2024ء میں ارب پتیوں کی دولت میں کئی گنا اضافہ، غریب عوام مزید بد حال!

آکسفیم کی تازہ تحقیق، موجودہ امارت اور غربت کی بڑھتی ہوئی خلیج پر مرکوز ہے۔ یاد رہے یہ تحقیق ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے حوالے سے حکمران طبقے اور ان کے مددگاروں کے میل جول کے دوران تیار کی گئی ہے– اس رپورٹ کے مطابق 2024ء میں دنیا کے 2,640 ارب پتی افراد کی دولت میں روزانہ بیس لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا۔ دوسری طرف، 1990ء سے اُن افراد کے معیارِ زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی جو $6.85 روزانہ سے کم پر زندگی گزار رہے ہیں، ان افراد کی تعداد کم از کم 3 ارب 60 لاکھ کے قریب بنتی ہے۔

 انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

ہر سال آکسفیم ایک تحقیق شائع کرتا ہے، جس سے ہر بار امیر اور غریب کے درمیان ناقابلِ یقین اور بڑھتی ہوئی خلیج بے نقاب ہوتی ہے۔ 2016 ء میں، انہوں نے بتایا کہ دنیا کے صرف 62 افراد کے پاس اتنی ہی دولت ہے جتنی کہ غریب ترین ساڑھے تین ارب لوگوں کے پاس ہے۔ 2020ء میں، انہوں نے رپورٹ کیا کہ کورونا وبا کے دوران امیر ترین 10 افراد نے اپنی دولت دوگنی کر لی، جبکہ دوسری جانب اسی عرصے میں 16 کروڑ افراد غربت میں مبتلا ہو گئے۔ 2023ء میں، انہوں نے بتایا کہ امیر ترین ایک فیصد نے 2020ء کے بعد سے پیدا ہونے والی نئی دولت کا دو تہائی حصہ حاصل کر لیا، اور اسی دوران دنیا بھر میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے زیادہ غربت میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

2024 ء میں، انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ 2035ء تک زمین پر پہلا کھرب پتی ہوگا، اب وہ پیش گوئی کر ہے ہیں تب تک 5 کھرب پتی ہوں گے! یہ اعداد و شمارظاہر کرتے ہیں کہ نابرابری (امیر و غریب کی تفریق) سرمایہ دارانہ نظام کے خمیر میں شامل ہے۔اس وقت اتنی دولت موجود ہے کہ انسانیت کو درپیش مسائل حل کیے جا سکتے ہیں، لیکن پھر بھی عدم مساوات اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دولت بنانے کے تمام ذرائع پیداوار ایک چھوٹی سی اقلیت کی ملکیت میں ہیں، جبکہ ذرائع پیدار سے محروم اکثریت ان کو اپنی قوت محنت بیچ کر زندہ رہنے پر مجبور ہے۔ اس نظام میں سرمایہ دارطبقہ جتنا زیادہ مزدوروں کا استحصال کرتا ہے اتنا امیر بنتا جاتا ہے، لہٰذا غریب مزید بدحال ہوتا جاتا ہے۔ اس کی وضاحت مزدوروں کے عالمی رہنما کارل مارکس نے بہت پہلے کردی تھی۔

1970 ء کی دہائی کے بعد سے طبقاتی خلیج میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جیسے ہی جنگ کے بعد کے معاشی ابھار کے نتیجے میں رونما ہونے والی انقلابی لہر کو شکست دے دی گئی، ایسی حکومتیں اقتدار میں آئیں جو سرمایہ دارانہ نظام کو مستحکم کرنے اور ’کاروباری اعتماد بحال کرنے‘ کے لیے ضروری اقدامات کرنے پر آمادہ تھیں۔اس عرصے میں منظم مزدور تحریکوں کو متعدد ممالک میں شکست کا سامنا ہوا، امیر طبقے پر ٹیکسز میں کٹوتیاں کی گئیں، قومی تحویل میں لی گئی صنعتوں کو نجی ہاتھوں میں سستے داموں بیچ دیا گیا، اور مالیاتی خدمات سے پابندیاں ہٹا لی گئیں۔ عالمگیریت، اجرتوں میں جمود کے ساتھ بڑھتی ہوئی پیداواریت، اور جائیدادوں کی قیمتوں میں آسمان کو چھوتے اضافے کی وجہ سے منافعوں کی شرح میں بہت بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نہ تو 2008ء کے مالیاتی بحران نے اور نہ ہی کرونا وبا کے دوران کی معاشی سست روی نے دولت کے بے پناہ ارتکاز میں کوئی رکاوٹ ڈالی۔

اس کے برعکس، امیروں کو بغیر کسی پرواہ کیے سٹہ بازی جاری رکھنے کے لیے کھربوں ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج دیے گئے، جبکہ غریب عوام کو بے رحم ٹیکسوں اور کٹوتیوں کی صورت میں بحران کا بوجھ ڈھونے پر مجبور کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سماج کی طبقاتی تقسیم اب انتہائی غیر متوازن سطح پر پہنچ چکی ہے۔ دنیا کے امیر ترین ایک فیصد لوگوں کے پاس اب نچلے 95 فیصد آبادی کی مجموعی دولت سے بھی زیادہ دولت موجود ہے۔ 1990ء کے بعد سے پیدا ہونے والی کل دولت کا 38 فیصد صرف امیر ترین ایک فیصد نے ہڑپ کر لیا ہے، جبکہ نچلے 50 فیصد لوگوں کو اس کا محض دو فیصد ہی ملا ہے۔امریکہ، جو دنیا کا سب سے امیر ملک ہے، میں 1960ء کی دہائی میں ایک کمپنی کے سربراہ کو اوسطاً ایک عام مزدور کے مقابلے میں تقریباً 21 گنا زیادہ تنخواہ ملتی تھی، لیکن 2022ء تک یہ فرق بڑھ کر 344 گناتک پہنچ چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، گزشتہ دو سالوں میں مہنگائی کی وجہ سے امریکی محنت کشوں کو 1.5 کھرب ڈالر کا نقصان اُٹھانا پڑا، جبکہ 2010ء کے بعد سے ارب پتیوں کی دولت افراطِ زر کی شرح سے تین گنا زیادہ رفتار سے بڑھی ہے۔

امیروں کے اندر بھی یہ دولت سب سے اوپر والے چند لوگوں کو ہی زیادہ فائدہ پہنچا رہی ہے۔ دنیا کے 0.01 فیصد امیر ترین افراد (تقریباً 5 لاکھ 20 ہزار افراد، جن میں ہر ایک کے پاس کم از کم 1.9 کروڑ ڈالر ہیں) اب دنیا کی کل دولت کا 11 فیصد اپنے پاس جمع کر چکے ہیں۔ ان میں سے صرف 2,640 ارب پتی افراد دنیا کی دولت کا 3 فیصد کنٹرول کرتے ہیں، جبکہ 1995 ء میں 366 ارب پتی دنیا کی ایک فیصد دولت کنٹرول کرتے تھے۔ گزشتہ سال، دنیا بھر میں ارب پتیوں کی دولت میں 2 ہزار ارب ڈالرکا اضافہ ہوا، جس سے ان کی مجموعی دولت 15 ہزار ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ یہ اضافہ 2023ء کے مقابلے میں تین گنا تیز تھا اور تاریخ میں ارب پتیوں کی دولت میں دوسرا تیز ترین اضافہ تھا (پہلا 2020ء میں ریکارڈ کیا گیا تھا)۔

یہ وہ سرمایہ دار نہیں ہیں جو جدت لائیں، کاروباری ہنر رکھتے ہوں، یا سخت مشقت کرنے والے ہوں، جیسا کہ ارب پتیوں کی ملکیت میڈیا ہمیں یقین دلانا چاہتا ہے۔ ان کی دولت کا بیشتر حصہ طفیلیت سے حاصل ہوتا ہے۔آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق، موجودہ ارب پتیوں میں سے 36 فیصد نے اپنی دولت وراثت میں پائی ہے، جن میں 30 سال سے کم عمر کے تمام ارب پتی شامل ہیں۔ درحقیقت، جیسے جیسے بڈھے ارب پتی مر رہے ہیں، ہم تاریخ کے سب سے بڑے ”دولت کی منتقلی“ کے دور سے گزر رہے ہیں۔ 2030ء تک ارب پتیوں کی دولت کے 5.2 کھرب ڈالر ان کے وارثین کو منتقل ہو جائیں گے۔ جن لوگوں نے اپنی دولت وراثت میں نہیں پائی، اُن کی اکثریت کی دولت بھی محض جائیداد اور اسٹاک کی ملکیت سے ہی بنی ہے۔

برطانیہ میں، 2008ء کے بعد جمع ہونے والی کل دولت کا آدھا حصہ صرف جائیدادوں اور شیئرز کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے آیا ہے۔ جبکہ امریکہ میں، امیر ترین 10 فیصد لوگ اب سٹاک ایکسچینج میں پانچ سو بڑی کمپنیوں ایس اینڈ پی 500 کی کل مالیت کا 92 فیصد کنٹرول کرتے ہیں، جس کی قیمت 1990 ء سے اب تک 901 فیصد بڑھ چکی ہے۔ اس سے بھی زیادہ منافع بخش سامراجی لوٹ مار ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’گلوبل ساؤتھ‘ (ترقی پذیر ممالک) سے ’گلوبل نارتھ‘ (امیر ممالک) کے 1 فیصد امیر ترین طبقے تک دولت 30 ملین ڈالر فی گھنٹہ کی رفتار سے منتقل ہو رہی ہے۔ اس کا بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگیوں کی شکل میں ہے، جو غریب ممالک کے بجٹ کا 48 فیصد تک کھپا دیتا ہے۔ نتیجتاً، 1970ء سے 2023 ء تک غریب حکومتوں نے ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کے امیر قرض دہندگان کو 3.3 ہزار ارب ڈالر صرف سود کی مد میں ادا کیے ہیں۔ آئی ایم ایف، جو سابق نوآبادیاتی ممالک کو”آزاد“ ہونے کے باوجود غلامی کی حالت میں رکھنے والا ایک اہم ادارہ ہے، نے غریب ممالک کی حکومتوں کو کہا کہ وہ عوامی خدمات پر خرچ ہونے والے ہر 1 ڈالر کے مقابلے میں 4 ڈالر کی کٹوتی کریں، تاکہ وہ اپنے قرضے ادا کرتے رہیں۔ وبا کے دوران، اس پالیسی کی وجہ سے’گلوبل ساؤتھ‘ (غریب ممالک) میں عوامی خدمات پر 10 ارب ڈالر کی کٹوتی ہوئی، جو 30 لاکھ ضروری نوکریوں کے برابر نقصان تھا۔آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق، دنیا کی ارب پتی دولت کا 6 فیصد حصہ’اقربا پرور وسائل‘ یا کرپشن سے آیا ہے، جبکہ 18 فیصد دولت اجارہ داری سے بنی ہے۔ لیکن یہ اعداد و شمار بھی حقیقی استحصال کوکم ہی ظاہر کرتے ہیں۔

آج دنیا کی معیشت پر چند بڑی اجارہ دار کمپنیاں مکمل طور پر قابض ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکہ کو دیکھ لیں، کہ جس کی کارپوریشنز پوری دنیا پر حاوی ہیں، صرف ایک فیصد کمپنیاں 81 فیصد فروخت اور 97 فیصد کاروباری اثاثوں پر قابض ہیں، جبکہ سب سے بڑی 0.1 فیصد کمپنیاں 66 فیصد فروخت اور 88 فیصد اثاثے کنٹرول کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ جہاں صنعتیں بظاہر مقابلے میں نظر آتی ہیں، وہاں بھی چند بڑے بینکوں کا ہی اصل کنٹرول ہوتا ہے۔ دنیا کے تین سب سے بڑے شیئر ہولڈرز دنیا کی نصف بڑی کمپنیوں میں فیصلہ کن اختیار رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ، دنیا کی دولت پر کنٹرول مزید محدود ہو رہا ہے، جہاں 50 امیر ترین کمپنیوں میں سے ایک تہائی یا اس سے زیادہ کسی نہ کسی ارب پتی کے زیرِ انتظام ہیں یا اس کے بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔اگرچہ یہ ارب پتی کھلے عام سیاستدانوں کو رشوت نہیں دیتے، لیکن ’جمہوری‘ دنیا کے یہ امیر ترین لوگ قانونی طریقوں سے ریاستی مشینری پر اثر انداز ہوتے ہیں تاکہ اپنے منافع کو یقینی بنا سکیں۔ مثال کے طور پر، آج کل 40 فیصد ’سیاسی عطیات‘ سب سے امیر 0.01 فیصد افراد دیتے ہیں، اور صرف 2022ء میں، امریکہ کی سب سے بڑی کارپوریشنز نے حکومت کو لابنگ کے لیے 746 ملین ڈالرخرچ کیے۔ دنیا کی سب سے بڑی اثاثہ منیجمنٹ کمپنی، بلیک راک، 2004ء سے اب تک کم از کم 84 سابق امریکی سرکاری افسران کو بھرتی کر چکی ہے۔ اسی طرح، گولڈمین ساکس (جسے’گورنمنٹ ساکس‘ بھی کہا جاتا ہے) کے سابق ملازمین 2006ء سے مسلسل کسی نہ کسی G7 ملک میں وزیرِاعظم، وزیرِ خزانہ یا مرکزی بینک کے سربراہ کے عہدے پر رہے ہیں۔

لینن نے بالکل درست سوال کیا تھا: ”آپ اسے کیا کہیں گے؟ سیدھی یا بالواسطہ رشوت؟ حکومت اور بڑی اجارہ داریوں کا اتحاد، یا صرف دوستانہ تعلقات؟“

اتنی زیادہ دولت پہلے کبھی اتنے کم لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز نہیں ہوئی۔ ایک طرف یہ ارب پتی خلا میں سیر کرنے یا اربوں ڈالر کی لگژری کشتیوں پر عیش و عشرت میں اپنا پیسہ اڑا رہے ہیں، تو دوسری طرف 70 کروڑ لوگ بھوک کا شکار ہیں، جبکہ 15 کروڑ بے گھر ہیں، اور ہر سال 4 کروڑ 10 لاکھ افراد ایسی بیماریوں سے مر جاتے ہیں جن کا آسانی سے علاج ممکن ہے۔ یہ صرف ایک معمولی تضاد نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چند لوگوں کی بے پناہ دولت کروڑوں لوگوں کے استحصال پر قائم ہے۔

حل کے طور پر، آکسفیم ایک گروپ ’پیٹریاٹک ملینیئرز‘ کی تجاویز کی حمایت کرتا ہے، یہ گروپ برطانوی کمپنیوں کے سربراہان،سرمایہ دار خاندانوں کے وارثوں اور بینکاروں پر مشتمل ہے، جو مطالبہ کر رہا ہے کہ ان پر اور ان کے طبقے پر دو فیصد ٹیکس لگایا جائے۔ وہ یہ اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ وہ موجودہ دولت کی شدید عدم مساوات کو عالمی سماجی اور اقتصادی استحکام کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور خود پر ٹیکس لگانے کی تجویز دے رہے ہیں۔ ان کی یہ پریشانی بالکل بجا ہے۔سامراجی جنگیں اور قتلِ عام، موسمیاتی بحران، قرضوں کا خوفناک بوجھ، اور غریبوں کو کچلنے والی معاشی کٹوتیاں، یہ سب کچھ منافع کی بے لگام ہوس کا نتیجہ ہیں، اس خطرناک عدم مساوات نے سماج کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔

دن بدن واضح ہو رہا ہے کہ یہ نظام صرف امیروں کے لیے چل رہا ہے، جبکہ غریبوں کو اس کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ مگر ٹیکس لگا کر اس مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہمیں نابرابری کو ختم کرنا ہے تو سرمایہ داری کو ختم کرنا ہوگا۔ پیداوار کے وسائل، اگر درست طریقے سے منظم کیے جائیں اور عوام کی ضروریات کے مطابق چلائے جائیں، تو پوری انسانیت کے لیے دولت کی فراوانی پیدا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان وسائل کو سرمایہ دار طبقے کے قبضے سے چھینا جائے جو خود غرضی میں انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے جا رہا ہے اور ان وسائل کو دنیا کے اربوں مزدوروں کے کنٹرول میں دیا جائے، جن کے بغیر یہ نظام ایک قدم بھی نہیں چل سکتا۔

Comments are closed.