ایران پر اسرائیل اور امریکہ کی سامراجی جارحیت کی مذمت دنیا بھر کے انقلابی کمیونسٹوں کی جانب سے کی گئی جو پہلے ہی فلسطین کی تحریک آزادی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں اور مغربی سامراجی طاقتوں کے حکمرانوں کے جبر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
اس 12 روزہ جنگ میں بھی جہاں ٹرمپ کے متضاد بیانات اور حکمت عملی پر دنیا بھر میں تبصرے اور تجزیے جاری تھے، وہاں خود کو بایاں بازو کہنے والوں کی اصل حقیقت کھل کر عیاں ہوئی۔ کچھ کھل کر لبرل کیمپ کے ساتھ اور کمیونسٹوں کے خلاف کھڑے تھے۔ یہ لبرل ٹرمپ اور اسرائیل کی کھل کر حمایت کر رہے تھے اور ایران اور فلسطین کی شدید مخالفت۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے یہ خیر خواہ اس حقیقت کو بھی نظر انداز کر رہے تھے کہ ٹرمپ خود لبرلزم کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
اسی طرح کچھ دوسری انتہا پر ایران کی ملا اشرافیہ کی پشت پر کھڑے ہو گئے اور ان کا مؤقف مذہبی بنیاد پرستوں کے ساتھ مل گیا۔ یہ لوگ امریکی سامراج کے خلاف چین اور روس کی سامراجی طاقت کی گماشتگی کا طوق پہننے کی وکالت کرنے لگے جبکہ ایران پر مسلط ملا اشرافیہ کے عوام دشمن کردار کو نظر انداز کرنے لگے۔
اس دوران صرف انقلابی کمیونسٹوں کا مؤقف محنت کش طبقے کی طاقت پر یقین کرتا نظر آیا جس میں وہ امریکی اور اسرائیلی سامراج کو شکست دینے کے لیے ایران کے محنت کش طبقے کی طاقت پر یقین کرتے دکھائی دیے۔ ان کے مطابق ایران کے محنت کش طبقے میں اتنی جرات، طاقت اور صلاحیت ہے کہ وہ اس ملا اشرافیہ اور بوسیدہ سرمایہ دارانہ ریاست کا بھی خاتمہ کر سکتا ہے اور امریکی اور اسرائیلی سامراج کو بھی فیصلہ کن شکست دے سکتا ہے۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر انقلابی کمیونسٹوں کی پوسٹوں پر بھی بحث و مباحثہ چلتا رہا۔
پارس جان کراچی میں رہنے والے انقلابی کمیونسٹ اور معروف شاعر ہیں۔ انہوں نے ایک پوسٹ میں لکھا:
جنگ کا تماشا اور سیاسی مسخرے
ایران کی مزاحمت بلاشبہ قابلِ رشک ہے۔ مگر ملائیت کے حامیوں کو یہ تو نظر آ ہی رہا ہو گا کہ اگر ابھی تک ایران کو کسی سے مالی، عسکری یا سفارتی مدد کی امید ہے، وہ نام نہاد ”اسلامی برادری“ یا ہمسایہ برادر اسلامی ایٹمی قوت نہیں ہے بلکہ وہی روس اور چین ہیں جہاں ایک وقت میں سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے منصوبہ بند سوشلسٹ طرزِ معیشت رائج تھا اور ایرانی ملاں اشرافیہ نے ان منصوبہ بند ریاستوں کے حامی کمیونسٹوں کا ایران میں قتلِ عام کیا اور وہ آج بھی بڑی تعداد میں ایرانی جیلوں میں قید ہیں۔ اگرچہ آج ان دونوں ریاستوں میں منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے، تاہم اسی تابناک ماضی کی پاداش میں ہی مغربی سامراج کے ساتھ ان کے مراسم مخاصمانہ اور معاندانہ ہی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ البتہ یہ اب سوشلسٹ یا کمیونسٹ نظریات کی حامل ریاستیں بھلے ہی نہ ہوں، تاہم یہ ”لا دین“ آج بھی ہیں اور اپنے مفادات کے تابع ہی اس جنگ میں وہ ممکنہ کردار ادا کر سکتی ہیں جس کی ایرانی ملاں اشرافیہ ان سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کوئی کفر اور اسلام کا معرکہ نہیں ہے بلکہ سامراجی جنگ ہے جو جتنی طوالت اختیار کرے گی، عسکری تباہی کے ساتھ ساتھ معصوم انسانی جانوں کا ضیاع بھی ناگزیر ہے۔ اس لیے مارکسسٹوں پر اس جنگ کی مخالفت فرض ہے۔ لیکن جنگ کی مخالفت سے مراد مجرد لاتعلقی نہیں ہے کہ ”جو بھی جیتے یا ہارے کوئی فرق نہیں پڑتا“، جس طرح چند نوسکھیے سوشل میڈیائی سرخے بونگیاں مارتے ہوئے پائے جا رہے ہیں۔ وہ سامراجیت اور اس کے تضادات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس جنگ میں اسرائیلی اور امریکی سامراجی ریاستوں کا جتنا نقصان ہو گا، اتنا ہی سامراجیت کے داخلی تضادات ایکسپوز ہوں گے اور مشرقی عوام کے ساتھ ساتھ مغربی عوام اور محنت کش طبقات میں بھی اس نظام کی ”عدم تعقلیت“ اور انسان دشمنی کا پردہ فاش ہوتا چلا جائے گا اور اس کے انقلابی اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ درست ہے کہ اس سے وقتی طور پر ایرانی ملائیت کو فائدہ ہو سکتا ہے جس سے شکتی لے کر وہ بالکل ویسے ہی داخلی جبر میں اضافہ کر سکتے ہیں جس طرح پاک بھارت جنگ کی قیمت یہاں کی جمہوری تحریکوں اور سرگرم ترقی پسند اور طبقاتی کارکنوں کو چکانا پڑ رہی ہے۔ لیکن یہ عمل بھی عبوری نوعیت کا ہی ہو گا اور اس کے متوازی دنیا بھر میں مزدور تحریکوں میں سامراج مخالفت میں اضافہ ہو گا۔ مارکسسٹ کسی ایک ملک یا قوم کے فائدے یا نقصان کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا بیانیہ تشکیل نہیں دیتے بلکہ ”مزدور تحریک“ کے عمومی یعنی بین الاقوامی مضمرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے تناظر اور حکمت عملی تشکیل دیتے ہیں۔
دوسری طرف وہ احمق، اناڑی اور موقع پرست لیفٹ لبرل رجحانات ہیں جنہوں نے پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیسی اور خوشامد میں زمین آسمان ایک کیے ہوئے تھے اور اب وہ اپنی خجالت، شرمندگی اور ذلت کی مبالغہ پرور تلافی (over compensation) کی سعیِ لاحاصل میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ ”سامراج دشمنی“ کا جتنا بھی واویلا کر لیں، پاکستانی ریاست کی چاپلوسی کے باعث ان کا چہرہ اور کردار جس طریقے سے ایکسپوز ہوا ہے، آئندہ محنت کش طبقے اور انقلابی تحریک کے سنجیدہ عناصر انہیں کبھی گھاس نہیں ڈالیں گے۔
کوئی بھی متجسس سیاسی کارکن یا ذی شعور شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ بھئی آپ بھی اس جنگ میں ایران کی حمایت کر رہے ہیں اور وہ بھی، تو آپ اور ان کی پوزیشن تو ایک ہی ہے، تو امتیاز کہاں پر ہے۔ ان خواتین و حضرات کو ہم بتاتے چلیں کہ مارکسسٹوں اور لیفٹ لبرلز یا اصلاح پسند بائیں بازو کی کسی بھی ٹھوس معاملے اور ایشو پر پوزیشن یکساں ہو سکتی ہے تاہم باریک بینی سے مشاہدے پر اختلافات اور امتیازات بالکل ویسے ہی سامنے آ جاتے ہیں جیسے محدب عدسے کے نیچے A=A کی مساوات میں موجود ”دائیں“ والے A کے بائیں A کے ساتھ امتیازات آشکار ہو جاتے ہیں۔
اول تو یہ کہ ہم عالمی مزدور تحریک کے عمومی مفادات کے لیے مثبت پیش رفت کے طور پر سامراجی بلاک کی شکست کے حامی ہیں جبکہ دوسری طرف یہ اصلاح پسند مزدور تحریک یا محنت کش طبقے کا نام تک لینا گوارہ نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں مارکس اور لینن کا پرولتاریہ اب معدوم ہو چکا ہے۔ یہ ایران کی فتح سے روسی اور چینی بلاک کی تقویت کی امید میں اسرائیل کو لعن طعن کر رہے ہیں اور ان کی پوزیشن اپنے جوہر میں موقع پرستانہ ہے۔ ان کا میتھڈ اور ان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ کسی بھی مرحلے پر ”بلاک“ بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب ان میں سے کچھ لوگ رجعتی قوتوں کے خاتمے کے لیے امریکی مداخلت کو خوش آمدید کہا کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر اب انہوں نے سامراجی بلاک کے خلاف لڑائی اور مزاحمت کا جو کلیہ یا نسخہء کیمیا مرتب کیا ہے وہ اتنا رجعتی اور عوام دشمن ہے کہ اس کے ساتھ موازنے پر خود ملاں اشرافیہ بھی بھولی بھالی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔
وہ فارمولہ یہ ہے کہ سامراج وسائل سے مالا مال خطوں میں ریاستوں کو کمزور کرنا چاہتا ہے یا انہیں مکمل غیر فعال کرنا چاہتا ہے جس سے انتشار کا خطرہ ہے، لہٰذا اپنی اپنی اور ساتھ ہی دیگر مغلوب سرمایہ دارانہ ریاستوں کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی جدوجہد ہی واحد حل ہے۔ اس بیانیے کا مارکسزم یا لینن ازم سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ نرا ”کاؤتسکی ازم“ اور متعفن اصلاح پسندی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم ان جنگوں کو انقلابی خانہ جنگیوں کے امکانات کے طور پر دیکھتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ساری خوش فہمیوں کے بعد ایران کے محنت کش عوام بھی انقلابی نتائج اخذ کرنے کی طرف جائیں گے۔ بالخصوص اگر اس جنگ کی مخالفت میں مغربی دنیا اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک میں مزاحمتی آوازیں زور پکڑتی ہیں تو صورتحال ڈرامائی طور پر تبدیل ہو سکتی ہے۔
لہٰذا، اس جنگ میں جس طرح ”مجرد لاتعلقی“ یا اسرائیل کی لبرل حمایت لغو اور گمراہ کن ہو سکتے ہیں، اس سے کہیں بڑھ کر ایران کی ”مجرد“ اور میکانکی حمایت بھی مضر اور دقیانوسی ہے۔ اس لیے ہمیں جہاں ایران کی حمایت کرنی چاہیے وہاں اس مؤقف کا بھی پرچار کرنا چاہیے کہ روس اور چین کی تمام تر مبینہ اور متوقع حمایت اپنی جگہ لیکن جنگ ایران کو اپنے دم اور اپنی قوتوں پر ہی لڑنا ہو گی۔ جتنا یہ جنگ کو طول دیں گے، اور جتنا یہ امریکہ اور اسرائیل کا نقصان کریں گے، سامراج مخالف تحریک عالمی سطح پر اتنی ہی تیز ہو گی۔ لہذا ایران کی عوام کی متحرک حمایت کے بغیر ایران کے لیے اس جنگ کو جاری رکھنا لمبے عرصے تک ممکن نہیں رہے گا اور طویل عرصے تک عوامی حمایت کو برقرار رکھنے کے لیے ایرانی ریاست کو سامراج مخالف مذہبی نعرے بازی سے بڑھ کر کچھ عملی اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے۔
یوں ہم مارکسسٹوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم جہاں ایران کی اس جنگ میں اخلاقی حمایت جاری رکھیں، وہیں ایرانی ریاست سے کچھ اہم مطالبات کو بھی اجاگر کرتے جائیں۔ ایسے مطالبات جو ایرانی عوام اور بالخصوص ترقی پسند سیاسی کارکنوں اور ایرانی محنت کش طبقے کے دلی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوں۔ مثال کے طور پر اس جنگ کے دوران ایران کی جیلوں میں موجود ہزاروں نہیں لاکھوں سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے جہاں ایرانی ریاست کی رجعتی اساس پر کاری ضرب لگے گی، وہیں ایرانی عوام کی سیاسی قوتِ محرکہ کو بھی مہمیز ملے گی۔ تاریخ سے بہت سی عملی مثالوں کے ذریعے ہم اس قسم کے مطالبات کا پرچار کر سکتے ہیں۔ جیسے دوسری عالمی جنگ میں سٹالن کی بھیانک اور سفاک آمریت نے بھی اپنی جیلوں میں بند لاکھوں سیاسی قیدیوں (جن میں ٹراٹسکائیٹس بھی شامل تھے) کو رہا کر دیا تھا اور ان میں سے بہت سے لوگ سرخ فوج کے شانہ بشانہ نہ صرف جنگی محاذ پر فاشزم کے خلاف لڑے بلکہ ریاست کی داخلی حمایت کو تقویت دینے کے لیے سیاسی پراپیگنڈے میں بھی پیش پیش رہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس جنگ سے قبل ایران میں ٹرک ڈرائیوروں اور دیگر بہت سی محنت کش طبقے کی سرگرم پرتوں کی طرف سے انتہائی مؤثر ہڑتال جاری تھی جو آئندہ ہفتوں میں ایک عام ہڑتال کی شکل اختیار کر سکتی تھی۔ ہمیں ایرانی ریاست سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ ٹرک ڈرائیوروں سمیت دیگر محنت کش تحریکوں اور یونینوں کے تمام جائز معاشی اور سیاسی مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کرے۔ ظاہر ہے کہ حالتِ جنگ میں تنخواہوں اور مراعات میں اضافے عملاً ممکن نہیں ہیں، تاہم ایسا اعلان ہی مورال میں دیو ہیکل افزودگی کا باعث بنے گا۔ ظاہر ہے ملاں اشرافیہ ایسا نہیں کرے گی لیکن ان مطالبات سے ہم مارکسسٹ جنگ کے بعد کے حالات میں چاہے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں، نہ صرف ایران بلکہ خطے بھر کی مزدور تحریک میں طبقاتی یکجہتی کی بنیاد پر بھرپور مداخلت کرنے کے لیے زیادہ درست اور بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔ مارکسی اساتذہ ہمیں سکھا کر گئے ہیں کہ جنگیں پیچیدہ ترین سیاسی مساوات (equations) ہوتی ہیں۔ لہٰذا ایک یا دوسری طرف کی پیٹی بورژوا حمایت یا مخالفت کا بظاہر یکسر متضاد ہونے کے باوجود کردار ایک ہی جیسا ہوتا ہے، یعنی رجعتی، گمراہ کن اور عوام دشمن۔
واضح طبقاتی نکتہ نظر اور عالمی سامراج کے بالمقابل عالمی مزدور تحریک کے حوالے سے مؤقف کی تشکیل و تدریج اور پرچار کے لیے رسمی منطق اور میکانکی میتھڈ سے بلند سائنسی و جدلیاتی طرزِ استدلال کی ضرورت ہوتی ہے جن کی سمجھ بوجھ نوسکھیے سوشل میڈیائی سرخوں اور خجل اصلاح پسندوں دونوں کے ہاں ناپید ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ اصلاح پسند دھڑلے سے خود کو سوشلسٹ یا مارکسسٹ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مارکس اور لینن آج ہوتے اور اس مروجہ اور بزعم خود مسلمہ مارکسزم اور سوشلزم سے ان کا واسطہ پڑتا تو وہ برملا اور برجستہ یک زبان ہو کر چلاتے، ”اگر یہ مارکسزم ہے تو واللہ ہم مارکسسٹ نہیں ہیں!“
ایک دوسری فیس بک پوسٹ میں پارس جان لکھتے ہیں:
جنگ بندی، سیریز نہیں قسط کا خاتمہ
ڈرامائی جنگ بندی دیرپا امن کی ضمانت نہیں بن سکتی۔ قسط ختم ہوئی ہے، سیریز نہیں اور اگلی قسط خود پروڈیوسرز اور ہدایت کاروں کی توقع سے بھی پہلے ریلیز ہو سکتی ہے، جس سے خود سامراجی اتحاد کے اندر دراڑیں اور گہری ہوں گی۔ عالمی سرمایہ داری کا بحران نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ دیگر خطوں میں بھی نئی جنگوں اور انتشار کا سبب بنے گا۔ اسرائیل اور امریکی سامراج کی لامحدود سمجھی جانے والی طاقت کی حدود کا منکشف ہو جانا خوش آئند ہے۔ اس سے مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں جمہوری اور مزاحمتی عناصر کو تقویت ملے گی۔ اسرائیلی ریاست کے داخلی تضادات مزید بھڑکیں گے اور نیتن یاہو اور اس کے ہمنواؤں کے خلاف غم و غصّے میں اضافہ ہو گا۔ ایران میں بھی مزدور مزاحمت شدت سے ابھرے گی اور کچھ توقف کے بعد بڑی سیاسی ہلچل ناگزیر ہے۔ فلسطینی کاز کی حمایت میں بھی شدت آئے گی۔ خطے میں سامراجی گرفت کمزور پڑے گی۔ غرضیکہ اس پندرہ روز جنگی قسط کے اختتام پر اس کے نتائج اس کے اغراض و مقاصد سے بالکل مختلف اور متضاد ہوں گے۔
ٹرمپ کو بھلے ہی نوبل انعام سے ہی کیوں نہ نواز دیا جائے، امریکی نوجوانوں اور محنت کشوں کے موجودہ سیٹ اپ میں ہر قسم کی خوش فہمیوں کو ناقابلِ تلافی دھچکا لگا ہے۔ لبرلز کی سامراج پرستی کا پردہ بھی بری طرح فاش ہوا ہے اور ان کے ”خدا (امریکہ اور اسرائیل) کو جنگی مقاصد میں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ تاہم ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ نظام اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے عدم تحفظ، غیر یقینی پن اور عدم استحکام میں ہونے والے اضافے کے باعث مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں اسلحے کی دوڑ میں مزید تیزی آئے گی۔
دنیا بھر کی محنت کش عوام پر مزید نت نئے ٹیکسوں کی بھرمار کر کے انسانی بربادی اور تباہی کے آلات کی خریداری کے رجحان میں اضافہ کیا جائے گا۔ پہلے ہی اسلحے پر سالانہ عالمی اخراجات 2.44 ٹریلین ڈالر یعنی دو ہزار چار سو چالیس ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب بیروزگاری، افلاس، دربدری، ہجرتوں اور قرضوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہو گا، دفاعی اخراجات اور اس کے متوازی اشرافیہ کی لوٹ مار میں اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے تاریخی اضافے عوام اور بالخصوص نوجوانوں کے دماغوں اور ارواح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیں گے اور وہ جمہوریت، ترقی، فلاح اور انسانی حقوق کے نقاب میں چھپے اس نظام اور اس کی نمائندہ قومی ریاستوں کے گھناؤنے چہرے اور کردار کو سمجھتے ہوئے انقلابی نتائج اخذ کرنے پر مجبور ہوں گے۔
انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں یہ عمل پُرپیچ، متضاد اور متغیر ضرور ہو گا لیکن اس کے مخالف سمت میں تاریخی حرکت کے امکان مسدود ہو چکے ہیں۔ لبرلز کے تناظر، قنوطی بائیں بازو کے ماتم اور اصلاح پسندوں کی نوٹنکی کے برعکس دنیا تیزی سے طبقاتی جنگوں اور انقلابات کی طرف گامزن ہے۔ کارل مارکس کے بقول، ”انقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں۔“، اور تاریخ کے جدید ترین انجن اپنی معجزاتی اور کرشماتی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کی تیاری کے آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایک سامراجی جنگ ختم ضرور ہوئی ہے لیکن نہ صرف مزید سامراجی جنگوں بلکہ طبقاتی جنگوں کے امکانات پہلے سے زیادہ، واضح، تابناک اور روشن دکھائی دے رہے ہیں۔
مظہر حسین سید واہ کینٹ میں رہائش پذیر معروف شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا:
”نیتن یاہو اور ٹرمپ اپنے آپ کو رجعت پسند، دائیں بازو کا حامی اور لبرل مخالف کہتے ہیں۔ انھیں شاید معلوم بھی نہ ہو کہ پاکستانی لبرلز نے انھیں اپنا امام بنایا ہوا ہے۔“
خدیجہ ارسلان برطانیہ میں مقیم انقلابی کمیونسٹ ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر مختلف ٹویٹر سپیس کا انعقاد بھی کیا۔ ٹویٹر پر ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا:
”سامراجیت کے خلاف مزاحمت فرض ہو چکی ہے اور اس کا پہلا مرحلہ اپنے اپنے ملکوں کی ریاستی اشرافیہ اور حکمران طبقات کے خلاف طبقاتی جنگ سے شروع کرنا ہو گا، جو ان سامراجی درندوں کے اشاروں پر ناچنے والے مہرے ہیں۔“
رائے اسد لاہور میں مقیم انقلابی شاعر ہیں۔ انہوں نے کہا:
”پاکستان کے حکمران طبقے نے اسی ٹرمپ کا نام نوبل پیس پرائز کے لیے تجویز کیا ہے اور ظاہر ہے جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کی یقین دہانی بھی کروائی ہو گی۔ اب ان عقل کے اندھوں کو سمجھ آ جائے گی کہ مقامی حکمران طبقے سے لڑے بنا آپ سامراج سے نہیں لڑ سکتے۔“
اجمل خان راولا کوٹ، آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے انقلابی کمیونسٹ ہیں۔ انہوں نے لکھا:
”اسرائیل اور امریکہ و مغرب کی ایرانی رجیم سے کوئی نظریاتی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی ایران میں جمہوری اور انسانی آزادیوں سے کوئی مسئلہ ہے۔ جمہوری اور انسانی آزادیوں کے حوالے سے ان کا اپنا ٹریک ریکارڈ بہت خراب ہے اور آیت اللہ سے زیادہ وحشی اور خونخوار ملاؤں کے ساتھ یہ ماضی میں بھی کام کر چکے ہیں اور آج بھی شام اور دوسری جگہوں پر کر رہے ہیں بشرطیکہ وہ ان کے مفادات کے مطابق کام کرتے رہیں۔“
اپنی ایک دوسری پوسٹ میں اجمل خان نے سیز فائر کے متعلق لکھا:
”سیز فائر اسرائیل کی زیادہ مجبوری بن چکی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اسرائیل ایک طویل جنگ، جس میں اس کی تباہی ہو رہی ہو، افورڈ کر سکتا ہے جبکہ دوسری طرف ایران کے پاس طویل ترین جنگ لڑنے کا تجربہ بھی ہے اور کھونے کو بھی بہت کچھ نہیں ہے اور پچھلی نصف صدی سے ایرانی عوام سخت ترین پابندیوں اور کم و بیش حالتِ جنگ میں ہی رہ رہے ہیں۔ اسرائیلی حکمران ٹولہ طاقت کے نشے میں چور رعونت و تکبر سے ایران پر چڑھ دوڑا، اس نے شاید ایران کو شام، لبنان یا فلسطین سمجھ رکھا تھا۔ 12 دن کی جنگ کے بعد دانت کھٹے ہو گئے، خود بھی ذلیل ہوئے اور ساتھ میں ٹرمپ کی بھی عزت افزائی کروائی اور اب نیتن یاہو ٹرمپ سے جنگ رکوانے کے لیے گڑگڑا رہا ہے۔“
یہ بحث آنے والے دنوں میں بھی جاری رہے گی۔ اس ویب سائٹ کے قارئین یہاں موجود مختلف تجزیوں اور تبصروں سے رجوع کر سکتے ہیں جو اس دوران یہاں باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے اور اس تیزی سے بدلتے صورتحال کا نہ صرف درست تجزیہ اور تناظر حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ان سامراجی جنگوں کو ختم کرنے کی جدوجہد میں بھی شامل ہو سکتے ہیں اور انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا حصہ بن سکتے ہیں۔