|تحریر: زلمی پاسون|

2 ستمبر کو کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے جلسے پر ایک خودکش حملہ ہوا،یہ خودکش دھماکہ نہ صرف ایک المیہ تھا بلکہ ایک بھیانک حقیقت کی غمازی بھی کرتا ہے کہ یہ خطہ ریاستی جبر، دہشتگردی اور سامراجی کھیل کا اکھاڑا بنا ہوا ہے، یہاں سیاست کرنا، پرامن جلسے اور احتجاج کرنا شجر ممنوعہ ہے۔ واضح رہے اس حملے میں اب تک کی اطلاعات کیمطابق کم از کم 16 بے گناہ لوگ شہید اور 30 سے زائد زخمی ہوئے۔ خودکش بمبار نے جلسہ گاہ کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا دیا اور اس طرح ایک سیاسی اجتماع کو خون میں نہلا دیا۔ شدت پسند تنظیم داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی، اور مختلف تجزیات کے مطابق اس کا اصل ہدف بی این پی کی قیادت تھی۔ یاد رہے کہ بلوچستان یا خیبر پختونخوا میں دھماکے کوئی انہونی بات نہیں ہیں۔ بی این پی پر اس سال میں یہ دوسرا حملہ ہے۔ جہاں رواں سال 29 مارچ کو بھی بی این پی کے دھرنے پر خودکش حملے کی کوشش کی گئی تھی، مگر بمبار قبل از وقت دھماکے میں مارا گیا۔ اسی طرح، باجوڑ میں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما مولانا خانزیب کو بھی ایک خودکش حملے میں شہید کیا گیا۔ یہ سلسلہ محض شخصیات کے خلاف نہیں بلکہ پورے خطے میں عوامی اجتماع اور سیاسی عمل کو خوف اور انتشار میں دھکیلنے کی کوشش ہے۔
دہشتگردی کے حوالے سے ظاہر ہے بہت سارے سوالات موجود ہیں، مگر سب سے اہم یہ سوال جنم لیتا ہے کہ: آخر کیوں عوامی جلسے اور سیاسی قیادت کو نشانہ بنایا جاتا ہے؟ کیوں دہشتگرد گروہ بار بار بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام پر حملے کرتے ہیں؟ اور کیوں ریاست ان حملوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے بلکہ بعض اوقات انہی حملوں کے بعد عوامی ردعمل کو کچلنے میں تیزی دکھاتی ہے؟ ان سوالات کے جوابات اور بلوچستان کی عمومی صورتحال کو ایک کمیونسٹ تناظر سے دیکھنے کے لیے بحث کو آگے بڑھاتے ہیں۔
دہشتگردی اور سیاست: سبوتاژ کا ہتھیار
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کا یہ سلسلہ کسی حادثاتی عمل کا نتیجہ نہیں۔ سیاسی اجتماعات کو نشانہ بنانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عوامی جدوجہد اور اجتماعی شعور کو سبوتاژ کیا جائے۔ جب عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اجتماعی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو انہیں دہشت کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور یہ سلسلہ نہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہو رہا ہے، بلکہ پاکستان کے دیگر علاقوں کو بھی ایک مخصوص پیمانے میں اسطرح کی ریاستی و سامراجی دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
دہشتگرد تنظیمیں، چاہے وہ داعش ہو، ٹی ٹی پی ہو یا مقامی فرقہ پرست گروہ، عوامی سیاست کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ لیکن یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ یہ گروہ کسی خلا میں جنم نہیں لیتے۔ ان کے پیچھے ایک پوری تاریخی اور سیاسی زمین ہموار کی گئی ہے۔ جس میں سامراجی پالیسیاں، ریاستی سرپرستی، مذہبی انتہا پسندی کا فروغ اور عوامی تحریکوں کے خلاف خوف کا ہتھیار بہر حال شامل ہیں۔ یہاں ایک بنیادی تضاد سامنے آتا ہے۔ ان حملوں سے وقتی طور پر حکمران طبقے کو فائدہ پہنچتا ہے، کیونکہ عوام اپنے حقیقی مسائل (مہنگائی، بیروزگاری، غربت، قومی جبر، وسائل کی لوٹ مار اور دیگر مسائل) پر منظم ہونے کے بجائے خوف اور بکھراؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مگر طویل مدت میں یہی دہشتگردی حکمران طبقے کے لیے دو پہلوؤ ں سے وبالِ جان بھی بن جاتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حکمران طبقہ وقتی طور پر دہشتگرد گروہوں کو اپنے سامراجی و داخلی مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے، مگر جدلیاتی حقیقت یہ ہے کہ ہر ہتھیار ایک دن الٹا بھی پڑتا ہے۔ جس طرح ٹی ٹی پی اور اس جیسی قوتیں ریاست کے قابو سے نکل کر خود حکمران طبقے کے لیے اب خطرہ بن چکی ہے۔ دوسرا پہلو عوام ان ہتھکنڈوں کو محض دھوکہ سمجھ کر مزید باشعور اور منظم ہوتے ہیں۔ اس طرح تضادات کی تیز تر شدت ریاستی رٹ کو کمزور کرتی ہے اور محنت کش عوام کے سامنے انقلابی متبادل کی ضرورت اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔
دہشتگردی کی جڑیں: سامراجی کھیل اور ریاستی پالیسیاں
گوکہ پاکستان سمیت دنیا جہان کی محنت کش عوام دہشتگردی کے اس عفریت کو ہر حوالے سے بخوبی جانتی ہے، مگریہ پس منظر ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ 2 ستمبر کا دھماکہ کوئی ”انفرادی واقعہ“ نہیں، بلکہ ایک لمبے سلسلے کی کڑی ہے جو سامراجی کھیل اور ریاستی پالیسیوں کی پیداوار ہے۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کو اگر محض ”انتہا پسندی“ یا”مذہبی جنون“ کے زمرے تک محدود کر دیا جائے تو یہ ایک بڑی سیاسی و تاریخی حقیقت کو مسخ کرنے کے مترادف ہوگا۔ ان خونریز دھماکوں اور مسلح گروہوں کے پیچھے وہ سماجی و سامراجی تضادات کارفرما ہیں، جنہیں گزشتہ چار دہائیوں میں ریاست اور عالمی طاقتوں نے خود تخلیق کیا اور پھر اپنے وقتی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
1979ء میں سوویت یونین کے خلاف امریکی سامراج، سعود ی عرب اور پاکستانی ریاست کے گٹھ جوڑ سے جس نام نہاد ”پٹرو ڈالر جہاد“ کی بنیاد رکھی گئی، وہی دراصل آج کے دہشتگرد گروہوں کا منبع ہے۔ سامراجی مفاد کے لیے اربوں ڈالر جھونکے گئے، لاکھوں نوجوان مذہب کے نام پر بھرتی کیے گئے، اور ایک پورا خطہ بندوق اور بارود کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اس عمل میں پاکستانی ریاست نے ”اسٹریٹیجک ڈیپتھ“ کے نظریے کے تحت بالخصوص پشتون اور کچھ بلوچ علاقوں کو جنگی معرکہ گاہ بنایا۔ جب سوویت یونین کا انخلا ہوا تو یہ”مجاہدین“ بے قابو ہو گئے۔ طالبان اور دیگر دہشتگرد جتھوں کو انہی تضادات سے ابھار دیا گیا، اور پھر 9/11 کے بعد امریکہ نے ایک نیا سامراجی کھیل شروع کیا، جس میں کبھی طالبان کو دشمن اور کبھی اتحادی بنایا گیا۔
دہشتگردی کا پھیلاؤ اور خطے پر اثرات
یہ”جہادی“ پراجیکٹ صرف افغانستان تک محدود نہ رہا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے گاؤں، قصبے اور شہر ان پالیسیوں کی قیمت چکانے پر مجبور ہوئے۔ مدارس کو اسلحہ خانوں اور بھرتی مراکز میں بدل دیا گیا، جبکہ سامراجی فنڈنگ نے انتہا پسند گروہوں کو پھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ داعش کا ابھار بھی اسی عمل کا حصہ ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں سامراجی جنگوں کے نتیجے میں جنم لینے والا یہ گروہ پاکستان کے اندر قدم جمانے میں کامیاب ہوا۔ آج بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں داعش کی کارروائیاں اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ سامراجی پالیسیاں ایک”عفریت“ کو جنم دے کر اسے قابو میں رکھنے میں ناکام ہو گئی ہیں۔
8 ستمبر کی ہڑتال: عوامی احتجاج اور ریاستی جبر
2 ستمبر کے المناک خودکش حملے کے بعد بلوچستان میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی۔ عوام کے لیے یہ صرف ایک اور خونریز واقعہ نہیں تھا بلکہ ان پر مسلط کیے گئے جبر، دہشت اور عدم تحفظ کا تسلسل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 8 ستمبر کو پشتون و بلوچ قوم پرست جماعتوں سمیت مختلف سیاسی قوتوں نے مشترکہ ہڑتال کی کال دی۔ اس ہڑتال میں نہ صرف شٹر ڈاؤن بلکہ پہیّہ جام بھی شامل تھا۔ پورے صوبے کے بازار بند رہے، ٹریفک معطل رہی، اور عوام نے اجتماعی طور پر یہ پیغام دیا کہ وہ مزید خاموش رہنے کو تیار نہیں۔
یہ ایک دلچسپ اور سبق آموز حقیقت ہے کہ قوم پرست پارٹیوں کی عوامی حمایت اب پہلے جیسی نہیں رہی۔ وہ اپنے تاریخی عروج اور عوامی اعتماد کو بہت پہلے کھو چکی ہیں، مگر اس کے باوجود اس ہڑتال کی کامیابی تین بنیادی وجوہات کے نتیجے میں ممکن ہوئی:
1)عوام دہشتگردی سے تنگ آچکے ہیں۔بار بار سیاسی جلسوں اور عوامی اجتماعات پر حملے ہوتے ہیں، جن میں ہمیشہ عام عوام ہی بلی کا بکرا بنتے ہیں۔ لوگ روزانہ اپنے پیاروں کو کھوتے ہیں اور خوف میں جیتے ہیں، اس لیے وہ کسی بھی پلیٹ فارم پر اپنی نفرت اور غصے کا اظہار کرنے پر مجبور ہیں۔
2)سطح پر انقلابی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے عوام انہی پارٹیوں کی کال پر لبیک کہتے ہیں۔ بلوچستان میں محنت کش طبقے اور محکوم اقوام کے لیے کوئی منظم انقلابی پارٹی یا قیادت موجود نہیں، اس خلا کو وقتی طور پر قوم پرست پارٹیاں پُر کرتی ہیں۔ عوام جانتے ہیں کہ یہ پارٹیاں ان کے مسائل کا حل نہیں، لیکن احتجاج کا کوئی اور راستہ نہ ہونے کے باعث وہ انہی کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔
3)ریاست، حکومت اور ان کی ظالمانہ پالیسیوں سے شدید نفرت۔عوام صرف دہشتگردی کے خلاف نہیں نکلے بلکہ اس پورے جبر کے نظام کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کر رہے تھے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ، وسائل کی لوٹ مار، غربت اور محرومی، سب نے مل کر ریاست کے خلاف غصے کو بھڑکا دیا ہے۔
لیکن ریاست کا ردعمل اس عوامی بیداری کے سامنے نہ دہشتگردوں کے خلاف تھا اور نہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے والا۔ اس کے برعکس، ریاست نے ہڑتال کو سبوتاژ کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔260 افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں عام کارکن، ہڑتال کے منتظمین اور سیاسی کارکن شامل تھے۔ یہ عمل اس بات کا کھلا اعلان تھا کہ ریاست کے نزدیک اصل خطرہ دہشتگرد نہیں بلکہ وہ عوام ہیں جو متحد ہو کر اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔
260 گرفتار شدگان کے معاملے پر حکومت اور جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں ان کی رہائی کا فیصلہ ہوا۔ لیکن یہ پورا عمل ریاست کی منافقانہ اور میکانکی سیاست کو بے نقاب کرتا ہے۔ اگر گرفتاریاں ”قانونی“ تھیں تو رہائی کیوں؟ اور اگر یہ لوگ بے گناہ تھے (جیسا کہ حقیقت ہے) تو پھر انہیں پکڑا ہی کیوں گیا؟ اس تضاد نے یہ حقیقت ایک بار پھر عیاں کر دی کہ ریاست دہشتگردی کے خاتمے کے بجائے عوامی احتجاج اور مزاحمت کو دبانے پر زیادہ توجہ دیتی ہے۔
یہ واقعہ بلوچستان کے عوام کے لیے ایک نئی حقیقت کو اجاگر کرتا ہے: دہشتگردی کے خلاف عوام جب متحد ہوتے ہیں تو ریاست خود ان کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ حکمران طبقہ دہشتگرد گروہوں کو ختم کرنے کی سکت یا خواہش نہیں رکھتا، لیکن عوامی طاقت کے سامنے وہ فوراً جبر پر اتر آتا ہے۔ یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ دہشتگردی محض ایک ”باہر سے آنے والی آفت“ نہیں بلکہ حکمران طبقے کے تضادات اور پالیسیوں کی پیداوار ہے۔
بلوچستان میں ریاستی جبر اور جدوجہد کی حدود
بلوچستان آج جس کرب سے گزر رہا ہے، وہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ ریاستی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیاں اور جمہوری و سیاسی حقوق پر قدغن اس خطے کے عوام کی روزمرہ حقیقت بن چکے ہیں۔ ہزاروں نوجوان، طلبہ، سیاسی کارکن اور محنت کش یا تو غائب کر دیے گئے یا پھر مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں واپس ملے۔ یہ پالیسیاں خوف پیدا کرنے کے بجائے ریاست کے خلاف غصے اور بغاوت کو بڑھاتی ہیں۔

بلوچ عوام کی ہر سیاسی آواز کو دبانے کے لیے جھوٹے مقدمات اور نوآبادیاتی دور کے کالے قوانین استعمال ہو رہے ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کی قیادت کو من گھڑت مقدمات میں قید کیا گیا جبکہ بلوچستان گرینڈ الائنس کی قیادت کو 3MPO جیسے برطانوی سامراج کے قانون کے تحت نشانہ بنایا گیا۔ یہ وہی قانون ہے جسے انگریز نے بغاوت کچلنے کے لیے بنایا تھا، اور آج پاکستانی ریاست اسی کو اپنے عوام کے خلاف دہرا رہی ہے۔
ریاست خود کو طاقتور ظاہر کرنے کے لیے کھلم کھلا بدمعاشی پر اتر آئی ہے۔ 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس کی اغوا کاری کے بعد ریاستی اداروں نے دہشت اور دھونس کا کھلا کھیل شروع کیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ طاقت کا نہیں بلکہ کمزوری کا اظہار ہے۔ لینن کا قول یہاں بالکل درست ثابت ہوتا ہے کہ: ”ریاست جتنی کمزور ہوتی ہے، اتنی ہی سفاک ہو جاتی ہے۔“ بلوچستان میں جبر کی شدت دراصل ریاست کی غیرمستحکم بنیادوں اور داخلی تضادات کو ظاہر کرتی ہے۔
بی وائی سی نے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے اور ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ مگر انقلابی نقطہ نظر سے ایک دوستانہ تنقید ضروری ہے۔ ان کی جدوجہد زیادہ تر احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور سڑکیں بند کرنے تک محدود رہی ہے۔ یہ اقدامات وقتی دباؤ تو ڈال سکتے ہیں،مگر ریاستی جبر کو توڑنے کے لیے ناکافی ہیں۔ جب قیادت پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور گرفتاریاں ہوئیں تو کچھ وقتی ردعمل سامنے آیا لیکن جلد ہی خاموشی چھا گئی۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ جب تحریک محض شخصیات اور وقتی ردعمل پر مبنی ہو اور واضح پروگرام نہ ہو تو وہ اپنی سمت کھو دیتی ہے۔ نظریہ اور تنظیم سازی کے بغیر کوئی بھی تحریک زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتی۔

یہی کمزوری بلوچ عسکریت پسندی میں بھی نظر آتی ہے۔ جن کے پاس آزادی کے تجریدی نعرے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا چند گوریلا کارروائیوں سے بلوچستان آزاد ہو سکتا ہے؟ مارکسی نقطہ نظر سے واضح ہے کہ آج کے عہد میں کوئی بھی مسلح تحریک سامراجی پشت پناہی کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ مگر سامراج کی مدد کبھی عوامی نجات کے لیے نہیں بلکہ اپنے مفادات کے لیے ہوتی ہے، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نئی غلامی پرانی غلامی کی جگہ لے لیتی ہے۔ مزید یہ کہ عسکریت پسندی عوامی تحریک کو اجتماعی شکل دینے کے بجائے ہیرو ازم کو پروان چڑھاتی ہے، جس سے عوام کی اجتماعی شمولیت غیرضروری ہو جاتی ہے۔ اس طرح مسلح جدوجہد عوامی سیاست کو کمزور کرتے ہوئے ان کے حقیقی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیتی ہے۔
یہاں ایک اور بنیادی سوال اٹھتا ہے: اگر آزادی کی جدوجہد ہے تو آخر کس نوعیت کی آزادی درکار ہے؟ کیا یہ بنگلہ دیش جیسی قومی ریاست کی آزادی ہے؟ اگر ہاں تو اس سے کیا تبدیلی آئے گی؟ بنگلہ دیش کو آزاد ہوئے 54 سال گزر گئے ہیں، مگر محنت کش عوام کی حالت جوں کی توں ہے۔ سرمایہ داری کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے قومی آزادی عام عوام کے لیے غلامی کی نئی شکل کے سوا کچھ نہیں دیتی۔ یہی حال بلوچستان کے لیے بھی ہو گا اگر آزادی کا مطلب صرف ایک نئی قومی ریاست ہو جس پر پرانی طبقاتی جکڑ برقرار رہے۔
یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اگرچہ ان رجحانات (بی وائی سی اور عسکریت پسندی) کو عوامی حمایت جس درجے میں بھی میسر ہے، مگر محض جذباتی نعروں یا تجریدی پروگرام کے ذریعے عوام کو زیادہ دیر اپنے ساتھ جوڑنا ممکن نہیں۔ عوام کے معاشی، سماجی اور طبقاتی مسائل کا کوئی واضح اور انقلابی حل ان کے پاس موجود نہیں۔ یہی وہ کمزوری ہے جو ان کی تحریک کو آخرکار مایوسی اور جمود کا شکار بناتی ہے۔
بطور انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ہم بلوچ قوم کے حقِ آزادی اور ریاستی جبر کے خلاف ان کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کس قسم کی جدوجہد؟ بلوچ عسکریت پسندی سے ہمارا اختلاف بنیادی طور پر نظریاتی اور طریقہ کار کا ہے، کیونکہ وہ عوامی سیاست کو پس منظر میں دھکیلتی ہے۔ جبکہ بی وائی سی کی عوامی جدوجہد سے ہمارا اختلاف زیادہ تر نظریاتی ہے، مگر ان کے طریقہ کاریعنی عوامی جدوجہدسے ہم مکمل اتفاق کرتے ہیں۔ اسی لیے ہم بی وائی سی سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے نظریات اور پروگرام پر ازسرِنو غور کریں اور اسے ایک سوشلسٹ بنیاد فراہم کریں۔ موجودہ عہد میں یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے خطے کے عوامی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
محنت کش طبقہ اور محکوم اقوام کی انقلابی یکجہتی
بلوچستان کا بحران محض قومی جبر یا دہشت گردی کا مسئلہ نہیں بلکہ سرمایہ داری کے گہرے معاشی، سیاسی، سماجی بحرانات اور طبقاتی تضادات کا عکس ہے۔ سرمایہ دار ریاست اور سامراجی ڈھانچے کی موجودگی میں نہ بلوچ عوام آزاد ہو سکتے ہیں اور نہ ہی پشتون، سندھی، سرائیکی یا پنجابی محنت کش۔ یہ جبر سب پر مشترکہ ہے، البتہ اس کی شدت اور اظہار مختلف خطوں میں مختلف صورتوں میں سامنے آتا ہے۔ بلوچستان میں فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیاں اور سیاسی حقوق پر قدغن اسی سرمایہ دار ریاست کی کمزوری کا اظہار ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان کے عوام تنہا اس جبر کو توڑنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اگر جدوجہد صرف بلوچستان تک محدود رہتی ہے تو یا تو یہ تھکن اور جمود کا شکار ہوگی یا پھر سامراجی قوتوں کے کھیل میں استعمال ہو گی۔
اسی لیے ضروری ہے کہ بلوچ عوام اپنی جدوجہد کو پاکستان کے محنت کش طبقے کے ساتھ جوڑیں۔ کوئٹہ، کراچی، حب، لسبیلہ اور گوادر جیسے مراکز میں بلوچ، پشتون، پنجابی اور سندھی محنت کش ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ یہی وہ مادی بنیاد ہے جس پر قومی جبر کو طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ جب یہ محنت کش اپنی اجتماعی طاقت کو بروئے کار لائیں گے تو نہ صرف قومی جبر بلکہ سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف بھی ایک حقیقی انقلابی متبادل بن کرابھرے گا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں قومی آزادی کی تحریک اور سوشلسٹ انقلاب ایک دوسرے سے جڑتے ہیں۔

تاہم ہمیں یہ حقیقت کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ قومی تحریکیں اپنی طبقاتی ساخت کے باعث محدود ہوتی ہیں اور اکثر محنت کش طبقے کو محض قومی شناخت تک محدود کر دیتی ہیں۔ اسی لیے کمیونسٹوں کا کردار یہ ہے کہ جہاں یہ ممکن ہو تو وہ ان تحریکوں میں شامل ہو کر انہیں سوشلسٹ پروگرام فراہم کریں، تاکہ یہ جدوجہد محض ایک قومی ریاست کے قیام پر ختم نہ ہو بلکہ پورے خطے کے محنت کشوں کی یکجہتی کا حصہ بنے۔ حقیقی آزادی اور نجات عالمی محنت کش طبقہ ہی فراہم کر سکتا ہے، نہ کہ کوئی عالمی سامراجی طاقت یا ادارہ۔
یہی عمل آج عالمی سطح پر بھی جاری ہے۔ انڈونیشیا، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، سربیا، فرانس اور دنیا کے دیگر ممالک میں عوامی تحریکوں کا ابھرنا اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ محنت کش طبقہ اور نوجوان اس بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کو مزید برداشت کرنے پر آمادہ نہیں۔ ایک سال قبل 5 اگست 2024ء کو بنگلہ دیش میں لاکھوں طلبہ اور مزدوروں نے بغاوت کرتے ہوئے ریاستی بنیادوں کو ہلا دیا، جبکہ حالیہ دنوں میں نیپال میں ابھرنے والی تحریک نے حکمران طبقے کو لرزا کر رکھ دیا۔
اسی دوران فلسطین پر اسرائیلی بربریت کے خلاف دنیا بھر میں جو عالمی یکجہتی ابھری، اس نے ثابت کر دیا کہ محکوم اقوام کی جدوجہد جب محنت کش طبقے کے غیض و غضب سے جڑتی ہے تو عالمی سطح پر ایک زبردست انقلابی طاقت بن جاتی ہے۔ امریکی اور مغربی سامراج کی بھرپور حمایت کے باوجود اسرائیل آج عوامی سطح پر تنہا ہے، اور کروڑوں محنت کش اور نوجوان فلسطین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔
پاکستان کے اندر بھی یہی تضادات شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ اور پنجاب کے محنت کش بیروزگاری، مہنگائی، جبری گمشدگیوں اور دہشتگردی کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان اور کشمیر کے عوام دہائیوں سے اپنے بنیادی جمہوری و معاشی حقوق کے لیے برسرپیکار ہیں، اور وہاں عوامی تحریکیں بھی موجود ہیں۔ یہ تمام جدوجہد ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور ان کی کامیابی کا واحد راستہ طبقاتی بنیادوں پر انقلابی یکجہتی ہے۔

ہم بلوچ نوجوانوں، طلبہ، گلگت بلتستان و کشمیری عوام سمیت پاکستان کے تمام محنت کشوں اور سیاسی کارکنوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قومی یا مقامی حدود سے نکل کر اس عالمی انقلابی جدوجہد کا حصہ بنیں۔ عہد کی سب سے بڑی ضرورت ایک ایسی انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر ہے جو محنت کش طبقے اور محکوم اقوام کی جدوجہد کو یکجا کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی راہ ہموار کرے۔ اسی بنیاد پر ہم ظلم، جبر،بربریت اور استحصال کا خاتمہ کر کے اس زمین کو محنت کشوں اور محکوم عوام کے لیے ایک جنت میں بدل سکتے ہیں۔
واحد راہ نجات۔۔۔ سوشلسٹ انقلاب!
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بننے کے لیے یہاں کلک کریں!