گلگت بلتستان: ماحولیاتی بحران کے نتیجے میں تباہ کن سیلاب اور حکومت کی مکمل ناکامی

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی: گلگت بلتستان|

گزشتہ چند دہائیوں میں موسمیاتی تبدیلی ایک نہایت سنگین عالمی مسئلے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس کے اثرات صرف درجہ حرارت میں اضافے تک محدود نہیں بلکہ برفانی تودوں کے پگھلنے، غیر متوقع بارشوں اور شدید قدرتی آفات کی شکل میں پوری دنیا میں ظاہر ہو رہے ہیں۔

اسی بحران کے نتیجے میں اس سال گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہ کاریاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ گلیشیئرز کے پگھلنے کے باعث ہنزہ، غذر، سکردو اور گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع میں سیلابی ریلے آئے جن سے درجنوں بستیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق 650 سے زائد مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں جبکہ 22 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں مقامی لوگ متاثر ہوئے ہیں اور بے شمار خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

درجنوں انسانی جانیں نہ صرف سیلابی ریلوں کی زد میں آ چکی ہیں بلکہ انفراسٹرکچر بھی بڑے پیمانے پر تباہ ہوچکا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں حکومت کی طرف سے اب تک کوئی خاطر خواہ اور مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے ہیں، جبکہ مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کی امداد میں مصروف ہیں۔

گلگت بلتستان جہاں ایک طرف قدرتی آفات کی زد میں ہے، تو وہیں دوسری طرف وکلاء اور تاجروں کی طرف سے دیے گئے احتجاجی دھرنے بھی شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں، جبکہ حکمران طبقہ اور بیوروکریسی اپنی عیاشیوں میں مصروف ہے۔ سال 2025ء کے بجٹ میں 80 ارب سے بڑھا کر 83 ارب روپے صرف افسر شاہی اور حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ سینکڑوں متاثرہ افراد بے یار و مددگار کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔

گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں بار بار آنے والے سیلاب اور ان سے ہونے والی تباہ کاریاں معمول بنتی جا رہی ہیں، جبکہ ریاست کی طرف سے اس مسئلے پر مسلسل بالکل غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ یہ حقیقت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ سرمایہ دار ریاستوں کے پاس نہ تو اس مسئلے کا کوئی حل ہے اور نہ ہی ان کا مقصد انسان یا فطرت کی فلاح ہے بلکہ ان کا اصل مقصد صرف سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ ہے۔

اگر حکومت عوام کی بہتری کے لیے اقدامات کرتی تو ان قدرتی آفات سے لوگوں کو بچایا جا سکتا تھا اور جانی و مالی نقصان کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ عالمی سطح پر ہونے والی گلوبل وارمنگ کے بعد ایسی آفات کی پیش گوئی پہلے سے موجود ہے اور ہر سال بارشوں کے موسم میں ایسی ہی صورتحال بن رہی ہے۔ ایسے میں حکومتی ادارے عوام کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کی بجائے عوام پر بد ترین جبر روا رکھے ہوئے ہیں۔ جب عوام اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اور بہتر سہولیات کا مطالبہ کرتے ہیں تو پہلے ان پر بدترین لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینکی جاتی ہے پھر ان پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر قید و بند کی اذیتیں دی جاتی ہیں۔

دوسری جانب حکمران طبقے کے افراد کے لیے اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن عوام کو ریسکیو کرنے یا ان کی جانی و مالی امداد کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ آج بھی گلگت بلتستان میں ریسکیو کا نظام انتہائی بوسیدہ ہے جس کی وجہ سے کسی بھی نئی قدرتی آفت کی صورت میں لازمی طور پر جانی و مالی نقصان کا اندیشہ موجود ہے۔ اسی طرح جن لوگوں کے گھر اور ذریعہ معاش تباہ ہوا ہے ان کی دوبارہ محفوظ بنیادوں پر تعمیر کے لیے حکومت کوئی اقدامات نہیں کر رہی اور نہ ہی انہیں روزگار کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی جا رہی ہے جس سے وہ اس نقصان کاکسی طور بھی ازالہ کر سکیں۔

آنے والے عرصے میں گلوبل وارمنگ کے باعث ایسی آفات زیادہ شدت اور باقاعدگی سے آئیں گی اور زیادہ بڑی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لیں گی لیکن حکمران طبقہ نہ تو ان کی تیاری کر رہا ہے اور نہ ہی متاثرہ افراد کو ریسکیو کرنے اور وسیع آبادی کو محفوظ بنانے کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ ہے۔ بلکہ حکمران طبقے کی پالیسیاں جہاں سرمایہ داروں کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دے رہی ہیں وہاں ماحول اور وسائل کی لوٹ مار سے ان قدرتی آفات سے زیادہ بڑی تباہی کے رستے ہموار کیے جا رہے ہیں۔ ان سرمایہ داروں اور سامراجی طاقتوں کے نئے منصوبوں کے ماحولیات پر اثرات کا کوئی جائزہ نہیں لیا جاتا اور نہ ہی انہیں کسی بھی کسی قسم کے ضابطے کا پابند کیا جاتا ہے۔ ایسے میں عوام کو دوہرا اور تہرا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، جس میں ایک طرف ان کا ذریعہ معاش تباہ ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب قدرتی آفات ان کو مزید تباہی اور بربادی میں دھکیلتی ہیں۔ اس سب سے نپٹنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنی ہو گی اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے منصوبہ بند معیشت قائم کرنا ہو گی جو قدرتی وسائل کی لوٹ مار کا بھی خاتمہ کرے اور ان قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو محفوظ انفرااسٹرکچر اور ریسکیو نظام فراہم کرے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی کا تعلق بھی براہِ راست سرمایہ دارانہ نظام سے ہے، جس میں پیداوار انسان کی ضرورت کے بجائے محض منافعوں کے حصول کے لیے کی جاتی ہے۔ منڈی میں اشیا کی بھرمار کے باوجود منافع بڑھانے کے لیے مسلسل بڑے پیمانے پر پیداوار کی جاتی ہے جبکہ عوام کی قوت خرید میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ منافعوں کی یہی ہوس جہاں فطرت اور انسان کے استحصال کا سبب بنتی ہے، وہیں فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسز ماحولیاتی تبدیلی کو جنم دیتی ہیں۔ ماحولیاتی بحران کا حقیقی حل صرف ایک منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کے ذریعے ہی ممکن ہے، جہاں پیداوار کا مقصد منافع نہیں بلکہ انسان کی فلاح ہو اور ہمارے عہد میں یہ مقصد پورے خطے او ر پھر دنیا بھر میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.