اداریہ: کمزور معیشتیں اور مالیاتی دیوالیہ

پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہیں جس کے باعث ملکی معیشت کے لیے انتہائی ضروری مالیاتی قرضوں کی قسط کی وصولی تاخیر کا شکار ہو رہی ہے۔ گزشتہ سال آئی ایم ایف نے انتہائی سخت شرائط پر پاکستان کو مزید سودی قرضہ دینے کا معاہدہ کر لیا تھا جو موجودہ حکومت کا سب سے بڑا یو ٹرن تھا۔ اپوزیشن کے دوران عمران خان آئی ایم ایف کے قرضوں کے خلاف تقریریں کرتا نظر آتا تھا لیکن اقتدارمیں آنے کے بعد اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے چلے گئے جس کے سبب بیمار ہوئے تھے۔ کورونا کی آمد کے بعد دنیا بھر کے مالیاتی اداروں کے تمام منصوبے چکنا چور ہو گئے اور عالمی معیشت کی تاریخ کے بد ترین مالیاتی بحران کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ اس دوران پاکستان کی معیشت کی حالت بھی دیوالیہ پن تک پہنچ گئی تھی اور اس موقع پر آئی ایم ایف نے ایمرجنسی فنڈ کے لیے اپریل میں 1.4 ارب ڈالر دیے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر بہت سے اداروں کے قرضوں اور سود کی ادائیگی میں ریلیف ملا تھا۔ اس دوران حکمرانوں نے مل کر لوٹ مار کے نئے ریکارڈ بھی بنائے جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ریلیف کے نام پر سرمایہ داروں کو تاریخ کے سب سے بڑے بیل آؤٹ پیکج دیے گئے، تعمیراتی اور دیگر شعبوں میں کالے دھن کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی اور ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی، ٹیکنیکل سپلیمینٹری گرانٹس بانٹی گئیں اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم بھی لانچ کی گئی۔ اس دوران محنت کشوں پر بد ترین حملے بھی ہوئے جس کے باعث کروڑوں افراد بیروزگار ہو گئے جبکہ غربت کی لکیر سے نیچے گرنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں سے کروڑوں میں پہنچ رہی ہے۔ اجرتوں میں تاریخ کی بد ترین گراوٹ دیکھنے میں آئی جس کا اگر بلند ترین افراطِ زر کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو وہ ایک سال پہلے کی نسبت نصف سے بھی کم ہوگئیں۔ اس دوران بجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر کے حکومت نے اپنے خسارے پورے کرنے کی کوشش کی۔

لیکن اب آئی ایم ایف مزید سخت شرائط کا مطالبہ کر رہا ہے اور قرضوں اور سود کی ادائیگی کے سلسلے کا وقفے کے بعد دوبارہ آغاز ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا جائے، نجکاری کے عمل کو تیز کیا جائے اور پنشن کے نظام کا خاتمہ کیا جائے، لاکھوں سرکاری ملازمین کو جبری برطرف کیا جائے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید بڑے پیمانے پر اضافہ کیا جائے، شرحِ سود میں اضافہ کیا جائے اور دیگر اسی قسم کے اقدامات کیے جائیں۔ ان شرائط کا مقصد آئی ایم ایف کے پچھلے تمام قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے قسطوں کے تسلسل کو جاری رکھنا ہے۔ سودی قرضوں میں جکڑے اس ملک کے کروڑوں محنت کشوں کی پیدا کردہ دولت کا سب سے بڑا حصہ یہ سامراجی مالیاتی ادارے ہر سال لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ پٹرول اور بجلی سے لے کر ماچس کی ڈبی تک، ہر شے پر حکومت بڑے پیمانے پر ٹیکس وصول کرتی ہے جس کا مقصد ان سودخور بلاؤں کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے۔ لیکن یہ بلا جتنا خون پیتی جاتی ہے اتنی ہی بڑی ہوتی جاتی ہے اور اس کی خون کی پیاس کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ قرضوں اور سود کے اس گھن چکر میں اس ملک کے محنت کش عوام غربت، بھوک اور بیماری کے اندھے کنویں میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ اس ملک کے حکمران ان مالیاتی اداروں کے مقامی جلاد کا کام کرتے ہیں اور ان کی وصولیاں جاری رکھنے کے لیے پولیس، عدالتیں اور دیگر سکیورٹی اداروں کی سربراہی کرتے ہیں تاکہ یہاں اس مالیاتی قتل عام کیخلاف ابھرنے والی بغاوتوں کو کچلا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سامراجی قرضوں کی ادائیگی کے بعد اس معیشت کا دوسرا سب سے بڑا خرچہ دفاع کا ہے۔ اس کا بل بھی غربت میں گردن تک دھنسے محنت کشوں سے وصول کیا جاتا ہے اور انہی کی محنت کو لوٹ کر حکمران طبقے کے پر تعیش محل اور عالیشان سوسائٹیاں تعمیر کی جاتی ہے۔

لیکن اب یہ صورتحال اپنے انجام کے قریب پہنچتی جا رہی ہے اور یہ خونی چکر اپنی انتہاؤں تک پہنچ رہا ہے۔ اگر آئی ایم ایف کی موجودہ شرائط تسلیم کر لی جاتی ہیں تو مہنگائی اور بیروزگاری کا ایک نیا طوفان آئے گا جوپچھلے ایک سال میں آنے والے طوفان سے کئی گنا بڑا ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود بھی بجٹ خسارہ یا گردشی قرضہ کم کرنے کے ٹارگٹ سمیت دوسرا کوئی بھی ٹارگٹ پورا نہیں ہوگا اور آئی ایم ایف کے مطالبات مزید بڑھتے جائیں گے۔ پنشن سسٹم ختم کرنا درحقیقت لاکھوں بوڑھے اور بیمار افرادکا معاشی قتل ہوگا جبکہ لاکھوں سرکاری ملازمین کی جبری برطرفی اس ملک کے کروڑوں خاندانوں کے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف ہو گی۔ ان تمام اقدامات سے نجی شعبے میں بھی اجرتوں میں بڑے پیمانے پر کمی ہوگی اور ہزاروں کاروبار ختم ہو جائیں گے۔ موجودہ حکومت سمیت ماضی کی تمام حکومتیں یہی کچھ کرتی آئی ہیں لیکن اب سامراجی طاقتوں کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس دوران عالمی معیشت کے بحران کے باعث ملکی برآمدات میں بڑے پیمانے پر کمی ہو چکی ہے اور اس میں مزید کمی کا امکان ہے جس کے باعث بڑے پیمانے پر صنعتیں بند ہوں گی۔ چین سے کیے گئے تجارتی معاہدوں کے باعث بہت سی مقامی صنعت پہلے ہی ختم ہو چکی ہے اور آنے والے عرصے میں چین سے مزید سستی اشیا کا سیلاب اس کو بہا لے جائے گا۔ اس دوران ایک کروڑ کے قریب تارکین وطن محنت کشوں کا روزگار بھی داؤ پر لگ چکا ہے۔ خلیجی ممالک سے بڑے پیمانے محنت کش خالی ہاتھ واپس لوٹ رہے ہیں جبکہ یورپ اور امریکہ سے آنے والی رقوم میں بھی کمی آئے گی۔ اس دوران دفاع سمیت حکمرانوں کے دیگر تمام اخراجات بھی تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں اور وہ اپنا جواز قائم رکھنے کے لیے خطے میں نئی جنگوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان تمام عوامل کی موجودگی میں یہ امکان موجود ہے کہ پاکستان کی معیشت دیگر بہت سی کمزور معیشتوں کی طرح دیوالیہ ہو جائے۔ دیوالیہ ہونے کا مطلب پورے مالیاتی نظام کا بنیادوں سمیت زمین بوس ہونا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے کورونا کے حوالے سے ایک اجلاس میں عمران خان نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا ہے۔ گوکہ اس کا مقصد قرضوں کی ادائیگی اور آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی کی درخواست کرنا تھا لیکن ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اگر تھوڑا بہت ریلیف ملا بھی تو وہ اس روزِ حساب کو صرف کچھ عرصے تک ٹالنے کا ہی کام کرسکتا ہے۔ عالمی مالیاتی نظام کے بحران کے باعث خود امریکی سامراج اور دنیا بھر میں مسلط کردہ سامراجی مالیاتی ادارے بھی شدید شکست و ریخت کا شکار ہیں اور بحرانوں سے لرز رہے ہیں۔ ایسے میں ان کے لیے ماضی کی طرح ریلیف دینا یا اپنی سامراجی جنگوں کو جاری رکھنے کے لیے گماشتہ ممالک کو مالی امداد فراہم کرنا ماضی کی طرح ممکن نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس پورے نظام کی بنیادیں لرز رہی ہیں اور آنے والے عرصہ ہنگامہ خیز واقعات اور طوفانوں کا عرصہ ہوگا۔ دیوالیہ پن کے دہانے پر لڑکھڑاتی معیشتیں کسی بڑے واقعے کے نتیجے میں کھائی میں گر بھی سکتی ہیں۔ اسی طرح سیاسی، سفارتی، داخلی اور خارجی محاذ پر بھی دیو ہیکل تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ اس تمام عمل میں محنت کش طبقے کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہوگا۔ اگر ایک منظم انداز میں اس طبقے نے ایک انقلابی قیادت کے ساتھ ان واقعات میں درست انداز میں مداخلت کی تو پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے اور سودی نظام اور قرضوں کا یہ خونی چکر ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے بغیر اس مالیاتی نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس بوسیدہ معیشت میں کسی بھی قسم کی بہتری یا اصلاح ممکن ہے۔

Comments are closed.