اداریہ: سرمایہ داری کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے!

سرمایہ دارانہ نظام کے جرائم اور ان کے تدارک کے لیے ایک سوشلسٹ انقلاب کی بحث اس ملک میں نئی نہیں۔ ایک طویل عرصے سے اس بحث میں سماج پر حاوی دانشور، سیاستدان اور اکثر نام نہاد پڑھے لکھے لوگ سوشلزم کو اپنے تئیں غلط ثابت کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتے تھے اور گھڑے گھڑائے جملے استعمال کر کے سوشلزم کے حق میں دلیل دینے والوں کو خاموش کروانے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ دلائل ان لوگوں نے اپنی تحقیق اور مطالعے سے اخذ نہیں کیے ہوتے تھے بلکہ سامراجی پراپیگنڈے کے ذریعے ان تک پہنچے ہوتے تھے اور وہ کسی بھی بحث میں ان بظاہر منطقی نظر آنے والے دلائل کو دہرا کر بحث جیتنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس پراپیگنڈے کے لیے ملاؤں سے لے کر سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں، پروفیسروں اور دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں،این جی اوز کے مالکان، لبرلز اور ان جیسے مختلف افراد کو استعمال کیا جاتا ہے اور انہیں مزدوروں کے استحصال پر مبنی اس نظام کو سب سے بہترین، ازلی اور ابدی بنا کر پیش کرنے کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔

ملک کے موجودہ حالات اور عالمی سطح پر موجود بحرانوں، بینکوں کے دیوالیوں، بڑھتی جنگوں اورخانہ جنگیوں نے اس نظام کے حق میں دلائل دینے والوں کے لیے بہت سی مشکلات کھڑی کر دی ہیں اور ان کے لیے موجودہ صورتحال کو پرانے فارمولوں اور نظریات کے تحت سمجھنا آسان نہیں رہا۔ گو کہ اس سماج میں انتہائی غیر منطقی گفتگو بھی عام ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود بھی سرمایہ داری کو بہترین نظام ثابت کرنا اب پہلے کی نسبت بہت زیادہ مشکل ہو چکا ہے۔

یہ دلیل یہاں اکثر سننے کو ملتی تھی کہ امریکی سامراج دنیا کی سب سے بڑی عسکری اور معاشی قوت ہے اور وہ کسی بھی ملک میں اپنی مرضی کی پالیسی ڈکٹیٹ کروا سکتا ہے۔ لیکن افغانستان سے امریکی افواج کے ذلت آمیز انخلا نے اس دلیل کے پرخچے اڑا دیے اور اب چین اور روس کے سامراجی گٹھ جوڑ نے عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن کو تبدیل کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ گو کہ یہ تمام عمل اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور ابھی تک امریکی سامراج ہی دنیا میں سب سے بڑی سامراجی طاقت ہے لیکن اس کے باوجود یہ گزشتہ چند سالوں میں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ کمزور ہو چکا ہے اور پوری دنیا کو ڈکٹیٹ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا سرمایہ داری کے وظیفہ خواروں کے ہاضمے خراب کر سکتا ہے۔

ان سامراجی غلاموں کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جنہیں یہاں ہر کسی کے لیے مثال بنا کر پیش کیا جاتا تھا اور ان کی پیروی کو اپنا نصب العین بنا لیا گیا تھا وہاں سیاسی زلزلے اور بھونچال برپا ہو رہے ہیں۔ پیرس کی سڑکوں پر لاکھوں مزدور اپنی پنشن کے حق اور دیگر مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اور دنیا میں جمہوریت اورا ظہار رائے کی آزاد ی کی چمپئین کہلائے جانے والی فرانس کی ریاست پیرا ملٹری پولیس کے ذریعے ان مظاہرین پر بد ترین تشدد کر رہی ہے اور انہیں بغیر کسی کاروائی کے جیلوں میں پھینک رہی ہے۔ ان سامراجی گماشتوں کے لیے یہ تصور کرنا بھی ممکن نہیں کہ برطانیہ اور جرمنی میں لاکھوں مزدور اجرتوں میں اضافے کے لیے احتجاج اور ہڑتالیں کر رہے ہیں جبکہ وہاں کا حکمران طبقہ ان سے علاج اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات چھین رہا ہے۔ یہ لوگ نہیں مانیں گے کہ امریکہ اور کینیڈا میں آج لاکھوں نوجوان سوشلزم اور کمیونزم کو بہترین نظام سمجھتے ہیں۔اسی طرح امریکہ اور سوئیٹزر لینڈ میں بینکوں کے دیوالیے، بدترین معاشی گراوٹ اور ایک نئے مالیاتی بحران کا آغاز واضح کرتا ہے کہ مغربی ممالک میں بھی سرمایہ دارانہ نظام زوال پذیر ہے جبکہ وہاں پر محنت کش طبقہ اور بالخصوص نوجوانوں کی بھاری اکثریت سرمایہ دارانہ نظام سے نفرت کرتی ہے اور سوشلسٹ نظریات کی جانب راغب ہو رہی ہے۔ درحقیقت ان وظیفہ خوروں کو دلیلوں کے ذریعے قائل ہی نہیں کیا جا سکتا۔

اگر کوئی ان تمام دلائل کو تسلیم بھی کر لے اور یہ مان لے کہ پوری دنیا سیاسی و معاشی طور پر ہیجان خیز دور میں داخل ہو چکی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی حل ہی موجود نہیں اور یہ نظام خواہ کتنی ہی بربادی، بھوک اور بیماری پھیلائے اور جنگوں اور خانہ جنگیوں کا باعث بنے انسانیت کو اسی نظام کے اندر رہ کر ہی زندگی گزارنی پڑے گی۔درحقیقت یہ لوگ ”تاریخ کے خاتمے“ کے سامراجی نظریے پر ایمان لا چکے ہیں جس کے مطابق سرمایہ داری دنیا کا آخری نظام ہے اور رہتی دنیا تک اب کوئی دوسرا نظام نہیں آئے گا۔ دراصل ایسے قنوطی لوگ ہر دور میں رہے ہیں اور رجعت پرستی کے تحت ہر آنے والے نئے نظریے، نئی سوچ اور انقلابی تحریکوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ لیکن تاریخ ہمیں یہ خوشگوار حقیقت بتاتی ہے کہ انقلابات اور سماجی تبدیلیاں حکمرانوں کے وظیفہ خوروں اور گماشتوں کی مرہون منت نہیں ہوتی۔ ماضی میں بھی عوام نے انقلابات کے ذریعے نظاموں کو تبدیل کیا ہے، بادشاہوں کے سر قلم کیے ہیں، ملکیت کے رشتے مکمل طور پر تبدیل کیے ہیں اور حکمران طبقے کے تمام تر جبر کے باوجود علم بغاوت بلند کرتے ہوئے ان کی حاکمیت کا خاتمہ کیا ہے اوراب بھی ایسا ہی ہوگا۔

یہاں کے دانشور اور سیاستدان بھی محنت کش طبقے سے شدید نفرت کرتے ہیں اور یہ حقیقت تسلیم نہیں کرسکتے کہ اس ملک کا محنت کش طبقہ کوئی انقلاب برپا کر سکتا ہے یا پھر یہاں کی سیاست اور سماج میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے۔ ان دانشوروں کے نزدیک محنت کش عوام مجہول کردار کے حامل ہیں اور وہ حکمرانوں کے بتائے ہوئے مختلف رستوں میں سے ہی کسی ایک رستے پر چلتے چلے جائیں گے اور یہ حکمران انہیں بھیڑوں کی طرح ہمیشہ ہانکتے رہیں گے۔

لیکن دنیا بھر میں ابھرنے والی تحریکیں اور انقلابی واقعات ان کی تمام تر دانش اور حکمت کو پچھاڑتے چلے جا رہے ہیں اور پوری دنیا انقلابات اور رد انقلابات کے عہد میں داخل ہوچکی ہے۔ یہ عمل یہاں پر بھی وقوع پذیر ہوگا اور حکمران طبقے کے تمام تر ہتھکنڈوں، نان ایشوز کی سیاست، فرقہ واریت، قومی تعصب اور لسانیت سمیت تمام زہریلے پراپیگنڈے کے باوجود اس ملک کا محنت کش طبقہ ایک بہت بڑی انقلابی تبدیلی کے لیے باہر نکلے گا اور قنوطیت پسندوں کے تمام تر دعووں کے بر عکس اس سماج کو اوپر سے لے کر نیچے تک مکمل طور پر تبدیل کر دے گا۔ اس سماج پر مسلط سرمایہ دار طبقے کے تمام طاقتور ادارے، بڑے بڑے بینک، مضبوط مالیاتی نظام، ازلی نظر آنے والے ملکیت کے رشتے، ابدی اخلاقیات اور دیو ہیکل نظریات تنکوں کی طرح ہوا میں بکھر جائیں گے اور ایک نئے سماج کی تخلیق کے لیے سازگار حالات پیدا ہوں گے۔ اس وقت مہنگائی اور بیروزگاری کے بد ترین حملوں کے باوجود سطح پر یہ کیفیت موجود نہیں لیکن سطح سے نیچے بہت بڑے تضادات پنپ رہے ہیں جو جلد یا بدیر سطح پر اپنا اظہار کریں گے اور صورتحال اپنے الٹ میں تبدیل ہو جائے گی۔ ایک انقلابی کیفیت میں ایک انقلابی پارٹی کی موجودگی سرمایہ داری کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر سکتی ہے اور انسانیت کی ترقی اور خوشحالی کے لیے محنت کش طبقے کے ساتھ مل کر سوشلسٹ انقلاب برپا کر سکتی ہے۔ اس عظیم انقلابی تبدیلی کے لیے سائنسی سوشلزم کے نظریات کے حصول اور ترویج کے لیے جدوجہد کا آغاز آج سے کرنا ہوگا۔

Comments are closed.