کیا مہنگائی، بیروزگاری سے چھٹکارا ممکن ہے؟ کیا انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے؟

حکمران طبقے کے مسلط کردہ بجٹ اور اس کے تحت ہونے والی مہنگائی اور بیروزگاری کو قسمت کا لکھا ثابت کرنا معمول بن چکا ہے۔ حکمران طبقہ جو بھی پالیسی آئی ایم ایف کی گماشتگی میں عوام پر مسلط کرتے ہیں اسی کو سب سے درست اور بروقت ثابت کرنے کے لیے پوری ایک مہم لانچ کر دی جاتی ہے۔ ہر قسم کا دانشور، سیاسی لیڈر، اینکر پرسن اور ”ذہین“ شخص یہی ثابت کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ اسی پالیسی میں عوام کا مفاد ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی آئی ایم ایف کو مجرم قرار نہیں دیتی اور نہ ہی اس سے پچھلی سات دہائیوں سے بڑھنے والی غربت، بیروزگاری اور معاشی بربادی کا حساب مانگا جاتا ہے اور جو اربوں ڈالر یہاں سے لوٹ کر آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی سامراجی ادارے اپنی تجوریوں میں بھرتے رہے ہیں ان کی واپسی کا تقاضا کیا جاتا ہے۔

تمام سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کا اختلاف صرف اس نکتے پر ہوتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کا زیادہ مخلص دلال بن سکتا ہے اس لیے موجودہ پارٹی کو ہٹا کر اسے اقتدار میں آنے کا موقع دیا جائے۔ آئی ایم ایف کی مسلط کردہ نجکاری، مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر عوام دشمن پالیسیوں کو اٹل حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ان کے علاوہ کچھ بھی ممکن نہیں۔ اسی طرح موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کو بھی ازلی اور ابدی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری، سٹاک ایکسچینج کی سٹے بازی اور سرمایہ دار طبقے کی لوٹ مار کو ایک ابدی حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس پر کسی قسم کی کوئی بحث یا اختلاف کی گنجائش کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اگر کسی ”سیانے“ سے پوچھا جائے کہ اس ملک کے مسائل کا کیا حل ہے یا آنے والے عرصے میں کیا ممکنات ہیں تو دنیا میں موجود ہر ممکن حادثہ، خانہ جنگی، جنگیں، توڑ پھوڑ جیسے متبادل تو بہت سے نظر آئیں گے لیکن یہ امکان کہیں دور تک بھی موجود نہیں ہوتا کہ یہاں پر عوام سڑکوں پر باہر نکل کر انقلاب برپا کر سکتے ہیں اور حکمران طبقے کی حاکمیت اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح یہ خیال پیش کرنا کہ مہنگائی اور بیروزگاری میں احتجاج کے ذریعے کمی کروائی جا سکتی ہے بالکل ہی رد کر دیا جاتا ہے اور اسے کسی دیوانے کا خواب یا بیوقوفی قرار دیا جاتا ہے۔

یہ صورتحال مزدور تحریک کے قائدین اور مختلف عوامی تحریکوں کی قیادتوں میں بھی نظر آتی ہے۔ کسی بھی مزدور تحریک کا لیڈر یہ یقین نہیں رکھتا کہ مزدور کی کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کروائی جا سکتی ہے یا پھر یہ کہ نجکاری کی پالیسی یا وزارت کا مکمل خاتمہ کروایا جا سکتا ہے یا پھر یہ کہ ٹھیکیداری نظام کے تحت بھرتیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور تمام کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل بھی کروایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بجلی کے بلوں یا آٹے کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر قیمتوں میں کمی کا سوال ہی رد کر دیا جاتا ہے اور یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ صرف اتنا سا مطالبہ کرنا چاہیے جو ”معقول“ نظر آئے اور اس سے تھوڑا بہت گزارا چلتا رہے۔

اس کے ساتھ ساتھ عوام کی طاقت کے ذریعے کسی تحریک کو کامیابی تک لے جانے کے حوالے سے بھی کسی سیاسی قیادت میں یقین موجود نہیں۔ عمران خان سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈر یہی سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیاں یا امریکی سامراج یا سعودی شاہی خاندان کی چاپلوسی انہیں اقتدار دلوا سکتی ہے اور جتنی زیادہ وہ غلامی کریں گے اتنا ہی زیادہ وہ اقتدار کے قریب ہوتے چلے جائیں گے۔

لیکن ”آزاد“ کشمیر کی تحریک نے ان تمام تصورات اور نظریات کو بہت بڑا دھچکا لگایا ہے۔ اس ملک کی سیاست اور دانش میں ایک بھونچال برپا کر دیا ہے۔ عوامی تحریک کی طاقت ثابت ہو چکی ہے اور یہ بھی دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں اتنے بڑے پیمانے پر کمی کروائی جا سکتی ہے۔ بجلی کا ایک یونٹ صرف تین روپے تک حاصل کرنے کے لیے اس عوامی تحریک نے کسی رائج الوقت سیاسی پارٹی کا سہارا نہیں لیا، کسی سامراجی طاقت سے مدد نہیں لی اور کسی سرمایہ دار سے فنڈنگ کی بھیک نہیں مانگی۔ اپنا حق چھین کر حاصل کیا ہے۔

اسی بنیاد پر پاکستان کے تمام علاقوں میں مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف عوامی سطح پر تحریک منظم کرنے کی ضرورت ہے اور ہر جگہ یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ نہ صرف مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف جدوجہد اپنے زورِ بازو پر کی جا سکتی ہے بلکہ اس کو جیتا بھی جا سکتا ہے۔ اسی طرح یہاں پر ایک انقلاب برپا کرنا اور اسے کامیاب کروانا بھی ممکن ہے اور یہاں پر سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ بھی کیا جا سکتا ہے اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے تحت منصوبہ بند معیشت قائم کی جا سکتی ہے۔ اس انقلاب کے تحت ہی یہاں پر آئی ایم ایف کے مظالم کا خاتمہ ہو گا اور حکمران طبقے کی لوٹ مار سے نجات ملے گی جس کے حجم کا ہلکا سا اشارہ دبئی پراپرٹی لیکس میں بھی نظر آیا ہے۔ اس ملک میں ہر سال سینکڑوں ارب ڈالر کی دولت پیدا ہوتی ہے لیکن اس ملک کا حکمران طبقہ، عالمی مالیاتی ادارے اور سامراجی طاقتیں وہ تمام دولت لوٹ کر باہر اپنے ذاتی اکاؤنٹس میں لے جاتے ہیں اور یہاں بھوک، بیماری، لاعلاجی اور غربت چھوڑ جاتے ہیں۔ اس تمام تر ظلم اور استحصال کے خلاف محنت کش عوام منظم ہو کر ایک تحریک چلائیں اور اس کی قیادت کمیونسٹ نظریات سے لیس، ایک انقلابی پارٹی کی صورت میں منظم، انقلابی کارکنان کے پاس ہو تو یہاں پر ایک انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے اور ہر طرح کے ظلم و جبر کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

اس کے لیے سب سے پہلا قدم اس انقلاب کے امکان پر یقین پیدا کرنا ہے جس کے لیے کمیونزم کے سائنسی نظریات کا حصول کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح عوامی تحریکوں کی کامیابیاں اور اس کے اسباق ملک کے طول و عرض تک پھیلانے کی ضرورت ہے اور ان تحریکوں کو انقلابی نظریات کے تحت منظم کرتے ہوئے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ ان کمیونسٹ نظریات کی بنیاد پر ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کی ضرورت ہے تاکہ ان تمام اسباق اور تحریکوں کو یکجا کرتے ہوئے حکمران طبقے کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کا آغاز کیا جا سکے اور ان کی معیشت، سیاست اور سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑتے ہوئے مزدور راج قائم کیا جائے اور تباہ حال کروڑوں عوام کو ایک نئی زندگی، ایک نئی امنگ اور ایک نیا سماج مل سکے، جس میں طبقاتی، صنفی اور قومی جبر کی غلاظتیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔

Comments are closed.