|تحریر: گلباز خان|

6مئی سے 10مئی تک بھارت اورپاکستان کے درمیان جاری رہنے والی جنگ سینکڑوں انسانوں کو زخمی یا موت کے گھاٹ اتار کر اختتام پذیر ہو گئی ہے۔ جموں کشمیر کی سامراجی تقسیم کی علامت لائن آف کنٹرول اس بار بھی سب سے زیادہ خون آشام”محاذ“ ثابت ہوا ہے جہاں دو طرفہ خوفناک گولہ باری کے نتیجے میں سب سے زیادہ اموات، زخمی اور املاک کا نقصان ریکارڈ کیا گیا۔مختلف اندازوں کے مطابق لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف میں آبادکم ازکم 60 سے زائد بے گناہ کشمیریوں نے جان گنوائی ہے اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
حالیہ جنگی تصادم کی وجہ 22 اپریل کو بھارتی زیر تسلط کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام کے واقعے کو قرار دیا جا رہا ہے جس میں 26 نہتے سیاحوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا تھا۔ 6 مئی کو انڈیا نے پاکستانی زیر تسلط کشمیر کے مختلف علاقوں اور پنجاب کے شہروں بہاولپور اور مریدکے کو نشانہ بناتے ہوئے اعلان کیا کہ اس نے آپریشن سندور کے دوران دہشتگردی کے اڈوں کوٹھکانہ بنایاہے۔ خطے بھر میں قائم کئی دنوں سے جاری جنگی جنون اور تناؤ ایک کھلے جنگی تصادم میں بدل گیا۔گولہ باری، بارود سے لدے جنگی طیارے اور ڈرون حملے کئی دنوں تک ڈیڑھ ارب انسانوں کے مستقبل کو خوفناک غیر یقینی میں مبتلا کیے ہوئے تھے۔دونوں ملکوں کے حکمران،فوجی ترجمان اور میڈیا بڑھ چڑھ کر کامیابیوں کے دعوے کرتے رہے۔پھر اچانک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے جنگی بندی کا اعلان کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ دونوں ملکوں نے جنگی بندی کیلئے رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ ٹرمپ نے دونوں فریقین میں جنگ بندی کے لیے ثالثی کو ایک کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان جاری جنگ اور دشمنی کی بنیادی وجہ، مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔
اگرچہ اب دونوں طرف کے حکمران کی جانب سے اس جنگ کا فاتح ہونے کے دعوے کئے جا رہے ہیں،لیکن جو چیز واضح ہے وہ یہ ہے کہ اس جنگ میں بھی ہار پھر محکوم کشمیری عوام کی ہوئی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے نام پر لڑی جانے والی ہر جنگ مظلوم کشمیری عوام کو ہر بار نئے زخم دے کر جاتی ہے۔غلامی کی سیاہ رات پہلے سے زیادہ تاریک کر جاتی ہے۔دہشت گردی کے خلاف وادی میں لگنے والے نعرے ”ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بھائی بھائی!“ کا جواب پھر سے گھر گھر تلاشیوں کی صورت میں دیا جاتا ہے۔دسیوں گھردھماکوں سے اڑائے جاتے ہیں۔ ریاستی جبر، سنسرشپ اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندیوں میں اضافہ ناگزیر طور پر بڑھے گا۔
مسئلہ کشمیر!
جنگ بندی کے بعد پاکستانی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ مذاکرات میں کشمیر، دہشتگردی اور سندھ طاس معاہدے پر بات ہوگی۔ جسے پہلگام واقع کے بعد بھارت نے معطل کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ جبکہ بھارتی حکام کاکہنا ہے کہ مذاکرات صرف دہشت گردی کے مسئلے پر ہوں گے اور کشمیر پر اگر بات ہو گی تو صرف پاکستانی زیر کنٹرول حصے پر ہوگی۔ جس پر وہ کنٹرول حاصل کرنے کے سامراجی عزائم رکھتا ہے۔ برصغیرکی خونی تقسیم کے بعد جموں کشمیر پر مکمل کنٹرول اور قبضے کے سامراجی عزائم کی تکمیل میں ناکامی کے بعد دونوں ممالک کے حکمران طبقات مستقل طور مخاصمانہ،ناختم ہونے والی کشیدگی اوردشمنی کو اس لیے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ بٹوارے کے ذریعے پاک و ہند کے عوام میں قربت اور یکجہتی کو پنپنے سے روکا جا سکے اور داخلی مسائل اور بحران جب بھی گہرے ہوں یہ سرحدی کشیدگی اور جھڑپوں کی واردات کے لیے استعمال ہو سکے۔ لیکن مختلف حصوں میں تقسیم کشمیری عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے مستقل کا فیصلہ کر سکیں اگرچہ اس کشیدگی و جنگ وجدل کی قیمت بھی سب سے زیادہ کشمیری عوام نے ادا کی ہے جو بے پناہ قربانیوں کے باوجود آج بھی کسی مذاکراتی عمل میں فریق ہونے کی حیثیت بھی نہیں حاصل کر سکے۔
حالیہ جنگ بندی کے بعد مسئلہ کشمیر پر پھر سے بات کے آغاز کو بعض حلقوں میں بڑی اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے،مسئلہ کشمیر کے حل میں امریکہ اور عالمی دنیا سے پھر سے امیدیں لگائی جانے لگی ہیں۔ کیونکہ 2019 ء میں مودی کی طرف سے بھارتی کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے نے مسئلہ کشمیر کی نوعیت کو یکسر تبدیل کر دیاہے۔بھارتی حکومت کے اس اقدام کواس وقت کے وزیراعظم عمران خان اورعسکری قیادت نے تھوڑی بہت منافقانہ چوں چراں کے بعد خاموشی سے قبول کر لیا تھا۔ ابھرتی ہوئی معاشی اور عسکری طاقت کے زعم میں مبتلا بے جے پی کی حکومت خوفناک ریاستی جبر اور سیاسی سرگرمیوں پر سخت گیر پابندیوں کے بعد بظاہر اس اقدام کو کشمیری عوام پر مسلط کرنے میں کامیاب نظر آ رہی تھی۔ تمام تر سیاسی رہنماؤں حتیٰ کہ بھارت نواز سیاسی قیادت کو بھی نظر بند رکھا گیا۔مودی ترقیاتی پیکیجزاورجبر سمیت ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے کشمیر میں جاری علیحدگی پسندی کا چیپٹر بند کرنے کی ٹھان چکا تھا۔ہندوستان کسی بھی فورم پر کشمیر ایشو پر بات کرنے سے یکسر انکار کر چکا تھا۔اسی لیے حالیہ جنگی کشیدگی کے بعد بھی مذاکرات کے ایجنڈے میں کشمیر ایشو کے حوالے سے نریندرا مودی کی طرف سے کوئی واضح بات سننے کو نہیں مل رہی جبکہ وہ کھل کر ٹرمپ کی طرف سے بار ہا کشمیر ایشو کو حل کرنے میں ثالثی کی پیشکش پر کوئی ردعمل بھی نہیں ظاہر کر رہا جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جنگی بندی کے پروسس میں وہ کشمیر ایشو سمیت دیگر مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر رضامندی ظاہرکرچکا ہے۔ایٹمی ہتھیاروں سے لیس سامراجی ممالک کے درمیان جاری جنگی کشیدگی کا شکار بننے والی آر پار مظلوم کشمیری عوام سات دہائیوں سے بے مثال قربانیوں کے باوجود آج بھی مستقل خوف اور مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ہیں۔
حالیہ جنگی صورت حال کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کے امکانات پر بات کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ان بنیادی تبدیلیوں کوسمجھا جائے جن سے بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص یہ خطہ حالیہ عرصے میں گزرا ہے۔ بے پناہ قربانیوں کے باوجود آزادی کیوں حاصل نہیں کی جا سکی اور مستقبل کے وہ کون سے درست نظریات ہیں جن کی بنیادپر جدوجہد آزادی کو منظم کرتے ہوئے کشمیری آزادی کو منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔
”کشمیر کی آزادی: ایک سوشلسٹ حل“
5اگست 2019ء کوبھارت کے جابرانہ اقدام کے بعدانقلابی کمیونسٹ پارٹی کے پریس، لال سلام پبلی کیشنز کی جانب سے شایع کی گئی کتاب ”کشمیر کی آزادی: ایک سوشلسٹ حل“ اس موضوع پر ایک جاندار تجزیہ ہے جس میں تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ابھرنے والے واقعات اور امکانات کی پیش بینی گئی ہے۔ مارکسی نظریات کو بنیاد بناتے ہوئے کتاب کے مصنف کامریڈ یاسر ارشاد نے قومی آزادی کی جدوجہد کے اتار چڑھاؤ اور اسباق کا تفصیلی احاطہ کیا ہے۔ایک طبقاتی اور سوشلسٹ مؤقف اپناتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ آج سرمایہ داری ایک تاریخی بحران کے عہد میں داخل ہو چکی ہے۔مہنگائی،بیروزگاری اور لاعلاجی جیسے مسائل نے وسیع تر عوام کی زندگیوں کو بد سے بدتر بنادیا ہے۔ایسے میں تنگ نظر قوم پرستی اس عہد کے کردار کو سمجھنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ایک انقلابی پروگرام جو عوام کے بنیادی مسائل کا حل پیش کرتا ہو اپنائے بغیر جدوجہد آزادی کو ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔نام نہاد آزادکشمیرمیں چار سالوں سے جاری عوامی تحریک نے ثابت کیا ہے کہ یہاں کے محنت کش عوام غربت اورپسماندگی کے خاتمے کی لڑائی کو منظم کرنے کیلئے تیار ہو رہے ہیں۔وہ مظفرآبادکو آزادی کا بیس کیمپ سمجھنے کے بجائے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ان ایوانوں میں بیٹھی حکمران اشرافیہ ہی ان کی محرومیوں کی ذمہ دار ہے۔یہاں کے عوام کی جدوجہد سب سے پہلے انہی لٹیرے حکمرانوں کے خلاف بنتی ہے۔
اس کتاب میں ان عالمی اداروں کی اصلیت کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے جن سے ماضی میں بھی کسی مثبت کردار کی توقعات اور خوش فہمیاں پالی جاتی رہی ہیں۔نام نہاد عالمی برادری،اقوام متحدہ اور امریکی سامراج سے اب دوبارہ مسئلہ کشمیر کے حل کی امید لگائی جا رہی ہیں۔اگر ماضی کی مثالیں نہ بھی دی جائیں تو گزشتہ دوسالوں سے فلسطین میں بچوں اور معصوم انسانوں کے خون سے جوہولی کھیلی جارہی ہے وہ اکیسویں صدی کی نام نہاد ترقی و تہذیب یافتہ دنیا کے چہرے پر بد نما دھبہ ہے۔ جس پر پوری دنیا کے حساس دل عوام چیخ اٹھے،جنگ کے خاتمے کیلئے لاکھوں لوگ سراپائے احتجاج ہوئے لیکن کم وبیش پوری دنیا کے حکمران اور نام نہاد امن کے عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں کیونکہ اس نسل کشی میں ملوث اسرائلی حکمران طبقے کے آقا امریکی سامراج سے کوئی بھی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتا۔ کیونکہ سرمایہ داری میں معاشی،تجارتی اور سٹریٹیجک مفادات ہی مقدم سمجھے جاتے ہیں۔
ایسے میں مارکسی نظریات کی رہنمائی آج کے عہد کا سب سے بڑا سچ ہمارے سامنے آشکار کرتی ہے کہ اگر آزادی اور انقلاب کی جدوجہد میں اس محکوم خطے کے محنت کش عوام کو کوئی بیرونی مدد مل سکتی ہے تو وہ بالخصوص برصغیراور بالعموم دنیابھر کے محنت کش طبقے سے مل سکتی ہے۔لیکن یہ بین الاقوامی یکجہتی محکوم خطے کے انقلابیوں اور آزادی پسندوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔جب 1917ء کے انقلاب کو کچلنے کیلئے اکیس ملکوں نے سوویت مزدور ریاست پر سامراجی جنگ مسلط کر دی تھی تو لینن نے امریکہ اور یورپ بھر کے مزدوروں سے کہاتھاکہ یہ انقلاب صرف روس کا انقلاب نہیں بلکہ دنیا بھرکے مزدوروں کاانقلاب ہے۔انقلاب کے دفاع کی اپیل کے جواب میں یورپ کے مزدوروں نے انقلاب کو کچلے جانے کی واردات کو عملی یکجہتی کے ذریعے شکست دی تھی۔ ہندوستان اور پاکستان کے محنت کشوں کی دلچسپی اور مفاد میں بھی نہیں کہ مظلوم قومیتوں پر جبر روا رکھا جائے بلکہ خطے بھر کے عوام اس سامراجی کشیدگی کے باعث غربت اور پسماندگی کی زندگی جینے پر مجبور ہیں کیونکہ عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے ہونے والے کھربوں روپے ان کے معیاری زندگی کو بہتر بنانے کے بجائے دفاع اور جنگی سازوسامان پر خرچ ہو رہے ہیں۔
کتاب میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کی قیادت میں قائم ہونے والے ورلڈ آرڈر کے خاتمے اور عالمی سطح پراور جنوبی ایشیا میں نئی ابھرنے والی طاقتوں اور ان کے درمیان قائم ہو رہے توازن کے پروسس کی بھی جامع انداز میں وضاحت کی گئی ہے جس کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ حالیہ جنگ میں بھی امریکی اورچائنیز سامراج کاکردار کھل کر سامنے آیا ہے۔ میڈیا پرپاکستان کوچین کے جنگی جہازوں، سائبر تکنیک اور دیگر جنگی اسلحہ کی برتری وغیرہ کی بات ہو رہی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے یہ جنگ دراصل چین اور انڈیا کے درمیان لڑی جارہی ہے۔جبکہ دوسری طرف بظاہردنیا کی بڑی معاشی اور فوجی طاقت سمجھی جانے والی ریاست بھارت کی عالمی معاملات میں اصل اوقات یہ ہے کہ وہ جنگ بندی کافرضی سا اعلان بھی خود نہیں کرسکی بلکہ امریکن صدر کے ایک ٹویٹ کیذریعے دنیا کو بتایا جاتا ہے کہ جنگ بندی عمل میں لائی جا چکی ہے۔ 8 دہائیاں پہلے آزاد ہونے والے ملکوں کی عالمی سامراجیت کے عہد میں یہ وقعت باقی رہ گئی ہے۔
آزادی! مگرکیسے؟
اس کتاب میں وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح جاگیرداری کا انقلابی بنیادوں پر خاتمہ کرتے ہوئے قوموں اور جدیدقومی ریاستوں کی تشکیل کی گئی تھی۔لیکن آج تاریخی ارتقا کے نتیجے میں چیزیں اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ سرمایہ داری سامراجیت کے عہد سے گزرتے ہوئے بدترین زوال اور نامیاتی بحرانوں کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔پاک و ہند جہاں عالمی سامراج کی اطاعت اور معاشی غلامی سے آج تک نکلنے میں ناکام رہے ہیں وہیں خطے بھر میں سامراجی عزائم کے ساتھ مظلوم قومیتوں کے لیے عقوبت خانے کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ ہر دو ملکوں کے حکمرانوں کی محکوم قومیتوں پر قومی جبراور معاشی استحصال کی طویل تاریخ ہے۔ جس کے خاتمے کیلئے خطے بھر کے مظلوموں کی بھی درخشاں اور ناقابل فراموش جدوجہد تاریخ کا حصہ ہے۔
گزشتہ دو سالوں میں سری لنکا اور بنگلہ دیش میں حکمرانوں کے دھڑن تختہ نے پاکستان اور انڈیا کے حکمرانوں کو خوف میں مبتلا کر دیا اور دونوں ممالک کے محنت کش عوام بھی ان واقعات کو دیکھ رہے ہیں اور جلد یا بدیر ضروری نتائج اخذکرتے ہوئے استحصالی نظام کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کا آغاز کریں گے۔ انڈیا میں کسانوں کی شاندار تحریک ہو یاطلبہ کی زبردست مزاحمتی جدوجہد یا پھر ملک گیر عام ہڑتالوں کا سلسلہ ہو یہ عمل پہلے سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھے گا۔
پاکستان میں بھی خیبر پختونخواہ سے لیکر بلوچستان تک پسماندگی،قومی وریاستی جبر وسائل کی لوٹ مار کے خلاف عوام کی فقیدل مثال مزاحمتی تحریکیں سٹیس کو کی بنیادیں ہلا رہی ہیں۔ سندھ کے عوام نے کارپوریٹ فارمنگ کے سامراجی منصوبے کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے۔ پنجاب میں شعبہء صحت اور دیگر محنت کشوں کی نجکاری مخالف جدوجہد بھی زور پکڑتی جا رہی ہے۔ گلگت بلتستان اور ”آزاد“کشمیرمیں کامیاب عوام تحریکیں بھی آگے بڑنے کے راستے تلاش کر رہی ہیں۔
لیکن ایک ہی دشمن یعنی اس ملک کے حکمران طبقے اور استحصالی نظام کے خلاف بکھری ہوئی لڑائیوں کو آپس میں جوڑنا آج کا سب سے بڑا سنجیدہ چیلنج ہے۔ تنگ نظر قوم پرستی کے نظریات تاریخی طور پر مسترد ہو چکے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے آخری تجزیے میں سٹیس کو کیلئے معاونت فراہم کرنے کا باعث ہیں۔ آج ایک عوامی پروگرام کو بنیاد بناتے ہوئے سوشلسٹ نظریات ہی آگے بڑنے کا راستہ دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سرمایہ داری کے مکمل خاتمہ کے ذریعے ہی ان سامراجی ریاستوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔طبقاتی بنیادوں پر قائم ریاستی ڈھانچے کی جگہ قائم ہونے والی مزدور ریاست ہی قومی و معاشی جبر سے نجات اور آزادی کی ضامن ہو گی۔ جنگی تصادم اور کشیدگی کے چلتے دونوں سامراجی ریاستیں مذہبی اور قومی شاونزم سے شعور کوکند کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔حکمرانوں کے معاشی حملے اور ریاستی جبر میں بھی اضافہ ہوگا۔ مزاحمتی سیاست کو کوکچلنے کا عمل بھی جاری ہے۔ گلگت میں ایکشن کمیٹی کے رہنما کامریڈ احسان علی اور دوسرے رہنماؤں کی غیر قانونی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ جس کے خلاف بھرپور احتجاج بھی جاری ہے۔

لیکن روزمرہ زندگی کی تلخیاں اور حقیقی تضادات،سماج میں متحارب طبقات کی کشمکش زیادہ دیرتک دباکر نہیں رکھے جا سکتے۔ نظام اور ریاستوں کا گہرا ہوتابحران پہلے سے زیادہ دھماکہ خیز واقعات کو جنم لینے کا باعث بنے گا۔کشمیر کی حالیہ تحریک اگرچہ بنیادی معاشی مسائل کے گرد شروع ہوئی تھی لیکن آزادی اورانقلابی تبدیلی کی خواہش اب آگے بڑنے کے راستے کی تلاش میں ہے۔اگر درست سیاسی اور عوامی پروگرام تحریک کو میسر آجاتا ہے تو اس خطے سے انقلابی بنیادوں پر غلامی،جبر اور استحصال کے خاتمے کا خواب حقیقت کا روپ دھارنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
سوشلسٹ انقلاب ہی حقیقی آزادی کی وہ مادی بنیاد بنے گا جس پر خطے بھر کے ڈیڑھ ارب سے زائدانسانوں کے خوشحال اور محفوظ مسقتبل کی شاندار عمارت تعمیر ہو گی۔برصغیرکی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن ہی منقسم جموں کشمیرسمیت خطے کی دیگر مظلوم قومیتوں کے مظلوم عوام کوغلامی سے نجات دلا سکتی ہے۔ قومی جبر، غربت، پسماندگی، ناخواندگی، لاعلاجی اور غلامی سے آزادی کیلئے خطے بھر کی جدجہد زندہ باد!
سامراجی جنگیں مردہ باد۔۔۔سرمایہ داری مردہ باد۔۔۔عالمی سوشلٹ انقلاب زند باد!
کتاب خریدنے کے لیے رابطہ کریں: 03198401917