اداریہ ورکرنامہ: نئی اور پرانی سیاست!
آج پاکستان کی ریاست کا داخلی انتشار اور عالمی سطح پر سامراجی طاقتوں کی لڑائی بالکل ایک نئی کیفیت میں داخل ہو چکی ہے اور ماضی میں اس سے ملتی جلتی صورتحال کبھی بھی موجود نہیں رہی
آج پاکستان کی ریاست کا داخلی انتشار اور عالمی سطح پر سامراجی طاقتوں کی لڑائی بالکل ایک نئی کیفیت میں داخل ہو چکی ہے اور ماضی میں اس سے ملتی جلتی صورتحال کبھی بھی موجود نہیں رہی
پاکستانی ریاست کا بحران نئی انتہاؤں کو چھو رہا ہے جبکہ سامراجی طاقتوں کی لڑائی ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یکم جنوری کو ٹرمپ کی ٹویٹ اور دو جنوری کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے چین کے ساتھ یوآن(چینی کرنسی) میں تجارت کا فیصلہ ریاست کے نامیاتی بحران اور اس پر سامراجی طاقتوں کے دباؤ کی شدت کا تھوڑا بہت اندازہ دیتے ہیں
تیزترین بدلتی ہوئی صورتحال میں ایسے قنوطیت پسندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ سالِ نو ان کو ہی خوش آمدید کہے گا جو انقلابی تحریکوں اور تیز ترین تبدیلیوں سے عہدہ برآ ہونے کی جرات اور حوصلہ رکھتے ہیں۔
ریاست کا بحران تیزی سے شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ معیشت، سیاست سمیت سماج کے ہر حصے کا بحران انتہاؤں کے قریب پہنچ رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بہت سی مقداری تبدیلیاں اب ایک معیاری تبدیلی کی جانب بڑھ رہی ہیں
|تحریر: راشد خالد| خواجہ آصف کے امریکہ میں بنیاد پرست دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے دیے جانے والے بیان کے بعد پاکستان میں سیاسی منظرنامے میں نئی بحث دیکھنے میں آئی ہے۔ وفاقی وزیر خارجہ نے نیویارک میں ایشیا سوسائٹی کی ایک تقریب میں ان دہشت گرد تنظیموں کی […]
پاکستان کی ریاست کا بحران انتہاؤں کو پہنچتا چلا جا رہا ہے۔ ایک ہی وقت میں مختلف سامراجی قوتوں کو خوش رکھنے کی پالیسی نے خود ریاست کو متعدد دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ اب یہ مختلف دھڑے اپنے سامراجی سرپرستوں کی آشیر باد سے ایک دوسرے پر […]
یہ تمام سماجی، معاشی اور سیاسی بحران آخر میں پھٹ کر ایک بڑی انقلابی تحریک پیدا کرنے کی طرف جائیں گے۔ یہ تحریک اپنے پھیلاؤ اور شدت میں ماضی کی تمام تحریکوں کو گہنا دے گی۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کے اس ممکنہ تحریک کے سامنے 69-1968ء کی تحریک بھی ہیچ نظر آئے گی
امریکی صدر ٹرمپ کی افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں پالیسی کے اعلان کے بعد سے یہاں کے حکمرانوں کے ایوانوں میں ایک کھلبلی سی نظر آتی ہے۔ امریکی سامراج کی غلامی کا طوق پہنے یہاں کے غلام حکمران اپنی ماضی کی خدمات اور کاسہ لیسی کی داستان سنا کر آقا کوسخت رویہ اپنانے سے روکنا چاہتے ہیں جو اب ان کے منہ میں ڈالی جانے والی ہڈی بند کرنے جا رہا ہے
عدالتوں کو فوج کی باندی قرار دیا جا رہا ہے اور فوج پر ’’جمہوریت‘‘ پر شب خون مارنے کا واویلا کیا جا رہا ہے۔ لیکن کہیں بھی یہ بات نہیں کی جا رہی کہ کروڑوں محنت کشوں کو غربت، بھوک، بیماری، ذلت اور جہالت میں دھکیلنے کا ذمہ دار کون ہے۔ شدید گرمی اور حبس میں بجلی، گیس اور پانی کے بغیر زندگی کی اذیتوں کو سہنے والے کروڑوں لوگوں کا مجرم کون ہے
ریاست کے حد سے بڑھتے ہوئے بحران میں جہاں ریاست کے تمام تر ادارے اپنی ساکھ کھوتے جا رہے ہیں وہیں پر اس فیصلے کے ذریعے عدالت کی ساکھ کو ایک بار پھر بحال کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے
|تحریر: پارس جان| بالآخر سپریم کورٹ میں جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (JIT )کی رپورٹ پیش کر دی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور اس کے خاندان کی آمدنی اور ان کے اخراجات میں پایا جانے والا تفاوت اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ […]
نئی نسل ماضی کے مزاروں کوپوجنے کی نہیں مستقبل کو تراشنے اور نکھارنے کی جدوجہد میں سرگرم ہونے کے پہلے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ انہوں نے جو سبق حاصل کیا ہے اس کا نچوڑ یہ ہے کہ انہیں خود اپنے دم پر کچھ کرنا ہو گا۔ وہ سماج کی طبقاتی بنتر کو بھی زندگی کے تلخ تجربات سے سمجھ رہے ہیں
سندھ حکومت پر براجمان پیپلز پارٹی محنت کشوں کو روزگار اور روٹی‘ کپڑا اور مکان دینے کی بجائے چھیننے کی پالیسی پر گامزن ہے اور عوام کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ رینجرز اختیارات کی توسیع کا بنا کر پیش کیا جا رہاہے
محنت کشوں کے اس قتل عام کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور ان واقعات میں ملوث بلوچ علیحدگی پسند نہ صرف بلوچ قومی آزادی کے دشمن ہیں بلکہ محنت کشوں کی طبقاتی جڑت کو زک پہنچا کر حکمران طبقے کے مفادات کی تکمیل کر رہے ہیں