حکمران طبقے کی غلیظ سیاست کا مقابلہ محنت کشوں کی اپنی سیاست سے کرنا ہوگا!

|تحریر: آدم پال|

اس وقت ملک میں دو سیاسی میدان یادو قسم کی سیاست متوازی طور پر جاری ہے جو ایک دوسرے سے الگ اپنے اپنے رستے پر چل رہی ہیں۔ ایک طرف حکمران طبقے کی سیاست ہے جس میں حکمران جماعتوں، جرنیلوں اور ججوں سے لے کر اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کی سیاست شامل ہے۔ ملک کے محنت کش عوام پر میڈیا سمیت تمام ذرائع کے ذریعے یہی سیاست مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اورتمام تر وسائل استعمال کرتے ہوئے بھوک اور بیماری سے بلکتے ہوئے عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہی حقیقی سیاست ہے اور ان متحارب سیاسی جماعتوں، لیڈروں اور ریاستی اداروں سے باہر کائنات ختم ہو جاتی ہے اور کسی بھی قسم کی سیاسی زندگی موجود نہیں۔ لیکن حکمران طبقے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ غلیظ اور عوام دشمن سیاست مسلط کرنا اب پہلے کی نسبت کہیں زیادہ مشکل ہوچکا ہے اور عوامی سیاست کا میدان ماضی کی نسبت زیادہ وسیع ہوتا جارہا ہے اور اس میں عوام کی شرکت پہلے کی نسبت بڑھتی جارہی ہے۔ گوکہ حکمران طبقے کی سیاست کی طرح اس نے ابھی تک واضح شکل اختیار نہیں کی اور کوئی واضح سیاسی پارٹی یا لیڈر وں کی موجودگی ابھی تک کھل کر سامنے نہیں آئی لیکن موجودہ حالات کے دباؤ کے تحت یہ سیاسی میدان تیزی سے ابھر رہا ہے۔ اس سیاسی میدان کو آباد کرنے میں جہاں گزشتہ سالوں میں طلبہ تحریک نے اہم کردار ادا کیا تھا وہاں اب مزدور تحریک میں بھی تحرک نظر آرہا ہے اور مختلف اداروں کے ملازمین مشترکہ طور پر جدوجہد کے میدان میں اتر رہے ہیں اور اپنے حقوق کے لیے بڑے پیمانے پر ملک گیر احتجاجوں کے لیے منظم ہو رہے ہیں۔ لیکن کسی بھی اخبار یا ٹی وی پر اس سیاست کی خبریں یا تذکرہ نظر نہیں آئے گا نہ ہی خود کو ہر قسم کے علم پر اتھارٹی سمجھنے والے عوام دشمن اینکر پرسن ان پر کبھی کوئی ٹاک شو یا وی لاگ کرنے کی جرأت کر سکیں گے۔ عوام کے مسائل اور حقیقی ایشوز کا ذکر کرنا اس ملک کے نام نہاد پڑھے لکھے افراد کے لیے شجر ممنوعہ بن چکا ہے اور وہ اپنی عوام دشمن سوچ مسلط کرنے کے لیے پوری قوت کے ساتھ چیخ چیخ کر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کا ذکر کرتے دکھائی دیں گے۔

حکمران طبقے کی سیاست کے حوالے سے ایک ”ماہر“ ڈھونڈیں گے تو آپ کو ہزار ملیں گے۔ ہر کوئی اپوزیشن کی کرپشن کی کہانی بڑی تفصیل سے بیان کر سکتا ہے، نیب کے قصے اور اس کا ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال بھی سیاست پر گفتگو کا آج کل پسندیدہ موضوع ہے جبکہ مریم نواز کے قیمتی لباس پر تنقید بھی کافی مزے لے کر کی جاتی ہے اور بلاول کی بچگانہ تقاریر اور بیان بازی بھی اکثر موضوعِ سخن اور باعثِ تفریح رہتی ہے۔ اس میں عمران خان کی ذاتی زندگی سے لے کر اس کے یوٹرن تک کے تذکرے بھی زبان زدِ عام ہو چکے ہیں اور اس کے حامی ابھی بھی انتہائی خجالت اور ڈھٹائی سے اس کا دفاع کرتے ہوئے مخالفین پر کرپشن کے الزامات اونچی آواز میں لگانا نہیں بھولتے۔ اس کے علاوہ مراد سعید کی جوشیلی لفاظی اور جسم لہراتے ہوئے بھرپور تقریریں ہوں یا زرتاج گل کی موسم پر گفتگو یہ سب اخبارات سے لے کر سوشل میڈیاتک گفتگو کا مرکز رہتا ہے۔ نواز شریف کی 20 ستمبر کی تقریر نے درمیانے طبقے کے لیے اس تمام تر تفریحی سیاست میں نئی ہلچل پیدا کردی ہے اورسینکڑوں تجزیے اور تبصرے اس حوالے سے سامنے آ چکے ہیں۔ حکمران طبقے کی سیاسی جماعتوں کے نئے اتحاد کا تذکرہ بھی زور و شور سے جاری ہے اور اس کا موازنہ ماضی کی ایم آرڈ ی سے کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ جو لوگ اسی کی دہائی میں جوان تھے وہ اس موضوع پر خود کو اتھارٹی قرار دے چکے ہیں اور موجودہ اتحاد کے ماضی سے تمام تر موازنے کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس موازنے میں دنیا کے بدلتے حالات اور پاکستان کے برباد ہوچکے سماجی معاشی نظام کی حقیقت کو یکسر رد کردیا جاتا ہے جس کے باعث یہ موازنہ انتہائی سطحی اور بھونڈا رہتا ہے۔ بہت سے خود ساختہ ماہر جوش جذبات میں آ کر فضل الرحمان کو جمہوریت اور عوامی حقوق کا نیا علمبردار قرار دینے میں بھی نہیں ہچکچاتے اور کچھ تو اس لطیفے پر سنجیدگی سے رائے زنی بھی شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لبرل نواز شریف کو لنڈے کاچی گویرا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح عمران خان سے دم توڑتی ”امید“ کا دامن سنبھالے بہت سے سیاسی تجزیہ کار بھی موجودہ حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کی پیش گوئی پرابھی تک پوری ڈھٹائی سے قائم دکھائی دیتے ہیں اور ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لیتے گوکہ خود ابھی تک پرانی تنخواہ پر ہی کام کر رہے ہیں۔

 

اس سارے عمل کابھونڈا پن، جعلسازی، فریب اور دھوکہ دہی خود ہی واضح ہے اور محنت کش عوام یہ تمام تر سرکس پھٹی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ حکمران طبقے کی سیاست جتنی آج عوام سے دور ہے ماضی میں شاید کبھی بھی نہیں رہی۔ اس سے زیادہ بد قسمتی اب اور کیا ہوگی کہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں اور تاریخ کی بد ترین مہنگائی اور بیروزگاری سے نجات دلانے کے لیے عوام کے سامنے ایسا شخص پیش کیا جا رہا ہے جو تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکا ہے۔ عوام کے مسائل کی بات کرنے والا یہ شخص اپنے دور اقتدار میں مزدوروں پر بدترین حملے کر چکا ہے اور مزدور یونینوں پر بد ترین جبر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اجرتوں میں کٹوتیوں سے لے کر ان کے تحفظ کے لیے بنائے گئے تمام قوانین کی بھی دھجیاں اڑا چکا ہے۔ اسی طرح، اپوزیشن کے اتحاد کی قیادت اس شخص کو سونپی گئی ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے مسلسل اقتدار میں رہا ہے اور مزدور دشمن حکومتوں کو نام نہاد جمہوریت یا آمریت میں مسلسل سہارا دیتا رہا ہے۔ ابھی بھی اس کی دولت کا ذخیر ہ غریب عوام کی سوچ سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن موجود حکومت کی بے بسی اور کمزوری بھی اس سے عیاں ہوتی ہے کہ وہ اتنی بد عنوان اور رسوا ہوجانے والی سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کا بھی مقابلہ نہیں کر پارہی اور تھوڑی سی تلخ تقریر سے اپنی حکومت کی بیساکھیوں کو گرتا ہوا محسوس کرتی ہے اور بوکھلا کر ہیجانی کاروائیاں اور بیان بازی شروع کر دیتی ہے۔

نواز شریف کی حالیہ تقریریں حکمران طبقے کی باہمی کشمکش میں شدت کا بھی اظہار کرتی ہیں جس میں فوج کے سیاست پر کردار میں کھل کر تنقید کی گئی اور ان تمام باتوں کو بیان کیا گیا جو اس سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر عام گفتگو کا موضوع بن چکی تھیں۔ اس نے ڈان لیکس کے رازوں سے بھی پردہ اٹھایا جس میں اس وقت کے جرنیلوں کے ساتھ میٹنگ میں بطور وزیر اعظم اس نے واضح کیا تھا کہ سامراجی طاقتیں مذہبی بنیاد پرستی کے ہتھکنڈے میں تبدیلی اور اس سے جڑی تنظیموں کو اب لگام ڈالنا چاہتی ہیں۔ اس امر کا اظہار بعد ازاں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے سخت اقدامات میں بھی ہوا۔ ڈان لیکس والی میٹنگ کے بعد ہی بظاہرنواز شریف کی بطور وزیر اعظم اقتدار سے بے دخلی کاحتمی فیصلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس نے سقوطِ کشمیر کی اصطلاح بھی استعمال کی اور اس طرح ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جو بھارتی مقبوضہ کشمیر پر اپنے مؤقف سے دستبردار ہو چکے ہیں اور مودی کے حالیہ اقدامات کے سامنے سر تسلیم خم کر چکے ہیں۔ اسی طرح نواز شریف نے مسنگ پرسنز کا بھی ذکر کیا اورخفیہ ایجنسیوں کے عوام دشمن کردار پر بھی کھل کر بات کی۔ اس سے پہلے جاوید ہاشمی اور دوسرے بہت سے افراد ایسی گفتگو کئی دفعہ کر چکے ہیں اور فوج کے سیاست میں بڑھتے ہوئے کردار پر تنقید کر چکے ہیں لیکن اس دفعہ نواز شریف نے جرنیلوں پر کڑی تنقید کی اور عدلیہ پر دباؤ اور اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کے عمل کی بھی وضاحت کی۔ اسی طرح عاصم سلیم باجوہ کی بیرونی ممالک میں موجود کمپنیوں اور اربوں ڈالر کے کاروبار کا بھی ذکر کیا جس پر ابھی تک کسی بھی کاروائی کا آغازنہیں کیا گیا۔ بلکہ اس کو تحفظ دینے کے لیے سرکاری اداروں کی دستاویزات میں غیر قانونی طور پر ردو بدل کیا جارہا ہے۔عاصم باجوہ کی بلوچستان میں بطور کور کمانڈر تعیناتی کے دوران صوبے کی سیاست کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے بھی نواز شریف نے کھل کر بات کی۔ یہ تمام گفتگو سوشل میڈیا پر گزشتہ چند ہفتوں سے زور و شور سے جاری تھی گوکہ ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں انتہائی محتاط انداز میں اس پر گفتگو کی جا رہی تھی۔ عاصم باجوہ کی کرپشن کی کہانی امریکہ میں بیٹھے ایک پاکستانی صحافی نے شائع کی تھی اور اس کے بقول اس کے پاس ایسی ہی مزید کئی کہانیاں ہیں۔ اس کے حوالے سے بھی الزام ہے کہ اس رپورٹ میں امریکہ کی سرکاری دستاویزات حاصل کی گئی ہیں اور اس کا ہدف سی پیک کا منصوبہ ہے جس کے لیے قائم ادارے کا سربراہ بھی عاصم باجوہ ہے اور وہ آرمی چیف کے بھی بہت قریب ہے۔ اس تمام کشمکش میں امریکہ اور چین کی سامراجی لڑائی پاکستانی ریاست پر اثر انداز ہوتی دکھائی دیتی ہے جو آنے والے عرصے میں مزید شدت اختیار کرے گی۔

نواز شریف، درحقیقت، خود ایسی ہی تمام کاروائیوں میں شریک رہا ہے اور انہی سازشی ہتھکنڈوں کے ذریعے ہی اقتدار میں آیا اور ایسے ہی طریقوں سے اپنی دولت کے ذخائر میں اضافہ کیا۔ اس کی تنقید کا ہدف بننے والے کچھ نیا نہیں کر رہے بلکہ انہی طریقوں کو استعمال کر رہے ہیں جو وہ پہلے کیا کرتا تھا۔ عمران خان کے حوالے سے اپنی ایک تقریر میں اس نے کہا کہ اس شخص کو کسی بات کی بھی سمجھ نہیں اوریہ عجیب بیوقوفانہ کردار کا حامل ہے اور یہ بھی کہا کہ اس کو ایک فراڈالیکشن کے ذریعے اقتدار دلایا گیا ہے۔ لیکن یہی کچھ نواز شریف کو اقتدار دلانے کے لیے بھی کیا گیا تھا اور آئی ایس آئی کی فنڈنگ سے آئی جے آئی کی تشکیل کا ایک کیس عدالتوں میں بھی موجود ہے۔ اس سے پہلے جاوید ہاشمی بھی فوج کے حوالے سے ایسے بیانات تسلسل سے دے چکا ہے۔ جاوید ہاشمی سے لے کر نواز شریف تک، یہ تمام افراد ماضی میں عوام دشمن کاروائیوں کا حصہ رہے ہیں اور مختلف وقتوں میں انہی حربوں کے ذریعے اقتدار حاصل کر کے عوام دشمن پالیسیاں مسلط کرتے رہے ہیں جس کے طعنے آج عمران خان کو دیے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ تمام تر تنقید واضح کرتی ہے کہ دایاں بازو کتنا کمزور ہو چکا ہے اور اس وقت آپس میں دست و گریبان ہے اور ایک دوسرے پر تنقید کرنے کے لیے گالی گلوچ تک سے گریز نہیں کیا جاتا جبکہ حکومت میں شامل افراد اپنے حریفوں کو جیلوں میں ڈالنے اور ان کے تمام تر اثاثے منظر عام پر لانے میں مصروف ہیں۔

یہ درحقیقت اس نظام کا بحران ہے جس میں آج کا حکمران طبقہ مسلسل ٹوٹ پھوٹ اور گراوٹ کا شکار ہے۔ جرنیلوں نے بھی اس عمل میں اپنی صفائی دینے کے لیے ن لیگ کے لیڈر محمد زبیر کی خفیہ ملاقاتوں کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ ڈالا۔ لیکن اس سے کیچڑ ن لیگ پر ڈلنے کے ساتھ ساتھ خود جرنیلوں پر بھی آ کر گرا جو بظاہر سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن رات کی تاریکی میں ملاقاتیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے مختلف دھرنوں پر خفیہ ایجنسیوں کی سپانسر شپ کے الزامات بھی کھل کر لگائے جا رہے ہیں جو پہلے ڈھکے چھپے انداز میں کیے جاتے تھے۔ اس تمام تر لڑائی میں حکمران طبقے کی حقیقت مزدوروں اور کسانوں پر مزید واضح ہو رہی ہے اور غربت کی چکی میں پسنے کے ساتھ ساتھ وہ ان لیڈروں کے سیاسی میدان میں کپڑے اترتے بھی دیکھ رہے ہیں۔

نواز شریف کی یہ تقریریں اور اپوزیشن کے نئے اتحادکو اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کی جانب سے آشیر باد بھی مل رہی ہے اور وہ تقریریں اور بحثیں جنہیں پہلے میڈیا میں دکھانے کی اجازت نہیں تھی اب کھل کر دکھائی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ن لیگ نے عوامی اجتماعات اور احتجاجوں کے سلسلے کا بھی آغاز کر دیا ہے جس کی اس سے پہلے اجازت نہیں دی جا رہی تھی اور نہ ہی گزشتہ دو سال میں ایسا کچھ نظر آیا۔ یہ تمام تر کوششیں اپوزیشن کی پارٹیوں کو زندہ رکھنے کی ایک کوشش ہے تا کہ حکمران طبقے کی غلیظ سیاست کو عوام پر مسلط کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں بشمول ن لیگ اور پیپلز پارٹی ختم ہو جائیں تو تحریک انصاف کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ تحریک انصاف کی قیادت کے تمام تر بیانات اور کاروائیاں اپوزیشن کے متعلق ہی ہوتی ہیں۔ ان لوگوں نے چوری کی، کرپشن کی اور ہم ایک دن انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے اور ایسے ہی اور بیانات کا سلسلہ جاری رہتا ہے جس سے میڈیا کو بھی خوراک ملتی رہتی ہے۔ گوکہ انہیں جیل سے لندن فرار کروانے کا فیصلہ بھی خودعمران خان نے ہی کیا۔ اس لیے درحقیقت اپوزیشن کے اتحاد کا بننا اور احتجاجی تحریک کا آغاز کرنا خود تحریک انصاف کو تھوڑی مزید زندگی دے گا۔ اسی کے ساتھ ٹی وی اور اخبارات کو بھی بات کرنے کے لیے مواد مل جائے گا اور تجزیہ نگاروں اور ”ماہرین“ کی ضرورت بھی پیش آتی رہے گی جو رٹی رٹائی پرانی کہانیاں سنانے سے کبھی بھی بور نہیں ہوتے خواہ سننے والا ان کے سامنے ہی سونے لگ جائے۔ بلکہ وہ آواز مزید بلند کر کے وہی گھسا پٹاتجزیہ یا ”سوالات“ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ بات الگ ہے کہ اس تمام تر سیاست اور صحافت میں عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ شہباز شریف، جسے پنجاب کا ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے، اس کی گرفتاری پر سو افراد بھی احتجاج کرنے کے لیے جمع نہ ہو سکے۔ اس سے قبل نواز شریف خود بھی کبھی جیل اور کبھی ہسپتال میں رہا اور یہ تمام خبریں ”پابندیوں“ کے باوجود میڈیا پر متواتر آتی رہیں لیکن اس کے باوجود سو سے زیادہ لوگ نواز شریف کی تیمار داری کے لیے جمع نہ ہو سکے۔ یہ صورتحال ان پارٹیوں کی حقیقت بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ پیپلز پارٹی کی صورتحال بھی مختلف نہیں اوروہ بھی تقریباً ڈیڑھ دہائی کی مسلسل مزدور دشمن کاروائیوں اور لوٹ مار کی گنگا میں نہانے کے بعد سندھ میں بھی عوامی نفرت کا مرکز بن چکی ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود قوم پرست جماعتوں سے لے کر فضل الرحمان تک سب پارٹیاں اپنی ماضی کی تمام تر حمایت کھو چکی ہیں اور اس وقت ہوا میں معلق ہیں۔ تحریک انصاف کا مصنوعی پن تو آج زبان زد عام ہے۔ عوامی تحریک کا ایک بڑا ریلاجب بھی ابھرا سب سے پہلے اس غلاظت کو بہا لے جائے گا اور اسے تاریخ کے کوڑے دان میں غرق کر دے گا۔ درحقیقت، یہی خوف ان سب ”لیڈروں“ کو دوبارہ تلخ بیان بازی پر اکساتا ہے اور وہ حالات کے ساتھ مطابقت رکھنے کی کوششوں میں پہلے سے بڑے راز آشکار کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس عمل میں ریاست اور معیشت بھی مسلسل کمزور ہو رہے ہیں اور زوال پذیری کی گہری کھائی میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔

آمریت اور جمہوریت کی پرانی بحث کو بھی پھر سے مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ آج صورتحال ماضی کی نسبت کہیں زیادہ مختلف ہو چکی ہے۔ آج فوج کا معیشت میں کردار ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ مشرف آمریت کے دور سے لے کر اب تک اس کردار میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اوراس کاا ظہار موجودہ حکومت میں بھی ہوتا ہے جو خود سے ایک قدم چلنے کی سکت بھی نہیں رکھتی اور ہر وقت اور ہر جگہ فوج کی بیساکھی کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق ملک کی معیشت کے نصف حصے تک فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ ایسی صورتحال میں فوج کو سیاست سے الگ کرنے کا خیال کھوکھلی بیان بازی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دوسری جانب معیشت کا شدید ترین عمومی زوال اس کاروبارکو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ اس ادارے کی مالیاتی بنیادوں پر بھی حملہ آور ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر سامراجی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی لڑائیاں اور سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کا بد ترین بحران بھی اس صورتحال کو مزید انتشار اوربد امنی کی جانب دھکیل رہا ہے جبکہ حکمران طبقے کے تضادات بھی سامراجی طاقتوں کے دباؤ کے باعث شدت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔

یہ تمام صورتحال واضح طور پر بہت بڑی تبدیلیوں اور عوامی تحریکوں کو ابھارنے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس عمل میں ماضی کی مسلط کردہ یہ پرانی سیاست رد ہوتی چلی جائے گی اور عوام کے حقیقی اور سلگتے ہوئے ایشوز پر سیاست مقبول ہوتے ہوئے منظر پر پھیلتی چلی جائے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کے پاس عوام کو درپیش مسائل کا کوئی ٹھوس حل موجود نہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری ختم کرنے کا کوئی نسخہ نہیں اور نہ عالمی سطح پر ہونے والے دیو ہیکل واقعات کے حوالے سے کسی بھی قسم کا کوئی تجزیہ موجودہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ دنیا میں اتنے بڑے بڑے واقعات رونما ہو رہے ہیں، پوری عالمی معیشت تاریخ کے بدترین بحران میں دھنسی ہوئی ہے، انقلابی تحریکیں ایک کے بعد دوسرے ملک میں ابھر رہی ہیں، لیکن یہاں کی سیاست اور صحافت میں اس کا ذکر تک نہیں ملتا۔ یہ ان تمام ”لیڈروں“ اور ”دانشوروں“ کی جہالت اور نالائقی کے ساتھ ساتھ ان کی متروکیت کو بھی واضح کرتی ہے اور ان کے مستقبل میں تاریخ کے کوڑے دان کی جانب سفر کا بھی اظہار کرتی ہے۔

موجودہ عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں خطے میں بھی اپنا اظہار کر رہی ہیں جو کشمیر اور گلگت بلتستان سے لے کر لداخ تک کے تنازعے میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تنازعے آنے والے عرصے میں مزید شدت اختیار کریں گے اور اس پورے خطے میں بسنے والے کروڑوں افراد کی زندگیوں پر براہ راست اثرات مرتب کریں گے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی تجزیہ و تناظر نہیں آتا صرف ماضی کے رٹے ہوئے بیانات، کالم، تجزیے اور ٹاک شو کرکے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

دوسری جانب، محنت کش عوام نہ صرف ان تبدیلیوں کو محسوس کر رہے ہیں بلکہ اپنے اوپر ہونے والے بد ترین مظالم کو بھی برداشت کر رہے ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے حملے انہیں مسلسل موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں جبکہ حکمران طبقے کی تجوریاں بھرتی جا رہی ہیں۔ حکمرانوں کے سرخ و سفید چہرے، زرق برق لباس اور توانا جسم ان محنت کشوں کے لیے باعث حیرت ہیں جوبھوک اور بیماری کے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں۔ ان کی برداشت جواب دیتی جار ہی اور ایک وسیع ترعوامی تحریک کا وقت قریب آتا چلا جا رہا ہے۔ اس تحریک کی قیادت وہی کر سکے گا جس کے پاس نہ صرف حالات کا ایک سائنسی تجزیہ موجود ہو گا بلکہ ان تمام مسائل کا ایک ٹھوس حل بھی ہوگا۔ آج کے زوال پذیر سرمایہ د ارانہ نظام میں بہتری کی گنجائش مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور محنت کشوں کے لیے نجات کا واحد رستہ صرف اور صرف سوشلسٹ انقلاب ہی ہے۔ یہی نعرہ آنے والے وقت کا سب سے مقبول نعرہ ہوگا اور اسی کے گرد لاکھوں افراد منظم ہو کر اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوں گے۔ لیکن اس سے پہلے ملک گیر سطح پر انقلابی پارٹی کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آنے والے انقلاب کو پایہئ تکمیل تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کر سکے اور بھوک،بیماری، غربت اور ذلت سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کے خون سے روزغسل کرنے والے ان عوام دشمن حکمرانوں سے بھی ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کی جا سکے۔

Comments are closed.