عدلیہ کا بحران اور پنپتی عوامی نفرت

|تحریر: پارس جان|

پاکستانی ریاست کا مبینہ نظریاتی تشخص اب ایک المیے سے زیادہ مضحکے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ امت مسلمہ کی امامت کرنے کے دعویدار پاکستانی ریاست کے ان داتا اب اپنے سعودی آقاؤں کی خوشنودی سے بھی محروم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امامت تو درکنار اب ان کی چپڑاسی والی حیثیت بھی خطرے میں پڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ امریکہ کے ڈالر اور سعودی شیوخ کے تیل سے جلنے والا نظریاتی چراغ اب گل ہونے والا ہے اور بجھنے سے پہلے اس کا ارتعاش ناقابل برداشت حبس دار دھویں کے پھیلاؤ کا موجب بن رہا ہے۔ وقتی طور پر پاک سعودی تعلقات میں شاید بہتری آ بھی جائے اور یہ حالیہ تناؤ قدرے کم ہو بھی جائے مگر اب ان کے آقاؤں کی ان غلاموں کی بے لوث چاکری کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کر کے اور ان کے ساتھ سفارتی تعلقات کی استواری کا اعلان کر کے پاکستان میں ”جشن آزادی“ کی رونق کو دوبالا کر دیا۔ یہود و نصاریٰ کی مخاصمت اور اسلام کی حفاظت کی نعرے بازی پر کھڑی یہ ریاست اب اپنی بنیادوں سے لرز رہی ہے۔ مگر یہ بحران صرف نظریاتی یا موضوعی سطح تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ریاست ٹھوس اور عملی سطح پر بھی زوال سے انہدام کی طرف برق رفتاری سے سفر کر رہی ہے۔ مصنوعی بیرونی دشمنوں کا ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر اب اپنے غیر فطری وجود کا جواز زیادہ عرصے تک برقرار رکھنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ اس چرواہے کی طرح جو ہمیشہ شیر آیا شیر آیا کی آواز لگا کر لوگ جمع کر لیا کرتا تھا اور جس دن واقعی شیر آیا تو چرواہے اور اور اس کے چوپاؤں کی مدد کے لیے کوئی بھی نہیں آیا، پاکستانی ریاستی پالیسی سازوں نے بھی انڈیا اور اسرائیل کی سازشوں کا اتنا شور مچایا ہے کہ اب اگر واقعی کوئی ایسی سازش بے نقاب ہو بھی جائے تو شاید بھوکے، ننگے عوام کی ”قومی غیرت“ کو بیدار کرنے میں پھر بھی کامیاب نہ ہو سکے۔ اصل میں رسمی منطق کے بھولپن کے برعکس بیرونی خطرات ریاست کو کمزور نہیں کرتے بلکہ داخلی جبر کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ مگر پاکستانی ریاست اب اندر سے ہی اتنی کھوکھلی اور بوسیدہ ہو چکی ہے کہ داخلی اور خارجی مددگار عوامل مل کر بھی اسے زیادہ عرصے تک مصنوعی آکسیجن فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ معیشت، سیاست، ثقافت، صحافت اور اخلاقیات سمیت سماج کا ہر شعبہ ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ فوج، پارلیمان، بیوروکریسی اور عدلیہ سمیت ریاست کے تمام ادارے ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر اتنے ہلکان ہو چکے ہیں کہ اب ان کا اپنا مدافعتی نظام بھی خود ان کے خلاف ہی کام کرنے لگا ہے۔ یہ کسی بھی نامیاتی جسم کی ایسی بیماری ہوتی ہے جو اسے ہر روز قسطوں میں مارتی رہتی ہے۔ ایسے میں کچھ خوش فہموں اور ریاستی معذرت خواہوں کو ابھی بھی عدلیہ سے بطور ایک ادارہ کافی توقعات ہیں کہ وہ اس جان لیوا کیفیت سے ریاست کو نکالنے کے لیے ”ابن مریم“ کا معجزاتی کردار نبھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان توقعات کے معروضی اور موضوعی امکانات کا تفصیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

عدالت نے مجید اچکزئ کو ناکافی ثبوتوں کی بنا پر رہا کر دیا۔

معروف دانشوروں، نامور صحافیوں، گھاگھ سیاستدانوں اور مایہ ناز پروفیسروں کی ایک وسیع پرت ”عدلیہ کے تقدس“ کی دیوانی ہے۔ آخر الذکر میں نام نہاد بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے پروفیسر صاحبان خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان خواتین و حضرات کی ہونق گفتگو سن کر کبھی کبھار تو شک ہونے لگتا ہے کہ اگر ان کے دماغ کو جراحت کے ارادے سے چاک بھی کیا جائے تو ان کے اعصابی خلیوں میں سوائے کیڑوں کے فضلات کے شاید ہی کچھ باقی بچا ہو۔ آئین اور قانون کی حرمت کے یہ امین ریاست سمیت تمام تجریدات کو ان کے معروضی مواد اور بنیاد سے کاٹ کر مستقل، اٹل اور ابدی تصورات کی شفیق پرچھائیاں سمجھتے ہیں جن پر کچھ بدروحیں آسیب بن کر مسلط ہیں اور اگر کسی ”دم درود“ یعنی سامراجی ٹوٹکے یا اقوام متحدہ جیسے مہان اداروں پر براجمان دیوتاؤں کی نظرکرم ہو جائے تو اس آسیب سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی ریاست کے بارے میں اس قسم کی توہمات کی اتنی بیخ کنی کر چکے ہیں کہ بظاہر مزید گنجائش باقی نہیں بچی۔ لیکن بدقسمتی سے اب مارکس اور لینن کے لبادے میں کاؤتسکی جیسے اصلاح پسندوں کی تعلیمات کا چورن اتنا بکنے لگا ہے کہ اس سیاسی مجاہدے کی ضرورت پھر بار بار سر اٹھاتی رہتی ہے۔ اصلاح پسند دانشوروں کے خیال میں ریاست کا تاریخی فریضہ متحارب طبقات کے مابین ثالثی ہے۔ جبکہ مارکسی نظریئے کی رو سے ریاست ہر شکل میں ایک طبقے کے دوسرے طبقے پر جبر کا آلہ ہے اور ریاست کے تمام ادارے تاریخی طور پر ارتقا پذیر باہمی تقسیم کار کے ذریعے اپنے اپنے طریقے سے یہی فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ سیاسی نظام کی شکل بظاہر پارلیمانی ہو یا صدارتی، جمہوری ہو یا آمرانہ ریاست کا بنیادی کردار بہرحال یہی رہتا ہے۔ اصلاح پسند چونکہ ریاست کے ثالثانہ کردار کی وکالت کرتے ہیں اس لیے ان کے خیال میں ریاست کا سب سے مقدس ادارہ عدلیہ ہی ہوتا ہے کیونکہ عدلیہ اپنے روزمرہ کے معمول میں بھی بظاہر یہی فریضہ سر انجام دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ حقیقت ان خوش فہم اصلاح پسندوں کی سوچ سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ جب بظاہر پارلیمان میں موجود موقع پرست سیاسی لیڈروں کی جعلی حب الوطنی ننگی ہو جاتی ہے یا پولیس اور فوج کا براہ راست جبر بھی طبقاتی جبر کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے، تو ایسے میں حکمران طبقے کے سیاسی اقتداراعلیٰ کو محکوم طبقات کے لیے فطری، قابل قبول اور لازمی ثابت کونے کے لیے عدلیہ کی انتظامی امور میں براہ راست مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی گزشتہ کچھ سالوں سے مسلسل بڑھتے ہوئے جوڈیشل ایکٹوازم کو اسی تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ مگر اصلاح پسندوں کی توقعات کے برعکس اس جوڈیشل ایکٹوازم نے ریاستی بحران کو معتدل کرنے کی بجائے اسے اور بھی مہمیز کر دیا ہے اور مستقبل میں یہ بحران عدلیہ کی مقدس ہستیوں سمیت کسی کے بھی کنٹرول سے باہر ہو کر سارے ریاستی ڈھانچے کے انہدام کا موجب بن سکتا ہے۔

جب بظاہر پارلیمان میں موجود موقع پرست سیاسی لیڈروں کی جعلی حب الوطنی ننگی ہو جاتی ہے یا پولیس اور فوج کا براہ راست جبر بھی طبقاتی جبر کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے، تو ایسے میں حکمران طبقے کے سیاسی اقتداراعلیٰ کو محکوم طبقات کے لیے فطری، قابل قبول اور لازمی ثابت کونے کے لیے عدلیہ کی انتظامی امور میں براہ راست مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی گزشتہ کچھ سالوں سے مسلسل بڑھتے ہوئے جوڈیشل ایکٹوازم کو اسی تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔

گزشتہ دہائی میں عوام کی ریاست پر بداعتمادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ بظاہر سیاسی طور پر غیر فعال عام لوگ بھی پورے وثوق سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اصل میں پاکستان کو بطور ریاست افواج اور خفیہ اداروں نے یرغمال بنایا ہوا اور باقی تمام ادارے اور سیاسی پارٹیاں محض ان فوجی جرنیلوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ یہ صرف شہروں کی صورتحال نہیں ہے اور نہ ہی یہ صرف بلوچستان اور دیگر محکوم اقوام کی بھاری اکثریت کی رائے ہے بلکہ اب گاؤں کے بظاہر انتہائی پسماندہ اور ان پڑھ کسانوں کی معمول کی نشستوں میں بھی اسی قسم کی گفتگو ہو رہی ہوتی ہے اور پنجاب کے نوجوانوں کی رائے عامہ میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہے۔ ایسے میں ریاست کے سنجیدہ حلقوں کے طوطے اڑے ہوئے ہیں اور وہ ریاست پر عوام کے اعتماد کی بحالی کے لیے سرتوڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ محکوم اقوام یا مظلوم طبقات کے غم خوار ہرگز نہیں ہیں بلکہ ان کی اپنی مراعات اور عیاشیاں بھی اسی ریاست کے مرہون منت ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اب خود ان کے بھی اس ریاست کے مستقبل کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں اور زیادہ تر اپنی اولادیں اور جائیدادیں بیرون ملک منتقل کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان ممالک میں ان کی اوقات کچھ بھی نہیں اور ان کی تمام تر رعب اور شان و شوکت اسی ریاست کے دم پر ہی قائم ہے۔ اس لیے وہ خود اس ریاست کے وجود کے دفاع کے لیے اپنے ہی طبقے کے دوسرے دھڑے کے ساتھ دست و گریبان ہونے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسے عدلیہ اور فوج کی آپسی لڑائی قرار دے رہے ہیں۔ یہ بات ایک حد تک ہی درست ہو سکتی ہے۔ اصل میں عدلیہ میں ابھی بھی بڑی تعداد میں عسکری کٹھ پتلیاں موجود ہیں اور عدلیہ کے ریڈیکل ججوں کو بھی فوج کے ایک حصے کی آشیرباد حاصل ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی وقتاً فوقتاً میدان جنگ کا سا منظر پیش کرتے رہتے ہیں۔ مختلف سامراجی طاقتوں کی ریاستی معاملات میں براہ راست مداخلت بھی اس بحران کو مزید بھڑکا رہی ہے۔ ریاست کے روایتی دھڑے کا ردِعمل بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ ہر شخص، ادارے اور عوامی سوچ کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے خبط میں وہ ایک کے بعد دوسری غلطی کرتے چلے جا رہے ہیں، اور ان کے ہر ردعمل کے بعد صورتحال ان کے کنٹرول سے مزید باہر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ کبھی کسی جج کی قابلِ اعتراض ویڈیو لیک کی جاتی ہے تو کبھی کسی صحافی یا لکھاری کو دن دیہاڑے اغوا کر لیا جاتا ہے۔ اس قسم کے نیم فسطائی ہتھکنڈوں نے ریاست کی بچی کچھی ساکھ کو بھی برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ ہر وقت اخبارات کی شہ سرخیوں اور ٹی وی چینلز کی بریکنگ نیوز میں رہنے والے اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان جہاں ایک طرف بحیثیت مجموعی اپنے طبقے کے بہتر اور محفوظ مستقبل کی لڑائی لڑ رہے ہیں وہیں اپنی انفرادی بقا کے لیے بھی موجودہ نظام کی ”درستگی“ کے لیے کوشاں ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی اجتماعی ثقافت اور نفسیات کا بنیادی اصول ہی اپنی ذات اور خاندان کے لیے زیادہ سے زیادہ دولت، مراعات، اور تعیش کا سامان جمع کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح، اعلیٰ عہدے اور مراعات اس وقت تک بے معنی اور بے وقعت سمجھے جاتے ہیں جب تک ان کی بھرپور نمائش نہ کر لی جائے۔ ایسے میں عدلیہ اور افسرشاہی کے اعلیٰ عہدیداران کی اگر نجی محفلوں تک کی ویڈیوز لیک ہو رہی ہوں تو اپنی دولت اور جاہ و جلال کی نمائش کے راستے مفقود ہونے لگتے ہیں اور ان عالی مرتبت خواتین و حضرات میں بھی عدم تحفظ کا احساس شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ یہی عدم تحفظ کا احساس مزید ”درستگی“ اور اصلاح کی عملی کوششوں میں مزید اضافے کا موجب بنتا رہتا ہے۔ صرف لبرل پس منظر سے وابستہ ججوں نے ہی نہیں بلکہ انتہائی دائیں بازو کے اور شدید مذہبی پس منظر کے چند جج صاحبان بھی اس ”کارِخیر“ میں دل کھول کر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

پرویز مشرف کی نسبتاً ”لبرل“ آمریت کے دور میں اداروں کا باہمی تصادم پہلی دفعہ پوری شدت سے سیاسی افق پر نمودار ہوا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار حسین چوہدری نے پرویز مشرف کے چند ایک ”غیر آئینی“ اقدامات پر مہرِتصدیق ثبت کرنے سے انکار کر دیا تھا اور جواباً فوجی سرکار نے اپنی روایتی اور جبلی روش کا مظاہرہ کرتے ہوئے افتخار حسین چوہدری کو برطرف کر دیا جس کے بعد ایک قابل ذکر ”عدلیہ بحالی“ تحریک دیکھنے میں آئی تھی۔ وہ سارا بحران درحقیقت خطے میں امریکی سامراج کے مفادات کی نوعیت میں فوری تبدیلی کی پیداوار تھا اور جنرل ضیا الحق کی آمریت کے ذریعے بنائی گئی مذہبی بنیاد پرستی کی ریاستی کمک کو ایک نام نہاد لبرل فوجی آمر کو استعمال کرتے ہوئے ختم کرنے کی امریکی پالیسی کے ردعمل کا نتیجہ تھا۔ اس وقت جسٹس افتخار حسین چوہدری اچانک ترقی پسند نہیں ہو گئے تھے بلکی اس کے بالکل برعکس وہ ریاست کے انتہائی دائیں بازو کے مفادات کی ترجمانی کر رہے تھے۔ لیکن اس تحریک نے طلبہ اور وکلا کی نئی نسل میں کسی حد تک ”جمہوری امنگوں“ کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنے تمام تر مثبت اثرات اور امکانات کے باوجود اس تحریک میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ مشرف آمریت کا تختہ الٹ سکتی۔ یہ فریضہ بے نظیر بھٹو کی واپسی کے وقت محنت کش عوام کی وسیع تر پرتوں میں جنم لینے والی بڑے پیمانے کی سیاسی ہلچل نے سر انجام دیا تھا۔ مشرف کی ”سیاسی رخصتی“ کے بعد بھی ریاست کا انتظامی اور معاشی بحران مسلسل بڑھتا چلا گیا اور س لولی لنگڑی سرمایہ داری کی سانسیں برقرار رکھنے کے لیے انتظامی امور میں عدلیہ کی مداخلت کی ضرورت کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتی رہی۔ حال ہی میں چیف جسٹس ثاقب نثار تک آتے آتے صورتحال یہ ہو چکی تھی کہ یہ بتانا بھی آسان نہیں رہا تھا کہ موصوف چیف جسٹس ہیں یا وزیراعظم۔ اس عرصے میں اداروں کے باہمی تعلقات میں بھی مسلسل اتار چڑھاؤ آتے رہے اور بسا اوقات عدلیہ اور فوج ایک ہی پیج پر دکھائی دیئے مگر ریاست کی اپنی جینیاتی بیماری بار بار تناؤ کو جنم دیتی رہی۔ پھر 8 اگست 2016ء کو رونما ہونے والے سانحہ کوئٹہ، جس مین درجنوں وکلا جاں بحق ہو گئے تھے، کی تحقیقاتی رپورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے کھل کر خفیہ اداروں کی نہ صرف ناقص کارکردگی کو لتاڑا بلکہ دہشت گردی کی ریاستی سرپرستی کی اپنے مخصوص علامتی انداز میں نشاندہی بھی کی۔ تب سے لے کر اب تک عدلیہ میں پھر ایک سنجیدہ رجحان جنم لے چکا ہے جو تمام اداروں کی آئینی حد بندیوں میں عملداری پر زور دیتا چلا آ رہا تھا۔ مگر معیشت میں متجاوز کردار کے حامل عسکری ادارے سیاسی و عدالتی امور میں مداخلت سے کبھی باز نہیں آ سکتے۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کئی مرتبہ کراچی میں عسکری اداروں کے تصرف میں سرکاری زمینوں پر بنائے جانے والے شاپنگ مالز، پلازے اور سینما گھروں کے بارے میں سوالات اٹھا چکے ہیں مگر آج تک کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے مشرف کے خلاف تحریری فیصلے میں لکھا تھا کہ پرویز مشرف کو ملک میں واپس لا کر سرعام پھانسی دی جائے، اور اگر اس سے قبل اس کی موت واقع ہو جائے تو اس کی لاش کو تین دن تک اسلام آباد کے ڈی چوک میں لٹکا دیا جائے۔ یہ الفاظ بلاشبہ غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے اور بحران کی شدت کے بجا طور پر عکاس تھے۔ حال ہی میں نیب کے بارے میں سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں استعمال کی جانے والی زبان بھی ریاستی آقاؤں کے لیے کافی تکلیف دہ تھی۔ اس ساری صورتحال میں نظام کی ’درستگی‘ کے حوالے سے ایک دفعہ پھر عدلیہ میں Illusions پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ افتخار حسین چوہدری کے گرد بننے والی تحریک میں بھی دائیں اورنام نہاد بائیں بازو کا فوری اتحاد بن گیا تھا اور بہت سے نام نہاد انقلابی بھی ”چیف تیرے جاں نثار بے شمار بے شمار“ کے نعرے لگاتے ہوئے دکھائی دیئے تھے۔ اب بھی ایسی ہی صورتحال بن سکتی ہے۔ ایسے میں مارکس وادیوں پر پھر بھاری ذمہ داری عائد ہو گی کہ وہ طبقاتی مصالحت کی ہر ممکنہ لہر کے خلاف طبقاتی جدوجہد کی ضرورت کا دفاع کریں۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس ساری صورتحال سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کر دیا جائے اور فرقہ پروروں کی طرح فوج اور عدلیہ دونوں کو گالیاں نکال کر ہی ”انقلابی ٹھرک“ پوری کر لی جائے بلکہ مارکس وادیوں کو چاہیے کہ حکمران طبقے اور ریاستی اداروں اور دھڑوں کے ان باہمی تضادات کو انقلابی پروپیگنڈے کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کریں اور ”صبر کے ساتھ وضاحت“ کرتے چلے جائیں کہ فوج سمیت اگر تمام ادارے اپنے آئینی حدود میں بھی کام کریں تو ان کا بحیثیت مجموعی تاریخی فریضہ پھر بھی محنت کش طبقے کے استحصال کے لیے حکمران طبقے کو زیادہ سے زیادہ موزوں اور موافق حالات فراہم کرنا ہی ہو گا۔ بیروزگاری، دہشت گردی اور مہنگائی سمیت عوام کا کوئی بھی مسئلہ حل کرنا عدلیہ کے ”فرشتہ صفت“ ججوں کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ اور یہ دونوں متحارب ریاستی دھڑے جب بھی ایک دوسرے کی بدعنوانی اور لوٹ مار کو عریاں کریں تو ان حقائق اور اعدادوشمار کو استعمال کرتے ہوئے محنت کش عوام کے اجتماعی سیاسی شعور میں بڑھوتری کے عمل کو تیز کیا جا سکتا ہے۔ مگر کسی بھی فرد یا ادارے کو مسیحا یا نجات دہندہ بنا کر پیش کرنا ناقابل ِمعافی سیاسی غداری ہو گی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے بھی توقعات کے بالکل الٹ نتائج برآمد ہوئے۔ شیڈول کے مطابق 2023ء میں قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہو جائیں گے۔ ان کے مخالفین ان سے شدید خائف ہیں اور پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی بھی آئینی و غیر آئینی، اخلاقی و غیر اخلاقی حربہ استعمال کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ کی عدلیہ کے سرپرست کے طور پر تعیناتی کے راستے روک دیئے جائیں۔ آئینی ریفرنس والے معاملے میں ان کو منہ کی کھانی پڑی۔ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کونسل سمیت ملک کی زیادہ تر بار کونسلز نے اس پر شدید ردعمل دیا۔ نہ صرف یہ کہ ریفرنس خارج ہو گیا بلکہ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دفاع میں جرنیلوں کی کرپشن پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھائے۔ ”عاصم باجوہ منی ٹریل دو“ جیسا مشہورِ زمانہ ٹوئیٹر ٹرینڈ بھی ریاست کی اسی مہم جوئی کا نتیجہ تھا۔ مگر نہ تو یہ کوئی پہلی مہم جوئی تھی اور نہ ہی یہ آخری ہو گی۔ یہ ریاستی خانہ جنگی آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کرے گی۔ اور دونوں طرف سے کراس فائرنگ میں ہونے والے نقصان کی من و عن تو پیشنگوئی نہیں کی جا سکتی ہاں البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ رونما ہونے والے واقعات کے سامنے گزشتہ بڑے واقعات بھی معمولی دکھائی دیں گے۔ محنت کش عوام کے شعور پر اس کے براہ راست اثرات تو اپنی جگہ پڑیں گے ہی، وکلا سیاست کے کردار میں بھی معیاری تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ ایک وقت تھا کہ وکلا کو درمیانے طبقے کی سیانی اور متمول پرتوں میں شمار کیا جاتا تھا مگر اب سرمایہ دارانہ اجارہ داریوں اور طاقت اور دولت کے ارتکاز کے بنیادی قانون نے اس شعبے کو بھی مکمل طور پر اپنی جکڑ میں لے لیا ہے۔ زیادہ تر نوجوان وکلا در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں جبکہ نامور اور کامیاب وکلا کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بار کونسلز کے انتخابات میں اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ لگایا جاتا ہے کہ بعض اوقات قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے بھی ان کا بجٹ تجاوز کر جاتا ہے۔ نو عمر وکلا کی آنکھیں چندھیا دینے والی یہ چمک دمک وکلا میں مسلسل بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج کی نشاندہی کرتی ہے۔ اصل میں اب وکلا کو مجموعی طور پر درمیانہ طبقہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مٹھی بھر وکلا نے اتنا سرمایہ جمع کر لیا ہے کہ وہ حکمران طبقے کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایک مسلسل سکڑتی درمیانے طبقے کی پرت کے علاوہ وکلا کی بھاری اکثریت کے حالات زندگی اب محنت کش طبقے سے زیادہ مشکل نہیں ہیں۔ پیشہ وارانہ معمول کی مخصوص پراگندگی اپنی جگہ مگر ان کے طبقاتی مفادات ہر گزرتے دن کے ساتھ محنت کشوں سے منسلک ہوتے جا رہے ہیں۔ ریاستی پالیسی ساز اسے سمجھتے ہیں اور اسی لیے وکلا سیاست پر اپنی کٹھ پتلیوں کو ہی مسلط رکھنا چاہتے ہیں تاکہ نظام کے خلاف نفرت کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اس صورتحال کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ان وکلا میں اپنے پیشہ ورانہ پرائیڈ (تفاخر) کو بڑھاوا دینے کے علاوہ وکلا کی قیادت کے پاس کوئی سیاسی پروگرام ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وکلا میں بہت متعفن قسم کی لمپنائزیشن موجود ہے اور اسے دانستہ طور پر فروغ بھی دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں پنجاب انسٹیٹیوت آف کارڈیالوجی پر وکلا کا حملہ اس لمپنائزیشن کی افزودگی اور ریاستی پشت پناہی کی بہترین مثال تھا۔ مذہبی بنیاد پرستی سے لے کر قومی تعصب تک کو وکلا میں شعوری طور پر بڑھاوا دیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے سالانہ اربوں روپے بار کونسلز پر خرچ بھی کیے جاتے ہیں۔ لیکن مسلسل بدلتے ہوئے حالات اور معاشی تناؤ کے باعث اب ریاست کے لیے ان پالیسیوں کے کامیاب تسلسل کو برقرار رکھنا مشکل سے ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ وہی پیشہ وارانہ پرائیڈ جس کے لولی پاپ کے ذریعے وکلا میں لمپنائزیشن کو فروغ دیا جاتاہے، وہی وکلا کی بھاری اکثریت میں عسکری اداروں کی عدالتی امور میں بے جا اور غیر آئینی مداخلت کے خلاف نفرت کو تیزی سے بڑھا رہی ہے۔ ایسے میں کسی بھی بڑی ریاستی مہم جوئی کے نتیجے میں ماضی کی طرز پر وکلا کی قابل ِذکر سیاسی مزاحمت جنم لے سکتی ہے۔ اب ایک تبدیل شدہ عہد میں اس مزاحمت کا کردار بھی مختلف ہو گا۔ مارکس وادیوں کو اس میں مداخلت کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ نوجوان وکلا کو انقلابی نظریات پر جیتنے کے وسیع مواقع ملیں گے بلکہ ان تضادات کی طبقاتی وضاحت کرتے ہوئے اسے بالعموم مزدور تحریک کے ساتھ جوڑنے اور محنت کشوں کے سامنے ریاست کے طبقاتی کردار کو عریاں کرنے کے مواقع بھی موجود ہوں گے۔ موقع پرست اصلاح پسندوں کے ”زندہ باد، زندہ باد“ اور فرقہ پروروں کے ”مردہ باد مردہ باد“ کے نعروں کے برعکس ایک واضح طبقاتی اور انقلابی پالیسی ہی مارکس وادیوں کو اس صورتحال سے سیاسی طور پر مستفید ہونے کی صلاحیت عطا کرے گی۔

Comments are closed.