پاکستان: کرونا اور کنسٹرکشن انڈسٹری‘ مزدوروں کی جانوں پر منافعوں کو ترجیح!

|تحریر: محمد عمر|

کرونا لاک ڈاؤن کے باوجود کئی سائتوں پر بغیر کسی حفاظتی اقدامات کے کام جاری ہے۔ فائل فوٹو

میرا تعلق پاکستان کی کنسٹرکشن انڈسٹری سے ہے اور آج کرونا وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا دسواں دن ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کنسٹرکشن انڈسٹری سے وابستہ انجینئرز، سب انجینئرز، فورمین اور مزدوروں میں بے چینی میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی کچھ بنیادی وجوہات ہیں جن پر روشنی ڈالنا میرا فرض بنتا ہے چونکہ میں خود اسی صنعت سے وابستہ ہوں اور گزشتہ چھ برس سے ایک پرائیوٹ فرم کے ساتھ بطور پروجیکٹ انجینئر منسلک ہوں۔ جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان میں گزشتہ دو برسوں سے کنسٹرکشن کی صنعت زوال کا شکار ہے اور یہ زوال صرف پاکستان کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کا یہی حال ہے۔ کرونا وبا اور اس کے تدارک کے لیے ہونے والے لاک ڈاؤن نے اس صنعت کے ساتھ منسلک محنت کشوں کے حالات پر جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ مزدوروں کی بھاری اکثریت کے گھروں میں نوبت فاقوں تک آچکی ہے۔ کچھ ماکان لاک ڈاؤن میں بغیر کسی حفاظتی اقدامت کے سائٹیں چلا رہے ہیں جن کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔

پاکستان کی پرائیوٹ انڈسٹری، جن کے مالکان صرف اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں، ان کو اپنے ملازمین خواہ وہ ڈگری ہولڈر انجینئر ہوں یا سائیٹ پر کام کرنے والا مزدور، ان کو صرف اپنے منافع سے مطلب ہے۔ میں آپ کی غلط فہمی دور کرتا چلوں کہ ابھی میں کرونا سے پہلے کے حالات بیان کر رہا ہوں۔ اس کنسٹرکشن کی مارکیٹ سے وابستہ لوگوں کی مجبوری ہے کہ ان کو صرف تنخواہ کے لیے بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی دینے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ بارہ گھنٹے تو وہ ہیں جو مالکان نے بتایا ہوتا، حقیقت میں سائیٹ پر 14-15 گھنٹے کام کرنا معمول کی بات ہے اور معاوضے میں صرف تنخواہ ملتی اورتنخواہ بھی کیا (اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف)۔ مزدوروں کو تو چھوڑئیے آپ، یہاں پر انجینئرز اور ٹیکنیکل سٹاف کے لیے بھی نہ ہی کوئی میڈیکل کی سہولت ہے اور نہ پراویڈنٹ فنڈ اور گریجویٹی کا کوئی تصور۔ مستقل روزگار کی بات کرنا ہی مذاق کے مترادف ہے۔ محنت کشوں کے لیے سوشل سکیورٹی اور بونس تو دور کی بات رہی۔

اب بات کرتے ہیں کرونا اور اس کے اثرات کی۔ ایک طرف تو مارکیٹ میں مکمل خاموشی ہے اور بے یقینی کی کیفیت کی وجہ سے سرمایہ داروں کا اپنا سرمایہ چھپانا اور حکومت کا بغیر کسی پلاننگ کے لاک ڈاؤن کرنا ہے۔ کہنے کو تو لاک ڈاؤن ہے مگر کئی کمپنیاں سائٹیں بند کرنے سے انکاری ہیں۔ آج بھی جس کمپنی میں میں کام کرتا ہوں، اس کی دو سائٹیں لاک ڈاؤن کے باوجود چل رہی ہیں۔ ایک پرائیوٹ سائٹ پنجاب میں اور ایبٹ آباد میں ایکسپریس وے پر کام بھی جاری ہے جو کہ ایک سرکاری پروجیکٹ ہے۔ المیے کی بات تو یہ ہے کہ بڑی بڑی کنسٹرکشن کمپنیوں کے مالکان کو مزدوروں اور سائٹ سٹاف کی کوئی فکر نہیں۔ فکر ہے تو صرف اپنے منافعوں کی۔ لیکن وہ شاید یہ بھول گئے کہ یہ منافع بھی سائٹوں پر کام کرنے والے انہی محنت کشوں کی بدولت ہے وہ خود تو آکر ان سائٹوں پر کام نہیں کرتے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ نہ ان مزدوروں کو کسی قسم کا کوئی حفاظتی سامان (PPEs) مہیا نہیں کی گئیں ہیں اور نہ ہی مالکان ان کو یہ سامان دینے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ محنت کش اپنے پیٹ کو بھرنے کے لیے ان مشکل حالات میں بھی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے، ایک طرف کرونا سے مرنے کا خوف اور دوسری طرف بھوک سے مرنے کا خوف۔ لیکن ایک مسلمہ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ نظام اتنا ہی بے کار اور بے بس ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی سائٹ پر تین مزدوروں کی طبیعت بھی ناساز ہوگئی اور سائٹ مکمل بند کردی گئی۔ سننے میں آیا کہ ان تینوں مزدوروں میں کرونا کی ساری علامات تھیں۔ لیکن مالکان کی سنگدلی کو دیکھئے کہ انہوں نے ان تینوں کا علاج کروانے کی بجائے راتوں رات ان کے گھر بھجوا دیا اور سائیٹ پر آکر کہتے کہ آپ سب لوگ یہاں کام کریں ہم سب یہاں موجود ہیں۔ کوئی کرونا نہیں ہے یہا ں زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جو رات زمین پر نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی باتیں شروع کر کہ کام کو دوبارہ بحال کروایا گیا۔خیر جب وزیراعظم ہی یہی کہ رہا ہو کہ سکون صرف قبر میں ہے تو باقی سرمایہ داروں اور ان کے دلالوں سے کیا امید۔ اور ایسی ہی صورتحال کم و بیش پورے پاکستان میں ہے جس میں مالکان مزدوروں کی جانوں پر منافعوں کو ترجیح دے رہے ہیں حالانکہ کنسٹرکشن انڈسٹری کا شمار غیر لازمی صنعت میں ہوتا ہے۔

آخر میں صرف یہی کہنا چاہوں گا کہ آج یہ تمام باتیں سوچ کر میرے دماغ کی نسیں پھٹنے ہی والیں تھیں تو سوچا کہ کیوں نہ اپنے ان مشاہدات کو قلم بند کر کہ اس استحصالی نظام کا مکروہ اور گندا چہرہ دکھاؤں۔ ابھی پندرہ دن کا لاک ڈاؤن ہوا ہے اور یہ تمام مالکان رونے لگ گئے کہ ہم لٹ گئے اور برباد ہوگئے اور یہ رونا بھی مگر مچھ کے آنسووں سے کم نہیں۔ کیونکہ رونے کا مقصد صرف اور صرف ملازمین سے جان چھڑوانا اورتنخواہوں میں تاخیری حربے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ایک طرف اس صنعت سے وابستہ بڑے مگر مچھ حکومت سے ریلیف لینے کے چکر میں ہیں تو دوسری طرف وزیر اعظم کے پیٹ میں بھی دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے بڑے مروڑ اٹھ رہے ہیں مگر ان دیہاڑی داروں کے لیے عملی اقدامات صفر ہیں اور اب تو واضح ہوگیا ہے کہ یہ مروڑ اپنے آقاؤں یعنی سرمایہ داروں کو ریلیف دینے کے لیے تھے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ جو نظام آفت کی اس گھڑی میں مزدورں کو 15 دن کی روٹی نہیں دے سکتا، اس نظام کو ختم کرنا ہی ضروری ہے۔

Comments are closed.