بلوچستان: پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کے بہیمانہ قتل پر کمیونسٹوں کا مؤقف

بلوچستان میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کا بہیمانہ قتل سرمایہ دارانہ نظام اور قبائلی نظام کی حیوانیت کو ننگا کرتا ہے۔ جہاں ایک عورت کو انسان نہیں بلکہ ایک شے سمجھا جاتا ہے، وہ اپنی مرضی سے سانس لے سکتی ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتی ہے۔ ہم کمیونسٹ اس بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس جبر کا خاتمہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ اس نظام کا خاتمہ کر کے ایک سوشلسٹ نظام کی تعمیر کی ضرورت ہے تاکہ عورت اور مرد دونوں اس نظام کی حیوانیت سے آزاد ہو کر اپنی زندگی بسر کر سکیں۔

بلوچستان میں ہونے والے اس بہیمانہ قتل کے متعلق سوشل میڈیا پر کمیونسٹوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، جو درج ذیل ہے۔

سیما خان

ایک طرف ریاستی جبر نے عورت کو نشانہ بنایا ہے؛ بالخصوص بلوچ سیاسی خواتین کارکنان جن میں بی وائی سی کی قیادت بھی شامل ہے۔ دوسری جانب پدر شاہی پر مبنی سماجی ڈھانچہ عورت کو اپنی درندگی کا شکار بناتا آ رہا ہے۔

عورت کی نام نہاد آزادی، جسے یہ سرما یہ دارانہ نظام لبرل آزادی کی آڑ میں خود مہیا کرتا دکھاتا ہے، درحقیقت ایک فریب ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے عورت کی آزادی کو اپنے مقاصد کے لیے صرف استعمال کیا ہے تاکہ اس سے بھی منافع نچوڑ سکے۔ اس نے کبھی بھی عورت کی حقیقی آزادی نہیں چاہی کیونکہ حقیقی آزادی سرمایہ دارانہ ڈھانچے کے وجود کے ساتھ تضاد رکھتی ہے۔ عورت کی آزادی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ اس استحصالی نظام کی جڑیں نہ کاٹی جائیں، جس کی بنیاد ہی محنت کشوں، مظلوم قوموں کے استحصال اور صنفی جبر پر ہے۔ ریاست ایک جانب انہی بلوچ عورتوں کو ریاستی جبر کے خلاف اٹھنے پر غیر آئینی سزائیں دے رہی ہے، دوسری جانب یہی عورت پدرشاہی، جاگیر دارانہ قبائلی باقیات کی جابرانہ اخلاقیات کا شکار ہے، جہاں اسے حقیقی معنوں میں اپنی مرضی سے سانس لینے کی بھی اجازت نہیں۔

اس کیس کے خلاف حکومت کی کاروائی صرف ایک ڈھونگ ہے جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا آیا ہے، یہ خود ہی ایسے کیسز میں قاتلوں کا ساتھ دیتے ہیں اور معاملے کو کچھ وقت بعد دبا دیتے ہیں۔ اس جابر ریاست سے کسی بھی انصاف کی امید رکھنا اپنے قاتلوں سے انصاف کی امید رکھنے کے مترادف ہے۔ مگر پھر بھی آج یہ عورت اب صرف مظلوم نہیں، بلکہ انقلابی امکان کی علامت ہے، طبقاتی و قومی شعور سے لیس ایک ایسی فرد، جو نہ صرف پدرشاہی اور ریاستی جبر کو للکار رہی ہے بلکہ پورے استحصالی نظام کی بنیادوں کو ہلا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

”The emancipation of women will only be possible when the exploitation of man by man is abolished.”
Leon Trotsky

ثانیہ خان

یہ ایک طویل جنگ ہے جس کو بلوچستان کی عورت نے لڑنا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان کی عورت دوہرے جبر کا شکار ہے، ایک طرف ریاست تو دوسری طرف تعفن زدہ سماجی و خاندانی ڈھانچہ اس پر خدا بنا ہوا ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان کی عورت ایک لڑائی جیت چکی ہے وہ شعوری طور پر یہ سفر طے کر چکی ہے کہ وہ ریاست کے مدمقابل کھڑی ہے، ساتھ ہی اس کو اس عورت کا بھی وارث بننا ہو گا جو ایک مصنوعی غیرت کی بھینٹ چڑھی ہے۔

بلوچستان اور بالخصوص بلوچ تحریک کی قیادت کو اب یہ شعوری لڑائی لڑنی ہو گی، یہ اس کا فریضہ ہے کہ قبر میں لٹکنے والی قبائلیت اور غیرت کو حتمی انجام تک پہنچائے۔ یہ واضح کرتے ہوئے کہ جو عورت ریاست کی مدہوش کن طاقت کا اندازہ رکھنے کے باوجود اس سے لڑ سکتی ہے، وہ انسان دشمن، عورت دشمن قبائلیت، ننگ و ناموس اور مصنوعی غیرت کو بھی اپنے پاؤں کے نیچے روندھ سکتی ہے۔

بلوچستان سمُو کی داستان کا پاسدار ہے، ہانی کا وارث ہے۔ یہ غلیظ ریت و رواج ہمارا اثاثہ نہیں، اس کے خلاف لڑنا ہو گا!

علی عیسیٰ

یہ بلوچ روایت نہیں بلکہ انگریزوں کی مسلط کردہ ریاستِ پاکستان کے دلال سرداروں اور قبائلی نظام کی دین ہے۔ ایسے واقعات ہر روز ہوں گے جب تک یہ ریاست موجود ہے۔ اس کا خاتمہ صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

مہر ءِ پاکیں کتاب زندگ بات
میر سردار مردگ بات

تسبیح خان

قبائلی رسم و رواج کو عوامی مرضی کا نام دینے والے یہ سردار، وڈیرے اور مُلا دراصل سامراجی سرمایہ داری کے پروردہ جاگیردار ہیں جو محنت کش عوام بالخصوص خواتین کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنا چاہتے ہیں۔

رائے اسد

ہم نہ باز آئیں گے محبت سے
جان جائے گی اور کیا ہو گا

تم لوگ ابھی تک نہیں سمجھ پائے کہ انسانیت نہیں مر سکتی، محبت نہیں مر سکتی۔ انسان امین ہے انسانیت کا۔ ایسے لوگ ہمیشہ موجود رہے ہیں جو نفرتوں کے سامنے ڈٹ کر محبتوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ بے حسوں سے لڑ کر احساس کو زندہ رکھتے ہیں۔ اپنی جان دے کر سماج میں روح پھونک جاتے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی اس بہاد خاتون نے للکارا ہے اس گھٹیا سماج اور اس کے رکھوالوں کو! انہوں نے پیغام دیا ہے کہ عورت اطاعت نہیں بغاوت بھی کر سکتی ہے۔ جس دن یہ سب افتادگانِ خاک بغاوت پہ اترے آئے اس دن نفرت، لالچ، حرس اور تمام برائیوں کی موت ہو گی اور محبت، احساس، انسانیت کے سچے جذبات اپنی فتح کا اعلان کریں گے۔

عزت

تم کون ہوتی ہو؟!
تمہیں یہ کس نے حق دیا ہے
کہ اپنی زندگی پہ اختیار مانگو
تمہیں خبر نہیں ہے لڑکی؟
کہ نامحرم سے پیار کرنا
کسی سے دل کی بات کرنا
کسی کو اپنا غم بتانا
کسی کے خوابوں سے دل سجانا
کفر ہے!
تمہیں خبر ہے یہ کتنا بڑا گناہ ہے؟
تم سزاؤں کی مستحق ہو!
کیا تم نے سب کچھ بھلا دیا ہے؟
کہ تم کو بچپن میں کیا سکھایا تھا
تمہاری دنیا تمہارا گھر ہے
تمہیں سب کچھ یہیں ملے گا
کتابیں کپڑے کھلونے سارے
کتنا کچھ پاس ہے تمہارے
جو کہو گی تمہیں ملے گا
مگر اس کی ایک شرط ہو گی!
کہ جب تلک کوئی مالدار شخص
مال و دولت دکھا کے تم کو خرید لے
تم ہماری غلام ہو گی!
تمہارے آقا ہیں یہ باپ بھائی
تم کھا رہی ہو انہیں کی کمائی
گر تم نے ان سے زباں لڑائی
تو ان کو حق ہے کہ جو کریں
گاڑھیں تم کو زمیں میں زندہ
زبان کاٹیں، گلا دبائیں یا زہر دے دیں
کیا تم نے سب کچھ بھلا دیا ہے؟
تمہیں سکھایا تھا حکم ماننا
ہمارے اشاروں پہ سر ہلانا
تم کون ہوتی ہو؟!
تمہاری اتنی مجال لڑکی!
کر رہی ہو سوال لڑکی!
کیا تمہیں کچھ خبر نہیں ہے؟
دل میں لوگوں کا ڈر نہیں ہے؟
بھول بیٹھی تم یہ شاید
کہ بھائیوں کی محبت
باپ کے لاڈ
اور ماں کی ممتا سے بڑھ کے ہوتی ہے گھر کی عزت
گھر کی عزت جو بس تمہیں ہو!
سو آج ایک بار پھر سے سن لو
دوبارہ تم نے کچھ ایسا سوچا
کسی کے بارے میں خواب دیکھا
ہمارے آگے جو سر اٹھایا
تو ہم سے برا کوئی نہ ہو گا
پھر ہم پہ ہے ہم جو کریں
تمہیں منہ پہ طمانچے ماریں
بے حیائی کے طعنے دیں
دھمکیاں دیں، بال نوچیں
ہم جو کریں گے وہ سہنا ہو گا!
تمہیں چپ چاپ رہنا ہو گا!
اور ہاں ایک آخری بات
یہ خودکشی کا خیال پھر تمہارے نہ دل میں آئے
دیکھو تم ہو ہماری بیٹی
اچھی بیٹی ہو پیاری بیٹی
تم اگر یوں مر گئی تو
ایسا ویسا کچھ کر گئی تو
چلو محبت کی خیر ہے پر
ہماری عزت کا کیا بنے گا!!!!

رائے اسد

مدثر خان

”صرف سُم اِنّا اجازت اے، نَماز نہ“

ایک بہادر بلوچ خاتون کا آخری جُملہ محبت کے نام!

بلوچستان کی سرزمین نے کئی کہانیاں جنم دی ہیں، روایتوں، غیرتوں اور قربانیوں کی کہانیاں۔ مگر کل کا دن ایک ایسی محبت کی شہادت بن گیا جس نے جرگے کی بے رحم رسموں کو چیلنج کیا۔ شیتل، ایک بلوچ خاتون، محبت میں جیتی رہی اور محبت میں ہی جان دے دی۔ اسے جرگے کے سامنے پیش کیا گیا، جہاں فیصلہ پہلے سے طے تھا، یعنی موت۔ لیکن اس سے پہلے کہ گولی چلے، اس نے فقط ایک جملہ کہا:

”صرف سُم اِنّا اجازت اے، نَماز نہ“ (یعنی: ”تمہیں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے۔)

یہ جملہ نہ صرف اُس کی بہادری کا اعلان تھا، بلکہ اُس نظام کو للکارنے کا بھی جس میں عورت کی آواز دفن کر دی جاتی ہے۔ بلوچ روایات میں شاید اس کا نام نہ لکھا جائے، مگر تاریخ کے ضمیر پر یہ جملہ ہمیشہ کند رہے گا۔ بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں خواتین کے قتل، گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی اور غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات روزانہ رونما ہوتے ہیں۔ خواتین جہاں عمومی طور پر بھی اور پھر خاص کر پاکستان جیسے پسماندہ سماج میں معاشی مشکلات، غربت، بیماری اور تعلیمی محرومی سے شدید متاثر ہوتی ہیں وہاں ثقافتی پسماندگی اور قبائلی و مذہبی روایات بھی ان کی زندگیوں کو مکمل طور پر جہنم بنا چکی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد، جبری شادی، تعلیم اور روزگار میں امتیازی سلوک، جہیز کے نام پر قتل، تیزاب پھینکنا اور عورتوں کی خرید و فروخت وغیرہ تو یہاں معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔

اگر ہم پاکستان میں عورتوں پر ہونے والے جبر اور تشدد کے اعداد و شمار یہاں تفصیل سے بیان کرنا شروع کرتے ہیں تو ایک طویل فہرست سامنے آئے گی جس کے لیے ہمارے پاس یہاں جگہ ناکافی ہو جائے گی، باوجود اس کے کہ روزانہ کی بنیاد پر جبر و تشدد، قتل، تیزاب پاشی وغیرہ جیسے واقعات کو رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا۔

سوشل میڈیا کی وجہ سے اب کم سے کم یہ فرق ضرور آیا ہے کہ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم منظر عام پر آ جاتے ہیں اور کچھ عرصہ زیرِ بحث بھی رہتے ہیں۔ اس حوالے سے خواتین کو تھوڑا بہت حوصلہ ملنے لگا ہے اور وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کی ہمت کر رہی ہیں۔ لیکن جو خواتین اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں ان کو آج بھی وہ حمایت اور رہنمائی نہیں مل رہی جو ان کو ملنی چاہیے۔ وقتی مداخلت سے خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم اور خصوصی طور پر غیرت کے نام پر قتل جیسے جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ان مسائل کے لیے ٹھوس قوانین، اقدامات اور سب سے بڑھ کر انصاف پر مبنی نظام کی ضرورت ہے۔ ریاست نے اس حوالے سے کچھ قانون سازی کی ہوئی ہے اور کچھ ادارے بھی بنا رکھے ہیں لیکن ان کی فعالیت اور سنجیدگی کا اندازہ آئے دن بے باک ریپ اور قتل کے واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔

یہ ایک واقعہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے استحصال اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ہزاروں واقعات کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے جو کہیں بھی رپورٹ نہیں ہو پاتے۔ صرف دیہی یا قبائلی علاقوں میں بھی اس طرح کے ہزاروں واقعات ہوتے ہیں۔ ویسے ہمارے معاشرے میں مذہبی اور اخلاقی منافقت کی آڑ میں خواتین سے جھوٹی ہمدردی اور عظمت کے استعارے منسوب کیے جاتے ہیں لیکن درحقیقت طبقاتی محرومی، پسماندگی اور ریاستی آشیر آباد سے پروان چڑھائی جانے والی مذہبی رجعتیت کی یلغار اور جاہلانہ رسوم و روایات نے خواتین کے خلاف ایک انتہائی زہریلے تعصب کو پروان چڑھایا ہے جس کا اظہار ہمیں ہر وقت ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان رجعتی متعصب نظریات میں خواتین کو معاشرے میں موجود برائیوں کی جڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ طبقاتی سماج اور پسماندگی سے پیدا ہونے والے تمام تر مسائل جیسے جائیداد کی خاطر ہونے والے خاندانی جھگڑے یا دیگر ثقافتی مسائل کا تمام تر الزام خواتین پر ڈالا جاتا ہے اور انہیں ایک بے دماغ مخلوق یا فتنہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور کھلم کھلا ان کو جبر و تشدد کے ذریعے کنٹرول کرنے کی تبلیغ کی جاتی ہے، کیونکہ موجودہ نظام میں عورت کی حیثیت ایک سمجھ بوجھ اور انسانی جذبات رکھنے والی زندگی کی بجائے نجی ملکیت، جنس اور وراثت کے سوال سے جڑی ہوئی ہے۔ اس تمام تر تبلیغ کا سلسلہ ہمیں گھر کے سربراہ سے لے کر مسجد کے امام اور سکولوں کالجوں کے رجعتی خواتین و حضرات اساتذہ تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ بد قسمتی سے خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد بھی اپنے خلاف کیے گئے اس پروپیگنڈے کو سچ تسلیم کرتی ہے اور اپنے آپ کو کم تر مخلوق تصور کرتی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تمام تر رجعتی نظریات لوگوں کی غربت، طبقاتی محرومی، پسماندگی اور حکمران طبقے کی مسلط کردہ جہالت کا نتیجہ ہیں۔ لیکن ان تمام تر حالات اور رجعتی نظریات کے ذمہ دار عوام نہیں بلکہ وہ حکمران اور ان کا نظام ہے جس نے کئی نسلوں سے عوام کی اکثریت کو غربت، پسماندگی اور جہالت میں رکھا ہوا ہے۔ اس سب کا ذمہ دار طبقاتی تفریق اور محنت کے استحصال اور وسائل کی لوٹ مار کرنے والا سرمایہ دارانہ نظام ہے جو اب سماج کو ترقی دینے میں ناکام ہو چکاہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور عمومی طور پر سماجی زوال کے نتیجے میں عورتوں کے اوپر جبر تمام انتہائیں عبور کر چکا ہے اور پسماندہ ممالک میں پھر اس جبر کی انتہائی وحشت ناک شکلیں سامنے آتی ہیں۔ عمومی طور پر محنت کش طبقے اور مظلوم قومیتوں کی طرح عورتوں پر جبر کی جڑیں بھی سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں اور سرمایہ داری دراصل نجی ملکیت پر مبنی طبقاتی سماج کی موجودہ شکل ہے۔ خواتین کے سوال کو اس نظام
کے اندر دیگر سوالات سے جوڑنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ ناگزیر ہے کیونکہ جنسی ہراسانی اور تشدد سے لے کر غیرت کے نام پر قتل تک جو بھی مسائل ہوں ان کی جڑیں اس ظالم سماج اور ظالم نظام میں پیوست ہیں۔ لہٰذا ظلم، جبر، استحصال، لوٹ کھسوٹ اور خواتین کے اوپر مظالم کا مکمل خاتمہ اس نظام کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے۔ ایک غیر طبقاتی اور غیر استحصالی سوشلسٹ سماج ہی انسانیت کی اصل معراج ثابت ہو گی جس میں موجودہ نظام کے جرائم، مظالم اور استحصال کا کوئی وجود نہیں ہو گا۔

Comments are closed.