ایک کروڑ نوکریوں کا اعلان۔۔دھوکہ دہی کی نئی داستان!

|تحریر: ولید خان|

آج کل سوشل میڈیا، اخبارات اور میڈیا پر ہر جگہ تحریک انصاف کی انتخابات میں کامیابی کے نتیجے میں پہلے 100 دن کے پروگرام کا بڑا چرچا ہے۔ عمران خان کے حمایتی اس پروگرام کو ’’انقلابی‘‘ قرار دے رہے ہیں جن کی اقلیت ہی اس پروگرام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے جبکہ ٹاک شوز میں سیاسی مخالفین اور تجزیہ نگار اسے ایک ڈھونگ اور انتخابات سے پہلے ’’دھاندلی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا میں بھی اس پر تنقید کی جا رہی ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ محنت کش طبقے کے نکتہ نظر سے اس پروگرام کا تجزیہ کیا جائے۔

100 دن بعد۔۔دودھ اور شہد کی نہریں؟

اس پروگرام کو متعارف کروانے کے لئے 20 مئی کے دن اسلام آباد میریٹ ہوٹل میں ایک بڑی پرتپاک تقریب رکھی گئی جس میں تحریک انصاف کے قائدین، سماجی تنظیموں اور مڈل کلاس کے چمکتے دمکتے خواتین و حضرات ، مختلف غیر ملکی مالیاتی اداروں کے نمائندگان (بشمول ورلڈ بینک)اور ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے بھرپور شرکت کی۔ محنت کش طبقے اور عوام کی کسی تنظیم یا شخصیت کی نمائندگی موجود نہیں تھی۔ پروگرام میں انتہائی بلند و بانگ اور سطحی وعدے کئے گئے جبکہ تفصیلات کے سوالات پر بات گول کر دی گئی۔ کیا، کیوں اور کیسے یہ سب کچھ ممکن ہو گا، اس پر پہلو تہی نے 2013ء کے انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کے 90 دن کے پروگرام کی یاد تازہ کر دی جس میں کچھ اسی قسم کے دعوے کئے گئے تھے۔ پروگرام کے پانچ حصے ہیں جن میں وفاق کی مضبوطی اور تحفظ کو یقینی بنانا، معیشت کی از سر نو تعمیر، سروسز سیکٹر میں انقلابی اقدامات، زرعی اصلاحات اور پاکستان کی خارجہ پالیسی اور قومی تحفظ شامل ہیں۔ یہ پروگرام پہلے 100 دن میں لاگو کیا جائے گا تاکہ اگلے پانچ سالوں میں اس پروگرام کی تکمیل کرتے ہوئے ملک و قوم کا سنہرا دور یقینی بنایا جا سکے۔

1۔ وفاق کی مضبوطی اور تحفظ

سابق وزیر خارجہ ، سابق صوبائی وزیر، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے سابق مرکزی رہنما، 1997ء کے انتخابات ہارنے کے علاوہ 1985ء سے اب تک ممبر پنجاب اسمبلی، ممبر قومی اسمبلی، سابق ناظم اعلیٰ ملتان اور جنوبی پنجاب کے بڑے زمیندار ، گدی نشین اور پارٹی میں ا سی طبقے کے نمائندہ شاہ محمود قریشی نے وفاق کے حوالے سے پی ٹی آئی کے ایجنڈے کا اعلان کیا۔ اس حوالے سے پانچ نکات پیش کئے گئے جن میں فاٹا کا کے پی کے میں انضمام، بلوچستان میں مفاہمت، انتظامی بنیادوں پر جنوبی پنجاب صوبے کا قیام، کراچی کی رونقیں بحال کرنااورغربت کا خاتمہ شامل ہیں۔ یہ نکات جہاں تفصیل سے عاری ہیں وہیں پر یہ نہیں بتایا گیا کہ بلوچستان اور کراچی کو درپیش مسائل کس طرح حل کیے جائیں گے۔ بلوچستان اور خاص طور پر گوادر کی بندرگاہ چینی سامراجی عزائم کا محور و مرکز بنی ہوئی ہے جس میں پاکستانی ریاست مکمل معاون ہے۔ بلوچستان میں خوفناک قومی سوال اپنے پورے جبر کے ساتھ موجود ہے جس میں ملکی اور غیر ملکی اجارہ داریوں کی معدنی وسائل کی تباہ کن لوٹ مار بھی شامل ہے جن میں چین، امریکہ، سعودی عرب ، عرب امارات اور ایران سر فہرست ہیں۔ مختلف ریاستی دھڑے بھی اپنے اور سامراجی مفادات میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے لوٹ مار میں حصہ وصول رہے ہیں۔ اس انتشار کی جھلک مختلف دہشت گردی کے واقعات ، ہزارہ اقلیت اور دوسرے صوبوں سے آئے مزدوروں کے وقتاً فوقتاً قتل عام سے ملتی ہے۔ قوم پرست پارٹیاں اپنی ساکھ مکمل طور پر کھو چکی ہیں جبکہ عالمی معاشی و سیاسی انتشار کے نتیجے میں صوبے میں کا بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں موجودہ ریاستی ڈھانچوں کے ذریعے امن کا قیام ناممکن ہو چکا ہے اور نہ ہی پاکستان کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ معدنی دولت سے مالا مال صوبے کی عوام کا استحصال اور طبقاتی تقسیم ختم ہو سکتی ہے۔

اسی طرح فاٹا پچھلے چالیس سال سے ریاست کی خون آمیز سٹریٹجک ڈیپتھ پالیسی کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔ نام نہاد اچھے طالبان کو رکھنے کے ساتھ ساتھ منشیات اور دیگر غیر قانونی اسمگلنگ کا اس علاقے کو گڑھ بنا دیا گیا ہے۔ UNODC (UNآفس آن ڈرگز اینڈ کرائم) کی ورلڈ ڈرگ رپورٹ کے مطابق دنیا کی 91فیصد ہیروئن افغانستان سے پاکستان اور پھر آگے ساری دنیا میں اسمگل کی جاتی ہے جس کی مالیت 100 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ بنتی ہے۔ فاٹا اور ملحقہ افغانستان کے علاقے کو ’’گولڈن کریسنٹ‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح اس اسمگلنگ کے لئے ایک اندازے کے مطابق تقریباً 60 غیر قانونی بندرگاہیں بلوچستان میں موجود ہیں۔ حقیقت میں فاٹا کا حالیہ انضمام کسی سیاسی پارٹی کی نیک تمناؤں نہیں بلکہ پچھلے تین مہینوں سے جاری پشتون تحفظ موومنٹ کا مرہون منت ہے جس کی وجہ سے ریاست نے انتہائی سرعت کے ساتھ قلیل عرصے میں فاٹا کے انضمام کی نوید سنا دی ہے ۔

کراچی سے روزانہ ریاست کے مختلف ادارے اورجماعتیں جن میں اب عوامی نیشنل پارٹی ، پی پی پی اور مختلف مذہبی اور جہادی تنظیمیں بھی شامل ہیں، کتنا بھتہ اکٹھا کرتی ہیں؟ کوئی اعدادو شمار وثوق سے نہیں دئیے جا سکتے۔ لیکن دنیا نیوز کی جون 2017ء کی رپورٹ کے مطابق صرف سڑک کنارے لگے اسٹالوں سے 1.5 کروڑ روپیہ یومیہ اور دی نیوز کی فروری 2012ء کی رپورٹ کے مطابق صرف تجاوزات سے روزانہ 1.2 کروڑ روپیہ یومیہ اکٹھا ہوتا ہے۔ اگر اتنا پیسہ صرف دو غیر قانونی دھندوں سے اکٹھا ہو رہا ہے تو پھر تمام غیر قانونی دھندوں سے روزانہ کتنا اکٹھا ہوتا ہو گا اس کے اندازے کے لئے شائد ایک نیا کیلکولیٹر ایجاد کرنا پڑے۔ اس ساری کیفیت میں پی ٹی آئی کراچی کی عوام کو کیسے اور کن بنیادوں پر ریلیف دلائے گی، اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ جہاں تک طبقاتی عدم مساوات کو ختم کرنے کا دعویٰ ہے تو کونسا سرمایہ دار، جاگیردار، بیوروکریٹ، فوجی جنرل، اشرافیہ اور جج اس کے لئے رضاکارانہ طور پر تیار ہو کر سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے، یہ تفصیل بیان کرنے سے بھی شاہ صاحب گریزاں ہیں۔ خود پچھلے 30 سال بر سر اقتدار رہتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے ملتان کی عوام کی قسمت کتنی تبدیل کر دی ہے یا اپنے دربار میں اکٹھے ہونے والے کروڑوں روپوں کو لینے سے کس حد تک انکار کیا ہے، اس کی حقیقت جاننے کے لئے ملتان شہر کا ایک چکرہی کافی ہے۔

2۔ معیشت کی ازسر نو تعمیر

معیشت کی از سر نو تعمیر اور ترقی پر لیکچر دینے کے لئے بنگلہ دیشی عوام کے قاتل اور حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے شہرت یافتہ جنرل غلام عمر کے صاحبزادے، ملکی نجکاری کمیشن کے سابق چیئرمین اور حالیہ گورنر سندھ کے بھائی، اینگرو کارپوریشن کے سابق CEO (بطور CEO، فوجی فرٹیلائزر کے ساتھ مل کر پاکستان کے غریب کسانوں سے 5ارب روپیہ کھاد کی مد میں لوٹا) ، پی ٹی آئی کے معاشی مفکر اور پارٹی میں سرمایہ داروں کے خیر خواہ اسد عمر تشریف لائے۔ انہوں نے روائتی انداز میں وہی گھسی پھٹی باتیں دہرائیں اور کہا کہ ہمارا پروگرام انقلابی ہے۔ اور وہ انقلابی پروگرام کیا ہے؟ نجکاری، سرمایہ داروں کے ٹیکسوں میں کمی، بیرونی سرمایہ کاری، تمام ریاستی اداروں کو سرمایہ داروں کے کنٹرول میں دینا، سرمایہ کاروں کے لئے تمام محصولات، بجلی پانی اور گیس میں سبسڈی دینا۔ اس حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ پروگرام میں ورلڈ بینک کا ایک نمائندہ بھی موجود تھا جس کا اسد عمر نے بڑے دوستانہ انداز میں ذکر کیا۔ لیکن پھر مسئلہ یہی تھا کہ یا تو مسائل کا حل بچگانہ تھا یا پھر تفصیل سرے سے ہی موجود نہیں تھی۔ مثلاً اگر سرمایہ داروں کو چھوٹ، سبسڈی اور کاروبار کرنے کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں سب سے بڑا سوال یہ بنتا ہے کہ پاکستان میں ایسا کونسا سرمایہ دار موجود ہے جو پورا ٹیکس یا تمام بل دے رہا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا سرمایہ دار، اپنے آغاز سے ہی تکنیکی حوالے سے اتنا پسماندہ تھا اور ہے کہ وہ ہر قسم کی چوری چکاری کئے بغیر اندرون ملک یا بیرون ملک منڈی میں مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔پھر کیونکہ سرمایہ داری اس خطے میں انقلابات کے ذریعے نہیں بلکہ برطانوی سامراج کے زیر تسلط لاگو ہوئی اس وجہ سے یہاں کا سرمایہ دار شروع سے عالمی سرمایہ دار کی دلالی اور تکنیکی انحصار پر مجبور رہا ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال خود اسد عمر ہے جس نے بطور CEO اینگرو کارپوریشن، فوجی فرٹیلائزر کے ساتھ مل کر 2011ء میں پاکستان کی کھاد کی مارکیٹ میں زبردستی منہ مانگے پیسوں پر غریب کسانوں کو کھاد فراہم کی جس پر بعد میں اینگرو کارپوریشن اور فوجی فرٹیلائزر کو جرمانہ دینا پڑا اور اسد عمر اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ پھر ساری دنیا کی معاشی گراوٹ کی سب سے بنیادی وجہ زائد پیداوار کا بحران ہے جس کی وجہ سے کسی بھی خطے کا کوئی سرمایہ کار نئی فیکٹری یا صنعت نہیں لگا رہا کیونکہ پہلے سے پیدا کردہ مال مارکیٹ میں فروخت ہو ہی نہیں رہا! اس حوالے سے عالمی معیشت ایک ایسے خوفناک گھن چکر میں پھنسی ہوئی ہے کہ جس میں پہلے سے موجود صلاحیت کا مال مارکیٹ میں بکتا نہیں جس کی وجہ سے اپنی شرح منافع کو برقرار رکھنے کے لئے سرمایہ دار مزدوروں کو نوکریوں سے جبری برطرف کرتے ہیں، مارکیٹ میں قوت خرید کی مزید کمی واقع ہو جاتی ہے کیونکہ برطرف مزدور پیدا کردہ مال نہیں خرید سکتا، اس کے نتیجے میں مزید برطرفیاں ہوتی ہیں اور اس سارے گھن چکر کے نتیجے میں عالمی اور علاقائی معیشتیں تباہی کی جانب بڑھنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ پھر پاکستانی سرمایہ دار کے پاس وہ تکنیک اور کثیر سرمایہ موجود ہی نہیں اور عالمی مارکیٹوں میں اس کے لئے وہ مواقع موجود ہی نہیں کہ اپنا مال دوسری معیشتوں کے مقابلے میں سستا کھپایا جا سکے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک کوشش یہ کی گئی ہے کہ پچھلے کئی ماہ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو بتدریج گرایا جا رہا ہے تاکہ مصنوعات سستی ہوں اور عالمی مارکیٹ میں کھپت ہو سکے۔ لیکن اس کا ناگزیر نتیجہ افراط زر، اندرون ملک قوت خرید میں کمی اور در آمد شدہ خام مال کی قیمتوں میں شدید اضافے کی صورت میں نکل رہا ہے۔ یہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان جیسی کمزور معیشت کا خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ کسی بھی معیشت کے مسابقت کے لئے بہتر پوزیشن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مزدوروں سے کم سے کم اجرت میں زیادہ سے زیادہ کام لیا جا رہا ہے یا پھر کم سے کم مزدوروں سے جدیدمشینوں پر کام لیا جا رہا ہے۔خود اگر مغربی ممالک کی بڑی اجارہ داریوں کو دیکھا جائے تو عالمی معاشی بحران کے پچھلے دس سالوں میں ٹیکس چھوٹ اور دیگر مراعات کے باوجود ایپل، گوگل، ایمازون اور دیگر اجارہ داریوں کے اربوں ڈالر آف شور ٹیکس ہیونز میں پڑے ہیں جنہیں یا تو صرف رکھا ہوا ہے یا پھر اپنے ہی اسٹاکس کی مالیت بڑھانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سنجیدہ مغربی جریدے دی اکانومسٹ کی اپنی رپورٹ ہے کہ امریکی سرمایہ داروں کا 2ٹریلین ڈالر اور یورپی سرمایہ داروں کا 2ٹریلین یورو اپنے ممالک سے باہر پڑا منہ چڑا رہا ہے۔ اب اس ساری صورتحال میں اسد عمر کس طرح سے سرمایہ کاروں کو رضا مند کرتے ہوئے چین، تھائی لینڈ، بنگلا دیش، میکسیکو ، انڈیا وغیرہ سے سرمایہ نکال کر پاکستان لانے پر مجبور کرے گا، اس جادوئی عرق کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ 

اس ساری صورتحال کو دیکھنے کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک کروڑ نوکریوں کا اعلان نہ صرف ایک دھوکہ ہے بلکہ ایک لٹیرے چرب زبان سرمایہ دار کی انتخابات میں کامیابی کی ایک بھونڈی کوشش بھی ہے۔ ایک تجویز یہ بھی دی گئی کہ چھوٹے اور درمیانے مینیوفیکچروں کو قرضے دے کر فروغ دیا جائے گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تجربہ ہر ملک میں ناکام ہو چکا ہے جس کی سب سے مشہور مثال بنگلادیش میں گرامین بینک کی ہے، دوسری طرف آج کی سرمایہ داری 200 سال پہلے والی آزاد منڈی اور آزاد مسابقت کی نہیں بلکہ سامراجیت اور اجارہ داری کی سرمایہ داری ہے۔ آج اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہر شعبے میں مٹھی بھر اجارہ داریاں نظر آتی ہیں، چاہے موبائل انڈسٹری ہو، کار سازی کی صنعت ہو، اشیائے خوردونوش کی صنعت ہو، ہتھیار سازی ہو، کمپیوٹر سازی ہو، دوا ساز کمپنیاں ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اس حقیقت سے اسد عمر نابلد نہیں ہے کہ بڑی اجارہ داریوں کے پا س وہ تکنیک، ذرائع اور سیاسی تعلقات موجود ہیں جن کی بنیاد پر کوئی نووارد منڈی میں زندہ رہ ہی نہیں سکتا۔ یہاں تک کہ موصوف خود جس کمپنی کے CEO رہے ہیں وہ خود دنیا کی بڑی اجارہ داریوں میں سے ایک ہے۔ اس ملک سے بیروزگاری کا خاتمہ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے کیا جا سکتا ہے جس میں تمام معیشت اور صنعتیں سرمایہ داروں سے ضبط کر کے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دی جائیں گی۔
مجوزہ پروگرام کے مطابق ایک ’’چوٹی کے کاروباریوں کی کونسل‘‘ بنائی جائے گی جس کا کام دنیا میں پاکستان کی ساکھ بہتر کرنا ہو گا۔ اب یہ کونسل کیا ہے اور اپنا ہدف کیسے حاصل کرے گی کچھ پتا نہیں۔ ایک ’’پاکستان ویلتھ فنڈ‘‘ بنایا جائے گا جس کے ذریعے تمام ملکی ادارے چلائے جائیں گے جو پھر چوٹی کے سرمایہ داروں کے زیر انتظام ہو گا۔ ویلتھ فنڈ جن ممالک نے بنائے ہیں، مثلاً ناروے، سعودی عرب، کویت، عرب امارات وغیرہ وہ تیل کی بے پناہ معدنی دولت کے زور پر بنائے گئے ہیں۔ اور اب ان ممالک میں بڑھتا ہوا خوفناک معاشی بحران یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ یہ ویلتھ فنڈ صرف امر ا کی عیاشی اور لوٹ کھسوٹ میں اضافے کا ایک ذریعہ ہی ہیں ۔ دوسری طرف پاکستان میں یہ تجویز رکھنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ریاستی اداروں کی نجکاری کو زیادہ آسان اور پرکشش بنایا جا سکے جس کا ناگزیر نتیجہ بے روزگاری میں بے پناہ اضافے کی صورت میں ہی نکلے گا۔ 

پانچ سالوں میں 50 لاکھ نئے گھر تعمیر کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ رہائش کا مسئلہ واقعی ایک خوفناک مسئلہ ہے لیکن یہ حکمران طبقے یا مڈل کلاس کا نہیں بلکہ محنت کش طبقے کا سنجیدہ مسئلہ ہے جو اپنے ہاتھوں سے لاکھوں گھر سالانہ تعمیر کرتا ہے مگر ان میں رہ نہیں سکتا۔ اس کا حل بھی موصوف نے قرضوں اورنجی شعبے کی سرمایہ کاری میں دیا ہے۔ ایک مزدور جس کی دیہاڑی ہی ہوائی ہے اسے کس بینک نے قرضہ دینا ہے؟ اور اگر دے بھی دیا تو اس کی نسلیں بھی یہ قرضہ نہیں اتار پائیں گی۔یہ خواب صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی پورا کیا جا سکتا ہے جس میں سرمایہ داروں کی تمام دولت اور جائدادیں ضبط کر لی جائے گی اور معیشت کا تمام کنٹرول محنت کش طبقے کے پاس ہو گا۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد جتنے بھی گھر پورے ملک میں منافع خوری یا کسی اور وجہ سے خالی پڑے ہوئے ہیں انہیں مزدور ریاست اپنی تحویل میں لے کر ان کے دروازے تمام محنت کشوں کے لئے کھول دے گی تاکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو رہائش فراہم کی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ نئے گھر اور اپارٹمنٹ بنانا مزدور ریاست کی ذمہ داری ہو گی تاکہ کوئی مرد، عورت یا بچہ اپنی رات سڑک پر نہ گزارے۔

امریکی امداد کی بندش، برباد معیشت کو سہارا دینے اور محنت کشوں کی ممکنہ تحریک کو مؤخر کرنے کے لئے پاکستان کی ریاست اور سرمایہ دار دن رات CPEC کا راگ الاپ رہے ہیں جن میں ایک ڈفلی بجانے والا اسد عمر بھی ہے۔ حالانکہ تھوڑا بہت ہی سہی لیکن جتنا بھی اس معاشی راہداری کا سنجیدہ تجزیہ کیا گیا ہے اس کے حوالے سے جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ پراجیکٹ پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ جدید دور کا سب سے بڑا نو آبادیاتی پلان ہے۔ خود پاکستان ٹیکسٹائل ایسو سی ایشن اور دیگر چیمبر آف کامرس بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ چینی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس پراجیکٹ میں بلند شرح سود پر وسیع پیمانے پر پاکستان کو انفرسٹرکچر کے قرضے دئیے جا رہے ہیں جن کی وصولی پھر یہاں کی غریب عوام کا خون نچوڑ کر ہی کی جائے گی۔ خاص کر زراعت کے شعبے میں ایک ایسا سامراجی پلان تیار کیا گیا ہے کہ یہاں کی محنت، پانی اور وسائل استعمال کر کے چینی سرمایہ کار ساری فصلیں لے جائیں گے۔ اس کھلی سامراجی لوٹ مار پر اسد عمر خاموش ہے۔ آخر میں تفریحی مقامات کی تعمیر کے ایک مبہم پروگرام کا بھی تذکرہ کیا گیا جس پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ پہلے سے موجود تفریحی مقامات نے پاکستان کو کتنے اربوں ڈالر کا منافع فراہم کیا ہے اور دوسرا یہ کہ 20 کروڑ غریب عوام میں سے کتنے لوگ ہیں جو ان مقامات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس معاشی پروگرام سے تصویر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ اسد عمر نے اپنے طبقے کو دلاسہ دلایا ہے کہ ایک مرتبہ وہ حکومت میں آ جائیں تو پھر کھلی لوٹ مار کے تحفظ کے لئے ان کا پیٹی بھائی موقع پر موجود ہے۔

3۔ سروسز سیکٹر میں انقلابی اقدامات

خیبرپختونخوا میں پچھلے پانچ سال کے کارناموں اورانہی کو پورے پاکستان میں دہرانے پر لیکچر دینے کے لئے 1983ء سے اب تک پانچ مرتبہ ممبر صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا، دو مرتبہ وزیر صنعت، ایک مرتبہ ANP کی حکومت میں وزیر آبپاشی، سابق صوبائی صدر پی پی پی شیرپاؤ (موجودہ قومی وطن پارٹی) ، نوشہرہ کے سابق ناظم اور پچھلے پانچ سال سے صوبائی وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو پیش کیا گیا۔ اس حکومت کے آغاز سے ہی مختلف ممبران اسمبلی ایک دوسرے پر اور وزیر اعلیٰ پر کرپشن کے الزامات تواتر سے لگاتے رہے ہیں۔سپیکر اسمبلی اسد قیصر کا کنسٹرکشن پراجیکٹس سے کمیشن اور حکومتی اداروں میں غیر قانونی نوکریاں دینے کاکیس NAB میں بھی لگا لیکن نتیجہ کوئی خاطر خواہ نہ نکلا۔ داوڑ کنڈی اور وزیر صحت شہرام ترکئی سمیت کئی ممبران پارٹی پر کرپشن کے الزامات لگا چکے ہیں۔ سابق وزیر معدنیات ضیا اللہ آفریدی کو اربوں روپے کے گھپلوں کی وجہ سے برطرف کرنا پڑا۔ قومی وطن پارٹی کے دو وزرا کرپشن کے الزامات میں حکومت میں آتے جاتے رہے۔ کئی وزرا اور بیوروکریٹوں کو شروع کے سالوں میں احتساب کمیشن نے گرفتار کیا جو اب ضمانت پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ خیبر بینک کو غیر قانونی طور پر عمران خان کے قریبی دوست راشد علی خان کو بیچنے کی زبردستی کوشش کی گئی اور اپنی مرضی کا ایم ڈی شمس القیوم تعینات کر دیا گیا جس کے بعد بینک کی بے ضابطگیوں کے قصے بھی کھلے۔ اس سلسلے میں بے شمار وزرا اور ایم پی اے ایک دوسرے پر، وزیر اعلیٰ پر اور عمران خان پر کرپشن اور اقرباپروری کے الزامات لگاتے رہے۔ PEDO (خیبر پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن) میں بھاری کرپشن پر نہ صرف چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹر شکیل درانی مستعفی ہوا بلکہ پورے کا پورا بورڈ مستعفی ہو گیا۔ اس سلسلے میں چیئرمین نے انکشافات کئے کہ مختلف پراجیکٹس میں کروڑوں اربوں روپے کے گھپلے کئے گئے جبکہ نیا چیف ایگزیکٹو اکبر ایوب اینگرو کارپوریشن میں اسد عمر کا قریبی ساتھی رہ چکا ہے جسے اسی بنیاد پر تعینات کیا گیا۔ صوبے کے ہسپتالوں کی حالت زار پر کئی سالوں سے اخباری رپورٹیں اور تصاویر آ رہی ہیں جن میں غریب عوام سہولیات نہ ہونے کی صورت میں در بدر ٹھوکریں کھانے اور زمین پر لیٹ کر علاج کرانے پر مجبور ہیں۔ خود خیبر پختونخوا ہیلتھ کیئر کمیشن اور شفا فاؤنڈیشن کی اپنی مشترکہ رپورٹ ہی حقیقت بتانے کے لئے کافی ہے۔صحت کے شعبے میں انصاف صحت کارڈ کو بھی کامیابی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کا جو حال ہے اس کے بجائے لوگ ان کارڈوں کے ذریعے نجی ہسپتالوں میں علاج کروا رہے ہیں (5لاکھ روپے کی حد) جس سے پھر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ یہ اسکیم ایک بہت بڑا دھوکہ ہے جس کے ذریعے نجی ہسپتالوں اور کلینک کے مالکان کو کروڑوں روپوں سے نوازا جا رہا ہے جبکہ علاج کا معیار بھی کم تر ہے۔ یہی حال سکولوں کا بھی ہے۔ خیبر پختونخوا ایلیمنٹری اور سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ (K-PESED) کی اپنی رپورٹ کے مطابق 27,350 سکولوں میں سے 7,128 میں بجلی ہی موجود نہیں، 2,203 سکولوں کے گرد چار دیواری نہیں، 5,047 میں صاف پانی مہیا نہیں جبکہ 2,229 سکولوں میں طلبا اور اساتذہ کے لیے بیت الخلا موجود نہیں۔ لیکن پچھلے پانچ سالوں میں سکولوں کی بہتری کے لئے 36ارب روپیہ خرچ کیا جا چکا ہے۔ تعلیم کے بجٹ میں جو بڑھوتری بھی دکھائی گئی ہے وہ عملے کی تنخواہوں کو تعلیمی بجٹ میں ضم کر کے دکھائی گئی ہے جس پر میڈیا میں کئی دن ہنسی ٹھٹہ چلتا رہا۔ تعلیم اور صحت سمیت دیگر اداروں کے لاکھوں ملازمین کے احتجاج بھی اس حکومت کے ظالمانہ رویے کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہیں۔ سکولوں کے لاکھوں اساتذہ کے احتجاجوں کو میڈیا پر کوریج نہیں دی گئی لیکن سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر بہت زیادہ شئیر کی گئیں۔ اسی طرح ینگ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کے احتجاجی مظاہرے اور ان پر پولیس کا بہیمانہ تشدد بھی اس حکومت کی عوام دشمنی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔کچھ اداروں کے ملازمین تو بنی گالا میں عمران خان کی رہائش کے باہر بھی دھرنا دیتے رہے لیکن پھر بھی ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ دھرنے دینے کا تجربہ رکھنے والے حکمران خود محنت کشوں کے احتجاجوں اور دھرنوں پر بد ترین جبر کرتے رہے جو ان کے حقیقی زہریلے کردار کو بے نقاب کرتا ہے۔

صوبے کی پولیس کتنی ذمہ دار اور کرپشن سے پاک ہو چکی ہے اس کا اندازہ صرف مشال خان کے بہیمانہ قتل اور ڈیرہ اسماعیل خان میں16 سالہ لڑکی کو برہنہ کر کے پورے شہر میں گھمانے کے واقعات سے پتہ چل جاتا ہے۔ 68 کروڑ روپیہ لگا کر گرین بیلٹ بنائے گئے جنہیں بعد میں میٹرو بس بنانے کے لئے مسمار کر دیا گیا۔ اب جو پشاور میٹرو بس بنائی جا رہی ہے اس کی ساری منیجمنٹ مستعفی ہو چکی ہے جبکہ 4 ارب روپے میں مکمل ہونے والا پراجیکٹ 100ارب روپے سے تجاوز کر رہا ہے۔ خود وزیر اعلیٰ پر اس وقت ایک ارب درخت اسکیم کے حوالے سے کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں جبکہ عمران خان پر وزیر اعلیٰ ہیلی کاپٹر کو ذاتی سواری کے موافق استعمال کرنے کے الزامات ہیں۔ اس حوالے سے ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ پورے پاکستان میں جس قسم کی سہولیات عوام کو دی گئی ہیں اور کرپشن کے جو ریکارڈ قائم کئے گئے ہیں ان کے مقابلے میں پرویز خٹک کی سربراہی میں خیبر پختونخوا کسی سے بھی پیچھے نہیں۔اور اگر پی ٹی آئی حکومت میں آتی ہے تو پھرکرپشن اور لوٹ مار سمیت عوام دشمن اقدامات کے ان دیکھے سلسلے کا آغاز کیا جا ئے گا۔

4۔ زرعی اصلاحات 

2002ء سے 2017ء تک ممبر قومی اسمبلی، سابق زرعی اور سوشل سیکٹر مشیر پنجاب، مشرف دور میں وزیر صنعت و پیداوار، پاکستان کے امیر ترین افراد میں سے ایک، ہزاروں ایکڑ زمین اور چار شوگر ملوں کے مالک جہانگیر ترین نے زراعت اور پانی کے تحفظ پر بات کی۔اگر زراعت کا شعبہ دیکھا جائے تو یہ شعبہ پاکستان کی کل مجموعی پیداوار کا21فیصد بنتا ہے جس میں لائیو سٹاک، جنگلات اور ماہی گیری بھی شامل ہے، یعنی فصلوں کی کاشت مجموعی پیداوار کا صرف 7فیصد بنتا ہے۔ زرعی زمین کی نجی ملکیت رکھنے والے افراد کی تعداد 83 لاکھ 55 ہزار ہے جن میں سے 56 لاکھ چھوٹے کسان(5ایکڑ سے کم زمین)، 24 لاکھ 30 ہزار درمیانے کسان (5 ایکڑ سے 25 ایکڑ زمین) اور 3 لاکھ 28 ہزار بڑے کسان اورزمیندار ہیں(100 ایکڑ سے زائد زمین)۔ تقریباً 60 فیصد دیہی آبادی کی کوئی ملکیت نہیں اور یہ اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہے۔ 99 فیصد کاشت منڈی میں اجناس کی کھپت کے لئے کی جاتی ہے۔ مقامی علاقوں کی زرعی ادویات، کھاد اور بیج کی ڈیلر شپ بڑے کسانوں اور زمینداروں کے پاس ہوتی ہیں جو من مانی قیمت پر چھوٹے اور درمیانے کسانوں کو بیچی جاتی ہیں اور ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں ان کی پیداوار کا ایک بڑا حصہ وصول کر لیا جاتا ہے۔ ایک اور طریقہ کار یہ بھی ہے کہ انتہائی بلند شرح سود پر چھوٹے اور درمیانے کاشتکاروں کو قرضے دئیے جاتے ہیں جن میں سے وہ تاقیامت باہر نہیں نکل سکتے۔ کئی علاقوں میں بڑے زمیندار زرعی خام مال کے استعمال کی فیکٹریوں کے مالک ہوتے ہیں (جیسے جہانگیر ترین کی چار شوگر ملیں ہیں جن میں اس کی اور دیگر زمینوں کا گنا استعمال ہوتا ہے)جو انتہائی کم قیمتوں پر خام مال خریدتے ہیں یا پھر مقروض کسانوں سے اپنی زمینوں پر بیگار کام کراتے ہیں۔ زیادہ تر چھوٹے اور درمیانے کسانوں کے پاس زرعی آلات اور ٹیوب ویل کی سہولت موجود نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ من مانے کرائے پر انہیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ امیر کسانوں میں سے زیادہ تر خود ہی آڑھت کا کام کرتے ہیں اور انتہائی کم قیمت پر اجناس حاصل کر کے مہنگے داموں منڈی میں بیچ آتے ہیں۔ اسی طرح پٹے (کرائے) پر لی گئی زمین کی اجرت بھی اپنی مرضی سے انتہائی کم رکھی جاتی ہے۔ ویسے بھی چھوٹے کسان کے پاس جس قدر زمین موجود ہے اس سے بمشکل ہی اس کے اپنے گھر کا گزارا ہو پاتا ہے، وہ منڈی میں اپنا مال بیچ کر کیا کمائے گا۔اگر یہ ساری صورتحال دیکھی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح سے شہری مزدور زندہ رہنے کے لئے مالکان کے رحم و کرم پر ہے، اسی طرح اس طبقاتی نظام میں کسانوں کی اکثریت بااثر اور امیر کسانوں کے رحم وکرم پر زندہ ہے۔ اس ساری صورتحال میں غریب کسان جو پہلے ہی نسل در نسل منوں قرض تلے دبا ہوا ہے ، اس کو سستے قرضوں پر زرعی آلات یا اجناس فراہم کرنا سوائے ایک بھونڈے مذاق کے اور کچھ نہیں۔ خود شوگر مل مالکان، جن میں سے ایک خود جہانگیر ترین بھی ہے، کا وطیرہ یہ ہے کہ وزن کرنے کے لئے پہلے گنا سڑک پر پندرہ پندرہ دن کھڑا رہتا ہے اور گرمی میں سوکھ جانے کی وجہ سے جہاں کسان کو وزن کے بدلے کم دام وصول ہوتے ہیں وہیں پر حکومت کے مقرر کردہ ریٹ بھی میسر نہیں ہوتے۔ گو کہ شوگر مل مالکان رقم کی ادائیگی ایک سال یا اس سے بھی زیادہ تاخیر سے کرتے ہیں اور کاشتکاروں سے غلاموں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ان مل مالکان میں زرداری اور شریف خاندان بھی شامل ہیں۔

سرمایہ داری منافع کا نظام ہے اور اس میں ہمیشہ بڑا مگرمچھ چھوٹے کا شکار ہی کرتا ہے۔ بلوں میں کمی اور سبسڈیوں کا مطلب یہی ہے کہ جہانگیر ترین جیسے جاگیر داروں کے منافع میں اور بھی ہوش ربا اضافہ ہو گا جبکہ غریب کسان پہلے سے زیادہ استحصال کی چکی میں پستا چلا جائے گا۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ تمام غریب کسانوں کے فوری طور پر قرضے معاف کئے جائیں، بے زمین کسانوں کو قابل کاشت زمینیں دینے کے ساتھ ساتھ بڑی زرعی ملکیتوں کو ایک مزدور ریاست اپنی ملکیت میں لیتے ہوئے کسانوں کی مدد سے کاشت کر کے زرعی اجناس خود براہ راست شہروں اور دیگر علاقوں تک پہنچائے تاکہ منافع کی مکروہ خباثت سے چھٹکارا پاتے ہوئے عوام کو سستی اور معیاری اشیا خوردونوش فراہم کی جائیں۔ 

5۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور قومی تحفظ

ریاست کے مفادات کی محافظ اور پی ٹی آئی میں سب سے اہم نمائندہ شیریں مزاری نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے بات کی۔ خارجہ پالیسی پر نام نہاد منتخب حکومت کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ تمام پالیسی سامراجی طاقتوں کے اشاروں پرچلتی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی پارٹیاں صرف لفظوں کی جگالی ہی کر سکتی ہیں جبکہ حقیقی کنٹرول کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔جو ملک سو ارب ڈالر کے قریب قرضے کے بوجھ تلے دبا ہو اور اسے روز مرہ کے معاملات کے لیے بھی قرضے لینے پڑیں وہ اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی ترتیب دے ہی نہیں سکتا۔ اس شعبے میں پی ٹی آئی کی حکمت عملی بھی ایک فریب اور دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔

تلخ حقائق

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پاکستان کا کل اندرونی اور بیرونی قرضہ 24 ٹریلین روپیہ(92ارب ڈالر) ہے جو کہ کل پیداوار کا 70 فیصد بنتا ہے۔ CPEC کے پہاڑ جیسے قرضہ جات الگ تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اوپر سے پاکستانی ریاست چینی بینکوں سے الگ قرضہ جات لینا بھی شروع ہو گئی ہے جس میں حال ہی میں 1 ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا ہے اور اگلے کچھ ہفتوں میں مزید 2 ارب ڈالر کا قرضہ متوقع ہے۔ پاکستان قرضوں کی ایسی دلدل میں پھنس چکا ہے کہ بجٹ کا 30 فیصد قرضہ جات کی واپسی میں چلا جاتا ہے۔ تقریباً 25 فیصد دفاعی اخراجات کی نظر ہو جاتا ہے۔ سال 2018-19ء کے 5.2ٹریلین روپے کے بجٹ میں 4.4ٹریلین روپے ٹیکسوں کی مد میں اکٹھا کیا جائے گا جو کہ پھر پاکستان کی غریب عوام کا خون نچوڑ کر ہی حاصل کیا جائے گا۔ بجٹ خسارہ 4.9فیصد پر پہنچ چکا ہے۔ فارن ریزرو بس اتنا ہے کہ پاکستان کے پاس ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے پیسے رہ گئے ہیں۔ افراط زر اور روپیہ کی گرتی ہوئی قدر عوام کے معیار زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ہر ماہ کی بنیاد پر پٹرول کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں جس سے مہنگائی کا جن بے قابو ہوتا جا رہا ہے۔ عام عوام کے استعمال کی ہر شے پر آئے دن ٹیکس بڑھائے جارہے ہیں۔ دوسری طرف صنعت کاروں اور اسٹاک مارکیٹ کے سٹہ بازوں کو ریلیف پر ریلیف دیا جا رہا ہے۔ سرکاری اندازوں کے مطابق بے روزگاری کی شرح 6 فیصد ہے جبکہ کئی ذرائع کا خیال ہے کہ یہ پچاس فیصد سے زائدہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جہاں امیر اور غریب کی خلیج سب سے زیادہ ہے۔ 70 فیصد آبادی کو نہ صاف پینے کا پانی میسر ہے نہ واش روم۔ ایکسپریس ٹربیون کی ایک رپورٹ کے مطابق 2025ء تک پاکستان میں رہائش کی کمی 2 کروڑ یونٹ تک جا پہنچے گی۔ 44فیصد بچے ذہنی اور جسمانی نامکمل نشوونما کا شکار ہیں جبکہ 60فیصد سے زیادہ خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ صرف اس سال تباہ کن گرمی، پانی کی قلت اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ مزدور 12-16 گھنٹے کام کر کے بھی حکومت کی اعلان کردہ اجرت حاصل نہیں کر پاتے۔ دوسری طرف ستم ظریفی یہ ہے کہ بجلی اور گیس کے بحرانوں اور عالمی منڈی میں سامان کی کھپت میں کمی کی وجہ سے ہزاروں فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں۔ غرضیکہ کوئی بھی اعدادوشمار اٹھا کر دیکھے جائیں، پاکستان کی غریب عوام مسلسل تباہی و بربادی کی جانب دھکیلی جا رہی ہے۔ دوسری طرف حکمرانوں کی لوٹ مار خوفناک تر ہوتی جا رہی ہے۔ 2014ء میں اسحاق ڈار اور 2015ء میں FBR نے انکشاف کیا کہ پاکستانیوں کا 200 ارب ڈالر باہر پڑا ہوا ہے جس پر سب خاموش ہیں۔ صرف یہی پیسہ باہر سے واپس لے لیا جائے تو عوام کی قسمت بدلی جا سکتی ہے لیکن حکمران مزید لوٹ مار کر کے سرمایہ باہر منتقل کر رہے ہیں اور دوسروں سے سرمایہ کاری کرانے کے اور کوئی حل ہی پیش نہیں کر سکتے۔

اس تمام صورتحال میں اگر پی ٹی آئی کا معاشی پروگرام دیکھا جائے تو وہ عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی، بیرونی سرمایہ داروں کی لوٹ مار، مقامی سرمایہ داروں کی دولت میں اضافے اور عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کا پروگرام ہے۔ اس پروگرام اور دیگر تما م پارٹیوں کے پروگرام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جہاں تک آزمائے نہ جانے کا سوال ہے تو یہ واضح ہے کہ پارٹی کی مرکزی قیادت سمیت ہر فرد کسی نا کسی سیاسی جماعت کا بھگوڑا ہے جو دہائیوں سے عوام کا خون نچوڑ رہاہے۔ نئی بوتل میں پرانی شراب خریدنے کے لئے اب عوام تیار نہیں۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ کئی سال کی شعبدہ بازیوں کے باوجود، محنت کش طبقے کا کوئی بھی حصہ پی ٹی آئی کے فریب میں نہیں آیا۔ اور یہی محنت کش طبقے کی سیاسی بصیرت کی دلیل ہے کہ جہاں مڈل کلاس کے کچھ حصے پی ٹی آئی کے پروگرام اور عمران خان کے رومانس سے متاثر ہوئے ہیں وہیں پر محنت کش طبقے کی ان میں کوئی دلچسپی نہیں۔ 

بے روزگاری کا خاتمہ۔۔سوشلسٹ انقلاب

سویت یونین کا انقلاب دنیا کا وہ واحد انقلاب تھا جس میں سماج کو چلانے والے طبقے نے ذاتی مفادات اور شرح منافع کی حرص سے بالاتر ہو کر ایک منصوبہ بند معیشت اور مزدور ریاست بنائی۔ 1934ء تک آتے آتے بے روزگاری کے اندراج کا حکومتی شعبہ بند کیا جا چکا تھا کیونکہ پورے ملک میں ایک بھی بے روزگار نہیں رہا تھا۔ اس سماج میں تمام تر وسائل موجود ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ محنت عوام کرتی ہے اور منافع مٹھی بھر حکمرانوں کے بینک اکاؤنٹ کی زینت بن جاتا ہے۔ بے روزگاری، ذلت و رسوائی، بیماری اور جہالت سے آزادی کا واحد طریقہ کار یہی ہے کہ پاکستان کے محنت کش طبقہ، کسان اور طلبا اکٹھے ہوں اور اس استحصالی اور خاصب حکمران طبقے کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک نئے سماج، ایک سوشلسٹ سماج کی بنیاد رکھیں۔

Comments are closed.