|تحریر: احسان علی ایڈووکیٹ|
(یہ تحریر احسان علی ایڈووکیٹ نے کچھ ماہ قبل لکھی تھی۔ اس تحریر میں انہوں نے گلگت بلتستان اسمبلی میں پیش کیے جانے والے مجوزہ لینڈ ریفارمز بل کی شدید مذمت کی تھی اور اس کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے اس کے خلاف عوامی جدوجہد منظم کرنے کا پیغام دیا تھا۔ آج وہ بل اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کر دیا گیا ہے جبکہ اس دوران احسان علی ایڈووکیٹ کو ان کے ساتھیوں سمیت اس کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں جیل میں قید کر دیا گیا ہے تاکہ وہ اس سامراجی قبضے کے خلاف تحریک منظم نہ کر سکیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے منظم ہونے والی اس جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور 25، 24 مئی کو ہونے والے قومی جرگے کو بھی منعقد ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ اس دوران احسان علی اور ان کے ساتھیوں پر بد ترین جبر بھی کیا جا رہا ہے۔ لیکن انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے گلگت بلتستان اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں کارکنان ان کی آواز پوری دنیا میں پہنچا رہے ہیں اور گلگت بلتستان کی اس سامراجی لوٹ مار کے خاتمے تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ احسان علی کی اس تحریر کے مطابق ان تمام بیماریوں کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام ہے اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی مقصد کے لیے ہم اس جدوجہد کو منظم کر رہے ہیں اور ہر ریاستی جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ سچے جذبوں کی قسم، جیت محنت کش طبقے کی ہی ہو گی!!! اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔)
گلگت بلتستان میں ملکیتی حقوق کی تاریخ اور پاکستان کی مفلوج سرمایہ داری
گلگت بلتستان میں غیر آباد اراضیات، نالہ جات، چراگاہوں اور پہاڑوں کے ملکیتی حقوق کے بابت اِس خطے کو پاکستان کے انتظامی کنٹرول میں دیے جانے کے بعد مسائل اور مشکلات پیدا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ ریاستِ پاکستان نے گلگت بلتستان کے علاقوں اور شاہی ریاستوں میں غیر آباد اراضیات، نالہ جات، چراگاہوں اور پہاڑوں کی تقسیم اور ملکیت سے متعلق رِواج و دستور کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ انہیں مقامی رواج و دستور کو تقویت دینے والے مہاراجہ جموں و کشمیر ہری سنگھ کے اسٹیٹ سبجیکٹ رولز 1927ء، جنہیں عُرف عام میں ایس ایس آر کہا جاتا ہے، کو بھی کبھی قبول نہیں کیا۔ اس خطے میں سرمایہ داری کی آمد سے قبل رائج زمین کی مشترک خاندانی، دیہی، براداری اور قبیلے کی مشترکہ ملکیت کو سرمایہ دارانہ ملکیت میں تبدیل کرنے کے لیے اس خطے میں سرمایہ دارانہ نظام کو رائج کرنا ضروری تھا۔ لیکن پاکستان کی مفلوج سرمایہ داری ان ملکیتی رشتوں کو ترقی پسندانہ طرز پر تبدیل کرنے سے قاصر رہی ہے۔ دو تہائی صدی کے دوران پاکستانی ریاست کی لوٹ مار کے پیش نظر ان ملکیتی رشتوں کو جزوی طور پر تبدیل کیا گیا، لیکن اس خطے کے بیشتر علاقوں میں قدیم ملکیتی رشتے آج بھی کافی حد تک موجود ہیں۔ زمین کی قدیم ملکیت میں شہری علاقوں میں بڑی حد تک تبدیلی لائی گئی، جس کا کردار یکطرفہ طور پر جابرانہ استحصال پر مبنی رہا، یعنی ریاست نے محض اپنی لوٹ مار کے پیش نظر مختلف زمینوں پر قبضہ کرتے ہوئے مقامی لوگوں کو ان زمینوں سے استفادہ کرنے کے صدیوں سے جاری حق سے تو محروم کر دیا، لیکن دوسری جانب اس خطے کو ایسی کوئی بھی صنعتی ترقی نہیں دی گئی جو ان محروم عوام کو متبادل روزگار اور ترقی کے ذرائع فراہم کر سکتی۔
ضیاالباطل کی آمریت اور ناتوڑ رولز
(ایس ایس آر) اور قدیم مقامی رواج و دستور کو مکمل طور پہ غیر مؤثر کر کے عوامی اراضیات کو ریاست اور سرمایہ داروں کے تصرف میں لانے کے لیے جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء حکومت نے اپنی جابرانہ پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح متنازع گلگت بلتستان میں بھی مارشل لاء مُسلط کر کے جی بی کے وسائل و دولت پہ براہِ راست قبضے کے لیے وزارتِ امورِ کشمیر و گلگت بلتستان کے ایک بیوروکریٹ کے دستخط سے ایک انتظامی حکم نامہ ’ناردرن ایریاز ناتوڑ رولز 1978ء‘ کے نام سے زبردستی ٹھونس دیا۔
اِس آمرانہ انتظامی حُکم نامے کی اُس وقت کے ناردرن ایریاز کونسل سے منظوری تک نہیں لی گئی، یہاں تک کہ گلگت بلتستان کے اندرونی معاملات چلانے سے متعلق یو این سی آئی پی کی 13 اگست 1948ء کی قرارداد اور یو این سکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 88 اور 122 میں حکومت پاکستان کو اِس کے زیرِ انتظام کشمیر و گلگت بلتستان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور صرف دفاع کی ذمہ داری لیتے ہوئے ناتوڑ رولز کو راتوں رات انتہائی عُجلت میں جی بی عوام پہ مسط کیا گیا۔ کالونیل انتظامیہ نے اسی غیر قانونی حُکم نامے کا سہارا لیتے ہوئے جی بی میں مقامی آبادی کے تناسب (demographic change) کو تبدیل کرنے کے لیے مختلف سرکاری و عسکری اداروں اور منظورِ نظر افراد میں ہزاروں کنال مشترکہ عوامی اراضیات کی بندر بانٹ کی، خاص طور پر گلگت اور سکردو کے شہری علاقوں میں بڑے پیمانے پر مقامی باشندگان کو جبری طور پہ ان کے ہزاروں کنال اراضی کی ملکیت سے محروم کر کے مختلف محکموں اور غیر مقامی افراد کو الاٹ کیا گیا۔
اِن نام نہاد ناتوڑ رولز کی آڑ میں جب گلگت، استور اور بلتستان کے بندوبستی علاقوں کی ساری غیر آباد اراضی، نالہ جات اور چراگاہوں کو سرکاری ملکیت قرار دیا گیا تو وہاں کے محنت کش عوام نے اس جبراً استعماری اقدام کے خلاف کئی بار احتجاج کیا مگر طاقت کے ذریعے عوامی آواز کو دبایا گیا اور سرکار کے وفادار بعض مقامی بااثر افراد کو عوامی اراضیات میں سے کچھ اراضی ان کے نام منتقل کر کے مقامی باشندوں کو آپس میں تقسیم کیا گیا۔ سال 1986ء میں غیر مستحق افراد اور محکموں کے نام عوام کی مشترکہ اراضیات کی بڑے پیمانے پہ الاٹمنٹ کے خلاف مقامی باشندوں کے بار بار احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں وزارتِ امورِ کشمیر کی جانب سے اراضیات کی مزید الاٹمنٹ پہ پابندی عائد کی گئی، مگر اِس پابندی کے باوجود جی بی میں ابھی تک حکومت نے مختلف سرکاری اداروں کے نام پہ الاٹمنٹ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ نیز لینڈ مافیاز نے بھی محکمہ ریونیو کے عملے کے ساتھ ساز باز کے ذریعے 1986ء سے پہلے کی تاریخوں میں اراضیات کی جعلی الاٹمنٹ کروا کر باقی ماندہ اراضیات سے بھی مقامی باشندوں کو محروم کر دیا ہے۔
نون لیگ‘ تحریک انصاف اور موجودہ لینڈ ریفارمز بل
ن لیگ کی گزشتہ حکومت نے اراضیات کی تقسیم اور غیر بندوبستی اضلاع میں اراضیات کو ریونیو ریکارڈ میں لانے کے لیے لینڈ ریفامز کا ایک مسودہ تیار کیا تھا، اس میں کم از کم 20 فیصد غیر آباد اراضیات حکومت کی ملکیت قرار دینے کی تجویز تھی مگر تمام اضلاع کے عوام نے اس مسودے کو یکسر مسترد کیا۔ اب موجودہ پی ٹی آئی حکومت کسی نام نہاد این جی او گروپ کے ذریعے تیار کردہ جی بی لینڈ ریفامز ڈرافٹ بل پہ عوام سے تجاویز مانگ رہی ہے۔ مگر سخت حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنے آپ کو عوام کی منتخب جمہوری حکومت کہنے والے منتخب وزیرِ اعلیٰ اور اس کی کابینہ نے مختلف اضلاع کے عوام سے رائے لینے کے لیے براہِ راست مزدوروں، کسانوں، نوجوانوں، طالب علموں، سیاسی و سماجی تنظیموں اور مقامی بزرگوں سے اسمبلی کے منتخب ممبران کے ذریعے رائے لینے اور عوام اُلناس کی آراء کے مطابق لینڈ ریفارمز کا ایک ”عوام دوست قانون“ تیار کر کے تمام غیر آباد اراضیات، نالہ جات، چراگاہوں اور پہاڑوں پہ مقامی عوام کی قدیم زمانے سے جاری اجتماعی ملکیت کے حق کو تسلیم کر کے ناتوڑ رولز کے تحت اب تک الاٹ کی گئی تمام اراضیات کی الاٹمنٹ منسوخ کر کے اسے مقامی باشندوں میں تقسیم کرنے کے بجائے عوام کے حقوق پہ بار بار ڈاکہ ڈالنے والی افسر شاہی کے سربراہان کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں، اسسٹنٹ کمشنروں اور تحصیل داروں کو کھلی چھوٹ دی ہے کہ وہ مقامی لوگوں سے اس بل پہ آراء طلب کریں اور حتمی رپورٹ کمشنروں کو دے دیں اور حتمی فیصلہ کمشنر صاحبان اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ہی کریں گے کہ اِس مجوزہ لینڈ ریفامز بل میں عوام کی کن تجاویز کو شامل کیا جائے اور کن تجاویز کو شامل نہ کیا جائے۔ عوام سے رائے لینے کے لیے اختیار کردہ اس سارے کھیل تماشے کا مقصد محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے اور یہ تاثر دینا ہے کہ حکومت نے یہ قانون عوام کی آراء کو شامل کر کے اسمبلی سے پاس کیا ہے۔
لینڈ ریفامز کے نام پہ تیار کردہ اس عوام دشمن قانونی مسودے کو اسمبلی کے ارکان خود عوام کے سامنے لانے کی جرأت اس لیے نہ کر سکے کیونکہ اس قانون کے ذریعے ایک طرف اِس خطے کی لاکھوں کنال عوامی اراضیات کو مال غنیمت کی طرح سویلین و عسکری محکموں اور طاقتور افراد میں بندر بانٹ کرنے کے جبراً اقدام کو قانونی تحفظ فراہم کروانا ہے۔ نیز محکمہ ریونیو نے یہاں کی تمام غیر آباد اراضیات کو ریکارڈ مال میں خالصتاً سرکاری قرار دیا ہے۔ اِن جعل سازیوں کو اس نئے قانون کے مسودہ میں ایسی تمام اراضیات جو ریکارڈ مال میں گورنمنٹ کے نام پہ ظاہر کی گئی ہیں، وہ ساری اراضی گورنمنٹ کی اراضی قرار دی گئی ہے۔ اس مجوزہ بل کی دفعہ 2 کی ذیلی دفعہ 4 میں گورنمنٹ لینڈ کی تعریف کے مطابق پہلے سے سرکار کے نام ظاہر کردہ ساری اراضیات گورنمنٹ لینڈ تصور ہوں گی۔ قبل ازِیں گلگت بلتستان وائلڈ لائف ایکٹ 2014ء، اِنوارمنٹ پروٹیکشن ایکٹ اور فارسٹ ایکٹ 2019ء کے تحت تمام قدرتی جنگل، دریا، جھیل، نالہ جات، چشمے، گلیشیئرز، مشترکہ تالاب، گزر گاہیں، پانی کے چینلز اور نالہ جات تک جانے والے راستوں کو ناقابل تقسیم قرار دے کر انہیں سرکاری قبضے میں دیا گیا ہے۔ لاکھوں کنال عوامی اراضیات کو کنزرویشن کا نام دے کر انہیں نیشنل پارکس قرار دے کر قبضہ کیا گیا ہے، جہاں پر حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں کے لیے محفوظ شکار گاہیں قائم کی ہیں۔ اس قبضہ گیری کے بعد جو تھوڑی بہت اراضی رہ جائے گی اس کی تقسیم کا کُلی اختیار جی بی لینڈ ایپورشنمنٹ بورڈ اور ڈسٹرکٹ لینڈ ایپورشنمنٹ بورڈ کو دیا گیا ہے جو کلی طور پہ غیر منتخب افسر شاہی پہ مشتمل ہو گی۔ جی بی عوام کو قبل ازیں بندوبست اراضیات کے نام پہ اسی افسرشاہی نے عوامی اراضیات میں جعل سازی، فراڈ اور ہیرا پھیری کے ذریعے غریب کسانوں کو ان کی ملکیتی اراضیات سے محروم کر دیا ہے۔ آج بھی ہزاروں مقامی باشندے مقدمات میں عدالتوں میں اپنی زمین کی واپسی کے لیے دھکے کھا رہے ہیں۔ اس لیے یہاں کے عوام کو مشترکہ اراضیات کی ان نام نہاد ناتوڑ رولز کی آڑ میں ریاستی اداروں اور منظور نظر افراد میں بندر بانٹ اور باقی ماندہ اراضیات کی اس بدعنوان اور نااہل افسر شاہی کے ذریعے تقسیم کسی صورت قابل قبول نہیں۔
جی بی کے عوام کو پہلے ہی اسٹیٹ سبجیکٹ رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور ناتوڑ رولز 1978ء کے ذریعے ان کی ملکیتی اراضیات سے محروم کر دیا گیا ہے اور اب جی بی حکومت باقی ماندہ عوامی مشترکہ اراضیات کو اس نئے قانون لینڈ ریفارمز ایکٹ کے ذریعے سرکاری مقاصد اور سیاحتی صنعت کو فروغ دینے کے نام پہ ہڑپ کرنا چاہتی ہے۔ نیز افسر شاہی اور لینڈ مافیا نے اب تک ہزاروں کنال کی انتہائی مہنگی عوامی اراضیات گلگت اور سکردو کے شہری علاقوں میں محکمہ مال کے کرپٹ عملہ کی مدد سے ہیرا پھیری اور ریکارڈ مال میں جعل سازی کے ذریعے اپنے نام منتقل کر کے مقامی حقدار باشندوں کو محروم کر رکھا ہے۔ اس تلخ تجربے کو یہاں کے عوام ابھی تک نہیں بھولے ہیں اس لیے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ افسر شاہی اور محکمہ لینڈ ریونیو کے کرپٹ افسران باقی ماندہ اراضیات کی تقسیم میں پہلے کی طرح ہیرا پھیری اور جعل سازی کے ذریعے لینڈ مافیا کی مدد سے کمرشل اور سیاحت کے لیے مطلوبہ اراضیات کو سرکاری ملکیت یا لینڈ مافیا کے نام پہ درج کریں گے۔
پاکستان کی سرمایہ دارانہ ریاست، پاکستان کی طرف سے سال 1978ء میں زبردستی مسلط کردہ بدنام زمانہ ناتوڑ رولز سے لے کر فارسٹ ایکٹ، وائلڈ لائف ایکٹ، انوائرمنٹ پروٹیکشن ایکٹ، مائننگ رولز 2003ء اور 2016ء، فارسٹ ایکٹ 2014ء، ریونیو اتھارٹی ایکٹ 2022ء، فنانس ایکٹ 2022ء اور اب لینڈ ریفامز بل 2023ء، ان سب زبردستی مسلط کیے جانے والی قوانین کے پیچھے بنیادی مقصد عوام کو ان کی مشترکہ اراضیات اور وسائل دولت سے محروم کر کے ان اراضیات کو نیشنل، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملکی و علاقائی سرمایہ داروں کو اونے پونے داموں فروخت کرنا ہے تاکہ سیاحت کے تیزی سے پھیلتے ہوئے کاروبار پہ ان بڑے سرمایہ داروں کا قبضہ کرایا جا سکے۔ نیز پہاڑوں، نالہ جات اور چراگاہوں کو سرکاری ملکیت قرار دینے کے پیچھے اس خطے میں موجود ان گنت معدنیات کے ذخائر کا قبضہ بھی مائننگ رولز 2016ء کی آڑ میں بڑی نیشنل و ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالہ کیا جا رہا ہے اور جی بی کے مختلف اضلاع میں معدنیات کے لیزز کی بندر بانٹ کا عمل تیز ہو چکا ہے۔ اس میں بعض مقامی چھوٹے سرمایہ دار اور درمیانے طبقے کے افراد چور دروازے سے مقامی باشندوں کو اعتماد میں لیے بغیر حاصل کیے گئے معدنیات کے لیزز کمیشن لے کر انہیں بڑی سرمایہ دار کمپنیوں کے حوالے کر رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کے اس بدترین استحصال کے خلاف کئی جگہوں پہ عوامی مزاحمت کی ابتدائی شکلیں سامنے آ رہی ہیں۔ مگر حکومت ہر معاملے میں عوام کی مشترکہ ملکیتی اراضیات میں پائے جانے والے معدنیات کی سرمایہ داروں کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف ابھرنے والی مزاحمتوں کو طاقت کے ذریعے دبا کر سرمایہ دار کمپنیوں کے مفادات کو مکمل تحفظ دے رہی ہے۔ جی بی حکومت کے ان عوام دشمن اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکومت اور جی بی اسمبلی اور اس کے منتخب ارکان یہاں کے غریب عوام کے حقیقی نمائندے نہیں بلکہ اسلام آباد کی سرمایہ دار ریاست اور سرمایہ دار کمپنیوں کے مفادات کی چوکیداری کرتے ہیں، ایسے میں یہاں کے عوام اب سمجھنے لگے ہیں کہ اسلام آباد کی سرمایہ دار ریاست ہو یا جی بی کی حکومت اور اسمبلی ہو ان کے مقاصد و مفادات ایک ہیں، کہ یہاں کے قیمتی اراضیات اور معدنیات کو اونے پونے داموں ملکی و ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے کر کے کمیشن حاصل کیا جائے۔
لینڈ ریفارمز کے خلاف منظم عوامی تحریک
یہ بہت ہی خوش آئند اور حوصلہ افزا بات ہے کہ گلگت بلتستان کی تمام مقامی سیاسی و سماجی تنظیموں، طلبہ و نوجوانوں کی تنظیموں اور مختلف اضلاع کے مقامی نمائندوں نے لینڈ ریفارمز سے متعلق اس حکومتی ڈرافٹ بل کو مقامی عوام کے اجتماعی حقوق کے منافی قرار دے کر یکسر مسترد کر دیا ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان عوامی حقوق پہ شب خون مارنے والے اس جی بی لینڈ ریفارمز بل کو محض مسترد کرنا ہی کافی ہو گا؟ کیا جی بی حکومت عوامی جذبات اور احساسات کا احترام کرتے ہوئے اس انتہائی متنازع بل کو واپس لے کر عوام دوست قانون بنائے گی؟
جی بی حکومت اور اس کے ممبرانِ اسمبلی کا اب تک کا کردار یہ رہا ہے کہ یہ سرمایہ دار ریاست کی عوام دشمن پالیسیوں کے آگے ہمیشہ سر تسلیم خم کرتی رہی ہے۔ اس لیے زیادہ امکان یہی ہے کہ اس انتہائی متنازع بل کو اسمبلی سے زبردستی پاس کر کے اسے قانونی شکل دی جائے گی۔ اس سلسلے میں مختلف علاقوں کے جعلی و فرضی نمائندوں اور بعض علاقوں کے نمبرداروں کے نام پہ فرضی قراردادیں انتظامیہ ہر ضلع میں جمع کروا رہی ہے، اس سے یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اسلام آباد کے حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے مفادات کے مطابق کام کرنے والی یہ حکومت یہاں کی عوامی اراضیات اور معدنی ذخائر کو مقامی باشندوں سے چھین کر بڑی سرمایہ دار کمپنیوں اور مقامی مراعات یافتہ لوگوں کے حوالے کرے گی۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس متنازعہ لینڈ ریفارمز بل اور یہاں کے عوامی حقوق پہ شب خون مارنے والے دیگر تمام قوانین کا خاتمہ کر کے اور مقامی باشندوں کے اجتماعی مفاد کے مطابق قوانین بنانے کے لیے ایک زبردست عوام تحریک تعمیر کی جائے۔ اس مقصد کے لیے تمام مقامی سیاسی و سماجی تنظیموں، مزدوروں، غریب کسانوں اور طلبہ و نوجوانوں کی تنظیموں کو ایک پلیٹ پہ متحد کر کے جی بی کے ہر ضلعے، ہر سب ڈویژن، ہر تحصیل اور ہر گاؤں میں گراس روٹ لیول پہ عوامی مزاحمتی کمیٹیاں تشکیل دے کر ایک منظم عوامی مزاحمتی تحریک کی تعمیر کی جائے اور عوامی تحریک کی طاقت کے ذریعے حکومت کو اس عوام دشمن لینڈ ریفارمز بل اور یہاں کے قدرتی وسائل و معدنی دولت کو یہاں کے عوام کی اجتماعی ترقی کے لیے استعمال میں لانے کے بنیادی حق سے محروم کرنے والے قوانین کو واپس لینے اور مقامی عوام کی مرضی و منشاء کے مطابق قوانین بنانے کے لیے جی بی حکومت اور ریاست پاکستان کو مجبور کیا جائے۔
بظاہر یہ ایک جابرانہ قانونی مسودے کو روکنے کی جد وجہد دکھائی دیتی ہے لیکن محض اس ایک جابرانہ قانون کا مسئلہ نہیں۔ گلگت بلتستان کی اپنی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ ہر کچھ عرصے کے بعد زمینوں اور معدنیات کی لوٹ مار کے لیے پاکستانی ریاست کی جانب سے کوئی نیا جابرانہ قانون یا پالیسی مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جس میں ہمیشہ جی بی کا حکمران گروہ اسلام آباد کے گماشتوں کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس تمام جبر، لوٹ مار اور استحصال کی بنیاد مروجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو عالمی سطح پر زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستا جا رہا ہے، سرمایہ داری کے اس زوال کے باوجود نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے حکمران طبقات اور سرمایہ دار اپنے منافعوں کی ہوس کو جاری رکھنے کے لیے محنت کشوں کے استحصال اور مختلف خطوں کے عوام کے اجتماعی وسائل کی لوٹ مار کو تیز سے تیز کرتے جا رہے ہیں۔
مسائل کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام ہے!
آسمان کو چھوتی مہنگائی کے ذریعے محنت کش عوام سے روٹی کا نوالہ تک چھینا جا رہا ہے۔ فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ نوجوانوں کو تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم کرتا جا رہا ہے۔ علاج انتہائی مہنگا کر دیا گیا ہے کہ غریب معیاری علاج کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے محنت کش عوام اور نوجوان اس بات کا ادراک کریں کہ نہ صرف لینڈ ریفارمز جیسا جابرانہ قانون بلکہ اس کے ساتھ مہنگائی، بیروزگاری اور لاعلاجی سمیت تمام مسائل کی اصل جڑ یہ سرمایہ دارانہ ریاست اور مروجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ ہمیں فوری طور پر اس جابرانہ قانون کو مسلط ہونے سے روکنے کے لیے متحد و منظم ہو کر ایک مزاحمتی تحریک کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اگر ہم اپنی جدوجہد کو صرف اسی قانون کو مسترد کروانے تک محدود رکھیں گے تو ہمیں یہ ابھی سے سمجھ لینا چاہیے کہ اگر اس قانون کو ابھی مسلط نہیں کیا جاتا یا اس مسودے کو عوامی مزاحمت کو دیکھتے ہوئے واپس بھی لے لیا جاتا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہو گا کہ کچھ عرصے بعد دوبارہ کسی نئے قانونی مسودے کی شکل میں گلگت بلتستان کی مشترکہ زمینوں پر قبضے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔
درحقیقت اس جابرانہ قانون سمیت دیگر تمام مسائل کی اصل وجہ یہ زوال پذیر استحصالی نظام اور اس پر قائم یہ ریاست ہے اور جب تک یہ سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست موجود ہے، جی بی سمیت تمام خطوں کے وسائل و دولت کی لوٹ کھسوٹ اور محنت کش عوام کا استحصال جاری رہے گا۔ جی بی کے عوام کی آٹا سبسڈی بحالی تحریک جیسی بے مثال روایات موجود ہیں۔ ہمیں اپنی اسی روایت کو بلند پیمانے پر دوہرانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس قانون کو مسلط ہونے سے روکنے کے لیے اسی طرز پر ایک زبردست مزاحمتی تحریک چلانے کی ضرورت ہے لیکن ساتھ ہی اس شعور کو اجاگر کرنے اور پھیلانے کی ضرورت بھی ہے کہ ہمیں اس زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر منظم ہونے اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس کو اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔ صرف ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی یہ ممکن ہے کہ ہر قسم کی نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے جی بی سمیت تمام خطوں کے محنت کش عوام اپنے وسائل پر مکمل اجتماعی کنٹرول حاصل کرتے ہوئے اپنی اجتماعی ترقی کے لیے ان کو استعمال کر سکیں گے۔