بھکر: زراعت کو درپیش مسائل اور کسانوں کی حالت زار

پاکستان میں اس وقت عام کسان انتہائی غربت اور افلاس میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ریاست کی سرپرستی میں کھاد فیکٹریوں کے مالکان،شوگر مل مافیا، آئی پی پیز، بڑے زمینداروں اور آڑھتیوں کی لوٹ مار جاری ہے جس میں کوڑیوں کے مول کھڑی فصلیں خرید لی جاتی ہیں، سالہا سال تباہ کن قرضوں اور ادھار پر دیے گئے زرعی اجزاء (بیج، ادویات، کھاد، وغیرہ) کے گھن چکر میں کسان کو جکڑ کر رکھا جاتا ہے۔ دوسری طرف یہی سرمایہ دار، بڑے زمیندار، آڑھتی اور ان کے ساتھ سٹہ باز لاکھوں ٹن زرعی اجناس گوداموں میں ذخیرہ کر کے ایک طرف کسان کو بھوکا مار رہے ہیں جبکہ عوام کو مہنگی اجناس بیچ کر ان کا علیحدہ استحصال کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال پورے ملک کے طول و عرض میں رائج ہے جس کا ایک حصہ بھکر ڈسٹرکٹ کا چھوٹا کسان بھی ہے۔

یہاں ایک عام غریب کسان کے پاس 3-5 ایکڑ زرعی ملکیت ہوتی ہے جبکہ بڑے زمینداروں کی زمین ہزاروں ایکڑوں میں ہے۔ یہی بڑے زمیندار سیاست بھی کر رہے ہیں اور ہر قسم کی ریاستی مراعات سے لطف اندوز بھی ہو رہے ہیں۔ اس علاقے کا شمار پاکستان کے زرخیز ترین زرعی خطوں میں ہوتا ہے۔

یہاں تین قسم کی زمینیں پائی جاتی ہیں۔

1) کچے کی زمین: یہاں نہری پانی نہیں ہوتا لیکن یہ دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے کنارے کی انتہائی زرخیز زمین ہے۔ یاد رہے کہ بھکر ان دو دریاؤں کے درمیان واقع ہے۔ یہ یہاں کی کل زرعی زمین کا تقریباً 20-25 فیصد ہے جسے ٹیوب ویل کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے۔ پانی کی فراوانی کا یہ عالم ہے کہ 40-50 فٹ کا ٹیوب ویل بور سیرابی کے لئے کافی ہے۔ اس زمین پر سب سے زیادہ گنا، پھر گندم، چقندر اور باقی چھوٹی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔ رائج الوقت یہاں فی ایکڑ ٹھیکہ1-1.5 لاکھ روپیہ سالانہ ہے۔

2) نہری زمین: یہ پہلے تھل ریگستان کی غیر آباد زمین تھی جسے گریٹر تھل کنال کے ذریعے سیراب کر کے آباد کیا گیا ہے۔ یہ کل زرعی زمین کا 25-30 فیصد ہے۔یہاں سب سے زیادہ گندم، پھرگنا اور پھر مونگ دال وغیرہ جیسی چھوٹی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔ یہاں ٹیوب ویل کا بور 120-130 فٹ گہرا ہے۔ اس زمین کا سالانہ ٹھیکہ 50-80 ہزار روپیہ سالانہ ہے۔

3) تھل کا بارانی علاقہ: یہ زرعی علاقہ بارشوں کا مرہون منت ہے۔ یہاں آمدن کے لئے کھگل اور سفیدا درخت لگایا جاتا ہے۔

یہاں بھاری اکثریت بے زمین دیہی آبادی کی ہے جن کے پاس کوئی زمین موجود نہیں ہے اور وہ یا تو شہروں میں جا کر مزدوری کرتے ہیں (18-20 ہزار روپیہ مہینہ تنخواہ) ہیں یا پھر دیہاڑی دار کھیت مزدور ہیں (800 روپیہ یومیہ اجرت)۔ فصلوں کی بوائی میں گنا گیارہ مہینہ، گندم چھ مہینہ اور دیگر چھوٹی فصلیں جیسے باجرہ، مکئی، تل، سرسوں، دالیں وغیرہ چند مہینوں میں کاشت کی جاتی ہیں۔ زرعی زمین کو اپنی نمکیات اور اجزاء بحال کرنے کے لئے ایک سے دو مہینہ وقفہ دے دیا جاتا ہے یعنی کوئی فصل بونے کے بجائے زمین کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اگر زرعی ان پٹس کی بات کی جائے تو ان کی ہوشرباء قیمتوں نے چھوٹے کسان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ کھادوں میں اس وقت DAP (di ammonium phosphate) کی ایک بوری کی قیمت 15 ہزار روپیہ ہے۔ یوریا کی ایک بوری کی قیمت 4 ہزار 500 روپیہ ہے۔NPK (nitrogen phosporus potassium) کی ایک بوری کی قیمت7 ہزار 500 سے 8 ہزار تک ہے۔ زرعی ادویات کی فی لیٹر قیمت 1 ہزار سے 1 ہزار 500 روپیہ ہے۔ ویسے تو کسان ہر فصل کٹائی پر اتنا بیج رکھ لیتے ہیں کہ اگلی کاشت کے لئے میسر ہو لیکن اگر سخت ضرورت کے تحت ساری کاشت بیچنی پڑ جائے یا فصل کے وقت سے پہلے یا بعد میں فصل کاشت کی جائے تو 50-60 کلو فی ایکٹر بیج خریدا جاتا ہے جو پھر ایک اضافی لاگت ہے۔

اب اگر زرعی ان پٹس کے استعمال کی بات کی جائے تو چھ مہینوں میں گندم کی ایک ایکڑ کاشت پر 3-4 بوری کھاد اور 1-2 بوتل زرعی ادویات استعمال ہوتی ہیں۔ اسی طرح 11 مہینوں کی ایک ایکڑ گنا فصل میں 6-7 بوری کھاد استعمال ہوتی ہے۔ یعنی اگر لاگت کا تخمینہ لگایا جائے تو ایک ایکڑ گندم پر 60 ہزار روپیہ سے زیادہ لاگت آتی ہے اوراگر پیداوار کی بات کی جائے تو 1500-2000 کلو فی ایکڑ حاصل کی جاتی ہے۔ آڑھتی حضرات قرضوں میں ڈوبے اور اگلی کاشت کے لئے زرعی ان پٹس کے طلبگار کسان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اس کی فصل اونے پونے داموں خرید لیتے ہیں اور بعد میں ذخیرہ اندوزوں کیساتھ مل کر مصنوعی قلت پیدا کرتے ہوئے اسے منہ مانگے داموں بیچتے ہیں۔ کسان کو فی ایکڑ 15 ہزار روپیہ اور کچھ بھوسا بچتا ہے۔

اگر گنا کاشت کی بات کی جائے تو گنا کی فی ایکڑ لاگت 2 لاکھ روپیہ سے کچھ زیادہ ہے۔ پیداوار 500-700 من فی ایکڑ ہے اور اس وقت مل مالکان نے 4 سو روپیہ فی من ریٹ مقرر کر رکھا ہے۔ کسان کو گنا کی فصل میں فی ایکڑ 60-70 ہزار روپیہ بچتا ہے جبکہ چھوٹی فصلیں جیسے مونگ دال، باجرہ وغیرہ ہوائی روزی ہے۔ اوسطاً آٹھ دنوں کے بعد نہری پانی آدھا گھنٹہ کے لئے دستیاب ہوتا ہے۔ اس لئے سارا مہینہ ٹیوب ویل استعمال کرنے کا دیوہیکل بجلی یا ڈیزل کا بل علیحدہ ہے۔ نیا ٹیوب ویل لگانا ہو تو 1.5-2 لاکھ روپیہ رشوت بجلی محکمہ کھا جاتا ہے اور لاکھوں روپیہ بور کروانے اور ٹیوب ویل لگانے میں لگ جاتا ہے۔ اگر ٹیوب ویل لگانے کے پیسے نہیں تو غریب کسان کو مہنگے داموں پانی امیر کسانوں یا بڑے زمینداروں سے خریدنا پڑتا ہے۔ ٹیوب ویل کو سولر پینل سے چلانے کے لئے بھی لاکھوں روپیہ درکار ہے۔ پنجاب حکومت نے کسانوں کے لئے نام نہاد شمسی توانائی پراجیکٹ شروع کیا جس کے لئے پورے پنجاب سے 4 لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ صرف 20 ہزار درخواست گزاروں کو شمسی توانائی لگا کر دی گئی ہے۔ باقی درخواستیں کوڑا دان میں پھینک دی گئی ہیں۔ سولر پینل کرائے پر بھی چل رہے ہیں جن سے خرچہ کم تو ہو جاتا ہے لیکن بہرحال ایک اضافی خرچہ تو ہے۔

چند ایکڑوں کے مالک کسان کے پاس ٹریکٹر نہیں ہوتا اور اسے ٹریکٹر کا کام کرائے پر کرانا پڑتا ہے۔ کرائے کے ٹریکٹر کا ایک پھیرا 3 ہزار روپیہ ہے اور ہر ایکڑ پر دو پھیرے لگتے ہیں۔ اگر اس تمام تر لاگت اور بیچنے کے بعد حاصل شدہ رقم کا موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ کسان کے پاس اتنا پیسہ بچتا ہی نہیں کہ وہ ٹھیک سے اپنی دو وقت کی روٹی بھی پوری کر سکے۔ ایسے میں سرمایہ دار ریاست کی سرپرستی میں سٹہ باز بدمعاش کسان کو قرضوں اور لاچاری کے ایسے گھن چکر میں پھنسائے رکھتے ہیں کہ من مانے ریٹ پر اجناس کسان سے اٹھا کر منڈی میں بیچ دی جاتی ہیں۔ پھر مقامی ریٹ کو توڑنے کے لئے ابھی گندم کی فصل کھڑی ہوتی ہے تو باہر سے گندم درآمد کر لی جاتی ہے۔ جب لٹا پٹا کسان زندہ رہنے کے لئے اپنی فصل مجبوراً اونے پونے داموں بیچ دیتا ہے تو ٹکے ٹوکری ریٹ پر اٹھائی یہ گندم برآمد کر کے کھربوں روپیہ کمایا جاتا ہے اور جب اندرون ملک گندم کی مصنوعی قلت پیدا ہو جاتی ہے تو گوداموں میں ذخیرہ گندم نکال کر مہنگے داموں مقامی منڈی میں بیچ دی جاتی ہے۔ یعنی مقامی زرعی اجناس، درآمدات اور برآمدات کا ایک ایسا گنجلک جال بنایا جا چکا ہے جس میں عام کسان سے لے کر شہری محنت کش تک سب پھنسے تڑپ رہے ہیں اور کھربوں روپیہ سالانہ لوٹ مار جاری ہے۔

اس کے ساتھ صوبے کے طول و عرض میں کسی بھی دیہی علاقے میں جا کر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کسان کن تباہ کن حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ بنیادی ضروریات زندگی جیسے صحت، تعلیم، رہائش، انفراسٹرکچر، تفریحی سہولیات وغیرہ کا شدید فقدان ہے اور اگر کہیں پر کچھ موجود ہے بھی تو انتہائی گراں قدری کے باعث پہنچ سے دور ہے۔

اس ساری صورتحال کو ”گرین پاکستان اینی شیٹیو“ نے اور بھی زیادہ گھمبیر بنا دیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت پنجاب حکومت پاکستانی فوج کوتقریباً 35 ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین الاٹ کر چکی ہے اور اب صوبے کے طول و عرض میں 8 لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین الاٹ کر کے مختلف اضلاع میں موجود سرکاری زمینوں پر بنے فارمز پر نسل در نسل آباد چھوٹے کسانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ اس کا ایک بہت بڑا بہانہ ملکیت کو بنایا جا رہا ہے کہ کسانوں کے پاس ملکیت ثابت کرنے کے لئے کوئی سرکاری کاغذات موجود نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں انجمن مزارعین پنجاب نے ”مالکی یا موت“ کے نعرے پر جدوجہد کا آغاز کر رکھا ہے جس کا سب سے زیادہ ریڈیکل مرکز اس وقت بھکر ڈسٹرکٹ ہے۔

اس پروگرام کی اصل حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذریعے پنجاب اور ملک بھر میں زبردستی کارپوریٹ فارمنگ متعارف کرائی جا رہی ہے جس میں تمام مقامی قدرتی وسائل اور اجرتی زرعی مزدوروں کا شدید استحصال کرتے ہوئے تمام زرعی پیداوار کو اونے پونے داموں برآمد کیا جائے گا جس سے ملک میں بنیادی زرعی اجناس کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ اور قلت کا واضح امکان موجود ہے۔ اس کے ساتھ نسلوں سے آباد کسانوں کو بے دخل کر کے ان کو زندہ درگور کر دیا جائے گا۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی اس کھلے عام ڈاکہ زنی کی شدید مذمت کرتی ہے اور فوری طور پر مطالبہ کرتی ہے کہ کسانوں کو جبری بے دخل کرنے کی کوششوں کو فوری ترک کرتے ہوئے کسانوں کو مالکانہ حقوق دیے جائیں۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی سمجھتی ہے کہ کسانوں کو درپیش تمام مسائل کی اصل جڑ سرمایہ داری ہے جس میں کسان کی کمر توڑ محنت کوریاستی سرپرستی میں سرمایہ دار، آڑھتی اور سٹہ باز لوٹ کر لیں جاتے ہیں اور منڈی میں بیچ کر ساری دولت ہڑپ کر جاتے ہیں۔ حقیقی آزادی معاشی آزادی ہے اور کسانوں کو یہ آزادی کبھی بھی سرمایہ داری میں نصیب نہیں ہو سکتی بلکہ معاشی نظام کی بڑھتی تباہی و بربادی کے نتیجے میں یہ ظلم و جبر اور استحصال مسلسل آگے بڑھے گا۔ ہم دہائیوں سے مختلف سیاسی پارٹیوں اور کسان انجمنوں کے متمول قائدین کی جانب سے سبسڈیوں کے ذریعے زرعی ان پٹس کی سستی فراہمی، سہولیات کی فراہمی وغیرہ کی نعرے بازی مسلسل دیکھ رہے ہیں۔

لیکن اس تمام عرصے میں کسان کی مفلسی اور استحصال میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔ ہم کسانوں کی اپنے حالات زندگی کو بہتر بنانے کے لئے تمام جائز مطالبات کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ان مطالبات کی جدوجہد کی حقیقی قیادت عام کسانوں کی اپنی بنائی ہوئی عوامی کمیٹیوں کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے اور اس جدوجہد کو شہری محنت کشوں کی جدوجہد سے بھی جوڑنا چاہیے۔ اس کے ساتھ کسان تحریک کو سرمایہ داری کے خاتمے کے انقلابی پروگرام سے جوڑنے کے کام کو بھی آگے بڑھانا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام کھاد فیکٹریوں،شوگر ملوں اور زرعی ان پٹس تیار کرنے والی صنعتوں،آئی پی پیز کو اجتماعی ملکیت میں لینا، منافع کی بنیاد پر موجود منڈی اور اس میں آڑھتیوں اور سٹہ بازوں کا خاتمہ، تمام قرضہ جات کی منسوخی، برآمدات اور درآمدات پر مزدور ریاست کی اجارہ داری، زراعت اور آبپاشی نظام کو جدید تکنیکی بنیادوں پر تعمیر نو،بڑی زمینداریوں کا خاتمہ اور تمام کسانوں کو مالکانہ حقوق دے کر ہی تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔

کسانوں کا شہری محنت کشوں کے ساتھ اجناس اور اشیاء کے اشتراکی اور منصفانہ تبادلے کا رشتہ ہی مجموعی طور پر سماج کے لئے خوشحالی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ کسانوں کو کارپوریٹ فارمنگ کے بجائے اشتراکی فارمنگ میں آزادانہ شمولیت کے حق کے ساتھ ترغیب دینی چاہیے جس کا کیش کراپس کے بجائے بنیادی ضرورت کی فصلوں کی کاشت، افزائش اور پیداوار میں بڑھوتری بنیادی مقصد ہو گا۔ ان تمام اہداف کو حاصل کرنے کا واحد راستہ محنت کشوں، کسانوں اور نوجوانوں کی ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر ہے جو سائنسی سوشلزم یا کمیونزم کے درست انقلابی پروگرام کے ذریعے عوام کو سرمایہ داری کی تباہی و بربادی سے ہمیشہ کے لئے نجات دلائے گی۔

 

Comments are closed.