پنجاب: اگیگا احتجاج۔۔۔ہم چھین کر لیں گے اپنا حق!

|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|

لیو انکیشمنٹ، پنشن قوانین میں مزدور دشمن تبدیلیوں اور سرکاری سکولوں کی نجکاری کے خلاف 10 اکتوبر کو لاہور سول سیکرٹریٹ کے سامنے دھرنے سے شروع ہونے والی اگیگا (آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس) پنجاب کی حالیہ عظیم الشان احتجاجی تحریک کو مرکزی اور صوبائی اگیگا قیادت نے رہائی کے بعد جمعہ کی رات کو بغیر کوئی ٹھوس کامیابی حاصل کئے ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ قیادت کا مؤقف تھا کہ ان کی مریم نواز سے ملاقات کرائی گئی ہے اور اس نے گارنٹی دی ہے کہ تحریک کے مطالبات منظور کر لئے جائیں گے۔ سمجھوتے بازی پر مبنی قیادت کے اس انتہائی بے تکے، غیر منطقی اور احمقانہ فیصلے پر پورے پنجاب بلکہ پورے ملک کے سرکاری ملازمین و محنت کشوں میں غم و غصے کی ایک شدید لہر دوڑ گئی۔

یاد رہے کہ 12 اکتوبر کو لاہور دھرنے سے اگیگا قیادت اور سینکڑوں ملازمین و محنت کشوں کی گرفتاری کے بعد یہ تحریک کم و بیش خودرو طریقے سے پورے صوبے میں پھیل گئی تھی اور اگلے سات آٹھ دنوں میں پنجاب کے درجنوں چھوٹے بڑے شہروں میں کل ملا کر لاکھوں کی تعداد میں بیشمار محکموں سے تعلق رکھنے والے چھوٹے سرکاری ملازمین و محنت کشوں، جس میں سب سے بڑی تعداد اساتذہ اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تھی، نے بڑے حجم کی احتجاجی ریلیوں، سرکاری سکولوں اور کالجوں کی ہڑتال، ویکسی نیشن پروگرام ہڑتال اور دفتری تالہ بندی وغیرہ میں بھرپور حصہ لیا تھا۔

ان ملازمین و محنت کشوں کے خلاف بڑے پیمانے پر محکمانہ تادیبی کاروائیاں بھی کی گئیں، انہیں سڑکوں پر بھی گھسیٹا گیا، ان کے گھروں پر چھاپے بھی مارے گئے اور ایک بڑی تعداد کو جھوٹے پرچے کاٹ کر گرفتار بھی کیا گیا لیکن ان لاکھوں سرفروشوں نے اس ریاستی جبر کے سامنے جھکنے سے صاف انکار کرتے ہوئے تحریک کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ ریاست اور حکمرانوں کے ہر حملے کا جواب پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ دیا۔ یہ انہی لاکھوں محنت کشوں کی مسلسل جدوجہد کا دباؤ تھا کہ حکومت کو عدلیہ کا سہارا لیتے ہوئے قیادت سمیت تمام اگیگا گرفتار شدگان کو رہا کرنا پڑا۔ مگر ان تمام قربانیوں کے نتیجے میں رہا ہونے والی قیادت نے کیا کیا؟ ایک ایسے وقت میں جب تحریک اپنے عروج پر تھی، ملازمین و محنت کشوں کے حوصلے ہمالہ کی طرح بلند تھے اور وہ مزید لڑنے کو تیار تھے جبکہ حکومت و ریاست جبر کے تمام آپشن استعمال کر کے دیکھ چکی تھی اور عملاً لڑائی ہار چکی تھی، عین ایسے وقت میں قیادت نے مریم نواز جیسی سرمایہ نواز اور عوام دشمن سیاستدان کی نام نہاد گارنٹی (یہ بھی قیادت کا زبانی دعویٰ ہے) پر پوری تحریک کو رول بیک کر دیا۔

ایسے میں ہزاروں ملازمین و محنت کش قیادت پر زبردست تنقید کرتے ہوئے بالکل درست سوالات اٹھا رہے ہیں کہ مریم نواز تو کوئی حکومتی اتھارٹی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اس کی پارٹی اقتدار میں بھی نہیں ہے۔ تو وہ کون ہوتی ہے گارنٹی دینے والی؟ اس کے عالیشان محل کے ڈرائنگ روم کے بند دروازوں کے پیچھے کیا طے ہوا ہے، کیا اس کا کوئی ثبوت قیادت کے پاس ہے؟ کیا قیادت کو نہیں معلوم کہ ن لیگ سمیت تمام سیاسی پارٹیاں پرلے درجے کی عوام دشمن ہیں؟ ان سب نے اپنے اپنے دور اقتدار میں محنت کشوں اور عوام پر بد ترین معاشی حملے کیے ہیں۔ یہ سب سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ ہیں اور آئی ایم ایف کی گماشتہ ہیں۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو کھلے عام کیے گئے وعدوں اور باتوں سے صاف مکر جاتے ہیں تو بند کمروں میں کئے گئے نام نہاد زبانی وعدوں کی کیا اوقات ہے؟ اور جب کل کلاں کو سرمایہ دار حکمران طبقے کے یہ سیاستدان اپنے وعدے سے مکریں گے تو قیادت کیا کرے گی؟ اس کے جواب میں قیادت کے پاس طفل تسلیاں دینے کے ساتھ ساتھ ایک جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہم دوبارہ تحریک چلائیں گے۔ لیکن ہم قیادت سے سوال پو چھتے ہیں کہ اس بڑے پیمانے کی احتجاجی تحریکیں کیا کوئی بجلی کا سوئچ ہوتی ہیں کہ آپ جب چاہیں گے اسے آن آف کر دیں گے؟ کیا اتنی بڑی سمجھوتے بازی کے بعد لاکھوں ملازمین و محنت کش آپ پر دوبارہ اعتماد کریں گے؟یقیناً نہیں اور پھر آپ اپنی حرکتوں کی پیدا کردہ اس بد اعتمادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملازمین و محنت کشوں کو ”بزدل“ لیبل کریں گے اور مزید سمجھوتے بازی کا جواز تراشیں گے۔

یہاں یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ اس تحریک میں آگے بڑھنے کا بے تحاشہ پوٹینشیل موجود تھا۔ یہ مسائل صرف صوبہ پنجاب کے ملازمین و محنت کشوں کے نہیں بلکہ پورے ملک کے سرکاری محکموں اور عوامی اداروں کے محنت کشوں کے مسائل تھے۔ واپڈا، ریلوے، پوسٹ، سول ایوی ایشن اور بے شمار عوامی ادارے پہلے ہی نجکاری کے حملے کی زد میں ہیں۔ اور سب جانتے ہیں کہ اگر پنجاب میں مزدور دشمن لیو انکیشمنٹ اور پنشن ترامیم لاگو ہو گئیں تو وفاق، دیگر صوبوں اور عوامی اداروں پر ان کے اطلاق کا راستہ بھی صاف ہو جائے گا۔ لہٰذا اگر اگیگا قیادت چاہتی تو وہ تھوڑی سی کوشش کے ساتھ تمام صوبوں، وفاقی ملازمین اور عوامی اداروں کے محنت کشوں کو اس تحریک کا حصہ بنا سکتی تھی۔ اسی طرح نجی صنعتوں میں کم از کم اجرت میں اضافے اور حکومتی اعلان کردہ اجرت کے فوری اطلاق کو اپنے پروگرام کا حصہ بناتے ہوئے نجی صنعتوں کے محنت کشوں کی حمایت بھی جیتی جا سکتی تھی۔ اسی عمل میں تشکیل پانے والا ملک گیر مزدور اتحاد ناگزیر طور پر ایک ملک گیر عام ہڑتال کا سوال بھی سامنے لے آتا جو حکمرانوں کے دانت توڑ کر رکھ دیتی۔

اسی طرح سکولوں کی نجکاری اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کے مسائل کے گرد عوامی ہمدردی جیتنے کی ایک وسیع کمپئین کی جا سکتی تھی جو ان مجوزہ حکومتی اقدامات کے عوام پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کو واضح کرتے ہوئے عوام کی وسیع تر پرتوں کو اس تحریک کا حمایتی بنا دیتی۔ مگر ان سب اقدامات سے سب سے زیادہ خوفزدہ اگیگا قیادت خود تھی۔ انہیں اس تحریک کے پھیلنے سے خوف لاحق تھا۔ انہیں عوامی ہمدردی کے حصول سے خوف لاحق تھا۔ کیونکہ تحریک جتنی مضبوط ہوتی جاتی، ان کے لئے حکمرانوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا جاتا۔ یاد رہے کہ قیادت نے اس تحریک اور اس میں درپیش آنے والے ممکنہ چیلنجز کے حوالے سے کوئی قبل از وقت منصوبہ بندی نہیں کر رکھی تھی اور قیادت کی گرفتاری کے بعد تحریک قیادت کی کسی راہنمائی اور توقعات کے برعکس پھیلتی گئی تھی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ تحریک جتنی مضبوط ہوتی گئی، قیادت کا جدوجہد میں بر سر پیکار لاکھوں ملازمین و محنت کشوں سے لاحق خوف بھی ویسے ہی بڑھتا گیا اور وہ ان کی زبردست طاقت پر بھروسہ کرنے کی بجائے اور زیادہ شدت کے ساتھ اگیگا اتحاد میں شامل خفیہ ایجنسیوں کی پیداوار پرلے درجے کی مزدور دشمن مذہبی تنظیموں کے بغل بچہ بنتے گئے۔ یہاں اس امر کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا کہ قیادت میں شامل کچھ عناصر کو روز اول سے ہی یہ معلوم تھا کہ تحریک کو آخر میں فوجی اشرافیہ کے فی الوقت غالب دھڑے کی حمایت یافتہ ن لیگ کی جھولی میں ڈال دیا جائے گا۔ ہاں، البتہ مہنگائی، غربت اور معاشی بحران کے ستائے لاکھوں ملازمین و محنت کشوں نے ان عناصر کی توقعات کے برعکس بڑے پیمانے پر حرکت میں آ کران کی اس ساری پلاننگ کے رنگ میں بھنگ ضرور ڈال دیا۔

پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک کے زوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پر ملازمین و محنت کش یونین لیڈروں کی سمجھوتے بازی پر ان کا سخت محاسبہ نہیں کرتے اور چند دن غم و غصے کا اظہار کر کے پھر صبر شکر کر لیتے ہیں۔لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اگر اگیگا کے پلیٹ فارم کو مزید پھیلاؤ اختیار کرنا ہے اور ملک کی مزدور تحریک کو اگلا قدم اٹھانا ہے تو لازمی ہے اگیگا کی مرکزی و صوبائی قیادت کا سخت محاسبہ کیا جائے۔ وہ وقت گزر گیا جب ایسی نااہل و نالائق قیادت کو محنت کش دہائیوں تک برداشت کرتے جاتے تھے۔آج صرف وہی ملازمین و محنت کشوں کی قیادت کا اہل ہے جو کسی سمجھوتے بازی کی بجائے تحریک اور اپنے طبقے کی خاطر پہاڑوں سے ٹکرا جانے کا حوصلہ رکھتا ہو اور اس حوالے سے تن من کی بازی لگانے کو تیار ہو۔ مزدور تحریک میں ایسی ہی لڑاکا، وفادار اور دلیر قیادت کو تراش کر سامنے لانا ریڈ ورکرز فرنٹ کا مقصد ہے۔ اس حوالے سے ہم پہلے بھی اگیگا سمیت محنت کشو ں و ملازمین کی ہر تحریک میں ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر قربانیاں دیتے رہے ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے۔ حالیہ تحریک میں بھی ریڈ ورکرز فرنٹ اور ہماری ساتھی طلبہ تنظیم پروگریسو یوتھ الائنس کے تین کارکنان نے بلند حوصلے کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ لیکن ہماری قربانیاں ان لاکھوں محنت کش مرد و خواتین کی قربانیوں کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں جنہوں نے اپنے خون پسینے سے اس تحریک میں جان ڈالی۔ یہ سب قربانیاں رائیگاں نہیں جانی چاہئیں۔ قیادت سے ان کا پورا حساب لیا جائے گا۔ پاکستان کی مزدور تحریک اب قیادتوں کی دھوکہ دہی کی مزید متحمل نہیں ہو سکتی۔

Comments are closed.