واپڈا لائن مینوں کی پے درپے ہلاکتیں، ریاستی نااہلی اور یونین قیادت کی موقع پرستی

|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|

اب تک حفاظتی سامان کی عدم دستیابی کے باعث واپڈا کے 15ہزار سے زائد محنت کش اپنی جانیں گنوا چکے ہیں

ماضی کی طرح پچھلے چند روز میں بھی واپڈا کے اندر تین لائن مینوں کی حادثاتی اموات ہو چکی ہیں۔ ان اموات کا تسلسل ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ہر ڈویژن اور کمپنی کے اندر حادثاتی اموات کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ہر سال تقریباً سو سے ڈیڑھ سو لائن مین حادثاتی اموات کا شکار ہوتے ہیں۔ کئی مرنے والے اپنے خاندان کے واحد کفیل ہوتے ہیں اور ان کے بعد لواحقین کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ حکومت اور انتظامیہ ان لگاتار اموات کا سارا ملبہ کام کرنے والے مزدوروں پر ہی ڈال کر خود بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔ جب کبھی کہیں کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ ’پرمٹ ٹو ورک‘ (PTW) کے بغیر کام کیا گیااور ایس او پیز (SOPs) پر عمل درآمد نہیں کیا گیا یا پھر کہا جاتا ہے کہ لائن سپرنٹنڈنٹ، گرڈ سٹاف یا مرنے والا لائن مین خود اس حادثے کا ذمہ دار ہے اور بدقسمتی سے یونین لیڈر شپ بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہے۔ انتظامیہ اور یونین لیڈرشپ ان حادثات کو روکنے کے لیے چند ایک سیفٹی سیمینار ز، لائن مین ڈے اور شہداء ڈے منانے کے علاوہ علامتی احتجاجوں میں مطالبات کو دہرانے کے بعد اگلی شہادت تک خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس بات پر کوئی توجہ نہیں دیتا یا دینا نہیں چاہتا کہ ان حادثاتی اموات کی اصل وجوہات کیا ہیں۔

اگر گہرائی میں مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات صاف طور پر عیاں ہو جاتی ہے کہ مختلف حفاظتی اقدامات کرکے ان حادثات کو روکا جا سکتا ہے اور قیمتی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ جان کی حفاظت کے لیے سب سے پہلی ترجیح بکٹ کرین ہونی چاہیے کیونکہ آج تک بکٹ کرین میں کام کرتے ہوئے کوئی ایک بھی حادثہ ریکارڈ نہیں ہوا۔ کام کے لیے بجلی کی بندش یعنی PTW کو آسان بنا نا چاہیے اور جلدی کے مطالبے کی بجائے کام کرنے والوں کو پورا وقت دینا چاہیے تاکہ کام کرنے والی جگہ کو دونوں طرف سے ارتھ کیا جا سکے۔ لائن مینوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے موجودہ لائن مینوں سے 12 سے 16 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ لگاتار کام اور تھکاوٹ کی وجہ سے بھی حادثات جنم لیتے ہیں۔ صارفین کی تعداد اور نئی یارڈ سٹک کے مطابق نئی بھرتیاں کرکے حادثات کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ ان تمام کاموں کے لیے اختیارات حکومت اور انتظامیہ کے پاس ہیں جو پالیسی ساز بھی ہیں۔ ان سب باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ حادثات کے ذمہ دار ورکر ہیں یا حکومت اور انتظامیہ!

یہاں آنے والی ہر حکومت، سیاسی جماعتیں، اعلیٰ عدلیہ، میڈیا، یہاں تک کہ لیبر کورٹس بھی ان اموات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ آج تک عدالت نے بھی اس پر کوئی سو موٹو نوٹس نہیں لیا لیکن اگر کبھی لیا بھی تو یہ مزدور دشمن عدلیہ بھی محنت کشوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرائے گی۔ میڈیا کسی ارب پتی کے کتے کی موت پر تو خبر لگا دیتا ہے لیکن اس نظام کو چلانے والے کسی محنت کش کی کام کے دوران موت پر آقاؤں کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خاموش رہتا ہے اور اگر کوئی خبر آ بھی جائے تو مرنے والوں کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں جو عوام کی ہمدردی کا ناٹک کرتی ہیں، حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، عوام اور عوامی مسائل سے کوسوں دور ہیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہزاروں لائن مینوں کی موت پر کسی کے منہ سے مذمت کے لیے بھی ایک لفظ نہ نکلا۔ محنت کش طبقے سے کسی کی موت بجلی سے ہو، کرونا سے ہو،دہشت گردی یا کسی بھی وجہ سے ہو، سرمایہ دار حکمران طبقے کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں بس اپنی عیاشیوں کی فکر ہے۔ مزدوروں کے استحصال سے لوٹی گئی دولت سے اپنے لیے ہر آسائش کا انتظام کر لیتے ہیں لیکن محنت کشوں کو زندہ رہنے کا حق بھی نہیں دیا جاتا۔یہاں تک کہ کرونا کے خلاف صفِ اول میں لڑنے والے محکمہ صحت کے محنت کشوں کو بھی حفاظتی سامان مہیا نہیں کیا گیا بلکہ مزید جبر کرتے ہوئے ہسپتالوں کی نجکاری کی جا رہی ہے جس سے غریبوں کے لیے مفت یا سستے علاج کی رہی سہی سہولت بھی ختم ہو جائے گی۔

چیئر مین واپڈا کے 2007ء کے ایک آرڈر کے تحت یورپی معیار کے مطابق جدید حفاظتی سامان اور بکٹ کرین ہر کام کرنے والے مزدور کو مہیا کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن 13 سال گزرنے کے بعد بھی اس پر عمل درآمد نہیں کروایا جا سکا۔ ہاں اگر افسروں کی مراعات میں اضافے کی بات ہو تو زبانی آرڈر پر بھی فوراً عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ چیف ایگزیکٹو کے لیے نئی پراڈو تو خریدی جا سکتی ہے لیکن محنت کشوں کی جانیں بچانے کے لیے بکٹ کرین نہیں خریدی جا سکتی۔

مرکزی یونین لیڈر شپ کو ورکرز کا ترجمان ہونا چاہیے لیکن ہر حادثے پر ورکرز کو ذمہ دار ٹھہرا کر حکومت اور انتظامیہ کی کاسہ لیسی کی جاتی ہے۔ حکومت اور انتظامیہ پر دباؤ بڑھا کر تمام حفاظتی سامان بمع بکٹ کرین مزدوروں کو دلوانے کی بجائے ان کے جنازوں میں شرکت کرکے لواحقین اور باقی مزدوروں کو صرف تسلیاں دے کر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ کسی افسر کی ناگہانی موت پر تو ہڑتال کی کال دی جا سکتی ہے لیکن مزدوروں کے اس بالواسطہ قتل پر حکومتی ایوانوں کی بجلی بند کرکے حکمرانوں اور انتظامیہ کو اس بات پر مجبور نہیں کیا جاتا کہ ان لائن مینوں کی جانیں بچانے کے لیے تمام لوازمات پورے کیے جائیں۔ یونین قیادت کی بے حسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ مہنگائی کے لگاتار بڑھنے کے باوجود اس بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے پر کوئی احتجاجی تحریک شروع نہیں کی گئی۔ اس کے بعد پنشن ختم کرنے، ریٹائر منٹ کی عمر کم کرنے، سالانہ انکریمنٹ نہ لگانے اور نجکاری کے حکومتی اعلان کے باوجود کوئی مذمتی بیان یا احتجاج کے لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا گیا۔

پچھلے ایک لمبے عرصے سے سٹاف لگاتار کم ہو رہا ہے لیکن یونین قیادت کی طرف سے نئی بھرتی کے لیے حکومت اور انتظامیہ پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا جا رہا۔ واپڈا کا تمام نظام بہت پرانا اور خستہ حال ہے اور ٹھیکیداری نظام اور کرپشن کی وجہ سے ناقص میٹیریل استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے فالٹ ریشو(Fault Ratio) بڑھ جاتا ہے۔ کھمبوں کے ٹوٹنے اور ٹرالیوں کے پھٹنے جیسے مختلف حادثات میں مزدور زخمی ہوتے ہیں یا پھر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن اس سب پر بھی مزدوروں کی ترجمانی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے سسٹم کو بہتر اور جدید کرکے حادثاتی اموات میں بڑے پیمانے کی کمی لائی جا سکتی ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ ان حادثاتی اموات کی شدید مذمت کرتا ہے اور واضح کر دینا چاہتا ہے کہ اس کی تمام تر ذمہ داری سب سے پہلے حکومت اور انتظامیہ اور اس کے بعد موقع پرست یونین قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ مزدوروں کے اس بالواسطہ قتل عام کے ذمہ داران حکومت اور افسر شاہی کے نمائندوں پر مقدمے درج کر کے سخت سزائیں دی جانی چاہئیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم سمجھتے ہیں کہ یونین قیادت بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ واپڈا کے محنت کش اپنے اندر سے نئی، لڑاکا اور دیانت دار قیادت کو تراشیں۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اس ظلم کی نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ مزاحمت میں بھی صفِ اول میں لڑنے کا عزم کرتا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں تمام اداروں کے محنت کشوں پر شدید معاشی حملے کیے جا رہے ہیں جن کے خلاف ہر ادارے کے محنت کش میدانِ عمل میں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان الگ الگ لڑائیوں کو جوڑا جائے اور ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھا جائے تاکہ حکمران طبقے کو باور کروایا جا سکے کہ جو محنت کش اس ملک کا نظام چلا سکتے ہیں وہ نظام کا پہیہ جام بھی کر سکتے ہیں۔اسی طریقے سے اپنے مطالبات منوائے جا سکتے ہیں اور مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ریڈ ورکرز فرنٹ اسی طبقاتی جڑت کے لیے کوشاں ہے اور ایک ادارے کے محنت کشوں کا پیغام دوسرے اداروں اور صنعتوں کے محنت کشوں تک لے جا رہا ہے۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ آخری فتح تک یہ جدوجہد جاری رکھیں گے!
ریڈ ورکرز فرنٹ (RWF) مطالبہ کرتا ہے کہ محنت کشوں کی زندگیوں کی حفاظت کے لئے درج ذیل مطالبات کو فوراً پورا کیا جائے:

1۔ بکٹ والی گاڑی اور کرین بمعہ ڈرائیور ہر کام کی جگہ پر مہیا کی جائے۔

2۔ سٹاف کی کمی کو یارڈ سٹک کے مطابق جلد از جلد پورا کیا جائے۔

3۔ تمام پرانی اور ناکارہ انسٹالیشن کو فی الفورتبدیل کیا جائے۔

4۔ حادثے کی صورت میں متاثرہ ورکر کو مفت ومعیاری طبی سہولیات کی بر وقت فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

5۔ موزوں حفاظتی آلات، PPE اور T&P کسی قسم کا سمجھوتہ کیے بغیر عالمی معیار کے مطابق فراہم کیے جائیں اور انفراسٹرکچر کو جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔

6۔ ہائی وولٹیج ڈٹیکٹر ہر حال میں مہیا کیے جائیں۔

7۔ جدید ارتھنگ سیٹ ہر لائن مین کو مہیا کیا جائے۔

8۔ PTW پر کام کرنے کے لئے مکمل وقت دیا جائے۔

9۔ افسران کی جانب سے اور سیاسی دباؤ، جلد بازی،ٹینشن اور کام کی زیادتی کا خاتمہ کیا جائے۔

10۔ کام کے دوران موبائل فون کے استعمال پر مکمل پابندی لگائی جائے تاکہ افسرانِ بالا کی کالز سے ورکرز کی توجہ منتشر نہ ہو۔

11۔چمڑے اور ربڑ کے دستانے، حفاظتی بیلٹ، حفاظتی بوٹ، ہیلمٹ، ٹارچ اور پلاس سمیت تمام ضروری آلاتِ حفاظت عالمی معیار کے مطابق مہیا کیے جائیں۔

12۔ ورکرز کو مطلوبہ ٹریننگ کے بعد ہی کام کی ذمہ داری سونپی جائے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ (RWF) واپڈا کے محنت کشوں سے اپیل کرتا ہے کہ ان مطالبات کو منوانے کے لئے عملی میدان میں آئیں اور ایسے ہی مسائل میں گھرے دیگر شعبوں کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر مشترکہ مطالبات و لائحہ عمل اپناتے ہوئے اس جدوجہد کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔

کام کی جگہ پر تحفظ۔۔۔ہمارا بنیادی حق!!
ایک کا دکھ! سب کا دکھ!
تمام دکھوں کا ایک علاج۔۔مزدور راج!
مزدور اتحاد زندہ باد!

Comments are closed.