فزکس کا خاتمہ؟

|تحریر: صبغت وائیں|

ایک آدمی کے نوکر کو ایک کے دو نظر آتے تھے۔ اس کا مالک اس کی اس بیماری سے بہت تنگ تھا لیکن نوکر بہت فرمانبردار تھا اس لئے برداشت کرتا تھا۔ ایک بار اس نے کہا کہ میز پر گلاس پڑا ہے اس میں پانی لا دو۔ اس نے کہا حضور یہاں تو دو گلاس پڑے ہیں۔ مالک نے کہا ایک کو توڑ دو! اندر سے گلاس ٹوٹنے کی آواز آئی۔ اس کے بعد نوکر خالی ہاتھ لوٹ آیا۔ مالک نے پوچھا کیا ہوا؟ نوکر بولا دونوں ٹوٹ گئے ہیں۔ (ایک عام لطیفہ)

کہتے ہیں کہ راج ہنس کو دودھ میں پانی ملا کر دے دیں۔ وہ اس میں سے دودھ پی لے گا۔ (ایک صدیوں پرانی کہاوت)

کمیونسٹوں کے بارے میں ایک بات زور و شور سے کہی جاتی رہی ہے وہ یہ کہ انہوں نے زمانے سے الٹ ہی چلنا ہوتا ہے۔

مجھے تو اس کا ذاتی تجربہ ہے۔ میں تب کمیونسٹ کے نام سے بھی نہیں واقف تھا جب میرے متعلق یہ کہا جاتا تھا۔ وجہ صرف اتنی سی تھی کہ کتابیں پڑھنے کا شوقین تھا اور سائنسی حقائق کے بارے میں بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ اب جب میں کسی سے یہ کہوں کہ نئے کیل کا زخم بھی اتنا ہی نقصان دیتا ہے جتنا زنگ آلود کیل کا تو لوگوں نے تو میری بات کو مذاق ہی سمجھنا ہے؟

لیکن کیا کمیونسٹ واقعی دنیا سے الٹ بات کرتے ہیں؟۔۔۔ یہ ایک سوال ہے جہاں سے ہم سوچنا شروع کر سکتے ہیں تاکہ کمیونسٹوں یا مارکسسٹ کہیں تو زیادہ بہتر ہے، کو ذرا قریب سے دیکھا جائے۔ کیوں کہ یہ سوال بھی فلسفے اور سائنس کی حاکمیت، ان کے تعلق اور اس سے آگے جا کر وجود اور شعور کی بحث اور فلسفے کے اسی بنیادی ترین سوال سے جا جڑتا ہے جس کے متعلق ہم نے کئی بار مارکس اور اینگلز کی ہمنوائی میں یہ دعویٰ درج کیا ہے کہ یہ فلسفے کا بنیادی ترین سوال ہے کہ وجود اور شعور کا آپس میں کیا تعلق ہے اور ان میں سے بنیادی کیا ہے؟ فلسفے کا ہر سوال بالآخر اسی سوال سے جا جڑتا ہے۔

تو ہم پر یہ الزام ہے کہ ہم دنیا سے الٹ سوچتے ہیں، دنیا سے الٹ بات کرتے ہیں یا دنیا سے الٹ چلتے ہیں۔ یہاں اگر ہم دنیا سے مراد لوگ، انسان یا سماج لیں تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ الزام کیا ہے۔ یعنی جو بات لوگ کر رہے ہوتے ہیں یا لوگوں میں رائج ہوتی ہے یہ اس سے الٹ بات کرتے ہیں۔ شاید توجہ حاصل کرنے کے لئے، یا خود کو نمایاں کرنے کے لئے، جیسے سرمایہ داروں کے بچے گاڑیوں کے ٹائر گھسیٹ کر توجہ حاصل کرتے ہیں۔ آخر ہم رہتے تو اسی معاشرے میں ہیں جہاں بے شمار نودولتیے اس طرح کی قبیح حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ تو ہو سکتا ہے کہ بعض مارکسسٹ ایسا کرتے بھی ہوں۔ لیکن ہم نے بعض کا نہیں سب کا جائزہ لینا ہے۔

کبیر کی شاعری میں اکثر جگہوں پر ’’دیکھ کبیرا رویا‘‘ آتا ہے۔ یعنی وہ الٹ بات نہیں کرتا تھا بلکہ الٹی دنیا کو دیکھ کر روتا تھا۔ یاد رہے کہ بھگت کبیر مارکسسٹ نہیں تھا۔

اسی طرح ہر شاعر ہر ادیب کے اعلیٰ تر فن پارے وہی تھے جو کہ اس دنیا کی روایت کے خلاف تھے۔ بلکہ باقی باتیں چھوڑیں ہمارے مخالفین بھی ’’ٹیبو توڑنے کی‘‘ یا ’’احیا کی‘‘ باتیں کرتے پائے جاتے ہیں یعنی موجود سے وہ بھی نہیں مطمئن۔ تو آخر وجہ کیا ہے؟ کیا دنیا واقعی الٹی ہے؟

تھوڑا سا غور سے دیکھیں کہ یہ دنیا آخر ہے کیا تو تاریخ کی کتابیں جھوٹ کے پلندے کی بجائے سچائی کے صحیفے معلوم ہونے لگتی ہیں جب تاریخ عام انسانوں کو یکسر نظرانداز کر کے بابر سے ہمایوں اور پھر اکبر پر چھلانگ مارتی نظر آتی ہے۔ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے اتنا ہی کہوں گا کہ جس طرح سے تاریخ صرف حکمران طبقے کی تاریخ ہے اسی طرح دنیا بھی حکمران طبقے ہی کی دنیا ہے۔ کم از کم اب تو ایسا ہی ہے۔ طبقاتی نظام کے قائم ہونے کے بعد جن جن سماجوں میں طبقاتی نظام رائج رہا وہاں کی دنیا، سماج، مذہب ،فلسفہ، ادب، فن، کلچر، فیشن، زبان اور سوچ تک حکمران طبقے ہی کی سوچ ہے۔ اس سوچ سے بالا ہو کر سوچنا جو کہ حکمران طبقہ ہمارے لئے مہیا کرتا ہے تقریباً محال ہے۔ اس طرح ہمیں ہر وہ سوچ غلط یا الٹ نظر آئے گی جو ہم پر حکومت کرنے والے کے مفاد کے خلاف ہو گی۔ ہم اس بات کو نہایت آسانی کے ساتھ کر بھی گئے ہیں اور ہم نے یہ پڑھ بھی لیا ہے۔ لیکن اس بات پر بہت ساری بحث کی ضرورت ہے اور اس پر بہت زیادہ سوچنے کی، بات کرنے کی، لکھنے کی اور اس کے لئے دلائل اور ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ اتنے دلائل کہ عام انسان تک یہ بات پہنچ بھی جائے اور اس کو سمجھ بھی آ جائے۔

ہم اپنے فلسفے جدلیاتی مادیت کو سچ مانتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ یہ ہمارے عظیم بزرگوں نے دیا ہے یا اس لئے کہ یہ ہمارا ہے، بلکہ اس لئے کہ یہ خود کو جانچ پرکھ کے لئے نہ صرف یہ کہ پیش کرتا ہے بلکہ یہ کہ جانچ پرکھ کے طریقے بھی بتاتا ہے۔ جن کا ہم آگے ذکر پڑھیں گے۔

جدلیاتی مادیت کا فلسفہ فطرت پر لاگو ہوتا ہے، یہ انسان کی سوچ پر لاگو ہوتا ہے اور یہ سماج پر لاگو ہوتا ہے۔ ہم اسے ان تینوں پر اس لئے لاگو نہیں کرتے کہ یہ فلسفہ کوئی مقدس صحیفہ ہے بلکہ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ انہی تینوں سے اخذ کیا گیا ہے۔

اب ہمارے سامنے مسئلہ صرف یہ ہے کہ سچائی کیا ہے۔ کانٹ نے کافی حد تک درست بات کہی تھی کہ کسی بھی فلسفے یا منطق کی بات کرنے والے کو خاموش کروانا ہو تو اس سے پوچھ لیں کہ سچائی کیا ہے۔ وہ جواب نہیں دے پائے گا۔ اور اگر اس نے اس تمسخر اڑانے والے کو جواب دینا شروع بھی کر دیا تو کانٹ کے مطابق ایک تو دودھ دوہنے کے لئے بکرے کے نیچے جا بیٹھا تھا اور دوسرا دودھ جمع کرنے کے لئے چھلنی لے کر آ گیا ہے۔ گویا اس طرح کی بات ہی فضول ہے۔ لیکن کانٹ کے ذہن میں یقیناً ارسطو ہی کی بات ہو گی کہ انتہائی معمولی چیزوں کی تعریف کرنا غلط ہوتا ہے اور یقیناً انتہائی مشکل بھی ہوا کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ ’’سرخ کیا ہے‘‘ انتہائی مشکل سوال ہے، گو کہ افلاطون نے اس کا جواب دیا بھی ہے پھر بھی ایسے سوال تنگ کرنے کے لئے ہی کئے جا سکتے ہیں، منطق انہیں منع ہی کرتی ہے۔
تو کیا ہم سچائی کو قطعی طور پر رد کر دیں؟

کہ سچائی کا وجود ہی نہیں؟ جیسا کہ آج کل فیشن میں ہے۔ کہ اب تو ریلیٹویٹی (Relativity) آ گئی ہے۔ اب سچائی ریلیٹو ہے اور سچائی یا مطلق سچائی کے زمانے گئے۔

اسی بات کو لیں تو ہم نے کب یہ کہا ہے کہ سچائی ریلیٹو نہیں ہے؟

ہمارا کہنا تو بس یہ ہے کہ سچائیاں ریلیٹو ہی ہیں۔ اور یہ بے شمار ہیں۔ اور ان کا اپنے وقت اور جگہ کے اعتبار سے ریلیٹو یا متعلقہ ہونا ایک ایسی سچائی ہے جسے بغیر کسی دقت کے Absolute ( مطلق) مانا جا سکتا ہے۔

اس سے مراد یہ ہرگز نہیں لی جا سکتی کہ سچائی چونکہ تبدیل ہو جاتی ہے لہٰذا کسی خاص مقام پر اور کسی خاص وقت پر کوئی سچائی نہیں ہو گی۔ جی۔۔۔ نہ تو کوئی ایسا وقت ہو گا اور نہ مقام جب کسی قسم کی کوئی سچائی نہ ہو۔ ریلیٹویٹی کے نظریے نے سچائیوں کو جھٹلایا نہیں بلکہ ہر وقت اور ہر جگہ کی سچائی کی توثیق کی ہے۔

فلسفے میں صرف مطلق سچائی کی بات نہیں کی جاتی رہی بلکہ متعلقاتی یا ریلیٹو سچائی کی بات زور و شور سے کی جاتی رہی ہے۔ یونانی فلسفہ سوفسطائیوں کی ایسی بحثوں سے بھرا پڑا ہے خاص طور پر افلاطون کا مکالمہ یوتھی ڈیمَس، تھیاٹیٹَس اور پروٹاغورث اس کے لئے دیکھا جا سکتا ہے۔

سوفسطائی لوگ ہر بندے کی اپنی سچائی کے قائل تھے۔ گو کہ ان کی بات آج کی بات کی طرح واضح نہیں تھی لیکن وہ اس بات پر ہٹ دھرمی سے قائم تھے کہ ہر بندے کی اپنی اپنی سچائی ہے۔ سقراط کی دلیل کہ ایک بندے کا جسم گرم اور دوسرے کا ٹھنڈا ہو تو ایک ہی ہوا ایک کو گرم اور دوسرے کو ٹھنڈی لگے گی بہت اچھی ہونے کے باوجود بہت اچھی نہیں تھی۔ ہم تھرمامیٹر لے کر ہوا کے ایک درجہ حرارت کی مطلق سچائی تک تو پہنچ سکتے ہیں لیکن یہ ٹھنڈی ہے یا گرم، اس کا فیصلہ تو پھر انسان ہی کرے گا؟

سوفسطائی سقراط کی طرح ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتے تھے۔ یہ پوری دنیا گھومتے رہتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے یہ اس حقیقت کو زیادہ اچھی طرح جان گئے تھے کہ سچائی کے معیار جگہ کے تبدیل ہونے سے بدل جاتے ہیں۔

’’عام انسان فوق البشر اور جانور کے درمیان پْل کی طرح ہے‘‘ (نطشے)
’’کامن سینس نان سینس سے کچھ اوپر کی چیز ہے‘‘ والتیئر (مفہوم)

اب ہم اپنی بات کریں تو ہم سچائی کسے کہہ رہے ہیں؟ کیا جو کچھ ہم سے باہر ہے وہ سچ ہے؟ قطع نظر اس کے کہ وہ کیسا ہے؟ یا وہ سچ ہے جو ہم نے جانا ہے؟ یعنی بات پھر وہیں وجود اور شعور پر پہنچ گئی۔

چلیں کچھ آسان بات کر لیتے ہیں۔ اب میں یہ لکھ رہا ہوں تو اب چھ بجے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں ساڑھے چھ یا سات ہو جائیں گے تو چھ بجے والی سچائی، سچائی نہیں رہے گی بلکہ جھوٹ ہو جائے گی۔ اگر میں کسی سے کہوں بھی کہ چھ بجے ہیں وہ کہے گا تیری گھڑی خراب ہو گی اب تو سات بج چکے۔ تو اس کا یہ مطلب لینا درست نہیں ہو گا کہ کبھی چھ بجے ہی نہیں تھے۔ یا یہ کہ میں ایک سرد علاقے میں ایک غذا کو مفید سمجھتا ہوں تو وہی غذا ایک گرم علاقے میں جا کر مضر ثابت ہو جاتی ہے۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس غذا کا اچھا ہونا یا برا ہونا سچائی نہیں تھی۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہر وقت اور ہر جگہ پر سچائی ہوتی ہے۔ اسے معلوم کرنا ہی انسان کا اصل کام طے ہوا ہے۔ اب اسے معلوم کیسے کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے کیا طریقے برتے جاتے ہیں۔ ان میں فرق ہے۔ سچائی کو معلوم کرنا بلاشبہ فلسفے کا کام تھا۔ ان سچائیوں کو کیسے معلوم کیا جاتا ہے۔ ان طریقوں میں ترقی ہوئی جدت آئی اور یوں فلسفے کے کچھ حصے نے سائنس کا روپ دھارن کیا۔ گو کہ یہ سائنس اپنی بنیادوں میں وہی طریق کار لئے تھی جو کہ فلسفے، آرٹ اورادب کی بنیاد تھا یعنی نیکی: جو بنی نوع انسان کے لئے مفید ہے۔

ہم اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہم کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے اس کا ایک خیال ذہن میں لاتے ہیں پھر اس کے بعد وہ کام کرتے ہیں۔ یہ کام تمام جانداروں میں صرف انسان ہی کرتا ہے کہ وہ اپنی پیداوار سے پہلے اس کا خیال بنا پاتا ہے۔ اسی چیز کو ذرا بڑے پیمانے پر دیکھیں تو ہمیں پہلے فلسفہ اور پھر سائنس نظر آتی ہے۔ ایک سوچ ہے اور دوسرا عمل۔ فلسفہ جب تک خیال رہتا ہے فلسفہ ہے جب یہ عمل میں آتا ہے تو سائنس ہے۔ اسی طرح سائنس اپنی سوچ میں فلسفہ اور اپنے عمل میں سائنس ہے۔ یقیناً ہم اس میں فلسفہ لفظ کو مدرسانہ معنوں میں استعمال کرنے کی بجائے اس کے حقیقی معنوں میں استعمال کر رہے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہمیں دیکھنا صرف یہ ہے کہ سائنس، فلسفے اور آرٹ وغیرہ کا حقیقی مقصد کیا تھا؟ ہم تو یہی جانتے ہیں کہ ان سب کا موضوع انسان ہے۔ بس!

اس لئے ہم انسان ہی کی بات کرتے ہیں۔ انسان، جو لاکھوں سال کی محنت سے اس قابل ہوا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کی فطرت کو کسی حد تک اپنے لئے استعمال کر سکے۔ ہم تھوڑا سا غور کریں تو ہمیں نظر آ جاتا ہے کہ ہمارا علم ہمارے گرد کی دنیا کی نسبت محدود ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کا بھی، اور انسان کا بھی۔ باوجود اس کے کہ ہمارے جانے ہوئے علم کی سرحدیں دن بدن وسیع ہوتی جا رہی ہیں، پھر بھی انہی جانی ہوئی چیزوں میں اتنی نئی راہیں مل جاتی ہیں کہ یوں لگنے لگ جاتا ہے گویا جانا ہوا علم بڑھنے کی بجائے سکڑ گیا ہے۔ یہ علم کی عجیب و غریب دنیا ہے اور یہ اسی طرح کی ہے۔

ہمارا یہ علم احساسات اور تصورات پر مشتمل ہے یعنی وہ جو ہم حسیات سے حاصل کرتے ہیں اور وہ جو ہم اپنی عقل کو بروئے کار لا کر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم سب اپنے بارے میں بھی باشعور ہیں۔ ہمارا تمام علم بس انہی تین اجزا پر مشتمل ہے۔

ہم نے ابھی اوپر یہ بات کی ہے کہ انسان کام کرنے سے ’’پہلے‘‘ اس کا خیال ذہن میں لاتا ہے۔ اس کو اگر عام زندگی میں دیکھا جائے تو درست ہے۔ لیکن یہ خیال کہاں سے آتے ہیں؟ اس پر اگر بہت زیادہ غوروفکر کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ خیال تشکیل دینے کی صلاحیت کا حامل ہوتے ہوئے بھی خیالات سے عاری ہوتا ہے۔ اس کا ذہن واقعی ایک خالی سلیٹ کی مانند ہی ہے۔ اس میں خیال تشکیل دینے کے لئے اسے لاتعداد ’’عمل‘‘ کرنے پڑتے ہیں جو کہ اس کے گرد کی مادی دنیا پر اور سماج پر ہوں گے، اور ان میں سے بے شمار اعمال سماج کے کئے گئے اعمال کا ردِعمل ہوں گے اور بہت سے ردِعمل اسے ایسے ملیں گے جو کہ اسی کے اپنے اعمال کا جواب ہوں گے، اس طرح خیال کی تشکیل کی بنیاد میں عمل کا ہونا ہی نظر آتا ہے۔

سوچ عمل سے بنتی ہے اور بامعنی عمل سوچ کی سرگرمی ہے۔ کسی بھی قسم کا وہ عمل جس کی بنیاد میں سوچ نہ ہو انسانی عمل نہیں کہلا سکتا اسی طرح کوئی بھی سوچ جو کہ عمل میں نہیں ڈھلتی یا باہر آ کر دوسروں تک نہیں پہنچتی، اس کا ہونا اور نہ ہونا ایک جیسا ہے۔

اب ہم فلسفے اور سائنس کے تعلق پر بات کر سکتے ہیں۔ فلسفے نے سائنس کو عمل کے لئے اسی طرح بنیاد فراہم کی جیسے سوچ عمل کو بنیاد فراہم کرتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ فلسفہ انسانی تاریخ میں کوئی بہت پرانی چیز نہیں ہے۔ اس کی ابتدا تصوراتِ کْلی بننے ہی سے کہی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر فیثاغورث جب مصر گیا تو اس نے اہرام بنانے والوں کو دھاگوں سے یا تنکوں سے مثلثیں بناتے دیکھا جن کو وہ اپنی تعمیر میں استعمال کرتے تھے۔ لیکن وہ وہاں سے مثلث کا تصورکْلی لے کر آیا جو کہ دنیا کی ہر مثلث کو تشکیل دے سکتا تھا۔ یہ مثلث کا ایک عمومی اصول تھا، ایک ایسی بند شکل جس کے تین زاویے یا تین ضلعے ہیں۔ یقیناً انسان کی محنت پہلے سے موجود تھی۔ پیداوار ہو رہی تھی۔ عمومی اصولوں کی ضرورت اسی وقت پڑی جب پیداوار اس نکتے پر پہنچ چکی تھی کہ عمومی اصول بنا لئے جائیں۔ لہٰذا عمومی اصول بنا لئے گئے۔ جو کہ عمل (سائنس) سے ایک درجہ آگے تھے۔

ہمیں آج بھی ہر سائنس اسی طرح سے عمومی اصول دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ہر سائنس کی ابتدا بے ترتیب مشاہدے سے ہوتی ہے، جس سے ایک مفروضہ لے لیا جاتا ہے، اس کے بعد تجربات ہوں، تھیوری بنے، مشاہدات ہوں یا قانون بنیں۔ بالآخر سائنس نے متعلقہ مسئلے پر اپنا فلسفہ ہی پیش کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنا فلسفہ پیش کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو اسے سائنس کہا جاتا ہے ورنہ اس پر یا مزید سر کھپایا جاتا ہے یا پھر اسے رد سمجھ لیا جاتا ہے۔

’’اگر کوئی کام تو کر رہا ہے لیکن اس کے طریق کار اور مقصد کو نہیں جانتا تو اس کی مثال کُھلے سمندر میں ایک ایسے جہاز چلانے والے کی ہے جس کے پاس سٹیئرنگ ویل نہیں ہے اور اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ کدھر جانا ہے‘‘ لیونارڈو ڈاونچی

ایک بہت ہی تخصیص کار ذہن رکھنے والے کو جب اس بات کا علم ہوا کہ کھجور معدے کے لئے بہت مفید ہے لیکن دانتوں کے لئے نقصان دہ ہے، اور ناشپاتی دانتوں کے لئے بہت اچھی ہے لیکن معدے کے لئے اتنی اچھی نہیں ہے تو اس نے فوراً فیصلہ سنا دیا کہ وہ آج سے کھجوریں ثابت نگلا کرے گا اور ناشپاتی کو صرف چبا کر پھینک دیا کرے گا۔ (پرانے زمانے کی چینی حکایت)

ہمیں یہاں آج اس جدید سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں جو مسئلہ درپیش ہے وہ آج سے پہلے کبھی نہ تھا۔ قدما کو اس مسئلے کا علم ہو تو وہ ہنسے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے آج کے سائنس پڑھنے والے فلسفے کا خاتمہ کرنے نکلے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ آج کے تمام مسائل کا حل سائنس دے گی۔ اور وہ بھی نیچرل سائنس۔ یہاں تک کہ اخلاقیات کے تقاضے بھی سائنس ہی طے کرے گی۔ لیکن ہم ان تمام بحثوں کو نہ چھیڑتے ہوئے کہ سائنس ایسا کر سکتی ہے یا نہیں وغیرہ۔۔۔ ہم یہ ضرور جاننے کی کوشش کریں گے کہ

1۔ سائنس کیا ہے؟

2۔ آخر فلسفے سے ان دوستوں کو مسئلہ کیا ہے؟

اور ظاہر ہے باقی باتیں بھی ہوتی رہیں گی۔

ہم جب ان سے سائنس اور فلسفے پر بات کرتے ہیں تو یہ لوگ اول تو اپنے یک رْخے مسحورکن عقیدے کے نشے میں بدمست بات کو سنتے یا پڑھتے ہی نہیں اور پڑھ لیں یا سْن لیں تو ان سنا یا ان پڑھا کر دیتے ہیں کہ یہ ہوتا کون ہے بات کرنے والا۔ کیوں کہ ان کے عقائد کی طنابیں تو یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں اور وہ بھی مختلف نیچرل سائنسوں میں پی ایچ ڈی اور پوسٹ پی ایچ ڈی اور صاحبِ کتاب قسم کے سکالرز۔۔۔ دوسرے ان کو یہ عادتِ بد بھی نوجوانی ہی میں ان کے ان سکولوں کالجوں سے لگ جاتی ہے جو خود کو ہر قسم کی غلطی سے ماورا اور علم کے آخری درجوں پر فائز بتاتے ہیں، کہ ’’کسی کی بات پر دھیان دینے کی بجائے یہ دیکھو کہ بات کون کہہ رہا ہے۔‘‘ اگر تو وہ اس قابل ہے کہ اس کی بات سنی جائے تو ہی اس کی بات سنو ورنہ اول تو سنو ہی نہ، سنو تو پھکڑ اڑا دو۔۔۔ اور یہی ہو رہا ہے ہر طرف۔ اک طوفانِ بدتمیزی ہے جو کہ کبھی سائنس کے نام پر اور کبھی پوسٹ ماڈرنزم(مابعد جدیدیت) کے نام پر بپا ہے۔

بات کچھ یوں ہے کہ سائنس عقل کے تار چھیڑتی ہے۔ انسان کو عمل کی راہ پر چلاتی ہے اور ترقی کی راہیں دکھاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی بحث ہے۔ لیکن فلسفہ کیا کرتا ہے؟ وہ بھی انسان کو عقل اور شعور عطا کرتا ہے جس سے ترقی کی راہیں مشروط ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

ہم یہ بات کریں گے تو کوئی بھی اٹھ کر ہمیں ان فلسفوں کا حوالہ دینا شروع کر دے گا جو کہ آج ہمیں بونگیاں لگتے ہیں۔ لیکن کیا ہم سائنس کو بھی ان تجربوں کا حوالہ دینا شروع کر دیں جس میں انسان اپنے بازوؤں پر پر باندھ کر اڑنے کی کوشش کرتے رہے یا پھر الکیما وغیرہ کے؟

ہم تو ایسا ہرگز نہیں کریں گے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ نتیجے پر پہنچنے تک غلطیاں ہی غلطیاں ہو سکتی ہیں اور خاص بات یہ کہ ان میں سے کوئی غلطی ایسی نہیں ہے جو کہ غیر اہم ہو۔ ہر غلطی نسلِ انسانی کے لئے اہم ہے۔ کیونکہ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ اس اس طریقے سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔

آخر وجہ کیا ہے؟ کہ سائنس کو قبول کرنا اور فلسفے کو دیس نکالا دینا؟

سائنس پر غور کریں۔ آج کی سائنس وہ سائنس نہیں ہے جس کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے یعنی انسان کے لئے مفید ۔ آج کی سائنس صرف منافع کمانے کے لئے ہے۔ آج سے قریباً دو سال پہلے کینیڈا کے دو طالبِ علموں نے کینسر کی بعض اقسام کا علاج تلاش کر لیا تھا امریکہ اور کینیڈا کی کسی کمپنی نے ان دوائیوں کو بنانے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی جس سے اس مرض کا یکسر خاتمہ ہوجاتا۔ ان کو ایسی ادویات میں دلچسپی ہے جو کہ انسان کو ہر روز لینی پڑیں اور مرتے دم تک لینی پڑیں۔

زیادہ تفصیل کی بجائے سیدھی بات کریں تو سائنس حکمران طبقے کی مجبوری ہے۔ اس کے بغیر پروڈکشن نہیں ہوتی۔ اور یہ مسلسل پروڈکشن کے لئے ایسے نئے طریقے تلاش کرتی رہتی ہے جس سے ایک مزدور سے زیادہ مزدوروں کا کام لیا جائے اور اس کی محنت کو زیادہ سے زیادہ نچوڑا جائے۔ مشینوں کی نئی سے نئی قسموں کے آنے سے مزدور کو کوئی سکھ نصیب نہیں ہوا اس کے کام کرنے کے اوقات وہی آٹھ سے سولہ گھنٹے ہی ہیں۔ جبکہ سرمایہ دار کے منافعے میں لاکھوں گنا کا اضافہ ہمارے سامنے ہی ہو چکا ہے۔ اور یہ سرمایہ دار ہی ساری دنیا میں حکمران طبقہ ہے۔

اس طرح اس سائنس کی کڑوی گولی کو نگلنا حکمران طبقے کے لئے ناگزیر ہے۔ لیکن فلسفہ چونکہ براہِ راست کوئی پروڈکشن نہیں دیتا اس لئے اس کے خلاف حکمران طبقہ ہر جگہ برسرِ پیکار ہے۔ لیکن خود وہ نہ صرف فلسفے کے شوقین ہیں بلکہ حکمرانوں کی ناآسودہ خواہشوں میں سب سے بڑی خواہش یہ رہتی ہے کہ کاش اسے فلسفے کے دوبول آ جائیں۔ کاش کوئی فلسفہ جاننے والا ہمارے لئے کام کرے۔۔۔ ان کو سب سے بڑی کمی فلسفے کی ہی رہتی ہے۔ یہ ایک جگہ کا حال نہیں ساری دنیا کا ہے۔

اب وہ اس کے لئے کیا کریں کہ لوگ سمجھدار بھی ہوں اور سمجھ نہ پائیں۔ وہ پڑھے لکھے بھی ہوں لیکن احمقوں سے اوپر نہ جائیں۔ وہ بڑی بڑی ایجادات کریں۔۔۔ منافع دیں۔۔۔ لیکن لیب سے باہر نہ آئیں۔ جس طرح سے دودھ دینے والی بھینسیں یا گائیں۔ ریشم کے کیڑوں کی طرح اپنے مالکوں کے لئے ریشم نکالتے نکالتے مر جائیں۔ اور ان کی محنت پر ان سرمایہ داروں کے چھوکرے چھوکریاں اللے تللے کریں، گْل چھرے اڑائیں۔ کیا کریں ایسا؟

اس کیلئے انہوں نے سائنس میں ہونے والی تمام تر ترقی کومنڈی کے قوانین کے تابع کر دیا۔ وہ بھی اس طرح کہ مختلف شاخوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر ایک کُل بنا کر انسان کی فلاح و بہبود کے منصوبے تشکیل دینے کی بجائے انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنے کا رجحان پروان چڑھا۔ ایک کا دوسری سائنس کے بارے میں جاننا جرم ہو گیا۔ آپ ہر بندے کو جاہل کہہ سکتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے ساتھ والے ڈیپارٹمنٹ کے بارے میں نہیں جانتا۔ ایک بدھو سا بندہ وزیر بنتا ہے اور ٹی وی پر آ کر اپنے شعبے کے ہر معاملے پر ایسے بھاشن دے رہا ہوتا ہے گویا ساری زندگی اس نے یہی کام کیا ہو۔ لیکن سائنس پر کام کرنے والے سے دوسرے شعبے کی بات کریں وہ فوراً جاہل بن جائے گا۔ کیوں؟

ہم جس سائنس کو جانتے ہیں اس کا ایک طریقِ کار ہے جس کا اوپر بھی ذکر ہوا ہے کہ اس میں مشاہدوں سے مفروضہ بنایا جاتا ہے، پھر اس پر کام ہوتا ہے اور بہت سے تجربے ،مشاہدے کر کے کامیابی کی صورت میں تھیوری بنتی ہے۔ اس طریقے کو استقرائی طریقہ(Inductive Method) کہا جاتا ہے جسے ارسطو نے جان تو لیا تھا لیکن اس کے دور میں اس کی ضرورت نہیں تھی جو فرانسس بیکن نے سائنس کو دیا۔ فرانسس بیکن تو فلسفی ہی تھا جس نے یورپ میں جدیدسائنس کی ابتدا کا پودا لگایا۔ لیکن اس سے بہت دیر کے بعد چارلس ڈارون نے اپنا کام کرتے ہوئے دوبارہ سے ارسطو کے استخراجی طریقے(Deductive Method) کی اہمیت کو ناگزیر محسوس کیا اور اسے سائنس میں شامل کیا۔ آئن سٹائن کا بہت سا کام اسی استخراجی طریقے پر مشتمل ہے۔ عام لفظوں میں بات کریں تو یوں سمجھ لیں کہ سائنس دانوں کا کام منطق پر مشتمل ہوتا ہے اگر وہ منطق سے ہٹیں تو وہ سائنسی نہیں رہتے۔ اس کے لئے اگر کوئی منطق کا صرف ایک اصول سامنے رکھے تو بھی منطق کی اہمیت کو سمجھ لے گا کہ ’’ہر کام کے ہونے کے لئے کافی وجہ درکار ہے‘‘۔ یاد رہے کہ صرف وجہ نہیں بلکہ اتنی وجہ جو کہ اس کام کے ہونے کے لئے کافی ہو۔ کارل ساگان نے اپنی کتاب ’’ڈیمن ہانٹڈ ورلڈ‘‘ میں سائنس کی سچائی کے لئے ایک ٹول کٹ بتائی ہے۔ یہ ٹول کٹ اور کچھ نہیں بلکہ فرانسس بیکن کے بتائے ہوئے پانچ استقرائی منطق کے مغالطوں کے ساتھ کچھ ارسطو کے بتائے ہوئے مغالطوں پر مشتمل باتیں ہیں۔ اب اگر گھوڑے کو میز کہہ لیا جائے تو کیا اس پر رکھ کر چائے پی جا سکے گی؟ رہے گا تو وہ گھوڑا ہی!

یہی کچھ فلسفے کے ساتھ بھی ہوا۔ ہمیں یہ بتایا گیا کہ سائنس نے فلسفے میں سے کام کی چیزیں نکال لی ہیں اور اب یہ سائنس ہے۔ یہ اس سے کم مضحکہ خیز ہرگز نہیں جب ایک بندے نے کہا تھا کہ اب تو ہمیں پانی بھی خالص نہیں ملتا اس میں سے بھی گورنمنٹ بجلی نکال لیتی ہے۔

سائنس کا طریقِ کار، اس کی ابتدا ،اس کا کام کرتے ہوئے نتائج لینا اور ان کو ترتیب میں لگانا، ان سے عمومی اصول بنانا اور اسے آگے سوشل سائنسوں اور فلسفے کے حوالے کر دینا ہی سائنس کا کام ہے۔ اور یہ کام تفلسف(فلاسیفائزنگ) ہی ہے، اگر سائنسدان سوچتا بھی ہے تو۔ سائنس کے چند بڑے نام جن کو ہم جانتے ہیں ان کے کام پر غور کریں تو ہمیں وہ فلسفے ہی کے کام نظر آئیں گے۔ ورنہ وہ سائنسدان جو صرف سرمایہ دار کی دولت بڑھانے میں ایک کل پْرزے کا کام کرتے ہیں ان میں اور شہد کی مکھی میں شاید ہی کوئی فرق ہو جس کی جبلت میں اپنی ملکہ کے لئے شہد اکٹھا کرنا ہے اور ملکہ کا کام بینک بیلنس بڑھانا نہیں بلکہ انڈے دینا ہے۔ وہ سائنسدان حکمران طبقے کو قبول ہیں۔ ورنہ آئن سٹائن جیسے سائنسدانوں کا انہوں نے فلموں، کارٹونوں اور اشتہاروں میں مذاق ہی اڑایا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ سائنس ہو یا فلسفہ، انسان کو معاملات کو جاننے اور ان کے حل کرنے کی طرف لے کر جاتا ہے۔ اور اس طرح استحصال نظر آنے لگ جاتا ہے۔ سائنس دان اگر اخبار پڑھنے لگیں اور سماج کے بارے میں فلسفیانہ طور پر سوچنے لگے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس کے لئے کام کر رہا ہے اور اسے کیا مل رہا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اس کو جو تھوڑی بہت مراعات ملی ہیں وہ اس سے زیادہ نہیں جو ہم قربانی کے بکرے کو دیتے ہیں۔ لیکن اسے یہ سب کس قیمت پر ملتا ہے؟ اپنی ساری زندگی ایک مکھی کے پاؤں کی چپچپاہٹ پر تحقیق کرنے کے لئے کہ ایک سرمایہ دار کا بونڈ بنانے کی فیکٹریوں پر اجارہ قائم ہو جائے اور وہ اس کمائی ہوئی دولت سے مزید دولت سمیٹے اور اس جیسوں کا اور دیگر کا استحصال کرے۔

اس لئے حکمران سرمایہ دار نے نہ صرف فلسفے کو بلکہ سب علوم کو ایک دوسرے سے اس طرح سے فاصلہ دیا ہے کہ کوئی ایک دوسرے کے بارے میں جان ہی نہ سکے۔ جو ان کے بارے میں بات کرے اسے ’’الٹ بات کرنے والا‘‘ کہہ کر مذاق اڑا دیا جائے۔ کہ ’’اسے معلوم ہی نہیں ہم اکیسویں یا پچیسویں صدی میں پہنچ گئے ہیں، اب آلو پر بات کرنے والا فرنچ فرائز پر بات کرے تو اسے بے وقوف کہتے ہیں‘‘۔ حکمران سرمایہ دار طبقے کے پاس اپنے اس کام کے لئے تمام لوازمات موجود ہیں۔ وہ خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ اس کے پاس تعلیم یافتہ نوکروں کی ایک فوج ہے۔ سائنسدان اس کی لونڈیاں اور اس کے غلام ہیں۔ فلسفے دان اور نظریے دان اس کے مالشئے ہیں۔ اعلیٰ ترین سکول اس کے، کالج اس کے اور یونیورسٹیاں اس کی ہیں۔ اسمبلیاں اس کی ہیں اور وزارتیں اس کی ہیں۔ میڈیا ہاؤس اس کی نجی اور مقدس ملکیت ہیں جو کہ اس کے ہر ناجائز اقدام کو تحفظ دیتے ہیں۔ عدلیہ اس کی جیب میں ہے۔ کیوں کہ وہ نہ صرف اونچے سے اونچا وکیل خرید سکتا ہے بلکہ مخالف وکیل کو خریدنا بھی اس کے لئے غیر قانونی یا غیر اخلاقی نہیں۔ نہ خریدے وکیل تو دستاویزی شہادتیں خرید لے ،گواہ خرید لے۔ ایسے میں جج بے چارہ کیا کرے؟ وہ کیوں بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے؟ وہ آسمان سے اترا ہے؟ یا اس نے آسمان پر رہنا ہے؟ بیوروکریسی اس کے آگے پانی بھرتی ہے ،اسی کے چیمبر آف کامرس ہیں اور اسی کے آفیسر کلبز۔ فوج جس آئین کا تحفظ کرتی ہے، جس ریاست کی حفاظت کرتی ہے، وہ ریاست اسی کی ہے، جس کے قبضے میں یہ سب ہے۔ سرکاری یونیورسٹیاں، سکول اور کالج سب اسی کے تحت ہیں۔ وزیر، مشیر سب اس کے۔ سیکریٹری وغیرہ اس کے ملازم۔ ٹیکسٹ بک بورڈ جیسے ادارے بھی اس کے ہیں۔ ان کے چیئر مین اس کے نمک خوار۔ کیا نہیں کر سکتا وہ؟

اس نے ایسی تعلیم دی ہے کہ آج سیاسی معیشت کا نام بھی یہاں کسی نے نہیں سنا۔ سیاسیات الگ اور معاشیات الگ سمجھا جاتا ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ جغرافیے کا سیاست، اکنامکس، عمرانیات، معیشت، نفسیات اور تاریخ سے کیا تعلق ہے۔ البتہ اس کا ریاضی اور شماریات سے تعلق مجبوری ہے، جو تعلق اس کا بشریات سے ہے وہ بتانا مسئلہ کھڑا کرتا ہے۔ اگر جغرافیے کا تعلق ان سے ہے تو کیا ان کا جغرافیے سے یا آپس میں نہیں ہو گا؟ رہی فلسفے کی بات تو فلسفہ کسی بھی علم سے دور نہیں یہ ہر جگہ موجود ہے اور یہ فلسفے کی مجبوری نہیں اس علم کی مجبوری ہے کہ اپنی سب تحقیق بالآخر فلسفے کے قدموں میں رکھ دے۔ اسی طرح فطرتی سائنس میں کوانٹم فزکس میں کوپن ہیگنی تشریح والوں نے کیا۔ لیکن آگے ان کے پیروؤں نے فزکس کو فلسفے کے ایک جزو کی بجائے فلسفے کے سامنے بطور ایک کْل کے لانے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے لئے ان کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اب سائنس کی تنگ کٹیا سے نکل کر فلسفے کے مہا ساگروں میں گِر پڑے ہیں اور جو وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ ہزاروں برس پرانا فلسفے کا ایک گھِسا پٹا سا سوال ہے کہ مادہ ہے یا نہیں۔

سائنس میں کام کرنا اور اس کے کام کی نوعیت اور غرض و غایت کو جاننا دو مختلف چیزیں ہیں۔ سائنس میں کام کرنے والے ایک جگہ جا کر بے بس ہو جاتے ہیں وہاں انہیں فلسفے سے مدد لینی پڑتی ہے۔ ایک جاپانی سائنسدان تو فزکس پر اپنا مقالہ مکمل کرنے کے لئے باقاعدہ فلسفے کی ٹیوشن لیتا رہا۔ اسی طرح آئن سٹائن اپنے کام کی تکمیل کے لئے ماخ ،کارل پوپروغیرہ کو پڑھتا رہا۔

انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی شروعات میں مادے کا خاتمہ کرنے کے لئے فلسفیوں نے لنگوٹ کس لئے تھے۔ سائنس کی نئی تحقیقات کی ایسی تشریحات آ رہی تھیں جن سے یوں لگتا تھا گویا مادے کا واقعی خاتمہ ہو گیا۔

پہلے تو اینگلز نے سائنس کا مطالعہ کیا اور ’’فطرت کی جدلیات‘‘ لکھی اس کے بعد لینن نے ’’مادیت اور تجربی تنقید‘‘ لکھ کر ماخ اور اس کے پیروکاروں کی باتوں کو باسی کڑھی میں محض ایک ابال ثابت کر دیا کہ یہ وہی باتیں ہیں جو ان سے کہیں بہتر انداز میں پادری بارکلے کر گیا تھا۔ اس نے ان کے عمومی نتائج کے پیرے سامنے رکھ کر ان سے دو سو سال پہلے کے بارکلے کے پیرے ساتھ رکھے دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔

لیکن لینن کی وفات کے فوراً ہی بعد کوانٹم فزکس کی کوپن ہیگنی تشریح نیل بوہر اور ورنر ہائزنبرگ کی جانب سے پیش کی گئی جس کو ہاتھوں ہاتھ قبول کیا گیا۔

کوانٹم فزکس ایسا موضوع ہے جس پر بات کرنے کے لئے اس کا ماہر ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے لیکن ماہرین میں سے ایک بڑے ماہر رچرڈ فے مین کا کوانٹم فزکس کے متعلق کہنا ہے، ’’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کوانٹم مکینکس کو سمجھتے ہیں، تو سمجھ لیں کہ آپ کو کوانٹم مکینکس کی سمجھ نہیں آئی‘‘۔

لیکن جدید سائنس کے بانی فرانسس بیکن نے اپنے ایک مضمون میں سائنس اور ایڈی پس کی حکایت پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایڈی پس سفنکس یعنی سائنس کو مار کر گدھے پر لاد کر لاتا ہے۔ اس کی تشریح وہ یوں کرتا ہے کہ سائنس کے مسائل شروع میں بہت دقیق قسم کے ہی ہوتے ہیں لیکن جب یہ حل ہو جاتے ہیں تو یوں عوام میں پہنچ جاتے ہیں جیسے گدھے پر لاد کر منڈی میں پہنچا دیے گئے ہوں۔ اسی طرح کوانٹم مکینکس کے ساتھ بھی ہوا۔ لیکن یہ اس کے مسائل ’’حل ہو چکے‘‘ مان کرکیا گیا۔ یہ حل ہو گئے تھے، یا نہیں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔

ایک مشہور چینی مصور سے کسی نے پوچھا کہ تم اتنے شاندار مصور ہو تمہیں سب سے مشکل کون سی تصویریں بنانا لگتی ہیں؟ تو اس نے جواب دیا جانوروں کی، اور ان سے بھی مشکل انسانوں کی۔ تو سوال کرنے والے نے دوبارہ پوچھا کہ سب سے آسان کون سی لگتی ہیں؟ تو چینی مصور نے کہا بھوتوں اور چھلاووں کی، کیوں کہ ان کو کسی نے نہیں دیکھ رکھا ہوتا۔ جیسی چاہو بنا دو۔ (قدیم چینی حکایت)

کوانٹم مکینکس کے عمومی اصول عوام میں اتاردیے گئے۔ ساتھ میں کہہ دیا گیا کہ تم اسے جان نہیں سکتے۔ تمہارا فرض ہے کہ بس اسے مان لو۔ اور ماننے کے لئے کوانٹم مکینکس کی کوپن ہیگنی تشریح اتار دی گئی جس کا لبِ لباب یہ بتایا گیا کہ سائنس نے کہہ دیا ہے کہ: اول تو، مادے کا کوئی وجود نہیں؛ دوم، ہمارے باہر جو بھی ہے اسے جانا نہیں جا سکتا۔

فلسفے کے لئے یہ دونوں باتیں نئی نہیں ہیں۔ یہ کہ ایک نقطے پر ایک حرکت کرتی ہوئی چیز ہے یا نہیں اور یہ کہ چیزوں کو مشاہدہ کرنے والے کی نظر سے دیکھنا اور یہ کہ چیزیں ہیں یا حواس کی وجہ سے ہیں اور یہ کہ جانی جا سکتی ہیں یا نہیں، بہت پرانے سوال ہیں۔ پہلا سوال زینو نے سقراط کے دور سے بھی پہلے اٹھایا تھا، جو کہ آج کی کوانٹم مکینکس میں تبدیل ہو کر اس سوال میں تبدیل ہو گیا ہے کہ ’’وقت کے ایک لمحے میں ایک الیکٹرون کہاں ہو گا؟‘‘جب کہ ایک ویو۔پارٹیکل خود کو ایک سے زیادہ جگہ دکھاتا ہے۔ ہیگل کے سامنے زینو کا سوال تھا اس نے جواب دے دیا تھا کہ وہ اس جگہ ہے بھی، اور نہیں بھی۔ یہ سوال چلے ہوئے تیر کے خطِ مستقیم میں حرکت کرتے ہوئے نقطہ اے اور نقطہ بی دونوں جگہوں پر ہونے کی وجہ سے کیا گیا تھا۔

ہم فلسفے یا سائنس کی پیچیدہ بحثوں کو چھیڑنے کی بجائے عام سی باتیں ہی کریں گے۔

ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔ کیا فزکس کا یا کوانٹم فزکس کا یہی مقصد ہے کہ وہ یہ ثابت کر دے کہ ’’مادے کا کوئی وجود نہیں، اور اگر ہے تو اسے جانا نہیں جا سکتا؟‘‘ یہ سوال تو سقراط کے ہم عصر گورگیاس کے اٹھائے گئے تین میں سے دو ہیں۔

جدلیاتی فلسفے کے متعلق ہم نے یہی کہا تھا کہ یہ فطرت، انسان کی سوچ اور سماج سے اخذ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس کو سمیٹا گیا ہے۔ نہ تو جدلیات نئی ہے اور نہ ہی مادیت۔ دنیا کے ہر فلسفے اور ہر قسم کے علم کے ساتھ انسان کی وابستگی ہے۔ انسان جو کہ خود لاکھوں سال کی مجسم محنتوں کا نام ہے۔ اس کی ’’کامن سینس‘‘ جو کہ والتیئر کے مطابق اسے جانور سے کچھ اوپر کرتی ہے والتیئر کی بات کی درستگی کے باوجود کچھ ایسی بھی گھٹیا چیز نہیں ہے۔ یقیناً جب بھی کوئی انسان کوئی مخصوص نوعیت کی سرگرمی کرے گا یا کوئی تخصیصی بات کرے گا تو وہ عام سطح سے اوپر چلا جائے گا۔ لیکن ایک عام انسان کتنی بھی اعلیٰ سطح کی تحقیق میں چلا جائے وہ عام انسان بھی تو رہے گا۔۔۔ اس کی ہر تحقیق میں وہ کامن سینس موجود رہے گی جو کہ انسان کے لاکھوں برس کے تجربے سے ارتقا پائی ہے۔ اس کے خلاف جانے والی کوئی بھی تحقیق خود کو ثابت کروانے کے لئے کڑے جوکھم سے ہی گزرے گی۔ اور سائنس اور فلسفے کے میدان میں یہ بار بار ہوا ہے کہ ماہرین گھوم گھام کر کڑی محنتوں سے واپس اسی نتیجے پر پہنچے ہیں جو کہ انسان کو کامن سینس پہلے ہی سے فراہم کرتی ہے۔

ہم قطعاً تحقیقات کے خلاف بات نہیں کر رہے۔ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ جو چیزیں کامن سینس کے خلاف جاتی ہیں ان کو تسلیم کرنے کے لئے کچھ زیادہ غور کی ضرورت رہتی ہے۔
مثال کے طور پر پھر سے سائنس پر ہی بات کر لیتے ہیں۔ ہم سب کچھ دیر کے لئے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کامن سینس ہمارے گرد کی دنیا کے متعلق کیا کہتی ہے؟ اگر ہم گورگیاس سوفسطائی کے تین سوالوں کا جواب کامن سینس میں تلاش کریں تو کیا ملے گا؟

وہ سوال کچھ یوں تھے:

1۔ مادے کا وجود نہیں ہے۔

2۔ اگر مادی چیزوں کا وجود ہے بھی، تو بھی ہم ان کو جان نہیں سکتے۔

3۔ اگر ہم ان کو جان بھی لیتے ہیں تو کسی کو بتا نہیں سکتے۔

کامن سینس ان تینوں سوالوں پر ہنسے گی اور ان کو رد کر دے گی۔ کمیونسٹوں کا، جن کو ساری دنیا سے الٹ سوچنے والا اور باتیں کرنے والا کہا جاتا ہے، یہی قصور ہے کہ وہ ان تینوں سوالوں کا انکار میں جواب دیتے ہیں۔

ہم لوگ ساری دنیا کے الٹ بات کرنے کی بجائے وہ بات کرتے ہیں جو کہ ہم جدلیاتی مادیت کے فلسفے اور جدید سائنس سے سیکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے مخالف اپنے فلسفوں کو ان سائنسوں کے نام پر اپنے تمام ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے پھیلانے کا کام کرتے ہیں جو کہ نہ صرف انسان کی کامن سینس کے خلاف جاتی ہیں بلکہ انسان کے خلاف بھی ہیں اور حقیقت کے بھی۔

کیسے؟

ہم سب کو معلوم ہے کہ سائنس اپنی بنیاد میں ہمیشہ سے مادیت پسند رہی ہے۔
اگر کسی سائنس دان یا سائنس والے سے یہ پوچھا جائے کہ کیا تم مادے کو مانتے ہو تو اس کا کیا جواب ہو گا؟

اگر ہم اس سے پوچھیں کہ کیا سائنس مادے کو مانتی ہے؟

یا اس سے یہ پوچھیں کہ کیا ہم مادے کے یا چیزوں کے متعلق علم حاصل کر سکتے ہیں تو؟
مجھے یقین ہے کہ وہ سائنسدان فوراً ایک ’’عام انسان‘‘ والا رویہ اختیار کرے گا اور کہے گا کہ ابھی چند سال قبل ہم نے ’’مادے‘‘ کی ’’چوتھی حالت‘‘ ’’دریافت کی‘‘ ہے۔ کیا تم اسے مذاق سمجھتے ہو؟

سائنس مادے کو نہ مانتے ہوئے کس پر کام کرے گی؟

لیکن یہاں سائنس ہی کے نام پر مقدس قسم کی عیاریاں فرمائی جا رہی ہیں جو کہ سرمایہ داری کے سوا کسی چیز کو مقدس نہیں ٹھہرا رہیں۔

سائنس کی فلسفے سے جان چھڑوا کر اسے نظامِ ہست و بود کی اقلیم سونپنے کا کہا جا رہا ہے۔ صرف اس لئے کہ صرف کام ہو۔ سوچنا ختم ہو جائے۔

سائنس کے ان عیاروں نے سائنس کی جان فلسفے سے ایسی ’’چھڑوائی‘‘ کہ اسے گھٹیا ترین فلسفے ’’موضوعی عینیت پرستی‘‘ کی گود میں ایک مشترکہ رکھیل بنا کر بٹھا دیا۔

ان سائنس کے ’’قدردانوں‘‘ سے بات کر کے دیکھیں۔ جو اپنی بھاری بھرکم ڈگریوں کی باربرداری کرتے ہوئے ’’فلسفے کے خاتمے‘‘ کے ڈھنڈورے پیٹ رہے ہیں۔ ’’وہی‘‘ پْرحماقت تقدیس بھری عیارانہ مسکراہٹ آپ کا استقبال مادے کا اور ’’جاننے کے امکان‘‘ کا انکار کرتے ہوئے کرے گی جو عام طور پر اسی دنیا کے ان ’’عام لوگوں‘‘ کی طرف سے کیا کرتی ہے جب وہ سائنس کے خلاف بات کرتے ہیں یا سائنس کی کسی لاعلمی کا ذکر کرتے ہوئے چہرے پر سجاتے ہیں۔ جی ہاں یہ وہی ’’عام لوگ‘‘ ہیں جو اپنی مدرسانہ تربیت اور تعلیمی پالیسیوں اور درسی کتابوں اور میڈیا کی انتھک محنت سے اس قابل ہوئے ہیں کہ اپنی کامن سینس کو بروئے طاق رکھ کر عقل دشمن باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہماری باتیں وقتی طور پر دنیا کے، عام لوگوں کے یا کامن سینس کے خلاف لگتی ہیں، ہیں نہیں۔ یہ وہی باتیں ہیں جو کہ عام آدمی بھی کرے گا اور دنیا پر سوچ بچار کرنے اور عمل کرنے والا فلسفی یا سائنسدان بھی اگر وہ کسی عینیت پرست فلسفے کی عینک نہ پہنے ہو تو۔
ہمارا یہ کہنا کہ دنیا کا کوئی علم، کوئی سائنس، کوئی فلسفہ، کوئی آرٹ، کوئی تجزیہ اور کوئی بھی نعرہ ایسا نہیں جو کہ غیرجانبدار ہو۔ اس دنیا میں امیر، غریب کے درمیان خلیج موجود ہے۔ امیر طبقے اپنا حاکم خود اپنوں میں سے چنتے ہیں اور وہی اپنے حقوق متعین کرتے ہیں۔ غریب طبقوں کے پاس صرف ایک حق ہے۔ وہ یہ کہ وہ ووٹ دے کر اپنا حاکم اپنے دشمن طبقے میں سے چنیں۔ اس طبقے میں سے وہ اپنا حاکم چننے میں آزاد ہیں جس طبقے سے اس کے حقوق کا ٹکراؤ ہے۔ اس کے بعد ان کا مخالف طبقہ اسمبلیوں وغیرہ میں جا کر ان کے حقوق بھی ’’متعین‘‘ کرے گا اور اپنے بھی۔ یہ ہمارے اس سماج کا خلاصہ ہے۔

ہمارا مخالف طبقہ ہمیں یہ درس دیتا نظر آتا ہے کہ انسان کا حقیقی مقصد ستاروں کے اور کائنات کے رازوں کا جاننا ہے۔ یہ دال روٹی کی باتیں کرنا اور سوچنا گھٹیا لوگوں کی سوچ ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں بتاتا کہ ستاروں پر لپکنے والے اپنی دنیا کی کثیر آبادی کو دال اور روٹی دینے سے کیوں قاصر ہیں۔ انہوں نے کھانے اور سیکس کی ہر بات کو عامیانہ قرار دیا ہے۔ اس کی بجائے کائنات کے اسرار اور سوچ کی رومانویت کی باتیں پھیلائی ہیں۔ ڈی ایچ لارینس پر اس لئے مقدمے نہیں چلائے کہ اس نے سوچ کے رومانس یا ’’پاک محبت‘‘ کی بجائے جسمانی محبت یا سیکس پر لکھا۔ بلکہ اس لئے کہ وہ ادب کو چھلاووں کی آسمانی دنیا سے گھسیٹ کر دوبارہ اس دال روٹی والی مادی زمین پر لے آیا۔

ہماری لڑائی یہ نہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں یا جان چکے ہیں۔ لڑائی ’’ان جانے‘‘ اور ’’جاننا ناممکن‘‘ ہونے کے درمیان ہے۔ ’’ان جانا‘‘ علم بے شک موجود ہے۔ لیکن ایسا کچھ ’’موجود نہیں‘‘ جو کہ ’’جان لیا جانا‘‘ ناممکن ہو۔ ہم یہ کہتے ہیں۔ اور یہ ایک عام آدمی کی بھی سوچ ہے اور عظیم ترین فلسفی ہیگل کی یا مارکس کی بھی اور یقیناً یہ ہر اس سائنسدان کی سوچ ہو گی جو سرمایہ داری کی وظیفہ خواری سے قطع نظر کر کے سوچے۔ کیونکہ سائنس کا کام پیش گوئیوں سے آگے بڑھتا ہے۔ اگر وہ جان نہیں سکتی، تو پیش گوئی بھی کرنے سے قاصر ہے اور اگر پیش گوئی نہ کر سکے تو سائنس کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور سائنس کے اس ’’خاتمے‘‘ کا اعلان ہم نہیں کر رہے بلکہ یہ ایک استخراج(Deduction) ہے جو کہ کوانٹم مکینکس کی اس تشریح سے نکلتا ہے جس کو ہمارے مخالف لے کر ناچ رہے ہیں کہ دنیا کا یا دنیا کے بارے میں جاننا ناممکن ہے۔

ہم کوانٹم فزکس کو جھٹلانے کی بات نہیں کر رہے۔ نہ ہی اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ کیونکہ یہ ہمارے فلسفے سے میل نہیں کھاتی لہٰذا یہ غلط ہے۔ کیونکہ ہمارے بارے میں ایسی افواہوں کو پھیلا کر لطیفے بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ انہوں نے جدلیاتی مادیت کو مذہب بنا رکھا ہے۔ نہ ہی میں نے اس تحریر میں کوانٹم فزکس پر بات چھیڑی ہے۔ ہم تو اس کی تشریح پر بات کر رہے ہیں کہ کیا اس کی تشریح یہ ہے کہ موضوعی عینیت پرست فلسفہ درست ہے؟ یہ وہ موضوعی عینیت ہے جس نے ہیگل سے لے کر آج تک بار بار شکست کھائی اور پھر بھیس بدل کر آن وارد ہوئی کیوں کہ اس سے حکمران طبقے کا مفاد جڑا ہے۔

کوانٹم فزکس کی یہ تشریح کہ مادے کا وجود ہی نہیں ہمیں کہاں لے کر جاتی ہے؟

ہم سب جانتے ہیں کہ فزکس کی تعریف ہی سائنس کی وہ شاخ تھی جو کہ مادے پر کام کرتی ہے۔ اب اگر فزکس کی ایک شاخ جسے فزکس کی سب سے اعلیٰ شاخ کہا جا رہا ہے ہمیں اس ’’حقیقت‘‘ سے روشن ضمیر کر رہی ہے کہ مادہ تو ہے ہی نہیں۔۔۔ تو فزکس پھر کہاں گئی؟

جب مادے کے وجود سے فزکس والے خود انکار کر دیتے ہیں تو کیا ’’فزکس‘‘ اپنی حیثیت میں ’’میٹا فزکس‘‘ نہیں رہ جائے گی؟ اس طرح کی کوانٹم مکینکس کی تشریح کو اگر مان لیا جاتا ہے تو فزکس جسے ہم آج تک جانتے رہے ہیں اس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔لیکن دوسری جانب اگر مارکسی فلسفے کے نقطہ نظر سے نئی دریافتوں کی تشریح کی جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ کوانٹم میکینکس سے لے کر کششِ ثقل کی لہروں کی دریافت تک ہر نئی تحقیق نہ صرف مادے کے وجود کو بلکہ جدلیاتی مادیت کے فلسفے کی سچائی کو بھی ثابت کرتی ہے۔ اینگلز نے اپنی تصنیف فطرت کی جدلیات میں اسی مارکسی فلسفے کو نیچرل سائنس کے ذریعے ثابت کیا تھا۔ اسی فلسفے کی بدولت اس نے ایسی پیشن گوئیاں کی تھیں جن کے لیے اس وقت ثبوت موجود نہیں تھے لیکن بعد کی سائنسی دریافتوں نے وہ فراہم کیے۔بیسویں صدی میں بہت سے سائنسدان جدلیاتی مادیت کے فلسفے سے نابلد ہونے کے باعث بہت سی غلطیاں کرتے رہے جنہیں بعد کی دریافتوں نے درست کیا۔ اگر وہ جدلیاتی مادیت کے فلسفے کے تحت ان دریافتوں کی تشریح کرتے تو کئی دہائیوں کا سفر بچایا جا سکتا تھا۔

آئن سٹائن کششِ ثقل کی لہروں کی تھیوری کے متعلق شش و پنج میں تھا جبکہ اس سال فروری میں ہونے والی دریافتوں نے اسے ایک صدی بعد درست ثابت کیا ہے۔ اسی دریافت کے باعث کائنات کے آغازکا بگ بینگ کا حاوی نظریہ بھی شدید خطرات سے دوچار ہے ۔ حالیہ تحقیق کو اگر مارکسی فلسفے کی بنیاد پر پرکھا جائے تو کائنات کے آغاز کے متعلق بگ بینگ کے نظریے کے پرخچے اڑ جاتے ہیں۔ یہ نظریہ پہلے بھی عینیت پرستانہ تشریحات کا ہی نتیجہ ہے۔ جدلیاتی مادیت پسنداس کی پہلے بھی نفی کرتے رہے ہیں۔

یہیں سے نظر آتا ہے کہ فزکس سمیت تمام سائنسوں کی بقا اور ترقی جدلیاتی مادیت کے فلسفے کے تحت ہی ممکن ہے۔ اس کے بغیر یہ منافع خوری کے بوجھ تلے دب کردم توڑ دیں گی۔

لیکن ایک شکست خوردہ ہجوم اس بات کی تاک میں ہے کہ عقل اور سائنس میں رخنے تلاش کرے اور یہ رخنے ملتے ہی ان خالی طاقچوں میں دیوی دیوتاؤں کے بْت سجا کر ان کے آگے بخورات جلائے سائنس کی کھوپڑی کے جام میں فلسفے کا لہو لنڈھاتے ان کو سجدے، قربانی اور چڑھاوے کا مطالبہ کرتے سوٹڈ بوٹڈ ریش دراز ٹائی پوش فوراً چلے آتے ہیں۔

یہ لایعنیت اس وقت تک رہے گی جب تک طبقات پر مشتمل یہ سماج موجود ہے جو ایک مٹھی بھر سرمایہ داروں کی اقلیت کی ذاتی عیاشیوں کی خاطر تمام بنی نوعِ انسان کو بے وقوف اور جاہل بنانے میں اپنا مفاد پاتا ہے۔ یہ سرمایہ دار عوام کو جاہل رکھنے میں اس قدر دولت خرچ کرتے ہیں کہ اس کے ایک چھوٹے حصے کے خرچ سے بھوک اور غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔

لیکن ایسا سرمایہ داری میں ممکن نہیں۔ اس کے لئے ایک آزاد معاشرے کی ضرورت ہے۔ جس میں بھوک، غربت اور جہالت سے بلند ہو کر حقیقی علم سے بہرہ ور کرنے کی تعلیم ممکن ہو گی۔ جس کی واحد صورت ابھی تک سوشلزم ہی نظر آئی ہے۔

Comments are closed.