جرمن انتخابات: سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی کمزور فتح؛ استحکام کے عہد کا خاتمہ

|تحریر: ڈر فنکے ایڈیٹوریل بورڈ، ترجمہ: ولید خان|

26 ستمبر کو منعقد ہونے والے بیسویں جرمن فیڈرل انتخابات نے ثابت کر دیا ہے کہ جرمنی میں پولرائزیشن کا عمل مسلسل بڑھ رہا ہے۔ عوامی رائے کبھی اتنی پر انتشار نہیں رہی، ووٹر کبھی اتنے متذبذب نہیں ہوئے اور پارلیمنٹ کبھی اتنی پرتضاد نہیں بنی۔ جرمنی میں بورژوا جمہوری سیاسی نظام بحران کا شکار ہے لیکن ان انتخابات میں کسی پارٹی کی جانب سے کوئی ایسا متبادل سامنے نہیں آیا جو طبقاتی جدوجہد کا پیغام دیتا ہو۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ان انتخابات میں سب سے زیادہ شرمناک شکست کرسچن ڈیموکریٹس (CDU/CSU) اور چانسلر کیلئے ان کے امیدوار آرمین لاسچیت کو ہوئی ہے۔ کسی بھی فیڈرل انتخابات میں یہ CDU اب تک کی سب سے شرمناک شکست تھی۔ وہ صرف 18.9 فیصد ووٹ ہی حاصل کر سکے۔ 5.2 فیصد ووٹ حاصل کر کے CSU نے پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے لئے بمشکل کم از کم 5 فیصد کی حد بندی کو عبور کیا۔ CDU/CSU کو کُل 24.1 فیصد ووٹ ملے جو 8.9 فیصد کی گراوٹ ہے۔

پچھلے انتخابات کے مقابلے میں سوشل ڈیموکریسی (SPD) کے ووٹوں میں 5.2 فیصد اضافہ ہوا، لیکن کسی بھی فیڈرل انتخابات میں یہ اس کا تیسرا سب سے شرمناک نتیجہ ہے۔ اب چار پارلیمانی ادوار گزرنے کے بعد SPD اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اپنا ایک چانسلر نامزد کر سکے۔ لبرل گرین پارٹی کے ووٹوں میں بھی اضافہ تو ہوا ہے مگر جس طرح سابقہ عوامی رائے شماریوں میں اس کی مقبولیت ظاہر ہو رہی تھی (28 فیصد)، جو کہ ایک عارضی نوعیت کی تھی، ان انتخابات میں وہ اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکی۔
4.8 فیصد (+5.8 فیصد) ووٹوں کے ساتھ وہ تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ لبرل فری ڈیموکریٹک پارٹی (FDP) نے بھی ان انتخابات میں اپنا ووٹ معمولی اضافے کے ساتھ 11.5 فیصد تک بڑھایا ہے۔

CDU کے علاوہ قوم پرست آلٹرنیٹیو فار ڈیوش لینڈ (AfD) اور خاص طور پر بائیں بازو کی پارٹی DIE LINKE کے ووٹوں میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ AfD کو 10.3 فیصد (-2.3 فیصد) ووٹ ملے، بہر حال یہ اپنی حمایت مستحکم رکھنے میں کامیاب رہی۔ ڈائی لنکے (DIE LINKE) 4.9 فیصد ووٹ حاصل کر کے 5 فیصد کی حد بندی عبور نہ کر سکی۔ پچھلے انتخابات کے مقابلے میں اس دفعہ اس کی حمایت تقریباً آدھی ہو چکی ہے۔ اس کی قسمت اچھی ہے کہ تین براہ راست کامیابیوں کی وجہ سے وہ پارلیمنٹ (Bundestag) میں ایک پارلیمانی گروپ کے طور پر بیٹھ سکے گی۔

جو پارٹیاں پارلیمنٹ میں داخل نہیں ہو سکیں انہوں نے مجموعی طور پر 8.7 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ پچھلے انتخابات کی طرح اس مرتبہ بھی 76.6 فیصد ووٹروں نے حصہ لیا۔ تقریباً 1 کروڑ 50 لاکھ ووٹروں نے سرے سے حصہ ہی نہیں لیا، یعنی ووٹ نہ ڈالنے والے اس وقت سب سے بڑی ”پارٹی“ ہیں۔ اس کے علاوہ ووٹ ڈالنے کے اہل 95 لاکھ افراد بیرونی شہریت یا جرمنی میں تارکین وطن افراد تھے جنہیں ووٹ ڈالنے کا حق ہی نہیں دیا گیا۔

SPD کی ایک غیر مستحکم فتح

ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلے میں یہ انتخابی مہم سب سے زیادہ غیر سیاسی تھی۔ لیکن شائد ان انتخابات میں جتنے موضوعات پر بحث ہو سکتی تھی اتنے ماضی میں کبھی موجود نہیں تھے جیسے جولائی کے ہولناک سیلابوں کے تناظر میں ماحولایتی تبدیلی، کرونا وباء اور معاشی بحران وغیرہ۔ مگر اس بار سارا دھیان مختلف پارٹیوں کے امیدواروں کی شخصیت پر تھا کیونکہ کوئی بھی پارٹی عوام کو ایک حقیقی حل پیش نہیں کر سکتی تھی۔ ان کے سیاسی پروگراموں میں معمول کا ہی فرق تھا۔ اس سارے ماحول میں پارٹیوں کے چانسلر کی سیٹ کے امیدواروں کی ذاتی مقبولیت ہی پارٹیوں کی انتخابی پرفارمنس کی بنیاد بنی۔

Olaf Scholz Image Steffen Prößdorf

(SPD کا چانسلر کی سیٹ کیلئے نمائندہ، اولاف شولز) ایک لمبے عرصے تک تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ انتخابات محض گرین پارٹی اور CDU/CSU کے درمیان ایک مقابلہ بن کر رہ جائیں گے جس میں سرمائے کے مختلف دھڑے ان پارٹیوں کی حمایت کریں گے، مگر عوام میڈیا پر ان دو پارٹیوں کی جاری غلیظ مہم سے اکتا گئے۔ البتہ SPD کی کامیابی کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ وہ مظبوط ہوئی ہے بلکہ اس کے اندر شدید بحران موجود ہے جو مستقبل میں کھل کر اظہار کرے گا۔

ایک لمبے عرصے تک تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ انتخابات محض گرین پارٹی اور CDU/CSU کے درمیان ایک مقابلہ بن کر رہ جائیں گے جس میں سرمائے کے مختلف دھڑے ان پارٹیوں کی حمایت کریں گے۔ اقتدار کی دوڑ میں انتہائی غلیظ میڈیا مہم چلائی گئی۔ مثلاً میڈیا میں امیدواروں کی سی وی میں نقائص نکالے جاتے رہے، گرین پارٹی کی ایک امیدوار آنالینا بیئروک کی کتاب پر بحث مباحثہ ہوتا رہا اور جولائی میں تباہ کن سیلابوں کے بعد SPD کے فیڈرل صدر سٹائن میئر کی تقریر کے دوران لاسچیت کی ہنسی جیسے فروعی اور لایعنی موضوع زیرِ بحث رہے۔ لیکن بورژوا حکمت کاروں نے گرین پارٹی اور CDU/CSU کی حمایت کے حوالے سے غلط اندازے لگائے۔ عوام میں اس میڈیا مہم کے حوالے سے شدید نفرت ابھری کیونکہ وہ کئی دہائیوں سے سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کے جھوٹے وعدے سن رہے ہیں۔ لاسچیت اور بیئروک دونوں ہی میڈیا میں رسوا ہوئے۔

اس دوران چانسلر کے امیدوار اولاف شولز (SPD) کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور اس کا فائدہ SPD کو ہوا۔ اس کی مقبولیت کی سادہ وجہ یہ تھی کہ وہ باقی دو امیدواروں میں سے نہیں تھا اورچار مرتبہ حکومت سازی کے بعد CDU کے خلاف عوامی موڈ شدید خراب تھا۔ شولز محض تمام غلاظت میں کم تر غلاظت تھا جس کے جیتنے کے مواقع زیادہ تھے۔

لیکن انتخابات میں SPD کی مقبولیت میں اضافے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا دہائیوں سے جاری بحران اچانک ختم ہو گیا ہے۔ شولز SPD کے پروگرام کی وجہ سے نہیں جیتا۔ SPD کی ممبرشپ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ عوامی موڈ میں جوش و خروش کا شائبہ تک موجود نہیں تھا جیسے مارٹن شلز (SPD) کی 2017ء کی انتخابی مہم میں موجود تھا کیونکہ اس وقت سماجی مسائل ہر جگہ زیر بحث تھے۔ موجودہ نام نہاد کامیابی سے شدید ترین بحران کا شکار SPD کو بس لمحہ بھر سکون ہی میسر آ پائے گا۔

حصہ بقدر جثہ

عین ممکن ہے کہ حکومت سازی کا ایک طویل دور کھلنے جا رہا ہے۔ اس بار دو لبرل پارٹیاں گرین اور FDP پہلے ہی کوئی مذاکرات کرنا چاہتی ہیں کیونکہ 2017ء میں ان کے آپسی اختلافات نے دونوں کو حکومت میں حصہ داری سے محروم کر دیا تھا۔ اس وقت دونوں پارٹیوں میں حکومت سازی کیلئے بھرپور مشاورت جاری ہے کہ کس کو کونسی وزارت ملے گی۔ شولز ایک ”ٹریفک لائٹ اتحاد (SPD، FDP اور گرین کے پارٹی نشانات کے رنگ)“ کا خواہش مند ہے۔ انتخابی کامیابی کے بعد SPD کے پاس حق موجود ہے کہ وہ چانسلر کی سیٹ حاصل کرے۔ لیکن تھیوری میں گرین پارٹی، FDP اور CDU/CSU اتحاد کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے گرین پارٹی اور FDP کی مذاکراتی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔

اس حوالے سے بہر حال CDU/CSU حکومت تشکیل دینے کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے۔ وہ نام نہاد ”جمیکا اتحاد“ (گرین پارٹیCDU/CSU-FDP-) کا سوچ رہے ہیں۔ درحقیقت CDU کی قیادت میں ایک حکومت بننے کے امکانات انتہائی محدود ہیں۔ کیونکہ اگر وہ ایک بار پھر حکومت میں آتے ببھی ہیں تو انہیں انتہائی غیر مقبول اقدامات اٹھانے پڑیں گے جس کے نتیجے میں CDU/CSU کا اندرونی بحران مزید گہرا ہوگا۔ سرمائے کے نقطہ نظر سے بہتر ہو گا کہ پارٹی کو حزب اختلاف میں ”صحت یاب“ ہونے دیا جائے۔

Traffic Light Image fair use

تاحال حکومت کی تشکیل کیلئے مذاکرات جاری ہیں، البتہ ’’ٹریفک لائٹ اتحاد‘‘ جس میں SPD، FDP اور گرین پارٹی شامل ہے، کی حکومت بنتی نظر آرہی ہے جو دوسری طرف جرمن سرمایہ داروں کیلئے بھی قابل قبول ہے کیونکہ یہ اتحاد اپنے آپ کو ترقی پسند اتحاد کے طور پر پیش کرتے ہوئے مزدور دشمن اقدامات بروئے کار لائے گا۔

پھر ایک ”جمیکا اتحاد“ یہ تاثر بھی نہیں دے سکے گا کہ سماجی ترقی کا ایجنڈہ موجود ہے۔ اس عمل میں دونوں پارٹیوں اور سرمایہ دار طبقے کے لئے حکمران طبقے کے مفاد میں لازمی اقدامات کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ایسا اتحاد اپنے آغاز سے ہی نوجوانوں اور محنت کشوں میں انتہائی غیر مقبول اور عدم اعتماد کا شکار ہو گا۔

غالب امکانات یہی ہیں کہ SDP، FDP اور گرین پارٹی کے اتحاد میں ایک نئی ”ٹریفک لائٹ اتحاد“ حکومت بنے گی۔ یہ اتحاد عوام کو یقین دلانے کی کوشش کرے گا کہ یہ ایک ”سماجی۔ماحولیاتی۔لبرل“ اکٹھ ہے جو دیرینہ سماجی مسائل کو حل کرنے کے لئے بنا ہے۔ درحقیقت یہ حکومت 2000ء کی دہائی کے اوائل میں بننے والی ریڈ۔گرین حکومت کی طرز پر غیر مقبول اقدامات کرے گی۔

لیکن اپنے آغاز میں اس اتحاد کے لئے یہ تاثر دینا آسان ہو گا کہ یہ حکومت ماحولیاتی تحفظ، سماجی اصلاحات اور ٹیکنالوجی میں ترقی کو یقینی بنائے گی۔ اس وقت حکمران طبقے کو ایک ایسی حکومت کی اشد ضرورت ہے جس سے عوام کی بھاری اکثریت کو امیدیں وابستہ ہوں اور اسی لئے جرمن بورژوازی کے نمائندے جیسے ٹیکسٹائل کمپنی ٹرائی جیما کا مالک وولف گینگ گروپ SPD کو موقع دینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بورژوازی کے مفادات کے تحفظ کے لئے ”ذمہ داری“ کا ثبوت دیں گے۔ خاص طور پر سرمائے کی سب سے زیادہ براہ راست نمائندہ پارٹی FDP کی شمولیت یقینی بنائے گی کہ ایسے ”ٹریفک لائٹ اتحاد“ کے پروگرام سے محنت کشوں کے معیار زندگی میں بہتری جیسے اقدامات موجود نہ ہوں۔

تمام پارٹیاں بحران کا شکار

اس دوران CDU/CSU میں چند مہینوں پہلے چانسلر کی سیٹ کی امیدواری کے لئے لاسچیت (CDU) اور سوڈر (CSU) کے درمیان کشمکش اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکی تھی اور اب اس چپقلش میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ افواہوں کا بازار گرم ہے۔ مثلاً یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ سوڈر کو اتحادی مذاکرات کی نمائندگی کرتے ہوئے چانسلر بننے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ ایک مرتبہ پھر سیکسونی ریاست کے وزیر اعظم کریتسشامر (CDU) نے CDU کی کسی بھی حکومت بنانے کی کوشش کی مخالفت کی ہے۔ اس دوران ناربرٹ رتجن (CDU) نے پارٹی عہدیداران میں تبدیلی کے حوالے سے بات کی ہے۔ لاسچیت کب تک CDU کے فیڈرل قائد کے طور پر قائم رہ سکتا ہے؟ پارٹی عہدوں کے لئے لڑائیاں کب تک کھلیں گی، اس عمل کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اتحادی حکومت کے مذاکرات کتنی طوالت اختیار کرتے ہیں اور حقیقت میں CDU کسی ایسے اتحاد کا حصہ ہو بھی سکتی ہے یا نہیں۔ بہرحال مستقبل میں CDU کا اندرونی بحران مزید گہرا ہونے جا رہا ہے۔

AfD اپنے آپ کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور اس کے گرد ووٹروں کا ایسا گروہ اکٹھا ہو چکا ہے جو پارٹی کے اشتعال انگیز اور قوم پرستانہ رویے کی حمایت کرتا ہے۔ تھورینگیا، سیکسونی اور سیکسونی۔آنہالٹ میں پارٹی نے 16 براہ راست سیٹیں جیتی ہیں۔ لیکن AfD کو شکستیں بھی ہوئی ہیں جو پارٹی کے مختلف دھڑوں میں تضادات کو تیزی سے بڑھا رہی ہیں۔ یہ تضادات پارٹی کو کمزور کرنے کا باعث بنیں گے۔ پارٹی کے صف اول کے امیدواروں الیس ویڈیل اور ٹینو چروپالا کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں جورج میوتھین پہلے ہی پارٹی کی سمت پر تنقید کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ AfD کے نتائج بتا رہے ہیں کہ اس کے پاس اشتعال انگیزی اور قوم پرستی کے علاوہ اور کوئی پروگرام موجود نہیں اور اس وجہ سے آسٹریا میں FPO یا فرانس میں راسیم بلی مینٹ نیشنل (نیشنل ریلی پارٹی) کی طرز پر اسے موجودہ حالات میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔

سب سے بڑھ کر FDP اور گرین پارٹی نوجوانوں اور نئے ووٹروں میں حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے لئے ماحولیاتی بحران ایک سنجیدہ انتخابی مسئلہ ہے۔ کئی افراد کو گرین پارٹی سے امیدیں وابستہ ہیں۔ لیکن گرین پارٹی اپنے پروگرام کے ذریعے ماحولیاتی بربادی کا راستہ نہیں روک سکے گی۔ دوسری طرف FDP نے اپنی مہم میں ”آزادی“، ”ڈجیٹلائزیشن“ اور ”جدت“ جیسی لفاظی کے ذریعے کئی نوجوانوں اور نئے ووٹروں میں حمایت حاصل کی۔ کرونا وباء نے کئی سکولوں اور یونیورسٹیوں میں موجود مسائل کو بے نقاب کیا ہے۔ FDP اسے تبدیل نہیں کر سکے گی کیونکہ اس کا پروگرام ہی امراء کے لئے ٹیکس چھوٹ اور ریاستی قرضے کو کم کرنا ہے۔ اس پروگرام کے تحت تعلیم یا کسی بھی شعبے میں درکار سرمایہ کاری کی ہی نہیں جا سکتی۔ ان دونوں پارٹیوں سے نوجوانوں کی وابستہ امیدیں جلد ٹوٹیں گی۔ ان امیدوں کے ٹوٹنے کے ساتھ اس پارٹیوں کی انتخابی کامیابی بھی برباد ہو گی۔

سیاسی سنٹر مضبوط ہوا ہے؟

اس وقت پارلیمنٹ پچھلے انتخابات سے بھی زیادہ پر انتشار ہے۔ اگر ہم پارٹیوں کے درمیان ووٹروں کے تبادلے کو دیکھیں تو CDU/CSU اور SPD کی سماجی حمایت کمزور ہوئی ہے۔ SPD کے ووٹروں کی ایک بڑی اکثریت دیگر پارٹیوں سے مایوس ہو کر اس کی حمایت کر رہی ہے۔ دوسری طرف البتہ CDU/CSU اپنے کٹر حمایتی برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے مگر اس کے بھی کافی زیادہ ووٹر دوسری پارٹیوں کا رُخ کر چکے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے زیادہ تر ووٹر عمر رسیدہ ہیں جس سے ان کی سماجی حمایت مزید ختم ہو رہی ہے۔

1990ء کی دہائی تک CDU/CSU اور SPD مل کر پورے ملک کے ووٹ بینک کا 80 فیصد کنٹرول کرتے تھے۔ دونوں میں سے ایک پارٹی FDP کے ساتھ اتحاد کر لیتی تھی۔ سال 1998ء کے فیڈرل انتخابات میں پہلی مرتبہ SPD اور گرین پارٹی کے درمیان اتحاد بنا۔ جرمنی میں 2000ء کی دہائی میں نام نہاد سیاسی ”سنٹر“ کا شیرازہ تیزی سے بکھرنا شروع ہو گیا۔

پارٹیوں میں ووٹروں کا تبادلہ ظاہر کر رہا ہے کہ سماج کا سیاسی شعور آگے بڑھ رہا ہے اور CDU/CSU یا SPD اب سماجی مسائل کے حل کی تلاش میں واحد منزل نہیں رہ گئے۔ اس وقت بڑھوتری پانے والی پارٹیوں، یعنی گرین پارٹی اور FDP کے پاس سرمایہ داری کے بحران کا کوئی حل موجود نہیں اور اس لئے مستقبل میں انہیں مضبوط سماجی بنیادیں بنانے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہو گا۔

اگرچہ نام نہاد ”کنارے“ کی پارٹیاں انتخابات ہار چکی ہیں لیکن سیاسی سنٹر مضبوط نہیں ہو سکا۔ دائیں بازو کی AfD اورلبائیں بازو کی ڈائی لنکے دونوں ثابت نہیں کر سکیں کہ وہ مروجہ سیاست کا متبادل ہیں۔ لیکن سیاسی سنٹر کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ ایک طرف SPD اور CDU/CSU انحطاط پذیر ہیں لیکن دوسری طرف FDP اور گرین پارٹی بھی سیاسی شعور کی بڑھوتری اور پولرائزیشن کے جاری عمل میں محض عبوری سٹیشن ہیں۔

یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟

سیاسی نظام کے اس تمام بحران کی بنیاد عالمی سرمایہ داری کا عمومی بحران اور اس کے سماجی اثرات ہیں۔ یہ بحران 1970ء کی دہائی میں شروع ہوا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا۔ 1970ء کی دہائی کے بعد جرمنی میں بے روزگاری بڑھنا شروع ہو گئی اور 2005ء میں بلند ترین شرح 11 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس دوران مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں سرمایہ کاری کا تناسب کم ہوتا گیا۔ جرمنی میں سرمایہ دار طبقہ اور اس کا ریاستی ڈھانچہ جبری کٹوتیوں کی پالیسی کے ذریعے اپنے مفادات کو محفوظ اور زائد پیداوار کے بحران کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے، اور منافعوں کو مزید بڑھانا چاہتا ہے۔

ایک اہم سنگ میل 2000ء کی دہائی کے آغاز میں گیرھارڈ شروڈر (SPD) کی قیاد ت میں ریڈ۔گرین حکومت کی طرف سے مسلط کردہ نام نہاد ”ایجنڈہ 2010ء“ اور دیگر رد اصلاحات تھیں۔ ان حملوں نے محنت کش طبقے کے معیار زندگی اور کام کے حالات پر تباہ کن اثرات مرتب کئے اور سب سے بڑھ کر استحصال کئی گنا بڑھ گیا۔

نتیجے میں معیشت کا کم اجرتی سیکٹر بڑھنا شروع ہو گیا اور اب سال 2011ء سے 24 فیصد انشورنس کے حامل مزدور مسلسل متاثر ہو رہے ہیں۔ غیر رسمی روزگار بڑھ چکا ہے یعنی 80 لاکھ سے زیادہ مزدور پارٹ ٹائم کام کر رہے ہیں۔ 70 لاکھ غیر یقینی اور وقتی ملازمت کا شکار ہیں۔ عارضی کام، مصنوعی خود کار روزگار، زیرو ہاؤر کانٹریکٹ اور مخصوص وقتی روزگار، سب میں دیو ہیکل اضافہ ہوا ہے۔ 35 سال سے کم عمر کے 60 فیصد افراد مخصوص وقتی روزگار سے منسلک ہیں۔

غیر رسمی روزگار کے پھیلاؤ نے بے روزگاری کو کم کیا ہے۔۔سال 2019ء میں 4 کروڑ 50 لاکھ افراد برسر روزگار تھے۔۔لیکن ساتھ میں اجرتوں کا تناسب سال 2000ء کی سطح پر کھڑا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سال 2019ء میں GDP کے حصے کے طور پر اجرتوں کا تناسب پچھلے 20 سالوں میں تبدیل نہیں ہوا ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس وقت روزگار سے منسلک ہیں۔ استحصال میں دیو ہیکل اضافہ ہوا ہے۔

اس کا نتیجہ بڑھتی عدم مساوات ہے۔ جرمنی میں گِنی کوایفیشنٹ کے مطابق سال 2010-2019ء میں عدم مساوات 19.3 فیصد بڑھ چکی ہے اور حکومت کی چھٹی غربت اور امارت رپورٹ کے مطابق اس وقت یہ پیمانہ 0.81 تک جا پہنچا ہے۔ یعنی اس وقت جرمنی دنیا کے سب سے زیادہ عدم مساوات کے شکار ممالک میں سے ایک ہے۔

محنت کش طبقے۔۔جو کم سے کم سہولیات میں زیادہ سے زیادہ پیداوار کر رہا ہے۔۔اور سرمایہ دار طبقے۔۔ جو دیو ہیکل استحصال کے نتیجے میں امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔۔کے درمیان بڑھتی طبقاتی پولرائزیشن ہی وہ بنیاد ہے جس کا نتیجہ اب جرمنی میں سیاسی اور سماجی انتشار میں اظہار کر رہا ہے۔ طبقاتی پولرائزیشن ناگزیر طور پر سیاسی پولرائزیشن کو جنم دیتی ہے کیونکہ عوام موجودہ نظام پر سوال اٹھانا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے ذاتی اور سماجی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کاوش شروع کر دیتے ہیں۔

مرکل دور کا اختتام

2000ء کی دہائی سے مسلسل بحران رونما ہو رہے ہیں اگرچہ سال 2005ء میں اینجیلا مرکل کے چانسلر بننے کے بعد اس کے پورے دور کو قدرے استحکام کا دور تصور کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑے بحرانوں میں فنانشل بحران، یورو بحران، مہاجرین کا بحران اور کرونا وباء بحران شامل ہیں۔ ان بحرانوں کا مرکل نے انتہائی چالاکی سے اس لئے مقابلہ کر لیا کیونکہ اس نے ہر مسئلے پر حالات کے مطابق اپنی پوزیشن بنائی اور سب سے بڑھ کر سرمایہ داروں کے مفادات اور ضرورتوں کا تحفظ کیا۔

Refugees Image Raimond Spekking

اگرچہ سال 2005ء میں اینجیلا مرکل کے چانسلر بننے کے بعد اس کے پورے دور کو قدرے استحکام کا دور تصور کیا جاتا ہے۔ مگر اس عرصے میں جرمنی کو کئی بحرانات کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ ان بحرانوں کا مرکل نے انتہائی چالاکی سے اس لئے مقابلہ کر لیا کیونکہ اس نے ہر مسئلے پر حالات کے مطابق اپنی پوزیشن بنائی اور سب سے بڑھ کر سرمایہ داروں کے مفادات اور ضرورتوں کا تحفظ کیا۔

خاص طور پر یورو بحران میں جرمن حکومت نے یونان کو عبرت کا نشان بنا دیا تاکہ اپنے سیاسی تسلط کو قائم و دائم رکھا جائے اور یورپی یونین کی اکائی برقرار رہے۔ مہاجرین کے بحران میں مرکل فوراً انسان دوست بن گئی اور کچھ مہاجرین کی مدد پر آمادہ ہو گئی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ عوام کی وسیع پرتوں میں مہاجرین کے لئے یکجہتی موجود تھی لیکن سرمایہ داروں نے بھی اندازہ لگایا کہ اگر مہاجرین کو ملک میں آنے دیا جاتا ہے تو ایک نسبتی معاشی خوشحالی کے دور میں ممکنہ طور پر اجرتوں کو دبایا جا سکتا ہے۔ اس وقت تک مرکل کی پوزیشن یہ تھی کہ ”کثیرثقافتی سماج ناکام ہو چکا ہے“، مسلمان ضم ہونے کو تیار نہیں اور مہاجرین کو لازمی طور پر ”جرمن ثقافت“ میں ضم ہونا چاہیئے۔ مہاجرین کے بحران کے عارضی حل کے بعد وہ واپس نسل پرست پالیسی پر کاربند ہو گئی۔

عالمی سیاست میں پنپتے دیو ہیکل بحرانوں میں۔۔امریکہ، چین اور یورپی یونین کے درمیان معاشی جنگ، صنعتی ڈیجٹلائزیشن کی مسابقت، یورپی یونین میں بڑھتے تضادات، ماحولیاتی بحران، کورونا وباء سے متعلق پالیسیوں کی معاشی تباہ کاریاں۔۔نئی فیڈرل حکومت کے پاس کھڑے ہونے کے لئے قابل اعتماد سہارے کم سے کم ہوتے جائیں گے۔ یہ حکومت اپنے آپ سے وابستہ تمام امیدیں چکنا چور کر دے گی اور عوام میں یہ تلخ تاثر سرایت کر جائے گا کہ تمام سیاسی پارٹیاں منحوس ہیں۔ نتیجے میں تمام سیاسی پارٹیوں اور پورے سیاسی نظام کا بحران اور شدید ہو جائے گا۔

جب تک سرمایہ داری کے ساتھ تعلق فیصلہ کن طور پر توڑا نہیں جاتا، اس وقت تک حالات کا تعین سرمایہ داری کا بحران اور حکمران طبقے کے مفادات کرتے رہیں گے۔ محنت کش طبقے اور نوجوانوں پر حملے مسلسل بڑھیں گے۔ کرونا وباء کے دوران مرکل حکومت نے یہی پالیسیاں اپنائی ہوئی تھیں جن میں مزید شدت آئے گی اور یہ عمل مزید آگے بڑھے گا۔ سنٹرل بینک اور حکومت کی طرف سے امدادی طور پر دیے جانے والے پیسے کا بڑا حصہ بڑی کمپنیوں کو گیا تاکہ وہ اپنے منافعوں کو برقرار رکھ سکیں۔ اب تک ان اقدامات کی مالیت GDP کے 39 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ عنقریب مستقبل میں محنت کش طبقے سے ان پیسوں کا حساب لیا جائے گا جس میں ماحولیاتی بحران کا بِل بھی شامل ہو گا۔

ٹریڈ یونینز کا بحران

ان مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ سرمایہ داری کا خاتمہ کیا جائے۔ لیکن محنت کش طبقے کی عوامی تنظیموں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بڑی ٹریڈ یونینز کی قیادت۔۔دیوتشر گیویرکشاٹس بند (DGB) ۔۔پچھلی کئی دہائیوں سے ریاست کو بحران میں سہارا دے رہی ہے۔ جرمنی میں شائد ہی کوئی ہڑتال ہوتی ہو۔ نوکریوں میں کٹوتیوں، فیکٹریوں کی بندش، اجتماعی سودے بازی سے بچاؤ اور سرمایہ دار طبقے اور حکومت کے دیگرحملوں کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں ہوتی۔

کرونا وباء کے دوران ٹریڈ یونینز کی یہ کمزوری خاص طور پر واضح ہوئی ہے۔ ٹریڈ یونین قیادت نے حکومتی اقدامات کی کوئی خاص مذمت نہیں کی اور محنت کش طبقے کے سامنے کوئی متبادل بھی نہیں پیش کیا جو محنت کشوں کے درمیان تقسیم کو ختم کرتا۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کسی سیاسی پارٹی کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی پروگرام پیش کیا کہ آنے والی حکومت سے اپنے مطالبات کیسے منوائے جائیں گے۔

اس لئے ان انتخابی نتائج کے حوالے سے DGB کی ٹریڈ یونینز پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ٹریڈ یونینز کی جانب سے کسی تناظر یا طبقاتی جدوجہد کے لئے قیادت کی عدم موجودگی میں سماجی پولرائزیشن بورژوا سیاسی پارٹیوں کی حدود میں رہتے ہوئے زیادہ تر نام نہاد سیاسی ”مرکز“ کے گرد گھومتی رہی۔

ڈائی لنکے پارٹی کی شرمناک شکست

ڈائی لنکے پارٹی کا بھی یہی کردار رہا ہے اور اس لئے اسے بربادی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ڈائی لنکے کی شریک چیئرمین سوسان ہینینگ ویلسو نے تبصرہ کیا کہ موجودہ نتائج ماضی کی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔ ہم اس تجزیے سے متفق ہیں۔ ہینیگ ویلسو کا پارٹی کی قیادت میں ہونا ہی پارٹی کی غلطیوں کا اظہار ہے۔ اس کی قیادت میں واضح طور پر ڈائی لنکے کی طبقاتی مفاہمت کی پالیسی میں تیزی آئی ہے۔

ڈائی لنکے کی شکست محنت کش تحریک اور خاص طور پر ٹریڈ یونینز میں تیزی سے اس کی کھوکھلی ہوتی بنیادوں کا نتیجہ ہے۔ پھر پارٹی پروگرام میں واضح طور پر دائیں جانب جھکاؤ کے ساتھ پارٹی مسلسل SPD اور گرین پارٹی کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی رہی ہے۔ اس کا سب سے واضح اظہار صف اول کے دو امیدواروں دیئتمار بارتش اور جانین ویسلر کے ”فوری پروگرام“ میں ہے۔ پروگرام نے ڈائی لنکے کو منفرد کرنے والی ہر خصوصیت اس امید پر مٹا دی کہ وہ ایک ریڈ۔ریڈ۔گرین اتحاد کا حصہ بن جائیں گے (SPD – ڈائی لنکے – Greens)۔ اس انتخابی عمل میں محنت کش طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لئے کسی قسم کے پروگرام کی عدم موجودگی ڈائی لنکے کی شرمناک شکست کی صمانت بن گئی۔

اب سوال یہ ہے کہ عام ممبران میں اس انتخابی شکست کے حوالے سے کیا بحث مباحثہ ہوا ہوگا؟ ان انتخابات میں تباہی کے بعد ڈائی لنکے کا اندرونی بحران پھٹنے کی طرف جائے گا اور فی الحال پارٹی میں کوئی ایسا دھڑا موجود نہیں جو ایک حقیقی سوشلسٹ پروگرام کے لئے جدوجہد کر سکے۔ پارٹی کی حمایت زیادہ تر غیر فعال ہے اور اس کے پاس کوئی تناظر موجود نہیں۔ اس وقت پارٹی قیادت اور ڈھانچوں میں ہر رنگ نسل کے اصلاح پسند رجحانات موجود ہیں اور ان تمام پر ان انتخابی نتائج اور پارٹی کی عمومی سمت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بائیں بازو کی ایک ایسی پارٹی جو اپنے آپ کو سنجیدہ ریڈیکل متبادل کے طور پر پیش نہیں کرتی اور اپنے پروگرام کو بڑی سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کے ساتھ متوازی رکھتی ہے، سطحی اور ناقابل قبول ہے۔

اس وقت ایک سوشلسٹ پروگرام یعنی محنت کش طبقے اور اس کی جدوجہد کی جانب رجحان اور کام کی جگہوں، ٹریڈ یونینز اور گلی محلوں میں حقیقی انقلابی ڈھانچے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ مختصر یہ کہ ایک ایسی پارٹی کی ضرورت ہے جو حقیقی طور پر سماجی بہتری، کٹوتیوں کی پالیسیوں کے خلاف، اور سرمائے اور حکومت کے حملوں کے خلاف کھڑی ہو۔ یعنی ایک ایسی پارٹی جو حقیقی طور پر ایک متبادل کے لئے کھڑی ہو، اسے متبادل کے طور پر دیکھا جائے اور جو اپنے پروگرام پر محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد کو جیتنے میں کامیاب ہو جائے۔

مستقبل طبقاتی جدوجہد کا ہے

ایک انتہائی اہم جدوجہد جسے عمومی سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے وہ کامیاب ”ڈیوشے وہنین اور کو اینتیج نین“ ریفرنڈم ہے جس میں رہائشیوں نے ووٹ کیا تھا کہ برلن میں نجی ریئل اسٹیٹ کمپنیوں کی پراپرٹی ضبط کر لی جائے۔ عام افراد نے اس تحریک کو دو سال کے عرصے میں تعمیر کیا اور 56 فیصد ووٹ حمایت، جبکہ 38 فیصد ووٹ مخالفت میں آئے۔ یہ ریفرنڈم برلن میں موجود عوامی موڈ کا حیران کن اظہار ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ عمومی سماجی موڈ کا بھی اظہار ہے۔ ایک اکثریت نجی ملکیت پر محنت کش طبقاتی پوزیشن کے لئے تیار ہے اور پراپرٹی مالکان کی نجی ملکیت ضبط کرنے کی حامی ہے۔

کرونا وباء اور ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج کا انقلابی حل محنت کش طبقے کے پاس ہے۔ 40 فیصد سے زیادہ عوام بنیادی تبدیلیوں کی خواہش مند ہے۔ انہیں ماحولیاتی تبدیلی اور اپنے معیار زندگی کے حوالے سے خوف لاحق ہے۔ اکثریت کی رائے میں جرمنی میں دولت کی تقسیم غیرمنصفانہ ہے۔ اس موڈ کی بنیاد پر ایک حقیقی محنت کش متبادل تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ پروگرام ہی محنت کشوں اور نوجوانوں کو درپیش مسائل کو حل کر سکتا ہے۔

آنے والی حکومت بحران کی حکومت ہے۔ اس کا فریضہ عوام کی اکثریت کو ایک بحرانی پروگرام پر آمادہ اور متفق کرنا ہے جو محنت کش طبقے کے مفادات کے خلاف ہے۔ سیاسی پارٹیاں پہلے ہی عوام کو متنفر کر چکی ہیں یا پھر بداعتمادی کا شکار ہیں۔ لازمی طور پر یہ عمل آگے بڑھتے ہوئے عوامی احتجاجوں کو جنم دے گا جو حکومت، بورژوا پارٹیوں اور پورے سیاسی نظام کو چیلنج کریں گے۔

اس لئے اب ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے جس میں طبقاتی جدوجہد میں شدت آئے گی اور عوام کی اکثریت سرمایہ دارانہ نظام مخالف نتائج اخذ کرے گی۔ ہم ان تمام افراد کو دعوت دیتے ہیں جو طبقاتی جدوجہد کی متبادل ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل کر عالمی مارکسی رجحان کو تعمیر کریں۔ ہم محنت کش اور نوجوان تحریک میں ایک مضبوط مارکسی انقلابی رجحان تعمیر کر رہے ہیں تاکہ اس غلیظ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔

Comments are closed.