یورپی اتحاد کو تار تار کرتی کرونا وبا

|تحریر: جوش ہالرائڈ، ترجمہ: تصور ایوب|

کرونا وائرس کی وبا کا مرکز یورپ منتقل ہونے کے ساتھ ہی خطے کو دوسری عالمی جنگ کے بعد اب تک کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ اس دباؤ کے تحت نام نہاد یورپی اتحاد کے تمام برج ٹوٹنے کے قریب ہیں۔

ایک ایسے وقت میں، جب بین الاقوامی یکجہتی اور تعاون کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، یورپی ریاستیں اپنے بارڈر بند کر رہی ہیں، امداد روک رہی ہیں، جبکہ آنے والا بحران جیسا کہ ہم جانتے ہیں نہ صرف یورو کے بلکہ یورپی یونین کے ٹوٹنے کے امکانات کو مزید مضبوط کر دے گا۔

بند سرحدیں

باہر سے یورپ کی طرف اور یورپ کے اندر ”شنجن“ کے خطہ میں نقل و حرکت کو معطل کر دیا گیا ہے، لیکن یہ معطلی یورپی یونین کی مداخلت کے نتیجے میں عمل میں نہیں آئی، بلکہ جب 17 مارچ کو یورپی کمیشن نے اپنے بلاک کے بارڈر باقی دنیا کیلئے بند کیے، اس سے پہلے ہی بہت سی یورپی حکومتیں یکطرفہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنے قومی سرحدیں بند کرچکی تھیں اور اپنی شنجن رکن ریاستوں کیلئے بھی داخلے پر پابندی لگا چکی تھیں۔

آزادانہ نقل و حرکت، جو کہ یورپی یونین کا بنیادی ستون ہے، کرونا وبا کے باعث معطل ہو کر رہ گئی ہے۔

13 مارچ کو چیک ریپبلک نے اپنے بارڈر بند کرنے کا اعلان کیا اور تا دم تحریر (25 مارچ) بشمول جرمنی، اٹلی اور فرانس 26 میں سے 21 شنجن رکن ریاستیں اپنے بارڈر بند کر چکی ہیں۔ یہ ایک ایسا امر ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، حتیٰ کہ 2015ء میں جب مہاجرین کا بحران اپنے عروج پر تھا تب بھی شنجن ریاستوں میں سفری پابندیاں چند ایک علاقوں میں تھیں اور ان کی مدت بھی بہت کم تھی۔

اس بحران کی گھمبیرتا بہت زیادہ ہے جس نے لوگوں کی نقل و حرکت کی آزادی کو ختم کردیا ہے، ابھی فی الوقت تو اسے ایک عارضی اور ایمرجنسی اقدام قرار دیا جا رہا ہے، لیکن ایسے وقت میں جین کلاڈ جنکر کے وہ الفاظ یاد کرنا بہت ضروری ہیں جو اس نے مہاجرین کے بحران کے دوران بطور یورپی کمشنر کہے تھے:

”شنجن پالیسی سے دوری کا مطلب ہے، کم روزگار اور کم معاشی بڑھوتری۔ شنجن پالیسی، محنت کشوں کی بلا روک ٹوک نقل و حرکت اور یورپی شہریوں کے بلا روک ٹوک سفر کے بغیر یورو کا کوئی جواز نہیں بنتا۔“

سرحدیں دوبارہ کھولنے کیلئے کوئی تاریخ نہیں دی گئی اور اس معاملے پر یورپی کمیشن کچھ نہیں کہہ سکتا، وہ صرف قومی حکومتوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدام پر صرف رائے دے سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یورپی عوام کی نقل و حرکت اور اس کے ساتھ ساتھ یورو اور ایک منڈی کی قسمت اس وقت 26 قومی حکومتوں کے ہاتھ میں ہے جو اپنے ملکوں میں موجود قوم پرستوں اور تحفظاتی رجحان رکھنے والی قوتوں کے مستقل دباؤ میں صرف اپنے مفادات کے تحفظ(دوسروں کی قیمت پر) کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں۔

کرونا وائرس کی وبا کی ممکنہ مدت اور ان خوفناک اثرات کو دیکھتے ہوئے جو یہ پہلے ہی ڈال رہی ہے، سٹیٹس کو کی جانب تیزی سے لوٹنے کے امکانات ختم ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ایسے وقت میں (وبا کے بعد) نقل و حرکت پر پابندی کے حامی کسی چھوٹے سے گروپ کی جانب سے بھی شنجن ریجن میں نقل و حرکت کو دوبارہ بحال کرنے کی مخالفت، شنجن ریجن کا وجود خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ صرف یہ واحد عمل پورے کی پورے یورپی یونین کیلئے اس کی بقا کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔

تجارت بند

کرونا وائرس کی آمد سے اب تک ان مشہور ”چار آزادیوں“ میں صرف لوگوں کی نقل و حرکت ہی نہیں جو خطرے سے دوچار ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اشیاء کی تجارت میں آنے والی رکاوٹ نمایاں ہے۔ بہت سی رکن ریاستوں نے طبی ساز و سامان کی برآمد پر پابندیاں لگا دی ہیں اور جرمنی تو اس کام میں اتنا آگے نکل چکا ہے کہ اس نے سرجیکل ماسک کی برآمد کو بھی روک دیا ہے، جس پر دوسری رکن ریاستوں نے جرمنی سے احتجاج بھی کیا ہے۔

سرحدوں کے آر پار آزاد تجارت یورپی یونین کی معاشی بنیاد ہے، جس کے بغیر ایک منڈی کا تصور ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اگر یورپ کی سب سے مضبوط معیشت (جرمنی) آزاد تجارت کو روکنے کے اقدامات کرنے پر مجبور ہے تو اس سے اس بحران کی گہراۂ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جرمنی کا یہ اقدام پورے کے پورے تجارتی بلاک میں تحفظاتی اقدامات کے مزید بڑھنے کا سبب بنے گا، جیسے جیسے چھوٹی قومی ریاستیں اپنے مفادات کے تحفظ کی کوششیں کریں گی۔

ایسے میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا اب واقعی یورپی یونین کا کوئی عملی وجود بھی ہے یا نہیں جبکہ اس کا سب سے بنیادی اصول (وقتی طور پر ہی سہی) ختم ہو چکا ہے۔ حقیقت میں یورپی یونین کا کوئی اصول نہیں ہے، ان اصولوں کو بڑے کھلاڑی جب چاہیں بدل یا توڑ مروڑ دیتے ہیں۔ جبکہ یورپی یونین کے اپنے اداروں کی کچھ نہیں چلتی۔ نتیجتاً یورپی یونین، سادہ الفاظ میں یورپی طاقتوں کے مابین ایک سمجھوتہ ہے جس کے مطابق کسی طرح کا اتحاد ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ لیکن اس درجے اور شدت کے بحران کے زیر اثر اس کے چیتھڑے اڑنا شروع ہو چکے ہیں۔

یکجہتی

یورپی یونین میں پیدا ہوتے اس تنازعے نے یورپی سرمایہ داری کے دور اندیش نمائندوں کو ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے جو پورے بلاک میں ”اتحاد“ اور ”یکجہتی“ جیسے نعروں کا راگ الاپتے پھر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ فنانشل ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں یورپی لیڈران سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ ”اپنے قول اور فعل کو ہم آہنگ کریں“ اور اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ”تعاون اور ایک دوسرے کا بوجھ بٹائے بغیر ایک مضبوط یونین کے اصول بے معنی ہوجاتے ہیں۔“

لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی بحران کے وقت میں یورپی ”یکجہتی“، ونٹیلیٹرز اور فیس ماسک سے بھی بڑھ ناپید ہو چکی ہے، جس کا اندازہ اٹلی کے عوام کو بخوبی ہو چکا ہے۔ اب تک لگ بھگ ساڑھے 12ہزار ہلاکتوں کے ساتھ اٹلی اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ طبی خدمات اور صحت کے شعبہ کے استحکام کیلئے اٹلی نے فروری میں یورپی یونین سے طبی ساز و سامان کی اپیل کی تھی، جس کا جواب یورپی یونین کے کسی ایک ملک نے بھی نہیں دیا۔ ایسے دوستوں کے ہوتے ہوئے دشمنوں کی بھلا کیا ضرورت ہے؟

یورپی یونین میں سے کوئی بھی اٹلی کی مدد کو نہیں آیا۔ ایسے دوستوں کے ہوتے بھلا دشمنوں کی کیا ضرورت!

اور آخر میں یہ جرمنی یا فرانس نہیں بلکہ چین تھا جو اٹلی کو بچانے آیا اور 31 ٹن سامان اور عملے بشمول حفاظتی آلات سے لدا ہوا ہوائی جہاز بھیجا، بعینہ وہی سامان جسے جرمن ریاست نے اپنے بارڈر پر روک لیا تھا۔ چین کی اس انداز میں مداخلت نہ صرف یورپی سرمایہ داری کے مکروہ زوال کو واضح کرتی ہے بلکہ یورپی یونین کی مالدار شمالی ریاستوں اور اٹلی جیسے ممالک میں دراڑوں کو بھی وسیع کر رہی ہے اور اٹلی چین کے قریب سے قریب تر ہوتا جارہا ہے۔

اور اٹلی وہ واحد ملک نہیں ہے جو اس بحران کے وقت میں چین کی طرف دیکھ رہا ہے بلکہ سربیا کے صدر، وہ ملک جو 2009ء سے یورپی یونین میں شمولیت کیلئے مذاکرات کر رہا ہے، نے ایک بہت حیرت انگیز بیان دیا اور یورپی ممالک کے طبی آلات پر برآمد کی پابندی کی مذمت کی اور اعلان کیا کہ ”یورپی یکجہتی“ کا کوئی وجود نہیں رہا۔ وہ کاغذ پر موجود ایک دیو مالا تھی۔ میں نے ان کو ایک خصوصی خط لکھا ہے جو مدد کر سکتے ہیں اور وہ صرف اور صرف چین ہے۔“

اور ابھی یہ بحران کی صرف شروعات ہے۔ جیسے جیسے اٹلی جیسی صورت حال پورے براعظم میں پھیلے گی، یورپی پراجیکٹ کے مرکز میں موجود مرکز گریز قوتیں اس کا شیرازہ بکھیرنے کی طرف جائیں گی۔ اس امر کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ واقعات کے بڑے دباؤ کے زیر اثر یورپی یونین میں بڑی دراڑ پڑ جائے لیکن یورپ کے حکمران خاص کر جرمن اور فرانسیسی سرمایہ دار اس دراڑ کو پُر کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، لیکن جس ہونی کو وہ نہیں ٹال سکتے وہ آنے والا معاشی بحران ہے جو یورپی معیشت اور یورو کو ڈبو کے رکھ دے گا۔

معاشی بحران

جیسے ہی وائرس پھیلا ہے، عالمی معاشی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ اشیاء کی رسد شدید متاثر ہوئی ہے اور مانگ گر چکی ہے کیونکہ تمام ممالک ہی وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کیلئے سماجی تفاصل کے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ یورپ ایک گہرے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس مہینے کا یورپی پرچیزنگ مینیجر انڈیکس (PMI)، جو منڈی کی حالت بتاتا ہے، 1998ء میں اپنے آغاز سے اب تک سب سے نیچی سطح پر رہا۔ گولڈ مین ساکس کے مطابق اگلی سہ ماہی میں خطے کی معیشت گیارہ فی صد کے حساب سے سکڑے گی۔

معاشی انہدام سے بچنے کے خوف سے ریاستوں نے بڑے پیمانے پر کینیشین پیکجز شروع کر دئیے ہیں، اس امید کے ساتھ کے بحران کی حدت سے ہر ممکن حد تک بچا جا سکے۔ فرانس نے 45 ارب یورو کے ”امدادی پیکج“ کا اعلان کیا ہے جبکہ اٹلی اپنے اخراجات کو 25 ارب یورو تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ جرمن حکومت، جو اپنی کنجوسی کی وجہ سے مشہور ہے نے بھی 150 ارب یورو کے نئے قرضے اٹھانے کا اعلان کیا ہے تاکہ بحران سے نمٹا جا سکے۔

بڑے پیمانے پر ریاستی اخراجات، گرتے ہوئے معاشی حجم اور ٹیکس وصولیوں کا امتزاج پہلے سے قرضوں میں جکڑی ہوئی ریاستوں کے مالیاتی کھاتوں پر بہت بڑے اثرات ڈالے گا۔ کیپیٹل اکنامکس کے ایک تخمینے کے مطابق پورے خطے میں بجٹ خسارہ 10 سے 15 فی صد تک بڑھ جائے گا جس سے ایک بار پھر 2009ء کی طرح یورو کے قرضوں کے بحران کے خطرات بڑھ جائیں گے، جس نے 2009ء میں یونان کو یورو سے ہی باہر کر دیا تھا۔

لیکن اس بار بحران کا سب سے زیادہ شکار یونان نہیں بلکہ اٹلی ہے،جی ہاں، یوروزون کی تیسری بڑی معیشت اور یورپی یونین کا بانی رکن اٹلی۔ مارچ کے اوائل میں ہی اٹلی کے بانڈز پر شرحِ منافع نے بڑھنا شروع کر دیا، اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ اتنا مہنگا ہو سکتا ہے کہ اٹلی کیلئے مزید رقم ادھار لینا تو دور کی بات ہے اپنے پہلے کے 2.06 ٹریلین یورو کے قرضوں کو برقرار رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔

ان تباہ کن مضمرات کو دماغ میں رکھتے ہوئے یورپی سنٹرل بینک نے اپنے 750 ارب یورو کے بانڈ خریدنے کے ”دیوہیکل“ پروگرام کا اعلان کیا ہے تاکہ اٹلی جیسی جدوجہد میں مصروف رکن ریاستوں کیلئے قرض لینے کی قیمت کو کم کیا جا سکے اور مشترکہ کرنسی کو مستحکم کیا جا سکے۔ یورپی سنٹرل بینک کی صدر کرسٹین لیگارڈ نے اپنے سخت موقف میں ڈرامائی تبدیلی کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ ”ہم ہر حال میں یورو کو بچانا چاہتے ہیں لیکن یورپی سنٹرل بینک کی جانب سے دیا جانے والا لا متناہی پیکج بھی یورو کو آنے والے بحران سے بچانے کیلئے نا کافی ہو گا۔“

مزید حملے

ایک عشرے کی نام نہاد بحالی کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی 2009ء کے بحران کے پیدا کردہ کسی ایک بنیادی مسئلے کو بھی حل نہیں کیا جا سکا۔ بلکہ حقیقت میں یورپ کی زیادہ تر ریاستیں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ 2009ء میں اٹلی کا ریاستی قرضہ جی ڈی پی کے 116.6 فی صد کے برابر تھا اور 2018ء میں یہ 134.8 فی صد تھا۔ یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس بحران میں اٹلی کے جی ڈی پی کے مقابلے میں قرضوں میں 20 سے 50 فی صد کا اضافہ ہو سکتا ہے جو اس کو یونان والی عدم استحکام کی صورت حال میں لے جائے گا۔

اور ابھی یہ صرف ریاستی قرضوں کی بات ہورہی ہے کارپوریٹ قرضے اس کے علاوہ ہیں جو 2009ء سے اب تک بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے کیونکہ 2009ء میں یوروزون کو بحران سے نکالنے کی کوشش میں کمپنیوں کو سستے قرضوں کی لت لگ چکی ہے۔نتیجتاً مزید قرضے لینے کا پروگرام، جس پر یورپی سنٹرل بینک تکیہ کر رہا ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہے کہ اس بحران کو سرے سے ختم کرنے کی بجائے وقتی طور پر ٹال دے۔

مزید برآں، آنے والا عالمی معاشی بحران یورپ کو 2008-09 کے بحران کے مقابلے میں زیادہ زوردار جھٹکا دے گا۔

جرمنی، جو کہ اب تک کی یورپ کی سب سے مضبوط معیشت ہے، پچھلے بحران کے دباؤ سے اپنی برآمدات پر مبنی معیشت کی بدولت نسبتاً محفوظ رہی تھی۔ لیکن اب یہ مضبوطی اپنے الٹ میں بدل چکی ہے، پیداوار کرونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے مہینوں پہلے ہی گر چکی تھی۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے سب سے بڑے بحران کے ہنگام میں نک چڑھا جرمن حکمران طبقہ جنوبی کمزور معیشتوں کو سستے قرضوں کی لامحدود مہلت نہیں دینا چاہے گا، جیسا اس نے 2009ء میں کیا تھا جب جرمن اور دوسرے شمالی سرمایہ داروں نے ”سست“ اطالوی، یونانی اور پرتگیزیوں کے قرضے ادا کرنے پر ماتم کرنا شروع کر دیا تھا۔ اب کے یہ حقارت آمیز راگ زیادہ الاپا جائے گا جبکہ جرمن کرسچن ڈیموکریٹ پہلے ہی بحران اور قوم پرست AfD کے دباؤ میں ہے۔

دوسرے یورپی اداروں کی طرح یوروزون نے بھی اپنے ہی اصولوں کو معطل کر دیا ہے اور اپنے بجٹ کے اصولوں میں رکن ریاستوں کیلئے کرونا سے نمٹنے کیلئے ”زیادہ سے زیادہ لچک“ کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن یہ صرف ایک عارضی اقدام ہے۔ اور وہ وقت زیادہ دور نہیں جب اطالوی عوام اور محنت کشوں سے یہ توقع کی جائے گی کہ وہ بینکاروں کی بحران کے دوران دکھائی جانے والی نام نہاد ”سخاوت“ کی قیمت ادا کریں۔

اپنے بجٹ خسارے کو مطلوبہ 3 فی صد پر لانے کیلئے اٹلی کی حکومت عوامی خدمات پر مزید کٹوتیاں لگائے گی اور کام کے حالات مزید تنگ کرے گی جبکہ آبادی پہلے ہی کرونا کی آفت میں بلک رہی ہے، جس کا نتیجہ ایک سماجی اور سیاسی بحران کی شکل میں نکلے گا جو یورو کے اختتام کا سبب بن سکتا ہے۔

12-13 مارچ کو ہونے والے ایک اطالوی سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ دو تہائی اطالوی شہری یہ سمجھتے ہیں کہ یورپی یونین میں رہنا ”نقصان دہ“ ہے جبکہ نومبر 2018ء میں 47 فیصد اطالوی ایسا سمجھتے تھے۔ اگر اس ضرورت کے وقت اٹلی کو نظر انداز کیا گیا تو اطالوی محنت کشوں کو (اطالوی حکومت کی جانب سے) اس بحران کی قیمت ادا کرنے پر زور دیا جائے گا، ایسی صورت حال میں اٹیگزٹ (بریگزٹ کی طرح) سے بچنا ناممکن ہو جائے گا۔ اور اگر ایسا ہوا تو یورپی یونین ختم ہو جائے گا۔

ایک سوشلسٹ یورپ کی جانب بڑھنا ہو گا

حقیقت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے سر اٹھانے والے یہ بحران محض کرونا وائرس کی وجہ سے نہیں ہیں۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ بحران یورپی پراجیکٹ میں موجزن بنیادی تضادات کو ننگا کر رہا ہے۔ جو ہم آج دیکھ رہے ہیں یورپی یونین کے سالوں سے مجتمع تضادات کے کھلنے کا ایک نیا مرحلہ ہے۔

لبرلز کے تعصب سے قطع نظر، سرمایہ دارانہ بنیادوں پر یورپ کا اتحاد ممکن تھا اور نہ ہی کوئی ترقی پسندانہ اقدام۔ بحران کے وقتوں میں یہ چیز ناگزیر ہے کہ ہر سرمایہ دارانہ ریاست دوسروں کی قیمت پر اپنے مفادات کا تحفظ کرے گی۔ اور آج ہم یورپی یونین کے ”اتحاد“ کو ایک معاشی اور انسانی بحران کے دوران ننگا ہوتا دیکھ رہے ہیں، وہ بحران جو لاکھوں کی زندگیاں لینے اور کروڑوں کی برباد کرنے کے درپے ہے۔
انسانیت کے مستقبل کا یہ تقاضا ہے کہ ہم ایک ایسا نعم البدل ڈھونڈیں جو انسانیت کو اس ڈراؤنے خواب سے نجات دلا سکے۔

یورپ کے وسائل اور ٹیکنالوجی کو فوری طور پر نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کی صحت عامہ کے اس بحران سے نمٹنے کیلئے حرکت میں لایا جا سکتا ہے، اگر پیداوار اور اس کی تقسیم کو تعقلی اور جمہوری بنیادوں پر چلایا جائے۔ لیکن سرمایہ داری میں پوری دنیا کیلئے تو درکنار ایسا کسی ایک کیلئے بھی سوچا نہیں جا سکتا۔

بینکاروں کی حکومت میں یورپ تباہ ہو چکا، اب یورپ کی ایک سوشلسٹ تبدیلی کا وقت ہے۔

Comments are closed.