کا مطالعہ حقیقی سائنسی درجہ بندی کی بنیاد پر کیا جائے۔

مارکس، جس کو ڈارون کی نسبت ایک شعوری جدلیات پسند ہونے کی بنا پر فوقیت حاصل تھی، نے انسانی سماجوں کی، ان کی پیداواری قوتوں اور مِلکیتی تعلقات کے ڈھانچے جو کہ سماج کی اناٹومی تشکیل کرتے ہیں، کے ارتقا کی روشنی میں سائنسی درجہ بندی کی ایک بنیاد کو دریافت کیا۔ مارکسزم نے ایک مادیت پسند جدلیاتی درجہ بندی کی صورت میں معاشروں اور ریاستوں کی اس اُتھلی بیانیہ درجہ بندی کا متبادل فراہم کیا جو کہ اب تک یونیورسٹیوں میں پنپ رہی ہے۔ صرف مارکس ہی کا طریق کار استعمال کرتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ محنت کشوں کی ریاست اور اس کی تنزلی کے مرحلے، دونوں کا درستی سے تعین کیا جا سکے۔

یہ سب جو کچھ کہ ہم نے دیکھا ہے اس میں کچھ بھی ایسا نہیں ہے جس کو ”مابعد الطبعیاتی“ یا ”مدرسانہ“ کہا جا سکے جس کی جہلا فاخرانہ انداز میں پُر زور توثیق کرتے ہیں۔ آج کی سائنسی سوچ میں جدلیاتی منطق حرکت کے قوانین کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کے برعکس جدلیاتی مادیت کے خلاف کی جانے والی جدوجہد ایک دقیانوسی ماضی‘ پیٹی بورژوازی کی رُجعت پرستی، یونیورسٹیوں کے لکیر کے فقیر خود پرست پروفیسروں کے زعم باطل کی اور۔۔۔کسی بعد کی زندگی کی امید پرستی کی نمائندہ ہے۔

Comments are closed.