|تحریر: آدم پال، انقلابی کمیونسٹ پارٹی (RCI کا پاکستان سیکشن)، ترجمہ: ولید خان|
دیرینہ دشمن انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک مرتبہ پھر جنگ کا آغاز ہو چکا ہے جس میں اب تک دونوں فتوحات کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ 7 مئی کی صبح انڈین ایئر فورس نے پاکستان اور پاکستانی زیر تسلط کشمیر میں 9 مقامات پر حملے کیے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ جوابی کاروائی کرتے ہوئے پانچ انڈین لڑاکا طیارے تباہ کر دیے گئے اگرچہ انڈیا تاحال اس سے انکاری ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
انڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں لشکر طیبہ اور جیش محمد دہشت گرد تنظیموں کے کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو انڈیا میں کئی دہشت گرد وارداتوں میں ملوث ہیں۔ پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ ان حملوں میں 26 افراد قتل اور 46 زخمی ہو ئے ہیں۔ یہ حملے پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود شہروں، لاہور کے قریب مریدکے اور ”آزاد کشمیر“ پر کیے گئے ہیں۔ قتل ہونے والوں میں اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں موجود مسعود اظہر کے خاندان کے کئی ممبران اور ساتھی بھی شامل ہیں۔
پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان حملوں میں ملوث پانچ انڈین جنگی جہازوں کو مار گرایا گیا ہے۔ ان میں تین رافائل جہاز، ایک MiG-29 اور ایک Su-30 شامل ہیں۔ پاکستان نے ان حملوں کا آنے والے دنوں میں بھرپور جواب دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان فضائی حملوں کے دوران لائن آف کنٹرول پر شدید گولہ باری کی خبریں بھی آتی رہیں جو کشمیر میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحد کا کام دیتی ہے۔ دونوں طرف سے دشمن کو شدید نقصان پہنچانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
یہ حملے انڈین زیر تسلط کشمیر میں سیاحتی مقام پہلگام پر دہشت گرد حملے کے چند ہفتوں بعد ہوئے ہیں۔ اس حملے میں 26 افراد قتل ہوئے تھے اور انڈیا نے اس قتل عام کا الزام پاکستان پر لگایا ہے۔ انڈین وزیراعظم نریندرا مودی نے اعلانیہ عہد کیا تھا کہ اس دہشت گردی کا بدلہ لیا جائے گا جس کے لیے ہفتوں سے تیاری جاری تھی۔
پہلگام پر حملوں کے بعد انڈیا نے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ یکطرفہ طور پر سندھ طاس پانی معاہدہ کو معطل کر رہا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کی بنیاد ہے۔ اس معاہدہ پر دونوں ممالک نے 1960ء میں ورلڈ بینک کی ضمانت پر دستخط کیے تھے۔ یہ معاہدہ پہلے کئی جنگیں، جھڑپیں اور حملے برداشت کر چکا ہے لیکن یہ واقعہ اس جنگ کا پہلا شکار ثابت ہوا ہے۔ دیگر کئی تادیبی اقدامات کا اعلان کیا گیا جن میں دونوں ممالک نے مخالف کی قومی ایئر لائن کو فضائی حدود سے گزرنے پر پابندی بھی لگا دی۔
دونوں طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریاستی انتظامیہ اور وزرا جنگی جنون ابھارنے کے لیے اشتعال انگیز بیان بازی کر رہے ہیں۔ روایتی میڈیا پاگل ہو چکا ہے اور نیوز اینکر ٹی وی پر بیٹھے زہر اگلتے ہوئے ایک دوسرے کو جوہری ہتھیاروں کے ذریعے نیست و نابود اور فتح کرنے کی مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس مکروہ اور غلیظ ہنگامہ آرائی کو دونوں اطراف میں محنت کش طبقے نے شدید غصے سے رد کر دیا ہے۔ دونوں ممالک کے محنت کشوں میں امن اور باہمی عزت کی دیرینہ خواہشات موجود ہیں۔ دوسری طرف کئی لمپن عناصر اور درمیانے طبقے کے متعصب زدہ افراد اپنی پرتعیش خواب گاہوں میں نرم گداز بستروں پر دراز کشت و خون اور بدلے کی بکواس بازی کر رہے ہیں۔
دونوں ممالک کے حکمران عالمی طور پر لابی بھی کر رہے ہیں۔ امریکہ اور چین سمیت تمام بڑی عالمی قوتوں نے خطے میں اپنے مفادات کے تحت اعلامیے جاری کیے ہیں اور سفارت کاری کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے 6 مئی کو ایک ایمرجنسی میٹنگ بھی بلائی تھی جس میں انڈیا اور پاکستان دونوں نے اپنی پوزیشن واضح کی۔ ہمیشہ کی طرح سامراجی قوتوں کے اس بانجھ ادارے اور اوزار نے جنگی جنون کو ختم یا زائل کرنے میں صفر کردار ادا کیا ہے۔
موجودہ اشتعال انگیزی کے پس پردہ محرکات
ان واقعات کے فوری بعد صورتحال ابھی مکمل طور پر معمول پر نہیں آ سکی ہے۔ صورتحال تیزی سے بگڑنے کا ایک خطرہ موجود ہے جس میں کوئی بھی فریق اپنے مفادات کے تحفظ میں کسی بھی قسم کی کاروائی کر سکتا ہے اور جنگ کو کئی قدم آگے لے کر جا سکتا ہے۔ دونوں فریقین جوہری قوتیں ہیں اور اس لیے عالمی اور مقامی طور پر ہر جگہ سے صبر اور ضبط کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ لیکن خطے میں قوتوں کا توازن عدم استحکام کا شکار ہے اور جنگ میں تیز تر تبدیلی کے امکانات موجود ہیں اگرچہ صورتحال کی بنیاد پر روک تھام، ٹھہراؤاور نئے پیچ و خم کے کئی مراحل رونما ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ پچھلی آٹھ دہائیوں میں ان دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی لیکن موجودہ اشتعال کے پس پردہ کئی محرکات کار فرما ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ دونوں ریاستیں اس وقت شدید اندرونی بحرانوں کا شکار ہیں جو مسلسل گہرے اور گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے محنت کش اپنے حکمران طبقات سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ اس لیے دونوں ممالک کے حکمران طبقات پاگلوں کی طرح ایک بیرونی جنگ کو بھڑکا رہے ہیں تاکہ اندرون ملک اپنی ساکھ کو بحال کر سکیں اور اپنی ہی عوام کو لوٹنے کھسوٹنے کا بے رحم عمل جاری رکھیں۔ اس لوٹ مار کو برقرار رکھنے کے لیے اب دشمن کو کچلنے اور ایک جنگ جیتنے کے دعوے پر دوبارہ مقبولیت اور قوت تعمیر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انڈیا میں مودی بیہار (Bihar) ریاست میں ہونے والے اہم انتخابات کے حوالے سے کافی پریشان ہے کیونکہ اسے شکست کا خوف لاحق ہے۔ وہ جنگی جنون کو استعمال کرتے ہوئے ووٹروں کو دوبارہ اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو بڑھتی ہوئی غربت، بیروزگاری اور بیماری کی وجہ سے متنفر ہو رہے ہیں۔ اس سب تباہی کا ذمہ دار مودی اور اس کا اتحادی، بیہار کا وزیر اعلیٰ نتیش کمار ہے۔
مودی اس سے پہلے بھی یہ حربہ کامیابی کے ساتھ استعمال کر چکا ہے۔ 2019ء میں انڈیا میں عام انتخابات سے چند مہینوں پہلے مودی نے پاکستان میں سرجیکل حملے کرائے جن میں اس کے مطابق کئی دہشت گرد ٹھکانے نشانہ بنے اور کئی تربیتی سنٹر تباہ کر دیے گئے۔ اُس وقت بھی انڈین زیر تسلط کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر ایک دہشت گرد حملہ ہوا تھا جسے ان حملوں کی بنیاد بنایا گیا۔ پاکستان نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے اس وقت بھی ایک انڈین ہوائی جہاز مار گرایا تھا جس کے پائلٹ کو پکڑ کر چند دن بعد لوٹا دیا گیا تھا۔
اس وقت پاکستان نے فتح کا دعویٰ کیا جبکہ مودی اور اس کی پارٹی نے اس جھڑپ اور جنگی جنون کو استعمال کرتے ہوئے ان انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کر لی تھی۔ اس فتح کی کئی وجوہات تھیں جن میں سب سے اہم کمیونسٹ پارٹیوں کا مکمل خصی پن اور حزب اختلاف کا ڈھیر ہو جانا تھا۔ کمیونسٹ پارٹیاں انڈین بورژوازی پر تیز ترین حملے کرتے ہوئے مودی کی لبرل پالیسیوں کے خلاف کوئی انقلابی متبادل پیش نہیں کر سکیں۔ بہرحال مودی کا جنگی جنون انڈین حکمران طبقے کے لیے ایک کارگر ہتھیار ثابت ہوا۔
اب ایک مرتبہ پھر مودی پاکستان کے خلاف جنگ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور ووٹروں کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 2024ء میں منعقد ہونے والے آخری انتخابات میں اس کی مجروح ساکھ کا اظہار اُس وقت ہو گیا تھا جب لوک سبھا (انڈیا کی پارلیمنٹ میں ایوانِ زریں) میں وہ اپنی اکثریت کھو بیٹھا اور اسے حکومت بنانے کے لیے اتحادی پارٹیوں کا سہارا لینا پڑا۔
بیہار 13 کروڑ کی آبادی کے ساتھ انڈیا کی اہم ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔ مودی کا اتحادی اور وزیر اعلیٰ نتیش کمار 2015ء سے برسر اقتدار ہے لیکن اب پریشان پھِر رہا ہے کہ وہ آنے والے انتخابات میں شرمناک شکست سے دوچار ہو سکتا ہے۔ بیہار میں شکست کا مطلب مودی سورج کے غروب ہونے کا آغاز ہے۔ اس لیے وہ ساری احتیاط بالائے طاق رکھ کر جیت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے پر جُٹا ہوا ہے۔
مودی کی کمزوری اس وقت بھی عیاں ہو گئی تھی جب اس نے ذات کی بنیاد پر ایک مردم شماری کروانے کی حامی بھری۔ یہ مطالبہ انڈین نیشنل کانگریس اور دیگر حزب اختلاف پارٹیوں کا تھا اور مودی اور اس کی پارٹی مسلسل اس مطالبے کی مخالفت کرتے آئے تھے۔ حزب اختلاف پارٹیوں نے یہ مطالبہ اس لیے کیا کہ وہ نچلی ذاتوں کا حکومتی نوکریوں میں کوٹہ بڑھوا کر ان کا زیادہ سے زیادہ ووٹ جیتنا چاہتی ہیں۔ اب مودی نے اس معاملے پر یوٹرن لے لیا ہے اور انتخابات کو اپنے لیے موافق بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
جنوبی ایشیاء میں طاقتوں کا توازن
امریکی سامراج نے پچھلی ایک دہائی میں انڈیا کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے ہیں اور بحیرہ ہند الکاہل میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے انڈیا پر بہت زیادہ انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ اس لیے مودی ایک کمزور پاکستان کے خلاف اپنے آپ کو تگڑا محسوس کر رہا ہے جو اپنی پیدائش سے امریکی سامراج کا غلام رہا ہے لیکن اب اس کا منظور نظر نہیں رہا۔ یہ تبدیلی خاص طور پر اس وقت واضح ہو گئی جب امریکہ کو افغانستان سے 2021ء میں شرمناک پسپائی اختیار کرتے ہوئے بھاگنا پڑا۔
پاکستانی وزیر دفاع نے حالیہ دنوں میں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ایک بیرونی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کی حمایت میں کردار ادا کیا ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں، پاکستان دہشت گردی کی حمایت کرتا رہا ہے لیکن یہ سارا غلیظ کام وہ امریکہ اور برطانیہ کے لیے کر رہا تھا اور یہ ایک غلطی تھی۔
لیکن اس نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس نے حکومت کو یہ کام کرنے کا مینڈیٹ دیا اور کیوں اس ”غلطی“ کے مرتکب آج بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور پاکستانی قانون کے مطابق سزا یافتہ نہیں ہیں۔ درحقیقت یہ پاکستانی حکمران طبقے کے غم و غصے کا اظہار ہے جسے امریکی سامراج نے انڈیا کے حق میں یتیم کر دیا ہے۔ اب مجبوراً پاکستان کو چین پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنا پڑ رہا ہے تاکہ انڈیا کے خلاف اپنی تزویراتی پوزیشن کو بہتر کرے۔
مودی اب اس ساری صورتحال کو استعمال کرتے ہوئے جنوبی ایشیاء میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا راستہ روکنے اور انڈیا کا حلقہ اثر بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ عالمی طور پر طاقتوں کا توازن بدل رہا ہے اور چین عالمی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے جس کے اپنے سامراجی عزائم ہیں۔ یہ عزائم امریکی سامراج کے مفادات سے براہ راست ٹکرا رہے ہیں جس بنیاد پر بحیرہ ہند اور جنوبی ایشیاء میں طاقتوں کا توازن قابل ذکر حد تک تبدیل ہو گیا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری ہے۔
چین جنوبی ایشیاء کے ممالک میں مسلسل اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے اور نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا اور مالدیپ میں دیوہیکل پراجیکٹس بنا رہا ہے۔ پاکستان میں ”چین پاکستان معاشی راہداری“ (CPEC) ”چینی بیلٹ اینڈ روڈ ابتداء“ (B&RI) کا علم بردار پراجیکٹ ہے۔ ایک حالیہ چینی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان پوری دنیا میں چین کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے۔
چین اس وقت تبت (Tibet) میں دنیا کا سب سے بڑا ڈیم تعمیر کر رہا ہے جو مشرقی انڈیا میں براہماپترا دریا (Brahmaputra River) کے بہاؤ پر دیوہیکل اثرات مرتب کرے گا۔ اس وجہ سے انڈیا اور چین کے درمیان تناؤ مسلسل بڑھ رہا ہے لیکن اس کے ساتھ باہمی تجارت میں بھی اضافہ جاری ہے جو اب لگ بھگ 150 ارب ڈالر سالانہ ہو چکا ہے۔ اس طرح دونوں ممالک کا مختلف تضادات کے باوجود ایک دوسرے پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔
محنت کش طبقے پر مودی کا تابڑ توڑ حملہ
لیکن مودی کے لیے سب سے اہم مسئلہ اس وقت انڈیا میں محنت کشوں اور کسانوں کی تحریکیں ہیں جن کا حجم اور وسعت مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ 20 مئی کو ایک عام ہڑتال کی کال موجود ہے جس کی کئی مہینوں سے تیاریاں چل رہی ہیں۔ اگرچہ پچھلے چند سالوں میں کافی عام ہڑتالیں ہوئی ہیں لیکن ہر سال مودی سرکار کے لیے عوامی نفرت مسلسل بڑھ رہی ہے جو اب پھٹنے کے لیے تیار آتش فشاں بن چکی ہے۔ درحقیقت پوری دنیا کے دیگر ممالک کے موازنے میں انڈین معیشت کی نام نہاد شاندار کامیابی اس نفرت کو اور بھی تیز کر رہی ہے جو کسی وقت بھی پھٹ کر اپنا اظہار کر سکتی ہے۔
اگرچہ بنگلہ دیش انڈیا سے کافی چھوٹی معیشت ہے لیکن اسے ایک ”ابھرتا چیتا“ سمجھا جاتا تھا جس کی معیشت شیخ حسینہ کی قیادت میں تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔ لیکن جب اچانک ایک دیوہیکل عوامی تحریک پھٹی اور اس نے حکومت کا تختہ الٹ دیا تو اکثر افراد پر سکتہ طاری ہو گیا!
انڈیا میں بھی کچھ ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔ مودی انڈیا کے GDP کی بڑھوتری اور دنیا میں چوتھی بڑی معیشت بن جانے کا ہر جگہ چرچا کرتا ہے لیکن یہ بلبلہ کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔
درحقیقت ٹرمپ کی چین کے خلاف نافذ کردہ محصولاتی جنگ انڈیا کی مدد کر رہی ہے کیونکہ ایپل سمیت دیگر کئی اجارہ داریاں اپنا کاروبار یہاں منتقل کر رہی ہیں۔ لیکن اس سے انڈین محنت کشوں کے استحصال میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے جن پر مودی حکومت نئے لیبر قوانین کے ذریعے تابڑ توڑ حملے کر رہی ہے۔ یہ ساری صورتحال محنت کش طبقے کی تحریک کو حکومت کے خلاف زیادہ جارحانہ راستوں پر لے کر جا سکتی ہے۔
2021ء میں کسانوں کی ایک دیوہیکل تحریک نے مودی کو شرمناک شکست سے دوچار کر دیا تھا جب اسے نئے منظور شدہ زرعی قوانین منسوخ کرانے پڑے تھے جن کے ذریعے بڑے کاروباروں کی تو چاندی ہو جانی تھی لیکن پورے انڈیا میں کروڑوں کسانوں اور ان کے خاندانوں نے تباہ و برباد ہو جانا تھا۔
مودی محنت کش طبقے پر بھی دیوہیکل حملے کر رہا ہے جن میں اجرتوں میں کٹوتیاں، وسیع پیمانے پر نجکاری، ورک فورس میں کٹوتی اور یونینز پر حملے شامل ہیں۔ اس بنیاد پر انڈین بورژوازی کا استحصال ناقابل یقین سطح پر پہنچ چکا ہے جبکہ ان کی دولت کے انباروں کا اب کوئی حساب نہیں رہا۔
مودی کی ایک دہائی حکومت کا آج نتیجہ یہ ہے کہ انڈیا کا 1 فیصد اس وقت ملک کی 40 فیصد دولت کا مالک ہے جبکہ نچلا 50 فیصد محض 3 فیصد کا مالک ہے۔ 12 کروڑ 90 لاکھ افراد انتہائی غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مودی اس جنگ کو استعمال کرتے ہوئے محنت کش طبقے کا سارا غم و غصہ ایک بیرونی دشمن کی جانب موڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ فتح کا ڈھول بجا کر انڈین بورژوازی کی نوکری میں اپنی حکمرانی کو مزید طول دینے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم رہے۔
اس حوالے سے کمیونسٹ پارٹیوں نے مودی پالیسی کی حمایت میں غلیظ ترین قوم پرستانہ شاونزم کا ثبوت دیا ہے جس سے مودی کو تقویت مل رہی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اعلامیہ کے مطابق، ”CPI سمجھتی ہے کہ انڈیا کے پاس دہشت گردی کے ایسے ذرائع کے خلاف ٹھوس اقدامات کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا“ اور مودی کو اس کے ”متوازن اور عدم شدت طریقہ کار“ پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے مودی سرکار سے اپیل کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف تمام پارٹیوں کا ایک قومی اتحاد بنایا جائے!

کمیونسٹ پارٹیوں میں نام نہاد سب سے زیادہ لیفٹ پر کھڑی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے بھی حکومت پر تعریفوں کے پھول نچھاور کیے ہیں اور یہاں تک مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی حکومت پر زیادہ ”دباو“ ڈالا جائے اور حکومت ”ملکی سالمیت“ کے لیے زیادہ متحرک ہو۔ یہ کمیونسٹ پارٹیوں کی عالمی فرائض سے ننگی غداری ہے کہ اپنے حکمران طبقے کے جنگی جنون اور شاونزم کے خلاف لڑنا ہے اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔
پاکستانی حکمران طبقہ
دوسری طرف پاکستانی حکمران طبقہ مودی سے بھی زیادہ اس جنگ سے فائدہ اٹھا رہا ہے جس نے اس جنگ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے خلاف بڑھتی عوامی تحریکوں کی اٹھان کو فی الحال دبا دیا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے احکامات کے تحت معیشت گہرے بحران کا شکار ہو چکی ہے اور ملک مسلسل دیوالیہ ہو رہا ہے۔
حکمران طبقہ اور عالمی مالیاتی اداروں نے اپنی لوٹ مار اور استحصال کو جاری رکھنے کے لیے محنت کش طبقے پر خوفناک حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں پورے ملک میں ہسپتالوں، اسکولوں اور کالجوں کی مکمل نجکاری جاری ہے۔ اس وقت ان شعبوں کے محنت کشوں کی دیوہیکل تحریکیں جاری ہیں اور انڈین حملوں سے ایک دن پہلے پنجاب کے کئی شہروں میں دیوہیکل احتجاج منعقد ہوئے تھے جن میں ڈاکٹروں سمیت ہسپتالوں کے ہزاروں محنت کشوں نے حصہ لیا تھا۔
پورے ملک میں اس وقت کئی عوامی تحریکیں جاری ہیں جن میں ریاستی اور قومی جبر کے خلاف بلوچ عوام کی تحریک شامل ہے۔ ریاست خوفناک عسکری آپریشنوں کے ذریعے ہزاروں کو قتل اور ہزاروں کو اغواء کر چکی ہے اور پوری آبادیاں برباد ہو چکی ہیں۔ درحقیقت ان آپریشنوں اور گرفتاریوں نے پورے بلوچستان میں آگ لگا دی ہے۔
بلوچ عوام کی اس تحریک نے ان مسلح گروہوں کا دیوالیہ پن اور جعتی کردار بھی عیاں کر دیا ہے جو قومی آزادی اور پاکستانی فوج کے خلاف جدوجہد کے دعویدار ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ جعفر ایکسپریس ٹرین کا حالیہ واقعہ موجودہ حالات کے لیے ایک عمل انگیز ثابت ہوا ہے۔ چند مہینوں پہلے اس ٹرین پر بلوچ مسلح گروہوں نے کاروائی کرتے ہوئے کئی افراد کو اغواء کر لیا تھا۔ ٹرین پر فوجی سپاہیوں سمیت کئی سو عام مسافر سوار تھے۔
پاکستان انڈیا پر بلوچ گوریلا جنگجوؤں کی پشت پناہی کا الزام لگا رہا ہے اور کئی مرتبہ بدلہ لینے کا اعلان کر چکا ہے۔ کئی تجزیہ کاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حوالے سے پہلگام واقعہ پاکستان کا جواب ہو سکتا ہے۔ لیکن پاکستانی حکمران طبقے کو انڈین ریاست کے حمایت کردہ ان مسلح گروہوں یا افغان طالبان حکومت کے برعکس صوبے میں جاری عوامی تحریک سے حقیقی خطرہ ہے جس میں لاکھوں شرکاء حصہ لے رہے ہیں۔
پاکستانی حکمران طبقے کے لیے ایک اور حقیقی خطرہ سندھ میں نئے کنالوں اور دریائی پانی کے سوال پر پھٹنے والی حالیہ عوامی تحریک ہے۔ پاکستانی حکومت نے دریائے سندھ پر چھ نئے کنال بنانے کا اعلان کر رکھا ہے جن میں سے کئی کا بنیادی کام صحرائے چولستان کو سیراب کرنا ہو گا۔
کارپوریٹ زراعت کا یہ منصوبہ 4 ارب ڈالر کا ہے جس کو فوج کنٹرول کر رہی ہے اور قرضہ ورلڈ بینک کی طرف سے جاری ہوا ہے۔ اس کا سندھ اور پنجاب کے پہلے سے پانی کی قلت کے شکار برباد کسانوں پر تباہ کن اثر پڑے گا۔ دریائے سندھ کا پانی ان نئے کنالوں میں ڈالنا ان لاکھوں کسانوں کے لیے موت کا فرمان ہے۔
پہلے ہی پاکستانی ریاست کسانوں پر خوفناک حملے کر رہی ہے۔ اناج کاشت کرنے والے کسان برباد ہو چکے ہیں کیونکہ وہ اپنی جنس پیداواری لاگت سے کم پر بیچنے پر مجبور ہیں۔
اس ساری صورتحال نے سندھ میں ایک عوامی تحریک کو جنم دیا جس کا آغاز 16 اپریل کو سندھ اور پنجاب کے درمیان رابطہ کار مرکزی شاہراہ کو بند کرنے کے لیے ایک احتجاج سے ہوا۔ پورے ملک میں اشیاء صرف کی آمد و رفت کئی ہفتوں تک ان احتجاجوں کی وجہ سے مکمل بندش کا شکار رہی۔ اس مسئلے کو حکومت حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی حالانکہ اس کی مرکزی اتحادی پیپلز پارٹی اس وقت سندھ میں اقتدار میں ہے۔
تحریک مسلسل بڑھ رہی تھی اور سندھ کے طول و عرض سے لوگ احتجاجوں میں شامل ہو کر جرنیلوں اور پیپلز پارٹی کو اس کے غدارانہ کردار پر شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور دیگر نے اس تحریک کو پنجاب کے خلاف نفرت میں تبدیل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن اس حوالے سے انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔
آخر کار حکومت کو احتجاجیوں کے مطالبات ماننے پڑے اگرچہ ننگا جھوٹ بولا گیا کہ یہ کام تحریک کے دباؤ کے برعکس مودی کے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ معطل کرنے کے فیصلے کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے بلاول سمیت پیپلز پارٹی کی قیادت نے مودی پر شدید حملے کیے اور کہا کہ ”ہمارا پانی بہے گا یا پھر ان کا خون“۔
اس دوران وہ اور اس کی پارٹی پاکستان کے کروڑوں محنت کشوں اور کسانوں کے خون پسینے سے اپنی دولت کشید رہی ہے۔ یقینا اس جنگ نے بلاول اور اس کے ساتھ اتحادی حکومت میں موجود سرمائے کے دلالوں کو محنت کشوں کا غم و غصہ پراگندہ کرنے میں مدد کی ہے۔
کشمیر میں عوامی تحریکیں
اسی طرح پاکستانی زیر تسلط کشمیر میں بھی اس وقت ایک دیوہیکل عوامی تحریک جاری ہے جس میں پچھلے ایک سال میں لاکھوں افراد نے دو مرتبہ متحرک ہو کر حکمران طبقے کو ذلت آمیز شکست دی ہے۔
کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت میں لوگوں نے قیمتوں میں اضافے کے خلاف جدوجہد جیت کر حکومت کو بجلی اور اناج کی قیمتوں میں دیوہیکل کمی کرنے پر مجبور کر دیا۔ تحریک سے پہلے ”آزاد“ کشمیر میں ایک یونٹ بجلی کی قیمت 50 روپے تھی جو اب 3 روپے ہو چکی ہے۔ یہ تحریک ابھی بھی جاری ہے اور 13 مئی کو مظفر آباد میں ایک عوامی اکٹھ کا منصوبہ ہے جس میں تحریک کے دوران پاکستانی ریاست کے ہاتھوں شہید ہونے والے بہادر محنت کشوں کی پہلی برسی منائی جائے گی۔
اس تحریک کو انڈین زیر تسلط کشمیر میں بہت زیادہ گرم جوشی اور عزت سے دیکھا جا رہا ہے اور انڈین ریاست کے جبر کے خلاف ایک نئی عوامی تحریک منظم ہو رہی ہے۔
مودی اپنی پیٹھ آپ ہی تھپکاتا رہتا ہے کہ اس نے اپنے جابرانہ اقدامات کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ ”حل“ کر لیا ہے۔ وہ شیخی بگھارتا رہتا ہے کہ کشمیر کی عوامی انقلابی تحریک کو 2019ء میں انڈین آئین کا ایک مخصوص آرٹیکل ختم کر کے کچلا جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک کرفیو اور عوامی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا جو کئی سالوں تک جاری رہا۔
کشمیر میں انڈین فوج کی ایک دیوہیکل تعداد موجود ہے لیکن مودی حکومت سیاحوں اور کاروبار کی بھی خواہش مند ہے۔ کشمیر میں ایک نام نہاد منتخب (لیکن کمزور) حکومت کے ذریعے ”معمول“ بحال کرنے کے باوجود ایک نئی عوامی تحریک کے امکانات مسلسل پنپ رہے ہیں جس کو ”آزاد“ کشمیر اور گلگت بلتستان کی عوامی ایکشن کمیٹیاں مسلسل ہمت و حوصلہ فراہم کر رہی ہیں۔
کشمیر سوال ایک ہتھیار
ایک مرتبہ پھر دونوں ممالک کا حکمران طبقہ کشمیر سوال کو اس جنگ میں بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے تاکہ اپنے ممالک اور کشمیر کے محنت کش طبقے پر حملوں کو جاری رکھتے ہوئے اپنا تسلط قائم رکھا جائے۔
دونوں ممالک کا محنت کش طبقہ اپنے متحد تحرک سے ہی ان اہداف اور مقاصد کو شکست فاش دے سکتا ہے۔ بدقسمتی سے دونوں ممالک میں کمیونسٹ پارٹیاں اور لیفٹ مکمل طور پر حکمران طبقے کا دم چھلہ بنی ہوئی ہیں۔ ان کا کشمیر اور جنگ پر وہی مؤقف ہے جو ان کے آقاؤں، ریاست اور حکمران پارٹیوں کا مؤقف ہے۔
انڈیا اور پاکستان میں کوئی سیاسی پارٹی یا قائد سرمایہ داری اور سرمایہ دارانہ ریاست کے خاتمے کا ذکر تک نہیں کرتا۔ یہ نظام تمام جنگوں، قومی جبر اور دہشت گردی کی بنیاد ہے جس نے خطے کی عوام کو مفلوک الحال اور برباد کر رکھا ہے۔
برصغیر کا بٹوارہ اور ان سرمایہ دارانہ ریاستوں کی تعمیر نے ان ممالک کے حکمران طبقات اور عالمی سامراجی قوتوں کو ہی فائدہ پہنچایا ہے۔ دونوں اطراف کا محنت کش نسل در نسل شدید غربت، بیروزگاری اور مایوسی کا شکار رہا ہے جبکہ حکمران طبقہ ناقابل یقین دولت میں غوطے لگا رہا ہے۔ دونوں ممالک کا حکمران طبقہ ایک دوسرے کے خلاف کئی جنگوں میں ہزاروں افراد قتل کر چکا ہے۔ اگر وہ آپس میں جنگ نہیں کرتے تو پھر جنگ کی تیاری کرتے ہیں اور کروڑوں انسانوں کو بھوک اور غربت میں گاڑ کر اپنے ہتھیار اور جنگی کھلونے اکٹھے کرتے رہتے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ دونوں ممالک جوہری اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں جبکہ لاکھوں افراد ہر سال بھوک اور دوائی کی قلت سے مر رہے ہیں۔ اپنی لوٹ مار اور استحصال کی ہوس میں یہ حکمران طبقات مذہبی، قومی اور دیگر تعصبات کی سیاست کرتے ہوئے اپنی اور اس استحصالی نظام کی حمایت پیدا کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔
ان جنگوں کو ختم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے محنت کش طبقات کو اپنے حکمران طبقات اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی کیونکہ اسی بنیاد پر تمام جنگ و جدل اور دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔
20مئی کو انڈیا میں 25 کروڑ سے زیادہ محنت کش اور کسان ایک عام ہڑتال منظم کر رہے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب اس ہڑتال کی قیادت محنت کش طبقے کے اتحاد کا پیغام دیتے ہوئے تمام جنگوں کے خاتمے اور مودی سرکار کے خلاف طبقاتی جدوجہد کا ایک انقلابی پروگرام دے سکتی ہے۔ محنت کشوں اور کسانوں کے فوری مطالبات کے ساتھ سیاسی مطالبات شامل کرنا لازم ہے جن کے ذریعے انڈیا میں بورژوازی اور اس کے طبقاتی مفادات پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف پاکستانی محنت کش طبقاتی یکجہتی میں اس جنگ کے خاتمے کے مطالبے پر احتجاج اور ریلیاں منظم کر سکتے ہیں۔ اس طریقہ کار کے ذریعے عالمی سامراجی قوتوں کے دلال پاکستانی حکمران طبقے کے خلاف طبقاتی جدوجہد کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔
پورے برصغیر کا ایک سوشلسٹ انقلاب ہی محنت کش طبقے کے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے۔ ایک ایسی راہ جس پر چلتے ہوئے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ان مصنوعی سرحدوں کا خاتمہ کرتے ہوئے بٹوارے کا جرم ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے۔ جنوبی ایشیاء کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن ہی جنگوں، غربت، بیروزگاری، مایوسی اور کشمیری عوام پر جبر کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ یہ انقلاب پورے خطے کے لیے خوشحالی اور تعمیر و ترقی کے ایک نئے عہد کا آغاز کرے گا جو عالمی سوشلسٹ انقلاب اور عالمی سرمایہ داری کے خاتمے کا پہلا قدم ثابت ہو گا۔
انڈیا اور پاکستان کا محنت کش اتحاد زندہ باد!
کوئی جنگ نہیں، صرف طبقاتی جنگ!
انڈیا اور پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!
جنوبی ایشیاء کی سوشلسٹ فیڈریشن زندہ باد!
دنیا بھر کے محنت کشوں ایک ہو جاؤ!