سرمایہ دارانہ نظام۔۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کا ذمہ دار

|تحریر : سائرہ بانو|

جنوری 2020ء کے اختتام تک آسٹریلیا میں جنگلوں میں لگی آگ سے 34افراد اور لگ بھگ 1 ارب سے زائد مختلف النوع جانور ہلاک ہوچکے ہیں

گذشتہ کچھ دہائیوں سے دنیا بھر میں موسموں کے پیٹرن تبدیل ہورہے ہیں۔ شدید گرم علاقوں میں سردی پڑ رہی ہے اورٹھنڈے ممالک میں لوگ گرمی سے بے حال ہورہے ہیں۔ میکسیکو، برازیل اور آسٹریلیا میں ہزاروں ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگلات آگ سے خاکستر ہوگئے۔یہ موسمیاتی تبدیلیاں لاکھوں افراد، جانوروں اور نباتات کو متاثر کررہی ہیں۔ قطبی ریچھ گرمی سے بے حال ہورہے ہیں، گلیشیر پگھل رہے ہیں، جانوروں اور پودوں کی انواع معدوم ہورہی ہیں، سمندر زہریلے ہورہے ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے لوگ ہجرت کررہے ہیں۔ ماحولیاتی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جو کچھ ابھی ہورہا ہے وہ ایک ایسی دیوہیکل ماحولیاتی تبدیلی کا محض ایک ٹریلر ہے جس کی مکمل شکل بہت خوفناک ہوگی۔

معاشرے کے تمام طبقے اس حوالے سے فکرمندی کا اظہار کررہے ہیں اور فوری اقدامات کرنے پر متفق ہیں۔ تاہم اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ ماحولیاتی تباہی انسانی فطرت کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ یہ سرمائے کی ہوس کا شاخسانہ ہے۔ عام افراد اس کے ذمے دار نہیں بلکہ یہ پیداوار کے اس طریقے کی دین ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کہلاتا ہے۔ مارکس نے اپنی تصانیف میں وضاحت کی ہے کہ مشترک وسائل کو انفرادی شکل دینا سرمایہ داری کے پھیلاؤ کے لیے بے حد ضروری تھا کیونکہ اسی طرح معاشرے کو اشیائے ضرورت بنانے کے ایک کارخانے میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ان اربوں افراد کی ہڈیوں اور خون پر رکھی گئی ہے جو اس ظالمانہ بھٹی کا ایندھن بنے اور اب تک بن رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی اصل میں توسیع پسند ہے اور وہ اپنے ارد گرد کے ماحول اور اشیاء کے ساتھ کبھی توازن برقرار نہیں رکھ سکتا۔ منافع کی نہ ختم ہونے والی حرص اس نظام کو نئے وسائل اور نئی منڈیوں کی تلاش میں ہمیشہ سرگرداں رکھتی ہے۔ماحولیاتی سیاست کے ماہر جان بیلامی فوسٹر اس رجحان کو’ٹریڈ مل آف پروڈکشن‘ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں جس میں سرمایہ دارکو ٹریڈ مل پر اپنی جگہ برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ بھاگنابلکہ دوسروں سے آگے نکلنا ہوتا ہے۔

سرمایہ دارانہ کمپنیاں اس بات کا التزام کرتی ہیں کہ دنیا کو کنزیومر سوسائٹی میں تبدیل کردیا جائے۔ 1.2 ٹریلین ڈالرز کی اشتہار بازی صنعت اس معاملے میں سرمایہ داروں کے گماشتے کا کردار ادا کرتی ہے اور چوبیس گھنٹے اشتہارات کے ذریعے لوگوں کو یہ محسوس کرواتی ہے کہ جدید ترین اشیاء کے بغیر انسان نامکمل، نا آسودہ اور دوسروں سے کمتر ہے۔ یہ شیطانی چکر نہ صرف ماحولیاتی نقصان کا باعث ہے بلکہ فرد کے سماج اور دیگر افراد سے تعلقات کو بھی منفی طورپر متاثر کرتا ہے۔ اب ایک فرد کی قدر وقیمت کا تعین اس کے عہدے، اثاثوں یا بالفاظ دگر اس کی خریدنے کی صلاحیت سے ہوتا ہے۔سرمایہ دارانہ معاشروں میں اشیاء کی خرید و فروخت ہر سرگرمی کا مرکز ہے۔ سرمایہ داری کے اصول کے مطابق لوگوں کو اشیاء کے حصول کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں لگے رہنا چاہیے۔ اشیاء کی فراوانی کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ اشیاء پائیدار نہ ہوں۔ مہنگی سے مہنگی اشیاء بہت مختصر عرصے میں یا تو کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں یا پرانی ہوجاتی ہیں اور پھر فرد کو نئی شے کی ضرورت محسوس کروائی جاتی ہے اور یہ خراب یا پرانی اشیاء دنیا کو نہ تلف ہونے والے کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کرتی رہتی ہیں۔

سرمائے کے ارتکاز اور فطرت کا توازن خراب ہونے میں براہ راست تعلق ہے۔ کاروباری کمپنیاں اپنے منافع کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیے اپنے اثاثے بڑھانے، نئی مارکیٹوں پر قابض ہونے اور اپنے مخالفین کو شکست دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ خام ما ل خریدنا چاہتی ہیں۔یوں کمپنیاں قدرتی وسائل کو اس بے دردی سے استعمال کرتی ہیں کہ قدرت کو یہ خام مال دوبارہ پیدا کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ یہ رویہ اینمل فارمنگ، مونو کلچر زراعت، کان کنی، ضرورت سے زیادہ مچھلیاں پکڑنے اور ایسے کسی بھی عمل میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں وسائل کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہو اور قدرت کے کام میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہو۔ یہ نظام فوسل فیول یعنی ایندھن تیل اور گیس پر انحصار کرتا ہے جس کی وجہ سے گرین ہاؤ س گیسیں خارج ہوتی ہیں اور ماحولیاتی تباہی کا سبب بنتی ہیں۔

اس استحصال کی ایک اہم مثال کونگو ہے۔ کونگو دیگر معدنیات کے ساتھ ساتھ کوبالٹ کے ذخائر سے بھی مالامال ہے۔ کوبالٹ کی اہمیت یہ ہے کہ اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ، اور الیکٹرک گاڑیوں کی لتھیم آئن ری چارج ایبل بیٹریاں کوبالٹ کے بغیر کام نہیں کرسکتیں۔ان کے علاوہ یہ جیٹ انجن، گیس ٹربائن، اور میگنیٹک اسٹیل کی تیاری میں بھی استعمال ہوتا ہے۔اگر کوبالٹ نہ ہو تو آ پ نہ کوئی ای میل بھیج سکتے ہیں، نہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس استعمال کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی کار یا جہاز چلاسکتے ہیں۔ کوبالٹ کی نہ ختم ہونے والی ڈیمانڈ ایپل، گوگل، ڈیل، مائیکرو سوفٹ اور ٹیسلا جیسے اداروں کی نہ ختم ہونے والی حرص سے جڑی ہوئی ہے۔ کوبالٹ کی ڈیمانڈ گذشتہ پانچ برسوں میں تین گنا بڑھ چکی ہے۔ دنیا بھر میں استعمال ہونے والا 60 فیصد سے زائد کوبالٹ کونگو سے نکالا جاتا ہے جو دنیا کا غریب ترین اور غیر مستحکم ملک ہے۔ کوبالٹ کو کانوں سے نکالنے کا عمل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بد عنوانی، ماحولیاتی تباہی اور چائلڈ لیبر سے جڑا ہوا ہے۔کونگو کے غریب افراد خاص طور پر بچے ان کانوں میں نہایت خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔یہ بچے کانوں کے انہدام اور تابکاری اثرات کی وجہ سے خطرناک امراض کا شکار ہو کر مرجاتے ہیں۔ گذشتہ برس مقامی افراد نے ان تمام بین الاقوامی اداروں پر مقدمہ کیا لیکن تاحال وہ انصاف ملنے کے منتظر ہیں۔

بورژوا طبقے کے تمام گروہوں کے اپنے اپنے مفادات اور ان مفادات کی نگہبانی کرنے کے لیے لابیاں ہوتی ہیں جودنیا کے تمام ممالک میں سیاستدانوں کے ذریعے اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرواتی ہیں۔آٹو موبائل اور آئل کمپنیوں کو چلانے والی عالمی اجارہ داریاں اپنے مفادات کا دفاع نہایت عیاری سے کررہی ہیں۔ان عظیم الشان کمپنیوں کے مفاد کا تقاضا ہے کہ ایندھن تیل کو بنیادی ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا رہے۔ اگر آپ کو اس بات پر حیرت ہو کہ پٹرول اور ڈیزل کے استعمال سے ماحول کو پہنچنے والے نقصانات کے باوجود نقل و حمل کے ماحول دوست طریقے کیوں نہیں اپنائے جاتے تو اس کا جواب ان سرمایہ دار بین الاقوامی کمپنیوں کے مفاد میں چھپا ہوا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ماحولیاتی تبدیلیوں کو مذاق سمجھتا ہے اور برازیلین صدر ژیئر میسیاس بولسونارو نے مبینہ طور پر سرمایہ داروں کو امیزون جنگل تباہ کرنے کی اجازت دی تاکہ وہاں جانور پال کر مغربی ممالک کی گوشت کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔یہ بات واضح ہے کہ امراء کو اس ماحولیاتی تبدیلی سے کوئی سروکار نہیں۔

مارکس نے کہا تھا کہ سرمایہ دار ہمیشہ دو طرح کے وسائل کا بے انتہا استحصال کرتا ہے، فطرت اور انسان۔ ماحولیاتی تباہی کے حوالے سے ان سرمایہ داروں کی نیک نیتی کا اندازہ عالمی رہنماؤں کے بیانات اور عمل سے لگایا جاسکتا ہے۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ماحولیاتی تبدیلیوں کو مذاق سمجھتا ہے اور برازیلین صدر ژیئر میسیاس بولسونارو نے مبینہ طور پر سرمایہ داروں کو امیزون جنگل تباہ کرنے کی اجازت دی تاکہ وہاں جانور پال کر مغربی ممالک کی گوشت کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔یہ بات واضح ہے کہ امراء کو اس ماحولیاتی تبدیلی سے کوئی سروکار نہیں۔ قحط ہو یا سمندری طوفان آئیں انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ محفوظ علاقوں میں اپنی پر تعیش آرام گاہوں میں رہ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے نجی جنگل اورمصنوعی جھیلیں بنالی ہیں۔دوسرے سیاروں پر زندگی کی تلاش کے منصوبے اسی منصوبے کی کڑی ہے۔ جب زمین رہنے کے قابل نہیں رہے گی تو یہ سرمایہ دار دوسرے سیاروں پر کوچ کرجائیں گے۔ سرمایہ دار طبقہ اس بات سے واقف ہے کہ اس کی منافع کی ہوس نے دنیا کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑا ہے اس لیے آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ایلون مسک اس 1 فیصد استحصالی طبقے کے لیے مریخ پر بستیاں بسانے کی تیاری کررہا ہے۔ لیکن زیادتی یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اس دنیا کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا انہی کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں۔ اگران ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں لاکھوں غریب افراد مر بھی جاتے ہیں تو ان سرمایہ داروں کی زندگیوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ماحولیاتی تباہی کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے بہت سے شہروں میں پانی کی شدید قلت ہے، ارجنٹائن کی سڑکو ں پر لوگ غیر معمولی سردی کی وجہ سے مررہے ہیں اورمنگولیا میں فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کے امراض پھیل رہے ہیں۔دِلی اور لاہور کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ 2015ء میں شدید گرمی کی وجہ سے کراچی میں تقریباً 1500 لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔سمندروں میں پانی کی سطح بڑھنے کی وجہ سے زرعی زمین بنجر ہورہی ہے۔ سال 2019ء جنگلاتی آگ کے حوالے سے بر اعظم آسٹریلیا کے لیے بدترین سال ثابت ہوااور پوری دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگ گئیں۔ لگ بھگ 1لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے جنگلات، باغات اور عمارتیں اس آگ کی زد میں آکر راکھ کا ڈھیر بن گئیں جبکہ اب تک اس آگ سے 34افراد اور 1ارب سے زائد مختلف النوع جانور ہلاک ہوچکے ہیں۔ جانوروں کی کئی انواع کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔ لیکن جب یہ آگ بر اعظم آسٹریلیا کے ایک وسیع حصے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی اور فائر فائٹرز بے جگری سے اس کو بجھانے کی کوششوں میں مصروف تھے عین اس وقت آسٹریلوی وزیر اعظم ہوائی میں چھٹیاں منا رہا تھا۔ مزید برآں، خوراک کی کمی اور شدید موسم سے بچنے کے لیے لوگ محفوظ علاقوں کا رخ کررہے ہیں اور نتیجتاً مختلف علاقوں میں آبادی کے دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے جس کے اپنے سیاسی اور سماجی مضمرات ہیں۔

یہ بڑی بڑی اجارہ داریاں ماحولیاتی تباہی کی اصل ذمہ دار ہیں۔ ان کو نیشنلائز کرتے ہوئے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینا ہوگا تاکہ پیداوار کی منصوبہ بندی اور مضر ماحول گیسوں کے اخراج کو روکنے کی ٹیکنالوجی کے استعمال کی راہ ہموار کی جا سکے۔

اس ماحولیاتی تباہی کے ذمہ دار عام لوگ نہیں ہیں۔ گوکہ انفرادی کوششیں مثلاً پانی بچانا اور اشیاء کو دوبارہ استعمال کرنا مفید ہیں تاہم مسئلے کی نوعیت کے پیشِ نظر انفرادی طور پر افراد بالکل بے یار و مددگار ہیں۔ہم فضائی سفر میں کمی کرسکتے ہیں، مقامی طور پر اگائی اور بنائی ہوئی اشیاء استعمال کرسکتے ہیں، شمسی توانائی کا استعمال شروع کرسکتے ہیں اور برقی کاریں چلاسکتے ہیں تاہم ہمیں مسئلے کی اصل وجہ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جو دیوانگی کی حد تک بڑھی ہوئی منافع کی ہوس ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 1988 ء سے اب تک فضا میں خارج ہونے والی تقریباً 70 فیصد گرین ہاؤس گیسز کی ذمہ دار100کارپوریشنز ہیں۔ماحولیاتی تباہی طاقت اور سرمائے کے ایک غیر مساوی نظام کا منطقی نتیجہ ہے۔ رائے عامہ کے دباؤ کے پیش نظر یہ دیو ہیکل کاروباری ادارے خود کو بظاہر ماحول دوست کہنے لگے ہیں۔ ان کی زیادہ سے زیادہ تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے لوگو کو تبدیل کرکے اس پر ایک درخت یا پھول لگالیتے ہیں اور اپنی ای میل میں لکھ لیتے ہیں کہ جب تک اشد ضرورت نہ ہو اس ای میل کا پرنٹ آؤٹ نہ لیں لیکن یہ تبدیلی اشک شوئی سے زیادہ نہیں۔

یہ بڑی بڑی اجارہ داریاں ماحولیاتی تباہی کی اصل ذمہ دار ہیں۔ ان کو نیشنلائز کرتے ہوئے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینا ہوگا تاکہ پیداوار کی منصوبہ بندی اور مضر ماحول گیسوں کے اخراج کو روکنے کی ٹیکنالوجی کے استعمال کی راہ ہموار کی جا سکے۔ خام مال کا استعمال عقلی، منطقی اور دیرپا انداز میں کرنا ہوگا تاکہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے، پائیدار اشیاء بنائی جائیں اور اشیاء کا استعمال ضرورت کے لیے کیا جائے ناکہ سماجی رتبے میں اضافے کے لیے۔ کام کی جگہوں پر بہترین سائنسی دماغوں کی قابلیت اور مزدورں کے ہنر کو اکٹھا کرتے ہوئے اور پیداوار کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے تابع کرتے ہوئے ہی ہم اس دنیا کی تمام تر سائنسی صلاحیتوں اور ذرائع کو انسانیت اور اس سیارے کی خدمت کیلئے استعمال کر سکتے۔

اس متبادل نظام کا نام سوشلزم ہے۔ اس نظام کے تحت پیداوار لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کی جاتی ہے ناکہ سرمایہ داروں کے منافع کو تحفظ دینے کے لیے۔اس معاشی نظام کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ مزدور صنعتوں بالخصوص توانائی کے شعبے کا انتظام سنبھال لیں ا ور سائنسدانوں اور تکنیکی مہارت کے حامل افراد کی مدد سے ریاست کا انتظام چلائیں۔ریاست مختلف ماہرین کی مدد سے اس بات کا تعین کرے کہ آبادی کی ضرورت کے حساب سے کن وسائل کو کتنی مقدار میں استعمال کرنا ضروری ہے۔ انسانیت کا مستقبل تاریک نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا معاشرہ تخلیق کیا جائے جہاں زندگی تمام سرگرمیوں کا مرکز ہو نہ کہ منافع اور یہ ایک سوشلسٹ معاشرے میں ہی میں ممکن ہے۔

انسانیت کا مستقبل تاریک نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا معاشرہ تخلیق کیا جائے جہاں زندگی تمام سرگرمیوں کا مرکز ہو نہ کہ منافع اور یہ ایک سوشلسٹ معاشرے میں ہی میں ممکن ہے۔

پچھلے سال دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف احتجاجوں میں لاکھوں افراد نے شرکت کی جن میں اکثریت سکول اور کالج کے طلبہ کی تھی۔ ان احتجاجوں نے عالمی حکمران طبقے کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ لاکھوں نوجوانوں کے یہ احتجاج، جن کا کوئی کچھ عرصہ پہلے تک تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، ایک بہتر مستقبل کی نوید ہیں کہ نئی نسل ان طفیلیے سرمایہ داروں کے ہاتھوں کرہئ ارض کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان اور ماحولیاتی تبدیلیوں میں منافع کی ہوس کے کردار کا ناصرف ادراک حاصل کر رہے ہیں بلکہ اس کے خلاف جدوجہد کے میدان میں اتر چکے ہیں۔ آج دنیا بھر میں بائیں بازو کی سیاسی اور سماجی تحریکیں اپنے عروج پر ہیں۔ ضرورت اس مر کی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف طلبہ کی ان لڑاکا ہڑتالوں کو وسیع تر تحریکوں کے ساتھ جوڑا جائے اور نوجوان اور مزدور متحد ہوکر سوشلسٹ ماحولیاتی پالیسیوں کے لیے لڑائی کو منظم کریں۔

Comments are closed.