سرمایہ دارانہ نظامِ تعلیم؛ جو علم پڑھایا جاتا ہے، وہ کیا ہے فقط سرکاری ہے!

تحریر: علی بیگ:-

پاکستان کا نظام تعلیم برطانوی راج کا بنایا ہوا ہے۔ جسکا مقصد ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے کلرکس اور غلام پیدا کرنا تھا۔یہ نظام ایسے جامد اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری مشین کے پرزے تیار کرتا ہے جو کہ سرمایہ داروں کے سرمایہ میں مسلسل بڑھوتری اور ریاستی مشینری چلانے کے لئے ناگزیر ہیں۔
سرمایہ دارانہ معاشی نظام کیوجہ سے پورا معاشرہ طبقات میں تقسیم ہے۔ اس  لئے تعلیمی نظام بھی طبقاتی ہے۔اور ایک حقیقی اور آزاد انسانی شعور پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ یہ نظام سوال اٹھانے والوں کو مجرم گردانتا ہے اور تنقیدی سوچ کی نفی کرتا ہے۔کیونکہ اس نظام کے آقا ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کے غلام ان پر اور معاشرے میں موجود طبقات پر سوال اٹھاتے ہو ے اس نظام کو چیلنج کریں اور تبدیلی کا سوچیں۔ اس تعلیم کا مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو حقیقت کو جامداور ناقابل تبدیلی سمجھتے ہوئے قبول کر لیں۔اسطرح وہ طبقات کی موجودگی اور جبرواستبداد کی اس صورتحال کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیں گے۔ تعلیم ہمارے سماج میں ایسی صنعت کے طور پر ابھری ہے جسکا مقصد محض شرح منافع بڑھانا ہے۔انسانی ترقی اور آزادی اُن کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ سرمایہ داروں کے بچوں کے لیے عالیشان عمارتوں میں تعلیم کا انتظام ہے تو دوسری طرف پسا ہوا اور بنیادی ضروریات سے محروم طبقہ غلاظت سے پرُ اور بنیادی انفراسٹرکچر سے محروم سرکاری سکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے پر مجبور ہے ۔ یہاں سرکاری ، نیم سرکاری اور شاندار نجی درسگاہوں سے لیکرگلی محلوں میں کھمبیوں کی طرح اگنے والے سکول اور قدامت پرستوں کی درسگاہوں تک، سب موجود ہیں۔ اور اپنی اپنی اوقات کے مطابق تاریکیاں اور جہالت بانٹ رہے ہیں۔ ان سب کے اپنے اپنے نصاب اور پڑھانے کے مختلف طریقہ کار ہیں۔ امتحانی طریقہ کار غیر صحت مند مقابلے کو فروغ دیتا ہے۔(نتائج کے خوف سے بعض نوجوان توخودکشی تک کر لیتے ہیں) یہ غیر صحت مند مقابلہ ظلم پرکھڑے اس نظام میں جبر اور تسلط قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے تعلیم کو بھی منافع کمانے کا آلہ بنا لیا ہے۔نجی یونیورسٹیوں میں بھاری بھرکم فیسیں بٹور کر ایسی ڈگریاں بانٹی جاتیں ہیں جو پیداوار میں اضافے کا باعث تو نہیں بنتی البتہ محنت کشوں کے استحصال کے نت نئے طریقے سکھا کرسرمایہ داروں کے سرمایے میں اضافے کا سبب ضرور بنتی ہیں۔لیکن یہ ڈگریاں بھی نوجوانو ں کو روزگار دلانے سے قاصر ہیں۔نتیجتاً اس نظام تعلیم میں ترقی کا مطلب بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہے۔ موجودہ معاشی نظام نے محنت کش طبقے کے لیے اپنے بچوں کو تعلیم دلانا تو درکنار، خوراک مہیا کرنا بھی ناممکن بنا دیا ہے۔ایسے حالات میں وہ اپنے بچوں کو ایسی خیراتی درسگاہوں میں تعلیم دلانے پر مجبور ہیں جو ان بچوں کو رہائش اور خوراک دیتے ہیں۔پھر یہ ادارے ان بچوں کو اپنے مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ محنت کشوں کے بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد تو اس سماج کا حصہ ہی نہیں بن پاتی۔ان کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ان کوورکشاپوں ، دکانوں اور کارخانوں میں کام کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔یا پھر پھول بیچنے، جوتے پالش کرنے اور اشاروں پر گاڑیوں کی سکرینیں صاف کرنے پر لگا دیا جاتا ہے۔

   وہ سب معصوم سے چہرے تلاش رزق میں گم ہیں  جنہیں تتلی پکڑنا تھی، جنہیں باغوں میں ہونا تھا

پاکستان میں تعلیم کا حصول ایک خواب بنا دیا گیا ہے۔زیادہ تر یونیورسٹیاں اور کالجز بڑے شہروں میں ہیں۔جن کیوجہ سے طالب علموں کو روزانہ میلوں کا سفر گھٹیا ٹرانسپورٹ پر کرنا پڑتا ہے۔یا وہ بڑے شہروں میں نقل مکانی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔تعلیم، نوکری اور اچھے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے لاکھوں لوگ بڑے شہروں میں ہجرت کرتے ہیں۔ اس اندھا دھند نقل مکانی کیوجہ سے شہر بغیر کسی پلاننگ کے ایک ناسور کی طرح بڑھتے جا رہے ہیں۔جسکی وجہ سے شہروں میں ایک ہیجان اور بیگانگی کی کیفیت نے جنم لیا ہے۔ٹریفک اور آبادی کے دوسرے مسائل نے شہروں کو جہنم بنا دیا ہے۔ موجودہ نظام تعلیم نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ کی تیاری میں مصروف ہے جو سماج سے بیگانہ ، غلامانہ ذہنیت رکھتے ہیں۔اور دوسروں کو قطعی جاہل سمجھتے ہیں جبکہ وہ خود جبر کے نظام سے آگاہی اور حقیقی آزادی کا شعور نہیں رکھتے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر چیز اپنے ہی اندر موجود تضاد اور ٹکراوُ کے نتیجے میں ترقی کرتی ہے۔اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ تضاد اور ٹکراوُ اسی غلامانہ ذہنیت سے ہی ابھر رہا ہے۔کیونکہ اس نظام تعلیم میں پڑھنے والے بھی انسان ہیں،وہ اپنی تعلیم، اپنے عملی تجربے اور سماجی حقیقتوں کے درمیان موجود ایک بہت بڑے تضاد کو محسوس کرتے ہیں۔تعلیم کے نام پر ہونے والے اس تماشے کو عوام اب زیادہ دیر تک برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ ایسی صورتحال میں ہماری یہ تاریخی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم حقیقی آزادی بخش مارکسی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام کریں تاکہ انسان اپنے معروض کو سمجھتے ہوئے اس طبقاتی جنگ میں اپنا فیصلہ کن کردار ادا کریں اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے انسانیت کی آزادی کی طرف قدم بڑھائیں۔ صرف اسی صورت میں انسانیت کو مسائل اور اذییتوں سے نجات ملے گی اور وہ حقیقی خوشی اور آزادی کو محسوس کر سکیں گے۔ سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہو گی۔۔سوشلسٹ انقلاب زندہ باد۔۔

پڑھنے والوں کے نام

جو اصحاب طبل علم کے دروں پرکتاب اور قلم

کا تقاضا لیے، ہاتھ پھیلائے پہنچے

اور لوٹ کر گھر نہ آئے

وہ معصوم جو بھولپن میں

وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن

لے کے پہنچے جہاں

بٹ رہے تھے گھٹا ٹوپ اندھیرے، بے انت راتوں کے سائے (فیض احمد فیض)