اداریہ ورکرنامہ:انقلاب وینزویلا پر امریکہ کا پھر سامراجی حملہ!

وینزویلا میں ہوگو شاویز کی قیادت میں برپا ہونے والا انقلاب ابھی بھی جاری ہے۔ عروج و زوال سے گزرتا ہوا بولیورین انقلاب کے نام سے جاری یہ عوامی طوفان گزشتہ دو دہائیوں سے جاری و ساری ہے اور بے تحاشا مشکلات اور رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ شاویز کی وفات کے بعد اس انقلاب کی قیادت صدر ماڈورو کے ہاتھ میں آ گئی تھی جنہیں عوام نے بھاری اکثریت سے دوبارہ صدر منتخب کیا تھا۔
امریکی سامراج دنیا بھر میں عوامی تحریکوں سے خوفزدہ ہو کر ان پر حملے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا خاص طور پر لاطینی امریکہ میں عوامی حکومتوں کا تختہ الٹ کر وہاں خونی آمریتیں مسلط کرنے کی اس کی ایک لمبی تاریخ ہے۔وینزویلا میں ایک دفعہ پھر وہی خونی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

اپوزیشن کے ایک سرمایہ دارنواز رکن خوان گائیڈو نے صدارتی انتخابات میں بد ترین شکست کے بعد امریکہ اور دیگر سامراجی طاقتوں کے ساتھ مل کر عوام کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے انتخابات یا کسی بھی عوامی حمایت کے بغیر خود کوغیر قانونی طور پروینزویلا کا صدر نامزد کر دیا ہے اور خود ہی صدر کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔امریکی سامراج جو پہلے ہی اس سازش کا حصہ تھا اس نے فوری طور پر اس عوام دشمن شخص کو ملک کا نیا صدر تسلیم بھی کر لیا ہے اور یورپی یونین سمیت لاطینی امریکہ کے مختلف ممالک کی حمایتی حکومتوں کے ذریعے اس کو صدر تسلیم کروایا جا رہا ہے۔ منتخب صدر ماڈورو پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اس غیر قانونی حرکت کرنے والے شخص کے حق میں دستبردار ہو جائے۔اس سامراجی حکم کی اطاعت نہ کرنے پر وینزویلا پر معاشی پابندیاں لاگو کی جا رہی ہیں اور امریکہ اور برطانیہ میں موجود وینزویلا کے اثاثے سامراجی حکمرانوں نے ضبط کر لیے ہیں۔

وینزویلا دنیا میں تیل کے ذخائر رکھنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور بولیورین انقلاب کے آغاز پر شاویز نے تیل کی تمام تر صنعت کو نیشنلائز کر لیا تھا اور اس صنعت کو نجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار سے تحفظ دیا تھا۔ اس عمل سے ہونے والی آمدن کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا گیا تھا اور ملک میں ہر شخص کے لیے علاج اور تعلیم مفت مہیا کی گئی تھی۔ دس لاکھ سے زائد گھر بنا کر بے گھر افراد میں تقسیم کیے گئے تھے اور دیگر ایسے بہت سے اقدامات کیے گئے تھے جن سے عوام کا معیار زندگی بلند ہوا تھا اور ان کو غربت سے نجات ملی تھی۔ بڑے پیمانے پر صنعتوں کو نیشنلائز کیا گیا تھا اور سرمایہ داروں کے اثاثے ضبط کیے گئے تھے۔ گو کہ اس انقلاب کو سرمایہ دارانہ نظام کی حدود سے باہر نہیں نکالا جا سکا اور سماج کی مکمل سوشلسٹ تبدیلی نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ تھی کہ سرمایہ دار طبقے کو عوام دوست حکومت پر حملے کرنے کے بہت سے مواقع میسر آئے اور انہوں نے اشیائے ضرورت کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اور دیگر ذرائع سے عوام کو شدید نقصان پہنچایا۔ انقلاب کی قیادت کی ہچکچاہٹ نے اس حوالے سے انقلاب کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور خاص طور پر عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کے باعث وینزویلا کی معیشت شدید ترین معاشی بحران کا شکار ہو گئی۔ اس بحران سے نپٹنے کے لیے سرمایہ دار طبقے کے تمام اثاثے ضبط کرتے ہوئے اور تمام بینکوں اور نجی صنعتوں کو نیشنلائز کرتے ہوئے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینے کی ضرورت تھی لیکن ماڈورو کی حکومت نے سرمایہ داروں کو مراعات دے کر بحران سے نکلنے کی کوشش کی ۔اس عمل نے سرمایہ داروں کے حوصلوں کو مزید تقویت دی اور انہوں نے اس انقلاب پر مزید حملے شروع کر دیے۔موجودہ حملہ بھی اسی طویل سلسلے کی کڑی ہے جس میں تیل کی ملٹی نیشنل کمپنیاں گدھ کی طرح وینزویلا پر منڈلا رہی ہیں۔امریکہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن نے واضح طور پر کہا ہے کہ امریکہ کے موجودہ عمل کا مقصد وینزویلا کی تیل کی صنعت پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔پوری دنیا کے سامنے ’’جمہوری‘‘ حقوق کے لیے تبدیلیاں لانے کا نقاب بھی امریکی سامراج نے اب اتار کر پھینک دیا ہے اور ننگی جارحیت پر اتر آیا ہے۔ برازیل اور کولمبیا کی عوام دشمن حکومتوں کے ذریعے بھی وینزویلا پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے اور ہمسایہ ملک کولمبیا سے فوجی جارحیت کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔

وینزویلا کے عوام نے ابھی تک اس سامراجی حملے کا بھرپور جواب دیا ہے اور لاکھوں لوگ ماڈورو کی حمایت میں سڑکوں پر باہر نکل آئے ہیں۔ دوسری جانب عوام دشمن گائیڈوکے لیے چند سو افراد کا جلسہ کرنا بھی ممکن نہیں۔ لیکن عالمی میڈیا انتہائی غلیظ اور زہریلا کردار ادا کر رہا ہے۔ بی بی سی سمیت تمام عالمی نشریاتی ادارے اور اخبارات ماڈورو حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے ہیں اور گائیڈو کو حقیقی صدر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ امریکہ نے وینزویلا سے خریدے جانے والے تیل کی ادائیگیاں روک دی ہیں اور امریکہ میں موجود ملک کے تمام بینک اکاؤنٹ کا کنٹرول اپنے کٹھ پتلی گائیڈوکو دے دیا ہے۔ اسی طرح دیگر ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جن سے بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے صدر ماڈوروکا تختہ الٹاجا سکے۔ ملک کی افواج نے ماڈورو کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے اور عوامی طاقت کے ساتھ اس سامراجی جارحیت کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ماڈورو نے امریکہ کے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ امریکی سامراج کے اس گھناؤنے عمل کی مذمت کریں اور وینزویلا کے عوام کا ساتھ دیں۔چین اور روس کے سامراجی ممالک کی حمایت سے زیادہ ایسی اپیلیں زیادہ اہمیت کی حامل اور مؤثر کردار ادا کرتی ہیں اور انقلاب کے دفاع کا درست طریقہ بھی یہی ہے۔

عالمی مارکسی رجحان (IMT) نے بھی وینزویلا کے بولیورین انقلاب کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے اور ہینڈز آف وینزویلا کیمپین کے ذریعے امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں احتجاج اور مظاہرے منعقد کیے ہیں۔ لندن میں اس سلسلے میں ایک بھرپوراحتجاج اور اجلاس منعقد کیا گیا جس میں برطانوی و امریکی سامراجی حکومتوں کی شدید مذمت کی گئی۔ ماڈورو نے اس پر شکریہ بھی ادا کیا ہے اور مزید حمایت کی درخواست بھی کی ہے۔

وینزویلا میں 2002ء میں بھی امریکی پشت پناہی سے ایک فوجی کُو کے ذریعے عوامی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی تھی اور صدر شاویز کو قید کر دیا گیا تھا ۔ لیکن عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سڑکوں پر نکل آیا تھا جس نے اس فوجی کُو کو ناکام بنا کر شاویز کو دوبارہ صدر کے عہدے پر بحال کیا تھا۔اس وقت دوبارہ ایک عوامی طوفان وینزویلا میں ابھر آیا ہے جو انقلاب کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انقلاب اور ردانقلاب کی اس کشمکش کو فیصلہ کن شکست دینے کے لیے اس انقلاب کو مکمل سوشلسٹ تبدیلی کی جانب لیجانا ہو گا اور سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا۔ اس عمل میں ایک انقلابی پارٹی کی موجودگی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ دنیا بھر کے محنت کشوں کو وینزویلا کے محنت کشوں کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے اور اپنے اپنے ملک میں سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی طاقتوں کیخلاف جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں محنت کشوں کی کامیابی پوری دنیا کے محنت کش طبقے کی فتح ہے۔ اور ایک کا زخم سب کا زخم ہے۔ پوری دنیا کے محنت کشوں کو مل کر اس سرمایہ دارانہ و سامراجی نظام کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے مارکس نے نعرہ دیا تھا کہ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ۔ آج اس نعرے پر عمل پیرا ہونے کی جتنی ضرورت ہے شاید پہلے کبھی بھی نہیں تھی۔

Comments are closed.