افغانستان میں زلزلہ: رجعتی جبر اور سامراجی محاصرے میں محنت کش عوام کی بربادی

|تحریر: زلمی پاسون|

31اگست 2025ء کو افغانستان کے مشرقی حصے میں ایک خوفناک زلزلہ آیا جس کی شدت 6.0 ریکارڈ کی گئی۔ اس زلزلے سے سب سے زیادہ تباہی صوبہ کنڑ میں ہوئی، خاص طور پر نورگل ضلع اور آس پاس کے دیہات مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ اس کے علاوہ ننگرہار اور لغمان صوبے بھی نقصان کی لپیٹ میں آئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اب تک تقریباً 3000 افراد جاں بحق اور 4000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ زلزلے سے 13100 سے زیادہ گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو گئے ہیں، جب کہ اندازاً 4 لاکھ 57 ہزار لوگ براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ ان متاثرین کو فوری طور پر خوراک، پانی، رہائش اور طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔

افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں قدرتی آفات اور معاشی و سماجی بحران ایک دوسرے میں گھل مل گئے ہیں۔ زلزلے یہاں کوئی نئی بات نہیں، یہ خطہ ہندوکش پہاڑی سلسلے کے ساتھ واقع ہے، جو دنیا کے سب سے زیادہ زلزلہ خیز علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں ہر زلزلہ افغانستان کے محنت کش عوام کے لیے قیامت بن جاتا ہے؟

ایک کمیونسٹ نقطہ نظر سے اس کا جواب یہ ہے کہ ایک قدرتی آفت کے طور پر جہاں زلزلے بذاتِ خود بھی تباہی پھیلاتے ہیں وہیں وہ سماجی و معاشی ڈھانچے جو پہلے ہی استحصال، جبر اور نااہلی پر کھڑے ہیں، کسی بھی قدرتی آفت کی تباہی کو کئی گنا بڑھاتے ہوئے اِسے ناقابلِ برداشت بنا دیتے ہیں۔ افغانستان کے کسان، مزدور اور غریب گھرانے دہائیوں سے سامراجی جنگوں، طالبان کی رجعتی پالیسیوں اور عالمی سرمایہ داری کے محاصرے کے باعث مسلسل بحران کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک درمیانے درجے کا زلزلہ بھی یہاں ہزاروں زندگیاں لے لیتا ہے اور لاکھوں کو بے گھر کر دیتا ہے۔

31اگست 2025ء کو افغانستان میں آنے والا ہولناک زلزلہ صرف ایک قدرتی آفت نہیں تھی، بلکہ اس نے افغانستان کی سماجی حقیقتوں کو ایک بار پھر ننگا کر دیا، جہاں محنت کش عوام اپنی غربت اور لاچاری سمیت ملبے تلے دب گئے، جبکہ حکمران اشرافیہ اور سامراجی قوتیں زبانی ہمدردی کے بیانات سے زیادہ آگے نہیں بڑھیں۔

زلزلے کا حجم اور انسانی تباہی

31اگست 2025ء کو رات 11 بج کر 47 منٹ (مقامی وقت AFT) پر افغانستان ایک ہولناک زلزلے سے لرز اٹھا۔ امریکی جیولوجیکل سروے (USGS) کے مطابق اس زلزلے کی شدت 6.0 تھی اور یہ ہندوکش کے پہاڑی خطے میں آٹھ کلو میٹر کی گہرائی میں آیا۔ اس کا مرکز جلال آباد سے تقریباً 28 کلو میٹر شمال مشرق میں تھا، جس کے نتیجے میں ننگرہار، لغمان اور کنڑ کے کئی اضلاع بری طرح متاثر ہوئے۔

انسانی ضرورت کے بنیادی انفراسٹرکچر کا نقصان

زلزلے نے پلک جھپکتے ہی ہزاروں زندگیاں اجاڑ دیں۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق کم از کم 1400 افراد جاں بحق اور 3100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ بعد ازاں یہ تعداد بڑھ کر 2200 ہلاکتوں تک جا پہنچی، مگر ملبے تلے دبے افراد کو نکال نہ پانے اور علاج نہ ملنے کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد 3000 تک پہنچ چکی ہے۔ مکانات کی تباہی خوفناک تھی۔ رپورٹس کے مطابق 5400 گھر مکمل طور پر زمین بوس اور 6700 مکانات شدید طور پر متاثر ہوئے۔ بعض علاقوں میں تباہی کی شدت اس قدر تھی کہ کنڑ صوبے کے دیہاتوں میں 98 فیصد مکانات یا تو منہدم ہو گئے یا پھر انہیں شدید نقصان پہنچا۔

متاثرہ آبادی

آبادی کے متاثر ہونے کے حوالے سے رپورٹس میں تضاد ہے۔ کچھ اداروں نے 84 ہزار افراد کے متاثر ہونے کی اطلاع دی، جبکہ بعض دیگر اندازے 5 لاکھ افراد تک پہنچتے ہیں۔ مگر علاقے کے مکینوں اور وہاں کے مقامی جرنلسٹوں کے مطابق 4 لاکھ 57 ہزار کے قریب لوگ متاثر ہوئے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دیہی علاقوں میں بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے، جہاں حکومت یا بین الاقوامی اداروں کی رسائی نہ ہونے کے برابر تھی اور نہ ہی انہیں ان غریبوں کی جان کی کوئی پرواہ تھی۔

بے گھر افراد اور بنیادی سہولیات کی کمی

31اگست 2025ء کے زلزلے کے بعد سب سے بڑی تباہی رہائش کے شعبے میں سامنے آئی۔ ہزاروں خاندان نہ صرف اپنے گھر کھو بیٹھے بلکہ اپنی روز مرہ زندگی کی معمولی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہو گئے۔ افغانستان کے دیہی علاقوں میں زیادہ تر مکانات مٹی اور پتھر کے بنے ہوتے ہیں، جو زلزلے کے سامنے مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں۔

ننگرہار، کنڑ اور لغمان کے کئی دیہاتوں میں پورے کے پورے محلے ملبے میں تبدیل ہو گئے۔ متاثرین کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مقامی اور بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق 50 ہزار سے زائد افراد فوری طور پر بے گھر ہوئے، جن میں سے زیادہ تر خیموں یا عارضی پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں۔ لیکن چونکہ بین الاقوامی امداد محدود ہے، لہٰذا بہت سے متاثرین آج بھی کھلے میدانوں میں رات گزارنے پر مجبور ہیں۔

خوراک اور صحت کا بحران

خوراک کی کمی ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ افغانستان پہلے ہی خشک سالی اور معاشی بحران کی زد میں تھا اور اب زلزلے نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں ہزاروں خاندانوں کو خوراک اور صاف پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ صحت کے شعبے کی حالت مزید خوفناک ہے۔ مقامی ہسپتال یا تو تباہ ہو گئے یا ان میں گنجائش سے کہیں زیادہ مریض ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق زلزلے کے بعد ابتدائی دو دنوں میں ہی ہسپتالوں میں زخمیوں کا رش اس حد تک بڑھ گیا کہ طبی عملہ اور ادویات دونوں ناکافی ہو گئے۔

خواتین کی صورتحال: دوہرا جبر

افغانستان میں ہر قدرتی آفت سب سے زیادہ خواتین اور بچیوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ طالبان کی رجعتی پالیسیوں کے تحت خواتین پہلے ہی تعلیم، ملازمت اور سماجی شرکت کے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ زلزلے کے بعد یہ جبر مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ بہت سی خواتین اپنے مرد سرپرستوں کو کھو دینے کے بعد بے سہارا رہ گئیں ہیں، لیکن طالبان کی رجعتی پالیسیوں کے تحت وہ آزادانہ امداد حاصل کرنے یا خیمہ بستیوں میں تحفظ پانے سے قاصر ہیں۔ ماہواری کی مصنوعات (menstrual hygiene products)، صاف پانی اور صحت کی سہولیات کی کمی نے خواتین اور لڑکیوں کے لیے زندگی کو اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔

زچگی کے کیسز میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے: UNFPA کے مطابق زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تقریباً 28 ہزار حاملہ خواتین ہیں، جن میں سے کئی کو ایمرجنسی نگہداشت کی فوری ضرورت ہے لیکن ان کے لیے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یوں خواتین محض قدرتی آفت سے ہی نہیں بلکہ طالبان کے معاشی، سماجی و صنفی جبر اور سامراجی بائیکاٹ سے پیدا شدہ معاشی بحران کے تحت دوہری بربادی کا شکار ہیں۔

بچوں اور بوڑھوں پر اثرات

ہزاروں بچے بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ تعلیمی ادارے یا تو تباہ ہو گئے یا امدادی مراکز میں بدل گئے۔ بڑے پیمانے پر بچے غذائی قلت اور سردی گرمی کے سخت حالات کا شکار ہیں۔

بوڑھے اور معذور افراد بھی شدید متاثر ہوئے ہیں، کیونکہ ان کے لیے نقل و حرکت کرنا ممکن نہیں ہے، جبکہ خیمہ بستیوں میں ان کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں کیا گیا۔

گزشتہ زلزلے (2022ء اور 2023ء) اور تکراری المیہ

جون 2022ء کا زلزلہ (پکتیکا اور خوست)
22جون 2022ء کو مشرقی افغانستان کے صوبے پکتیکا اور خوست میں ایک شدید زلزلہ آیا تھا جس کی شدت 6.2 ریکارڈ کی گئی تھی۔ یہ گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے ہولناک زلزلوں میں شمار ہوتا ہے۔
ہلاکتیں: 1163 افراد جاں بحق، جبکہ 6000 سے زیادہ زخمی ہوئے۔
مکانات: تقریباً 10000 گھروں کو مکمل یا جزوی نقصان پہنچا۔
متاثرین: کم از کم 3 لاکھ افراد براہِ راست متاثر ہوئے۔

اکتوبر 2023ء کا زلزلہ (ہرات)

اکتوبر 2023ء میں افغانستان کے مغربی شہر ہرات اور اس کے گرد و نواح میں متعدد زلزلے آئے۔ سب سے شدید زلزلے کی شدت 6.3 تھی۔
ہلاکتیں: ابتدائی رپورٹس کے مطابق 2400 افراد جاں بحق ہوئے۔
مکانات: کم از کم 20000 گھروں کو نقصان پہنچا۔
متاثرین: تقریباً 10 لاکھ افراد کسی نہ کسی شکل میں متاثر ہوئے۔
اضافی بحران: شدید سردی اور پہلے سے جاری معاشی بحران نے متاثرہ خاندانوں کی مشکلات کو کئی گنا بڑھا دیا۔

زلزلوں کا تسلسل اور تقابلی تجزیہ

یہ تینوں زلزلے (2022ء، 2023ء، اور 2025ء) افغانستان کے محنت کش عوام کے لیے ایک ہی سچائی کو دہراتے ہیں کہ:
ہر زلزلے میں ہزاروں زندگیاں برباد ہوئیں جن میں بھاری ترین اکثریت غریب عوام کی تھی۔
مکانات کی تباہی ہمیشہ زیادہ تر دیہی اور غریب طبقے کی ہوئی کیونکہ ان کے گھر کمزور اور غیر محفوظ ہیں۔
خواتین اور بچے ہر بار سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ عالمی امداد آتی تو ہے، لیکن محدود، سست اور ناکافی ہوتی ہے جبکہ اس کی حکمرانوں کے ہاتھوں لوٹ مار کا معاملہ الگ ہے۔

ایک مارکسی نکتہ نظر سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ یہ آفات کسی ”قدرتی تقدیر“ کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک ایسے معاشی، سیاسی اور سماجی ڈھانچے کی پیداوار ہیں جو سامراجی ناکہ بندی، طالبان کی رجعتی پالیسیوں اور سرمایہ دارانہ نظام کی نااہلی پر کھڑا ہے۔ یوں ہر زلزلہ افغانستان میں ایک بھیانک سماجی المیے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

امداد اور بین الاقوامی ردِعمل: سامراجی ریاکاری اور رجعتی رکاوٹیں

2025ء کے زلزلے کے بعد افغانستان میں ایک بار پھر وہی منظر سامنے آیا جو ہر بڑے انسانی المیے کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے فوری طور پر 15 ملین ڈالر کی ہنگامی امداد کا اعلان کیا، چند یورپی ممالک اور این جی اوز نے بھی خوراک، ادویات اور خیمے بھیجنے کے وعدے کیے۔ لیکن یہ سب ایک ایسے ملک کے لیے جہاں لاکھوں متاثرین کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں، محض ایک دکھاوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اتنی بڑی تباہی کے مقابلے میں یہ امداد ایک قطرے کے برابر بھی نہیں۔

لیکن مسئلہ صرف امداد کی کمی نہیں بلکہ اس کی نوعیت اور مقصد بھی ہے۔ افغانستان کے زیادہ تر متاثرہ علاقے پہاڑی، دشوار گزار اور بنیادی ڈھانچے سے محروم ہیں۔ تباہ شدہ سڑکیں، رابطے کے ذرائع اور بنیادی سہولیات نہ ہونے کے باعث امدادی رسائی خود ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کے ساتھ ہی طالبان حکومت کی سخت گیر پالیسیاں اس رسائی کے راستے میں مزید رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ لیکن ان رکاوٹوں کے باوجود اصل حقیقت یہ ہے کہ سامراجی طاقتوں کے نزدیک کبھی بھی افغان عوام کی حقیقی بحالی اصل مقصد نہیں ہوتا۔

یہاں این جی اوز کا کردار بھی قابلِ غور ہے۔ بظاہر یہ ادارے انسانی خدمت کے نام پر میدان میں آتے ہیں، مگر حقیقت میں ان کی ایک بڑی تعداد فنڈز ہڑپ کرنے، اپنے عملے کی تنخواہوں، گاڑیوں، دفاتر اور ’انتظامی اخراجات‘ پر امداد کا بڑا حصہ خرچ کر دیتی ہے۔ امداد کے نام پر اربوں روپے جمع ہوتے ہیں مگر عوام تک پہنچتے پہنچتے یہ رقوم معمولی سا حصہ رہ جاتی ہیں۔ یوں این جی اوز انسانی دکھ اور تباہی کو ایک کاروبار میں بدل دیتی ہیں، جس سے ان کے ڈونرز اور مالکان ان متاثرہ عوام کے نام پر کمائی کرتے ہیں جبکہ متاثرہ عوام بدستور محرومی کا شکار رہتے ہیں۔

یہ امداد دراصل ایک سیاسی اور کاروباری آلہ ہے، جس کے ذریعے عالمی طاقتیں ایک طرف دنیا کو انسانی ہمدردی کا تاثر دیتی ہیں اور دوسری طرف اپنے مفادات کو آگے بڑھاتی ہیں۔ یہ امداد زیادہ تر مشروط، محدود اور نمائشی نوعیت کی ہوتی ہے۔ عالمی طاقتیں اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے طالبان کو تسلیم نہ کرنے کے بہانے براہِ راست وسائل فراہم کرنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن اصل مقصد اپنی شرائط مسلط کرنا اور افغانستان پر دباؤ برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ اس سب سے طالبان حکومت کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور اس کی عیاشیاں اور لوٹ مار ویسے ہی چلتی رہتی ہیں لیکن متاثرہ عوام کی اصل ضرورت، مستقل رہائش، روزگار کے ذرائع اور انفراسٹرکچر کی بحالی کبھی پوری نہیں ہوتی۔

یہ صورتحال مارکسی نکتے کو بالکل واضح کرتی ہے کہ سامراجی طاقتوں اور ان کے گماشتہ اداروں کے لیے انسانی ضرورت اور عوامی فلاح کبھی بھی مقصد نہیں ہوتا۔ ان کا اصل مقصد سرمائے کے ارتکاز، فنڈز کے ذریعے لوٹ مار اور اپنے سیاسی غلبے کا حصول ہے۔ اس لیے وہ ہر سانحے کو بھی اپنی سامراجی اور کاروباری حکمتِ عملی کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ افغانستان کے عوام، جو پہلے ہی سامراجی جنگوں، پابندیوں اور طالبان کے جبر کا شکار ہیں، ان مصنوعی امدادی اقدامات کے باوجود پھر سے تنہا اور بے سہارا کھڑے ہیں۔

اسی طرح دنیا بھر کے تجربات بتاتے ہیں کہ قدرتی آفات کے بعد امداد کے نام پر این جی اوز اربوں ڈالر اکٹھے کر لیتی ہیں، لیکن عوام تک اس کا ایک معمولی حصہ پہنچتا ہے۔ 2010ء کے ہیٹی زلزلے میں 13 بلین ڈالر جمع ہوئے مگر لاکھوں لوگ برسوں تک خیموں میں رہے؛ ریڈ کراس پر فنڈز ہڑپ کرنے کا الزام لگا۔ 2005ء کے پاکستان زلزلے میں بھی اربوں کی امداد آئی مگر این جی اوز نے زیادہ تر پیسہ دفاتر، گاڑیوں اور عیاشیوں پر خرچ کر دیا۔ 2004ء کے سونامی کے بعد بھی یہی کھیل دہرایا گیا، امداد کا بڑا حصہ تشہیر اور ڈونرز کو خوش کرنے پر لگا۔ افغانستان کے 2025ء کے زلزلے کے بعد بھی یہی روش دہرائی جا رہی ہے۔ امداد کے دعوے تو بہت ہیں، مگر طالبان کی پالیسیوں، عالمی پابندیوں اور این جی اوز کی لوٹ مار کے باعث متاثرہ عوام اب بھی بھوک اور بے گھری کا شکار ہیں۔

سامراجی ریاستیں، خاص طور پر امریکہ اور یورپ، افغانستان کے انسانی بحران کو صرف اس وقت موضوع بناتی ہیں جب یہ ان کے عسکری یا سیاسی مفاد سے جڑا ہو۔ بیس سالہ جنگ میں کھربوں ڈالر جھونکنے کے بعد آج یہی ریاستیں زلزلے جیسے سانحات پر صرف چند ملین کی امداد دیتی ہیں اور مغربی میڈیا بھی چند دن مگرمچھ کے آنسو بہا کر خاموش ہو جاتا ہے۔ لیکن مغربی سامراجی طاقتیں اکیلی مجرم نہیں۔

علاقائی سامراجی طاقتوں، چین، روس، ایران، انڈیا اور پاکستان کا کردار بھی اتنا ہی مکروہ ہے۔ زلزلے جیسے سانحات میں بھی یہ ممالک متاثرین کو حقیقی اور بڑی امداد دینے کی بجائے محض علامتی اقدامات کرتے ہیں۔ چین معدنی وسائل اور تجارتی راہداریوں پر فوکس رکھتا ہے، روس امداد کی بجائے سفارتی پوائنٹ اسکورنگ کرتا ہے اور ایران سرحدی سختیوں اور پناہ گزینوں پر پابندیوں کے ذریعے متاثرہ افغانوں کی مشکلات میں اضافہ کرتا ہے، اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ایران نے گزشتہ دو برسوں میں لاکھوں افغان مہاجرین کو زبردستی واپس بھیجا ہے۔ 2024ء میں تقریباً چھ لاکھ افراد جبری طور پر بے دخل کیے گئے، جبکہ الجزیرہ کے مطابق رواں سال جولائی 2025ء تک ایران نے 15 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین جبری طور پر واپس بھیجے ہیں اور امکان ہے کہ یہ تعداد سال کے آخر تک اڑھائی ملین تک پہنچ جائے گی۔

پاکستان کا کردار سب سے زیادہ دوغلا اور ظالمانہ ہے۔ ایک طرف یہ افغانستان کے ساتھ اپنے ”تعلقات“ اور امدادی بیانات کی تشہیر کرتا ہے، مگر دوسری طرف طالبان کے ساتھ تعلقات مسلسل بگڑتے جا رہے ہیں۔ اگست کے تباہ کن زلزلے کے باوجود پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی کا سلسلہ جاری رکھا، انہیں گھروں اور روزگار سے محروم کر کے سرحد کے اُس پار دھکیل دیا۔ یہ اقدام نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ زلزلے کے متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی کی سزا براہِ راست عوام کو دی جا رہی ہے، جو پہلے ہی آفتوں اور بھوک کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ یوں زلزلے کے متاثرین جو خیموں، ادویات اور خوراک کے لیے ترس رہے ہیں، عالمی اور علاقائی سامراجی طاقتوں کی مکاری اور مفادات کی سیاست کے بیچ روندے جا رہے ہیں۔ ان طاقتوں کے لیے انسانی جانیں محض اعداد و شمار ہیں، جنہیں اپنی بالادستی کے کھیل میں استعمال کیا جاتا ہے۔

طالبان کا کردار: رجعتی ریاستی رکاوٹ

زلزلے کے بعد امدادی عمل میں طالبان حکومت کی تنگ نظر، رجعتی اور کرپٹ پالیسیاں مزید رکاوٹ بنیں۔ سب سے نمایاں پہلو خواتین کو عملی میدان سے باہر رکھنے کا فیصلہ تھا۔ طالبان نے مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز پر یہ پابندی عائد کر دی کہ خواتین عملہ کسی امدادی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتا۔ افغانستان جیسے معاشرے میں جہاں لاکھوں خواتین بیوہ، بے گھر اور سماجی پابندیوں کے باعث مرد امدادی کارکنان تک براہِ راست رسائی نہیں رکھتیں، وہاں خواتین امدادی عملہ بنیادی ضرورت ہوتا ہے۔ چنانچہ کئی بین الاقوامی اداروں نے واضح کہا کہ خواتین کے بغیر امدادی سرگرمیاں مؤثر طور پر ممکن ہی نہیں ہیں۔ لیکن طالبان کی اس رجعتی پالیسی نے نہ صرف امداد کی ترسیل کو محدود کیا بلکہ لاکھوں متاثرہ خواتین اور بچوں کو براہِ راست امداد سے محروم رکھا۔

طالبان کی کرپشن اور اقربا پروری نے اس بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ امداد کے بڑے حصے کو شفاف انداز میں عوام تک پہنچانے کی بجائے طالبان کے مقامی کمانڈروں اور ان سے وابستہ گروہوں نے اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر امدادی سامان پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ مقامی رپورٹس کے مطابق بعض دیہات اور قصبوں میں امداد صرف اُن خاندانوں یا گروہوں تک پہنچائی گئی جو طالبان کے قریب سمجھے جاتے تھے، جبکہ عام محنت کش عوام کو یا تو کچھ نہیں ملا یا پھر انہیں برائے نام حصے پر اکتفا کرنا پڑا۔

اس کے ساتھ ساتھ طالبان نے امدادی عمل کو اپنی سفارتی حکمتِ عملی کا حصہ بنا لیا۔ وہ عالمی طاقتوں اور علاقائی ریاستوں کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ، ”افغانستان پر طالبان حکومت ہی واحد اتھارٹی ہے۔“ اور کسی بھی امدادی کام کو انہیں کے ذریعے تسلیم کیا جائے گا۔ یوں انسانی المیے کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ امداد کی ترسیل کو کنٹرول کر کے طالبان نہ صرف اپنی ”ریاستی حیثیت“ کو تسلیم کروانا چاہتے تھے بلکہ عالمی سطح پر اپنی شناخت اور طاقت کو منوانے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔

اس تمام عمل میں سب سے زیادہ نقصان عوام کا ہوا جو پہلے سے بے گھر، بے سہارا اور فاقہ کشی کے شکار تھے۔ یوں زلزلہ محض ایک قدرتی آفت نہیں رہا بلکہ طالبان کی رجعتی پالیسیوں، کرپشن اور سامراجی سیاست کے تحت مزید ہولناک شکل اختیار کر گیا۔

قدرتی آفات یا طبقاتی المیے؟

مارکس نے لکھا تھا کہ انسان فطرت کے ساتھ جدوجہد کرتا ہے، لیکن یہ جدوجہد ہمیشہ سماجی تعلقات کے پردے میں چھپی رہتی ہے۔ افغانستان میں آنے والے زلزلے محض ”قدرتی“ آفات نہیں ہیں، بلکہ یہ موجودہ سماجی اور طبقاتی ڈھانچے کی ننگی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ جاپان یا چلی جیسے ممالک میں اسی شدت کے زلزلے ہزاروں جانیں نہیں لیتے، کیونکہ وہاں مضبوط سماجی انفراسٹرکچر، جدید ریاستی صلاحیت اور وسائل موجود ہیں۔ اس کے برعکس افغانستان میں معمولی شدت کا زلزلہ بھی لاکھوں افراد کے لیے قیامت بن جاتا ہے، کیونکہ یہاں دہائیوں سے جاری سامراجی جنگوں، معاشی پسماندگی، کرپٹ اور پسماندہ ریاستی ڈھانچوں اور طالبان کی رجعتی پالیسیوں نے عوام کو پہلے ہی غربت اور بے بسی کی کھائی میں دھکیل رکھا ہے۔

جہاں ریاست، طالبان اور سامراجی طاقتوں نے عوام کو بچانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی، وہیں محنت کش عوام نے اپنی مدد آپ کے اصول پر حرکت کی۔ دیہاتی برادریوں نے اجتماعی تعاون، کھانا بانٹنے، خیمے لگانے اور ایک دوسرے کو سہارا دینے جیسے اقدامات کیے۔ یہ منظر ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ عوام کی اصل طاقت ان کی اجتماعی یکجہتی اور مشترکہ عمل میں ہے۔ لیکن یہ جدوجہد وقتی اور محدود رہتی ہے، کیونکہ اس کے پاس کوئی شعوری اور انقلابی قیادت موجود نہیں جو اس اجتماعی طاقت کو ایک انقلابی نظریے کے تحت منظم تحریک میں بدل سکے۔

یوں قدرتی آفت، طبقاتی جبر اور ریاستی ناکامی ایک دوسرے میں گُھل مل کر یہ حقیقت آشکار کرتے ہیں کہ جب تک سماج کی بنیاد سرمایہ داری اور سامراجی لوٹ کھسوٹ پر قائم ہے، کوئی آفت صرف ”قدرتی“ نہیں رہتی بلکہ ایک طبقاتی المیہ بن جاتی ہے۔ اس کا حقیقی حل محض عارضی امداد یا وقتی ریلیف میں نہیں، بلکہ ایک سوشلسٹ متبادل میں ہے، ایسا سماجی و معاشی نظام جو ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت اور محنت کش عوام کی اجتماعی طاقت کی بنیاد پر کھڑا ہو اور جس میں وسائل عوامی ضرورت کے مطابق منظم کیے جائیں، نہ کہ سرمایہ داروں اور حکمران اشرافیہ کے منافع کے لیے۔

افغانستان: سامراجی مداخلتوں اور رجعتی سیاست کا جال

طالبان اپنے آپ کو ”اسلامی نظام“ کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں، مگر ان کا کردار عوامی ضروریات اور ترقی کی ہر ممکن صورت کے منافی ہے۔ وہ نہ صرف ماضی کی تباہ کاریوں کو دہراتے ہیں بلکہ انہیں مزید گہرا کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ طالبان ایک انتہائی رجعتی قوت ہیں جنہوں نے عوام کو جہالت، جبر اور پسماندگی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ لیکن اگر افغانستان کی موجودہ بربادی کو صرف طالبان کی پالیسیوں کا نتیجہ سمجھا جائے تو یہ ادھورا تجزیہ ہو گا۔

افغانستان کے بحران کی جڑیں صدیوں پر محیط تاریخی زخموں میں پیوست ہیں۔ امیر امان اللہ خان 1929)ء- 1919ء(نے جدید اصلاحات، خواتین کی آزادی اور سماجی ڈھانچے کی تبدیلی کی کوشش کی تھی، لیکن برطانوی سامراج نے ان کوششوں کو سبوتاژ کر دیا۔

1978ء کا ثور انقلاب افغانستان کی تاریخ کا وہ اہم موڑ تھا جب پہلی بار محنت کش طبقے اور نوجوانوں نے سماج کو جدید اور بڑی حد تک سوشلسٹ بنیادوں پر استوار کرنے کی سنجیدہ کوشش شروع کی۔ لیکن امریکی سامراج نے سعودی عرب اور پاکستان کے ذریعے ”پیٹرو ڈالر جہاد“ کو منظم کیا، جس میں ایران، چین اور یورپی سامراجیوں کی حمایت بھی شامل رہی۔ رجعتی قبائلی سرداروں اور مذہبی بنیاد پرستوں کو مسلح کر کے اس انقلاب کو خون میں ڈبو دیا گیا۔ اس خانہ جنگی نے سوویت یونین کی مداخلت کو بھی ایک خونریز دلدل میں بدل دیا، جو بعدازاں عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ ردِ انقلاب کو تقویت دینے کا باعث بنی۔

اسی طرح اکیسویں صدی میں نام نہاد وار آن ٹیرر کے نام پر افغانستان میں امریکی سامراج اور یورپی طاقتوں کی 20 سالہ مداخلت 2021)ء2001-ء) افغانستان کو ترقی دینے کے لیے نہیں تھی۔ امریکی سامراج اور یورپی طاقتوں کی جنگی مداخلت نے بدعنوان اشرافیہ، جنگی سرداروں اور کالی معیشت کو مضبوط کیا۔ ”جمہوریت“ اور ”ترقی“ کے کھوکھلے نعرے صرف عالمی مالیاتی اداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بدعنوان حکمران طبقے کے مفاد کے لیے استعمال کیے گئے۔ اسی لیے جب امریکہ اور اس کے اتحادی واپس گئے تو نہ صرف افغانستان پہلے کی طرح برباد حال تھا بلکہ الٹا افغانستان کو معاشی طور پر پابندیوں میں جکڑ دیا گیا، ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر منجمد کیے گئے اور سرمایہ داری کی عالمی منڈی میں اسے سب سے نچلی سطح پر دھکیل دیا گیا۔

علاقائی غاصب قوتوں اور سامراجی طاقتوں نے بھی افغانستان کو اپنی بالادستی کے کھیل کا میدان بنایا۔ ریاست پاکستان نے افغان جہاد سے لے کر آج تک فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں طالبان اور دیگر گروہوں کو استعمال کیا، مگر آج خود ان سے بگڑتے تعلقات اور بڑھتی دہشت گردی کی صورت میں اس پالیسی کے خمیازے جھیل رہا ہے اگرچہ کہ ان پالیسیوں کے ذریعے مال جرنیلوں اور اشرافیہ نے بنایا لیکن ان کے نتائج عوام اور عام فوجی بھگت رہے ہیں۔ ایران نے شیعہ ملیشیاؤں (حزبِ وحدتِ اسلامی افغانستان، حزبِ حرکتِ اسلامی افغانستان، سپاہِ محمد افغانستان، لشکر فاطمیون (فاطمیون ڈویژن)، سازمان نصر، سازمان پاسداران جہاد اسلامی) کے ذریعے اپنے اثرات قائم کیے اور افغان معیشت کو غیر قانونی تجارت اور اسمگلنگ سے جوڑ کر اپنے فائدے کا ذریعہ بنایا۔ روس آج طالبان سے تعلقات بڑھا کر وسطی ایشیا میں اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین اپنی سامراجی سرمایہ کاری اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے افغانستان کے معدنی وسائل پر نظر جمائے بیٹھا ہے۔

یوں آج کا افغانستان صرف طالبان کی رجعتی پالیسیوں کا نہیں، بلکہ عالمی اور علاقائی سامراجی نظام اور ان کی دہائیوں پر محیط مجرمانہ مداخلت کا زندہ ثبوت ہے۔ ہر زلزلے اور ہر بحران کے بعد افغانستان مزید بربادی کا شکار ہوتا ہے، کیونکہ سامراج نے اسے غربت اور پسماندگی کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ جب تک افغانستان سامراجی نظام اور سرمایہ دارانہ جکڑ بندیوں سے آزاد نہیں ہوتا، تب تک کوئی پائیدار ترقی یا عوامی فلاح ممکن نہیں۔

عوامی طاقت اور انقلابی متبادل

اگر کوئی چیز بار بار ثابت ہوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ افغانستان کے محنت کش عوام ہی اپنی نجات کے اصل معمار ہیں۔ زلزلوں کے بعد عوام نے جس طرح اجتماعی تعاون، خوراک بانٹنے اور عارضی پناہ گاہیں قائم کرنے کا مظاہرہ کیا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بقا اور تعمیر نو کی طاقت نیچے سے جنم لیتی ہے، اوپر سے نہیں۔ لیکن یہ طاقت بکھری ہوئی اور خود رو رہتی ہے، جب تک اسے ایک شعوری، منظم اور انقلابی قیادت نہ ملے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ محنت کش طبقہ، کسان، خواتین اور نوجوان اپنی حالت کو تبدیل کرنے کے لیے معروضی حالات کی مطابقت سے انقلابی جدوجہد کا آغاز کریں، تاکہ ان کے تجربات اور جدوجہد کی بنیاد پر ایک حقیقی انقلابی پارٹی وجود میں آ سکے۔ یہی پارٹی عوامی طاقت کو شعوری سمت دے سکتی ہے اور سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔

افغانستان کے بار بار کے زلزلے اور ان کی تباہ کاریاں ہمارے سامنے ایک فیصلہ کن سوال کھڑا کرتی ہیں:
کیا عوام ہمیشہ ملبے تلے دب کر مرنے کے لیے مجبور رہیں گے؟
کیا ہر آفت کے بعد سامراجی چندہ اور طالبان کی ریاکاری پر گزارا کیا جائے گا؟

ان سوالوں کا جواب ایک ہی ہے: افغانستان کے محنت کش عوام کو اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینی ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ:
محنت کش طبقے، کسانوں، خواتین اور نوجوانوں کا انقلابی بنیادوں پر منظم ہونا اور ایک پرولتاری انقلابی پارٹی کا قیام۔
طالبان اور تمام رجعتی قوتوں کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر جدوجہد۔
سامراجی مداخلت، سامراجی قرضوں اور پابندیوں کو رد کرنا اور عوامی وسائل کو محنت کش عوام کے جمہوری کنٹرول میں لانا۔

ایک سوشلسٹ افغانستان کی تعمیر، جو پورے خطے کے محنت کش عوام کے ساتھ جڑت میں ہو اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کا حصہ بنے۔ یہی وہ راستہ ہے جو افغانستان کو محض زلزلوں کے ملبے سے ہی نہیں بلکہ سامراجی اور رجعتی جبر کے بوجھ سے بھی نجات دلا سکتا ہے۔

Comments are closed.