|تحریر: مارکسزم کے دفاع میں|

30 جولائی کو انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے ساتھیوں نے 15 ممالک کے 26 شہروں میں اکٹھے ہو کر گلگت بلتستان کی عوامی ایکشن کمیٹی (AAC-GB ) سے تعلق رکھنے والے ان سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جنہیں پاکستانی ریاست کے حکم پر اذیت ناک حالات میں قید رکھا گیا ہے۔ یہ مہم اب لاکھوں کارکنوں کی نمائندگی کرنے والی مزدور تنظیموں کی حمایت حاصل کر چکی ہے، اور اسے سینکڑوں نمایاں سیاست دانوں اور کارکنوں کی تائید حاصل ہے۔ یہ کوششیں ثمر دے رہی ہیں: صرف دو افراد کے علاوہ تمام گرفتار شدگان کو ضمانت مل چکی ہے۔ اس سے ایک سبق ملتا ہے: یکجہتی کارگر ثابت ہوتی ہے! دباؤ جاری رکھیں، ہم جیت سکتے ہیں!
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں!
گرفتار رہنماؤں کو مزدور تحریک اور وسیع تر بائیں بازو کی حمایت مسلسل حاصل ہے۔ پچھلے ہفتے، کینیڈا کے شہر ایڈمنٹن میں 2,700 کارکنوں کی نمائندہ تنظیم CUPW، لوکل 730 اور امریکہ کے شہر شکاگو میں ریاستی، ضلعی اور میونسپل ملازمین کی یونین AFSCME، لوکل 2858 کے ریٹائرڈ چارٹر صدر اسٹیفن ایڈورڈز نے مہم کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس سے دو ہفتے قبل، برطانیہ میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ایک ساتھی نے یونائیٹ ٹریڈ یونین کی نیشنل پالیسی کانفرنس میں یکجہتی کی قرارداد منظور کروائی۔ یونائیٹ برطانیہ کی سب سے بڑی مزدور تنظیموں میں سے ایک ہے جو 12 لاکھ کارکنوں کی نمائندگی کرتی ہے۔
حال ہی میں ہمیں یونانی جماعت میرا25 (MeRA25) کی جانب سے یکجہتی کا یہ پیغام بھی موصول ہوا، جس کی بنیاد سابق یونانی وزیر خزانہ یانیس وارو فاکس نے 2018 ء میں رکھی تھی:
”یونانی پارٹی میرا25 اور اس کے صدر — سابق وزیر، رکن پارلیمان، DiEM25 اور پروگریسیو انٹرنیشنل کے بانی رکن — یانیس وارو فاکس کی جانب سے، میں گلگت بلتستان کے ان پاکستانی سماجی اور سیاسی کارکنان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتا ہوں جو قید ہیں، اور ان کی رہائی کے لیے جاری بین الاقوامی مہم کی حمایت کرتا ہوں۔ ہم پاکستانی حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان کے جائز مطالبات کو فوراً تسلیم کریں۔“
یانیس زائڈس
رکن سیاسی سیکریٹریٹ
میرا25 (MeRA25)
آخرکار، برطانیہ کی کمیونسٹ پارٹی کے روزنامہ مارننگ اسٹار نے ہمارے یومِ احتجاج کے موقع پر ہماری مہم پر ایک مکمل صفحے کا فیچر شائع کیا، جو آن لائن بھی پڑھا جا سکتا ہے (جسے یہاں پڑھا جا سکتا ہے)۔
ہم ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اب تک ہماری انصاف کی جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیا۔ یہ متفقہ آواز، جو ظلم کے خلاف گونجی ہے، نے اسلام آباد کے جنرلوں اور بیوروکریٹوں کے جرائم کو عالمی سطح پر بے نقاب کر دیا ہے۔ اور نتائج خود گواہ ہیں۔ جب ہم 30 جولائی کے قریب پہنچے، تو دو ماہ سے زائد عرصہ قبل گرفتار کیے گئے AAC-GB کے 16 رہنماؤں میں سے صرف احسان علی، مسعود الرحمٰن اور عرفان آزاد ہی باقی رہ گئے تھے جو اب تک جیل میں ہیں۔
نیچے آپ انقلاب کمیونسٹ پارٹی کے سابق اسیر، کامریڈ اصغر شاہ کا بیان دیکھ سکتے ہیں، جو بین الاقوامی یکجہتی کی اس مہم پر شکریہ ادا کر رہے ہیں:
اگلے ہی روز، عرفان آزاد کو بھی رہا کر دیا گیا، جس کے بعد اب صرف دو AAC-GB رہنما قید میں باقی رہ گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، آزاد کو جیل میں شدید تشدد کا سامنا کرنا پڑا، جو اس بات کو مزید اجاگر کرتا ہے کہ ہمیں احسان علی اور مسعود الرحمٰن کی فوری رہائی کے لیے اپنی مہم کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے کچھ پیش رفت ضرور کی ہے، مگر ہماری جدوجہد ابھی مکمل نہیں ہوئی۔
اگر آپ نے اب تک ایسا نہیں کیا، تو براہِ کرم اپنی مقامی ایمبیسی سے رابطہ کریں، اپنی ٹریڈ یونین یا اسٹوڈنٹ یونین کے ذریعے یکجہتی کی قراردادیں منظور کروائیں، اور ہمارے مظاہروں میں شریک ہو کر اصل مجرموں اور دہشت گردوں — یعنی اسلام آباد پر قابض سرمایہ داروں اور قاتل ٹولے — کے خلاف آواز بلند کریں!
نیچے ہم اپنے دنیا بھر کے کامریڈز کی رپورٹیں شائع کر رہے ہیں، جنہوں نے ڈے آف ایکشن(یومِ احتجاج) میں شرکت کی۔
پاکستان
پاکستان میں انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل (RCI) کے کامریڈز نے ڈے آف ایکشن کے لیے بھرپور طریقے سے متحرک ہو کر ملک بھر میں 13 مقامات پر بڑے مظاہرے کیے، جن میں کوئٹہ، بہاولپور، ملتان اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر بھی شامل ہے۔ لاہور کے تاریخی انارکلی بازار میں بھی ایک شاندار ریلی نکالی گئی، جہاں ہمدرد نوجوانوں، مزدوروں اور ترقی پسند کارکنوں کے ساتھ مل کر انصاف اور انقلاب کے نعرے بلند کیے گئے۔
یہ ڈے آف ایکشن گلگت بلتستان اور پاکستان بھر میں مہینوں سے جاری مسلسل احتجاجی مظاہروں کا تسلسل تھا۔ AAC-GB کے حامیوں اور ان کی باعزت زندگی کے لیے جاری جدوجہد نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ریاستی جبر انہیں ڈرا نہیں سکتا۔ ریاستی تشدد اور دھمکیوں کے باوجود، وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
اس روز پاکستان میں ہونے والے احتجاج کی تصاویر اور ویڈیوز ملاحظہ کریں:
لاہور
پشاور
کراچی
حیدرآباد
کوئٹہ
ڈیرہ غازی خان
بہاولپور
برطانیہ
انقلابی کمیونسٹ پارٹی (RCP) کے کامریڈز نے تین بڑے شہروں — لندن، بریڈفورڈ اور گلاسگو — میں احتجاج منظم کیے۔ لندن میں کامریڈز نے پاکستان ہائی کمیشن کی دیواریں نعروں اور تقاریر سے ہلا دیں۔ حسبِ سابق، سفارت خانے کے عملے نے ہمارا احتجاجی خط وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن جب تک AAC کے باقی تین رہنماؤں کو رہا نہیں کیا جاتا، ہم بار بار واپس آئیں گے!
بریڈفورڈ میں، RCP کے یارکشائر ریجن سے تعلق رکھنے والے کامریڈز پاکستانی قونصلیٹ کے باہر جمع ہوئے تاکہ گلگت بلتستان میں AAC کے رہنماؤں کی شرمناک گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کر سکیں۔ بریڈفورڈ مزدور جدوجہد کی ایک مضبوط تاریخ رکھتا ہے اور یہاں پاکستانی کمیونٹی کی بڑی تعداد آباد ہے، جن میں سے کئی افراد نے ہماری مہم کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔
آخر میں، اسکاٹ لینڈ کے کامریڈز نے گلاسگو میں کمیشن کے دفتر کے باہر مظاہرہ کیا۔ ابھی ہم عمارت کے اندر داخل بھی نہ ہوئے تھے کہ ایک راہ گیر، جو اپنا پاسپورٹ لینے آیا تھا، ہماری بات سن کر رُک گیا اور پوچھا کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔ جب ہم نے اسے اپنے کامریڈز کی قید کی کہانی سنائی تو وہ بولا:”پاکستانی حکومت ایک کرپٹ آمریت ہے جو اختلافِ رائے کو دبانے کے سوا کچھ نہیں جانتی، اور عوام کی کوئی پروا نہیں کرتی۔“ قونصل خانے کے عملے نے ہمیں تلخ سا رویہ دکھایا، لیکن ہم نے اپنا احتجاجی خط پہنچا دیا، اور ہم جلد دوبارہ آئیں گے تاکہ اپنے مطالبات براہِ راست قونصل کے سامنے رکھ سکیں۔
برطانیہ سے انقلابی کمیونسٹ پارٹی پاکستانی ریاست کو خبردار کرتی ہے: بین الاقوامی محنت کش طبقہ تمہاری ہر چال پر نظر رکھے ہوئے ہے!
آئرلینڈ
انقلابی کمیونسٹ پارٹی آئرلینڈ کے کامریڈز نے 30 جولائی کو ڈبلن میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے ایک مظاہرہ منعقد کیا۔ ملک بھر سے کامریڈز اس مظاہرے میں شریک ہوئے، انہوں نے بھرپور نعرے بازی کی اور تقاریر کے ذریعے گلگت بلتستان کی صورتحال اور وہاں کامریڈز کو درپیش ریاستی جبر کی وضاحت کی۔ انہوں نے اس جدوجہد کو عالمی سطح پر طبقاتی جدوجہد سے جوڑتے ہوئے یکجہتی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

ہم نے سفارت خانے کو ایک احتجاجی خط بھی دیا، جس میں گرفتار کامریڈز کی فوری رہائی، تمام جھوٹے مقدمات کے خاتمے، اور ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ آئرلینڈ میں اس مہم کو بائیں بازو کی نمایاں شخصیات کی حمایت حاصل ہو چکی ہے، جن میں پارلیمنٹ کے رکن پال مرفی (Paul Murphy TD)، کونسلر میڈلین جوہانسن (Cllr Madeleine Johansson)، اور انڈیپنڈنٹ ورکرز یونین شامل ہیں۔
ہم یہ مہم اس وقت تک تیز کرتے رہیں گے جب تک ہمارے تمام کامریڈز رہا نہیں ہو جاتے!
اٹلی
پاکستانی سفارت خانے کے سامنے روم میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی (PCR) کے کامریڈز نے ڈے آف ایکشن کے موقع پر ایک مظاہرہ منظم کیا۔ ہم نے اپنے کامریڈز کی آزادی، سرمایہ داری اور سامراج کے خلاف زور دار نعرے بلند کیے۔

سویڈن
سٹاک ہوم میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی (RKP) کے 10 کامریڈز پاکستانی سفارت خانے کے باہر جمع ہوئے تاکہ گلگت بلتستان کے سیاسی کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کر سکیں۔ ہمارے نعروں کی آواز سفارت خانے کی عمارت میں گونجتی رہی۔ دو کامریڈز نے سفیر سے ملاقات کا مطالبہ کیا، جسے ابتدا میں مسترد کر دیا گیا۔ تاہم جب ہم نے واضح کیا کہ جب تک ہماری بات سنی نہیں جاتی ہم احتجاج ختم نہیں کریں گے، تو آخرکار سفارت خانے کے عملے نے ہمیں اندر بلایا اور سفیر کے نائب (جس سے ہم پہلے بھی دو بار ملاقات کر چکے ہیں) سے ملاقات کروائی گئی۔
ہم نے کیس میں حالیہ پیش رفت، احسان علی کی خراب صحت، اور ساتھیوں پر لگائے گئے جھوٹے الزامات کی تفصیل سے وضاحت کی۔ جواب میں انہوں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا: ”پاکستان میں بہت سے سیاسی قیدی ہیں، لیکن ہم خاص طور پر سیاسی قیدیوں کا بہت خیال رکھتے ہیں تاکہ کوئی تنازع نہ ہو۔“ یہ سب کچھ اس کے بعد کہا گیا جب ہم پہلے ہی کامریڈز پر تشدد اور ان کے خاندانوں کو دی جانے والی دھمکیوں کی تفصیلات بیان کر چکے تھے۔

جب ہم نے بتایا کہ آج ہم دنیا بھر میں احتجاج کر رہے ہیں اور جب تک ہمارے تمام ساتھی رہا نہیں ہو جاتے ہم باز نہیں آئیں گے، تو وہ واضح طور پر پریشان نظر آئیں۔ انہوں نے مہم کی حمایت کرنے والی نمایاں شخصیات کی فہرست وصول کی اور وعدہ کیا کہ وہ اسے اپنے اعلیٰ حکام کو پاکستان بھیجیں گی۔
سپین
انقلابی کمیونسٹ تنظیم (OCR) کے کامریڈز نے میڈرڈ اور بارسلونا میں پاکستانی سفارت خانوں کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے۔ انہوں نے ہمارے کامریڈز کی رہائی کے حق میں زور دار نعرے لگائے، اور بالآخر سفیر تک ایک احتجاجی خط پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔
آسٹریا
ویانا میں پاکستانی سفارت خانے کے عملے نے ہمارے کامریڈز کے ملاقات کے مطالبے کا کوئی جواب دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے باوجود، ہم نے تقریباً دو گھنٹے تک پرزور احتجاج کیا اور اپنے مطالبات کے ساتھ ساتھ مہم کے نمایاں حامیوں کی تازہ فہرست پر مشتمل ایک خط ان کے میل باکس میں چھوڑ دیا۔
مظاہرے کے دوران ہم نے راہ گیروں سے گفتگو کی، انہیں مہم سے متعلق مواد فراہم کیا، اور کچھ مواد فروخت بھی کیا۔ یہاں تک کہ ایک خاتون، جو سفارت خانے میں اپوائنٹمنٹ کے لیے آئی تھیں، نے ہمدردی کے طور پر ہمیں ایک چھوٹا سا عطیہ بھی دیا!
جرمنی
برلن میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے ہمارے کامریڈز نے احتجاج منظم کیا۔ مظاہرے کا آغاز ایک تقریر سے ہوا جس میں گلگت بلتستان اور کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی (AAC) کی منظم کردہ عوامی تحریکوں کی کامیابیوں پر روشنی ڈالی گئی۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستانی حکمران طبقہ AAC کے کسی ایک رہنما سے نہیں ڈرتا، بلکہ اس حقیقت سے خوفزدہ ہے کہ یہ رہنما اس خطے کے محکوم عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔
اس کے بعد ہم نے اُن تین رہنماؤں کی رہائی کے حق میں نعرے لگائے جو اب بھی حراست میں ہیں، اور بین الاقوامی یکجہتی مہم کی کامیابیوں کو اُجاگر کرنے والی تقاریر کیں۔ مظاہرے کے اختتام پر ہم نے اپنا احتجاجی خط سفارت خانے میں جمع کروانے کی کوشش کی، لیکن ہمیں صرف اتنی اجازت دی گئی کہ ہم اسے میل باکس میں ڈال سکیں۔
امریکہ
امریکی کامریڈز نے ڈے آف ایکشن کے لیے مظاہروں اور فون بینکنگ کا انتظام کیا۔ نیویارک سٹی، واشنگٹن ڈی سی، شکاگو، اور لاس اینجلس میں سفارتی عمارات کے باہر مظاہرے کیے گئے، جن میں تقاریر، نعرے بازی اور پلے کارڈز شامل تھے۔ نیویارک اور ڈی سی میں قونصلیٹ کے عملے کو درخواستیں جمع کروائی گئیں، جبکہ لاس اینجلس میں کامریڈز نے قونصلیٹ میں درخواست دینے کی کوشش کی، مگر عمارت کو ان کے لیے بند کر دیا گیا۔ اس کے باوجود، وہ عمارت کے باہر احتجاج کرتے اور تقاریر کرتے رہے۔
جو کامریڈز مظاہروں میں شریک نہ ہو سکے یا جن کے علاقوں میں کوئی سفارتی عمارت موجود نہیں تھی، ان سے کہا گیا کہ وہ قریبی قونصلیٹ یا سفارت خانے کو فون کر کے گرفتار شدہ کامریڈز کی رہائی کا مطالبہ کریں۔ فون بینکنگ کا اہتمام سیاٹل، ڈلاس، ہیوسٹن، بوسٹن اور دیگر کئی چھوٹے شہروں میں بھی کیا گیا۔
ہمیں موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق، کامریڈز اس مہم کو جتنا عرصہ بھی درکار ہو جاری رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں، اور وہ اس بات کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں جو کہ عالمی سامراجیت کے عفریت کا مرکز ہے اور اسلام آباد کے جرنیلوں کا بڑا سرپرست ہے، ایک مضبوط مہم کا ہونا کتنا ضروری ہے۔
نیویارک شہر
واشنگٹن، ڈی سی
شکاگو
کینیڈا
کینیڈا میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی (RCP) کے کامریڈز نے ٹورنٹو، مونٹریال اور اوٹاوا میں مظاہرے منظم کیے، جن میں AAC-GB کے رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ دارالحکومت اوٹاوا میں کامریڈز نے پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے احتجاج کیا اور سفارتی عملے کے ساتھ مختصر گفتگو کرنے میں کامیاب رہے۔
یہ بات واضح ہے کہ ہماری مہم سے پاکستانی ریاست کی قوتیں بوکھلاہٹ کا شکار ہو رہی ہیں!
مونٹریال
ٹورنٹو
پولینڈ
30 جولائی کو، ‘Czerwony Front’ کے ممبران نے وارسا، کراکوف، تورون اور وروتسواف سے آ کر پاکستانی سفارت خانے کے سامنے گلگت بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی کے قید کارکنان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک مظاہرہ منظم کیا۔
تقاریر کے دوران کامریڈز نے سیاسی قیدیوں کی موجودہ حالت پر روشنی ڈالی، گلگت بلتستان میں ریاستی جبر کا ذکر کیا، اور عوامی ایکشن کمیٹی کی جدوجہد کو بیان کیا۔ انہوں نے محنت کش طبقے کے درمیان بین الاقوامی یکجہتی اور اس احتجاج کی عالمی نوعیت پر زور دیا۔

اس بات پر خاص توجہ دلائی گئی کہ سرمایہ دارانہ ریاستیں چاہے یورپ میں ہوں، مشرقِ وسطیٰ میں یا ایشیا میں — سبھی جبر کے ایک جیسے اوزار رکھتی ہیں۔ سرمایہ داروں کے مسلح اداروں کا مقابلہ صرف محنت کش طبقے کی بین الاقوامی یکجہتی ہی سے ممکن ہے۔
سوئٹزرلینڈ
سوئٹزرلینڈ میں RCI کے سیکشن نے برن میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے احتجاج منظم کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں تقریباً 20 ارکانِ پارلیمنٹ اور ٹریڈ یونین رہنماؤں کی حمایت حاصل ہوئی — جن میں قومی اسمبلی کے تین ارکان بھی شامل تھے۔ ان میں سے بعض نے براہِ راست سفارت خانے کو احتجاجی خطوط بھی ارسال کیے۔
حسبِ معمول، اس بار بھی پاکستانی سفیر اور ان کا عملہ پردوں کے پیچھے چھپ کر ہمیں دیکھ رہا تھا۔ وہ ہم سے چھپ سکتے ہیں، لیکن ہمارے پیغام سے نہیں — جو ہم نے بلند آواز میں، پوری وضاحت کے ساتھ پہنچایا: جب تک AAC-GB کے تمام سیاسی قیدی اپنے گھروں کو واپس نہیں آ جاتے، ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے!
بیلجیم
بیلجیم میں کامریڈز نے برسلز میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کیا، جہاں انہوں نے احسان علی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ احتجاج میں کی گئی تقریر میں پاکستانی ریاست کی شدید مذمت کی گئی کہ وہ بھارت کے ساتھ تنازعے کو جواز بنا کر جمہوری حقوق کو کچل رہی ہے، اور سیاسی کارکنوں کوغلط طور پر ”دہشت گرد“ قرار دے رہی ہے۔
ہم پوری قوت اور وضاحت کے ساتھ کہتے ہیں: اصل دہشت گرد وہ جرنیل اور سرمایہ دار سیاست دان ہیں جو اس وقت اقتدار پر قابض ہیں!
برازیل
برازیل میں انقلابی کمیونسٹ تنظیم (OCI) کے کامریڈز نے برازیلیا اور ریو ڈی جنیرو میں پاکستانی سفارتی عمارات کے باہر جارحانہ اور انقلابی مظاہرے کیے۔
کامریڈز کو بائیں بازو اور مزدور تحریک کے وسیع حلقوں سے خاصی کامیابی کے ساتھ حمایت حاصل ہوئی، جہاں درجنوں مزدور یونینوں کی برانچوں، معروف سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں نے مہم کی توثیق کی،جن میں سوشلزم اینڈ لبرٹی پارٹی (PSOL) کے رکنِ پارلیمان ’گلاوبر براگا‘بھی شامل ہیں۔