بہاولپور: گلستان ٹیکسٹائل ملز کے محنت کش ایک طویل سکوت کے بعد جدوجہد کیلئے پرعزم

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بہاولپور|

گلستان ٹیکسٹائل مل بہاولپور میں سب سے پرانی مل ہے جس نے کئی سال پہلے تک بارہ سو سے زائد خاندانوں کا روزگار منسلک تھا۔ اس کے علاوہ ملز کے ارد گرد بھی چھوٹے دکاندار اسی مل کے سہارے اپنے خاندانوں کودو وقت کی روٹی کھلانے کے قابل تھے۔ چند سال قبل سے جاری معاشی بحران نے اس مل کو بھی دبوچ لیا اور مل مالکان محنت کشوں کے بیس کروڑ دبا کر بھاگ گئے۔ مل ورکروں نے کئی سال تک ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنوں کے ساتھ مل کر اپنے بقایا جات کے حصول کے لئے لڑائی کو جاری رکھا۔ مل مالکان نے ہر ممکن کوشش کی کہ جس طرح وہ باقی ملیں بند ہو نے کے بعد سکریپ بنا کر بیچ چکے ہیں اس کو بھی چند مزدور قیادت میں غداروں کو خرید کر اس کو سکریپ کی شکل میں بیچ دے۔ مگر باقی ملوں کی نسبت یہاں پر صورت حال مختلف تھی اور یہاں مزدوروں کی طاقت پر یقین رکھنے والی نظریاتی مزدور قیادت سامنا تھا جس کی وجہ سے مل مالکان آج تک اپنے مذموم مقاصد میں کا میاب نہیں ہو سکے۔ حالانکہ حالات اس حد تک خطرناک ہوگئے تھے کہ مزدوروں کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہ رہی۔ مل مالکان نے مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر مزدور قیادت میں پھوٹ ڈلوانے کی بھر پور کوشش کرتے رہے مگر ایک نظریاتی قیادت کو توڑنے میں ناکام رہے۔ اس کے بعدسیاستدانوں کو اس کھیل میں شامل کیا گیا کہ ہم مل چلانا چاہتے ہیں مگر مزدور قیادت راستے میں رکاوٹ ہے۔ کئی بار مذاکرات ہوئے، مل مالکان چاہتے تھے پہلے ملز کوڈی سیل کیاجائے بعد میں معاملات آگے چلائینگے۔ اس دوران انہوں نے نامور ورکروں کو قائل کرلیا کہ ہم مل چلانا چاہتے ہیں مگر یہ مزدور لیڈر رکاوٹ ہیں۔ مل مالکان نے مزدور قیادت کو چند کروڑ کی آفر کی کہ آپ یہ رقم لے لیں اور مل کو ڈی سیل کرواکر سائیڈ پر ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ قیادت کی مرضی ہو گی کہ وہ رقم باقی مزدوروں دیں یا خود رکھیں جس سے مزدورقیات میں پھوٹ پیداہوئی جس سے وقتی طور پر تحریک نقصان اٹھانہ پڑا جس سے ایک طویل وقت تک ٹھہراؤ آگیا۔

ان حالات کے باجود سوشلسٹ نظریات کی حامل مزدور قیادت اپنے مؤقف پر قائم رہی کہ رقم ملے گی تو تمام ورکرز کو اور وہ بھی پوری۔ قیادت یہ بھی سو چ رہی تھی کہ ایسے وقت میں جب پورے ملک میں ٹیکسٹائل سیکٹر بحران کا شکار ہے یہ مل کیسے چلاسکتے ہیں۔ دراصل یہ بس مل بیچ کر رفو چکر ہونے کا بہانہ تھا۔ اسی دوران مل مالکان نے چند غدار مزدوروں سے ملی بھگت کرکے اندر سے انتہائی قیمتی پارٹس چوری کرالئے جن کی مالیت کروڑوں میں ہے۔ مزدوروں نے انصاف کی ناامیدی کے باوجود عدالتی جنگ کو بھی جاری رکھا۔ ایک سال قبل لیبر کورٹ نے ساڑھے تین کروڑ مالیت کی ڈگری مزدوروں کے حق میں جاری کی جس پر عمل درآمد کیلئے مزدورقیادت نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہو ئی تھی جس پر ہائی کورٹ بہاولپور بنچ نے 22 نومبر فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے میں عدالت نے ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا کہ 22 دسمبر تک ساڑھے تین کروڑ روپوں کی ادائیگیاں مزدوروں کو کرائی جائیں جس پر انتظامیہ حسب روایت سرمایہ داروں کی دلالی کا کردار اداکرتے ہو ئے خاموش رہی۔ 22نومبر کے عدالتی کے فیصلے کے بعد سے اب تک حالات نے مزدوروں کو سبق سکھادیا کہ صرف عدالتی حکم کافی نہیں اس کیلئے ایک جدوجہد کی ضرورت ہے جس کی بنا پر ورکر کل سے ایک بار پھر احتجاجی تحریک شروع کردی ہے۔ اس سلسلے میں گذشتہ روز احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں مل ورکرز نے جوش و خروش کے ساتھ شرکت کی۔ مظاہرے میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان بھی موجود تھے۔ مظاہرین نے مل مالکان اور ضلعی انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

آج ورکروں کو اس چیز کا شدت سے ہوا کہ دراصل جنگ اب شروع ہوئی ہے اور انہیں یہ بھی سبق حاصل ہوا کہ حق مانگا نہیں چھینا جاتا ہے۔ مقامی انتظامیہ نے ایک ہفتہ کی مزید مہلت مانگی ہے۔ ورکروں نے بھی اگلے لائحہ عمل کیلئے یکم جنوری کو گلستان مل میں جمع ہو نے کی کال دے دی ہے۔ کل کے احتجاج میں ایک منفرد چیز تھی وہ تھا ورکروں کاپہلے سے بھی زیادہ جدوجہد کا جذبہ۔ شدید معاشی جبر کے مارے ورکروں میں جہاں ان کے چہروں پر بھوک، افلاس تنگدستی اور پریشانیاں واضع جھلک رہی تھیں مگر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا جذبہ دیدنی تھا۔ ورکروں کا اپنے لال جھنڈے سے پیار بھی آج واضح جھلک رہا تھا جب وہ ٹوٹی پھوٹی معلومات سے اپنے ورکر ساتھیوں کو لال جھنڈے کی تاریخ اور ہتھوڑا درانتی کے نشان کا مقصد بتارہے تھے۔

Comments are closed.