لائن مینوں کی پے در پے ہلاکتوں کے خلاف واپڈا ہائیڈرو یونین کا ملک گیر احتجاج

|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|

3 اگست بروز منگل 2021ء کو پورے پاکستان میں واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین کے زیر اہتمام واپڈا لائن مینوں کی آئے روز ہلاکتوں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔ اس سے پہلے بھی اس جیسے کئی احتجاجات ہو چکے ہیں لیکن لائن مینوں کی حادثاتی اموات ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ خاص کر سخت ترین گرمی اور بارشوں کے موسم میں حادثات کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ ہر سال تقریباً دو سو حادثاتی اموات ہو رہی ہیں اور کُل ملا کر آج تک 12 سے 15 ہزار حادثاتی اموات ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ورکرز اپنے جسم کے اعضاء جیسے بازو اور ٹانگیں گنوا کر زندگی بھر کے لئے معزور ہو چکے ہیں۔ اس سال بھی حادثاتی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ پچھلے دو ماہ میں 30 اور دو دنوں میں ایک ساتھ پانچ ورکرز کی اموات واقع ہو چکی ہیں۔

ہر بار کی طرح اس بار بھی احتجاج میں مرکزی جنرل سیکرٹری خورشید خان، لیسکو ورکر یونین کے اُسامہ طارق اور رانا شکور نے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اگر گورنمنٹ نے حفاظتی سامان مہیا نہ کیا، نئی بھرتیاں کرکے سٹاف کی کمی کو پورا نہ کیا، تو دما دم مست قلندر کیا جائے گا۔ یہی اعلان پچھلے کئی سالوں سے کیا جا رہا ہے لیکن لائن مینوں کے حالات زندگی ہیں کہ مسلسل بد سے بد تر ہو رہے ہیں۔ پورے پاکستان میں واپڈا میں ہر کمپنی کے اندر ہلاکتوں کا سلسلہ لگاتار جاری ہے جو کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

لاہور میں پریس کلب کے سامنے ایک گھنٹہ ٹریفک کو روک کر احتجاج کیا گیا اور اس کے بعد حسب دستور مزدوروں کی جان کی حفاظت کیلئے دعا مانگ کر احتجاج کو ختم کر دیا گیا۔ یہی احتجاج باقی پورے پاکستان کی کمپنیوں کے ہیڈکوارٹرز کے سامنے کیے گئے اور حکومت سے پرزور مطالبہ کیا گیا کہ وہ لائن مینوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے لئے کچھ اقدامات کرے۔ سٹاف کی کمی کو پورا کرے اور بکٹ سمیت باقی حفاظتی سامان بھی مہیا کیا جائے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ یہ سمجھتا ہے کہ اس پورے نظام کے اندر ہر مزدور اور محنت کش کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ مزدوروں کے جو نام نہاد ترجمان ہیں ان سے جب لائن مینوں کی ہلاکت کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو وہ اس میں لائن مین کو ہی موردِ الزام ٹھہرا دیتے ہیں۔ الٹا لائن مینوں پر الزام تراشی کی جاتی ہے جیسے کہ وہ لائن مینوں کے ترجمان نہ ہوں بلکہ مزدوروں کے قاتل نظام، اس نظام کے دلال حکمرانوں اور افسر شاہی کے ترجمان ہوں۔ ہمیں اس چیز کو بغور دیکھنا ہوگا کہ ان ہلاکتوں کی وجوہات آخر کیا ہیں؟

سب سے پہلے بجلی کی لائنوں پر ورکرز دو طریقوں سے کام کرتے ہیں۔ ایک طریقے میں لائن مین ایک بکٹ کرین کے اوپر با حفاظت ایک آئسولیٹ باکس کے اندر کھڑے ہو کر اپنا کام سرانجام دیتا ہے جبکہ دوسری صورت میں لائن مین ڈائریکٹ کھمبے پر چڑھ کر کام کرتے ہیں جو کہ ان کی جان کے لیے بہت زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ عوام کی حفاظت کے لیے چونکہ کھمبا ارتھ کیا گیا ہوتا ہے، تا کہ اگر بجلی کی تاریں کھمبے سے لگیں تو بغیر کسی انسان یا جانور کو نقصان پہنچائے بجلی زمین میں چلی جائے لیکن جب اس ارتھ شدہ کھمبے پر چڑھ کے لائن مین کام کرتا ہے تو یہی کھمبا اس کی موت کا سامان بن جاتا ہے اور ہائی کرنٹ لگنے پر بجلی اس کے جسم سے گزر کر اس کے جسمانی اعضاء کو جلاتے ہوئے کم مزاحمت والی ارتھ کے ذریعے زمین میں چلی جاتی ہے اور اس کی جان بچنے کا کوئی چانس نہیں رہتا۔

اگر لائن مینوں کی قیمتی جانوں کو بچانے کے لئے ان حادثات کو روکنا ہے تو اس کے لئے ”بغیر بکٹ کرین کے کام پر پابندی لگانی ہو گی“ تاکہ لائن مینوں اور دوسرے محنت کشوں کی جانیں بچائی جا سکیں۔ لیکن ان مطالبات کے حصول کے لیے محنت کشوں کو منظم جدوجہد کرنا ہوگی۔

Comments are closed.