مزدور کیسے سرمایہ داروں کے لیے منافع پیدا کرتے ہیں؟

|تحریر: فضیل اصغر|

سرمایہ دارانہ نظام میں مزدور طبقہ اجرتی غلام کے طور پر زندگی گزارتا ہے۔ دن میں کئی گھنٹے محنت کرنے کے باوجود وہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے آسودہ زندگی نہیں گزار پاتا جبکہ دوسری جانب سرمایہ دار کوئی بھی محنت کیے بغیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ مزدور طبقے کی اس تمام تر حالت صرف ایک ملک یا خطے میں نہیں بلکہ جہاں بھی سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے وہاں یہ طبقاتی تفریق نہ صرف موجود ہے بلکہ اس کی خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے۔ جدید ترین مشینری اور کمپیوٹر آنے کے باوجود مزدور طبقے کے کام کے اوقا ت کار کم نہیں ہورہے بلکہ اس کی زندگی تلخ سے تلخ ہوتی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب سرمایہ دار طبقہ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ وسائل پر قابض ہو چکا ہے۔ اس صورتحال سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مزدور اس نظام کی بنیادوں کو سمجھیں جنہیں کارل مارکس نے اپنی تحریروں میں ڈیڑھ سو سال قبل واضح کیا تھا۔

شے (Commodity)

سرمایہ دارانہ نظام کیسے کام کرتا ہے؟ اس کے بارے میں لکھتے ہوئے مارکس نے اپنے تجزیے کا آغاز اس کی انتہائی بنیاد ”شے“ سے کیا۔ مارکس نے لکھا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں موجود تقریباً تمام دولت ”اشیا کا ایک بہت بڑا انبار ہے“۔ یعنی سرمایہ دارانہ نظام میں تقریباً جتنی بھی دولت پیدا ہوتی ہے یعنی کہ ایک سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک، ساری اشیا ہیں۔ مگر یہ ’شے‘ کیا ہے؟ اور شے اور دولت میں کیا فرق ہے؟ مارکس اس کا جواب یوں دیتا ہے کہ ہر وہ چیز جو تبادلے (بیچنے) کی غرض سے پیدا کی جائے وہ شے ہے۔ مگر اس شے کو دوسرے انسانوں کیلئے مفید ہونا چاہیے۔ یعنی کہ اس میں کوئی نا کوئی ایسی خصوصیت ضرور ہونی چاہیے جو دوسرے انسانوں کی کوئی نا کوئی جسمانی یا ذہنی ضرورت پوری کرے۔ اسے مارکس قدر استعمال (use value) کہتا ہے۔ مثلاً گاڑی انسان کی سفر کی ضرورت پوری کرتی ہے، موسیقی انسان کو خوشی اور لطیف احساس دیتی ہے وغیرہ۔ ایسی کوئی بھی چیز جس میں قدر استعمال نہ ہو اُس کا کسی بھی دوسری چیز کے ساتھ تبادلہ نہیں ہو سکتا۔ مگر ہر وہ چیز جس میں قدر استعمال تو موجود ہو مگر اُس کا کسی دوسری چیز کے ساتھ تبادلہ نہ کیا جائے شے نہیں کہلائے گی۔مثلاً ہوا یا سورج کی روشنی میں قدر استعمال تو موجود ہے لیکن ان میں انسانی محنت شامل نہیں اور اس لیے ان میں قدر (value) بھی موجود نہیں اور ان کا تبادلہ یا خرید و فروخت نہیں کی جا تی اس لیے یہ شے نہیں کہلائیں گی۔اسی طرح اپنے ذاتی استعمال کیلئے بنائی جانے والی چیزیں شے نہیں کہلائیں گی بلکہ ایسی ہر چیز کو ذاتی دولت کہا جائے گا۔ لہٰذا ہر وہ چیز جس میں قدر استعمال موجود ہو اور جس کا تبادلہ کیا جارہا ہو، شے کہلائے گی۔ اب اگر آپ اپنے ارد گرد دیکھیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ مختلف فیکٹریوں اور کمپنیوں میں مختلف اشیا پیدا کی جاتی ہیں حتیٰ کہ خدمات یا سروسز کے شعبوں میں خدمات فروخت کی جاتی ہیں خواہ وہ ہسپتال ہوں یا تعلیمی ادارے یا دیگر ایسے ہی شعبے۔ موبائل فون کسی اور فیکٹری میں بنتا ہے جبکہ گھڑی کسی اور میں، کپڑے کسی اور فیکٹری میں بنتے ہیں جبکہ جوتے کسی اور میں۔ لہٰذا اگر زر کو وقتی طور پر ہم ایک طرف رکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ سماج میں مختلف لوگوں کی بنائی گئی چیزیں یا خدمات ایک دوسرے سے تبادلے میں آتی ہیں اور استعمال ہوتی ہیں۔ اس طرح انسان ایک دوسرے کی بنائی ہوئی اشیا کو استعمال کرتاہے، نہ کہ سارا کچھ خود ہی بناتا ہے۔ یعنی کہ اتنی گھڑیوں کا اتنے جوتوں کے ساتھ تبادلہ، اتنی گاڑیوں کا اتنے برتنوں کے ساتھ تبادلہ، وغیرہ۔

Trap

سرمایہ دارانہ نظام میں موجود تقریباً تمام دولت ”اشیا کا ایک بہت بڑا انبار ہے“۔ کارل مارکس

قدر اور اوسط محنت

مگر یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آخر یہ کیسے پتہ چلے گا کہ ایک شے کی کتنی مقدار کا دوسری شے کی کتنی مقدار کے ساتھ تبادلہ ہو سکتا ہے؟ مثلاً ایک گھڑی کے بدلے کتنے جوتوں کا تبادلہ ہوسکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے تبادلہ ہونے والی دونوں اشیا میں کوئی نہ کوئی مشترک چیز لازمی ہو جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہو پائے گا کہ ایک گھڑی کا اتنے جوتوں کے ساتھ تبادلہ ہو سکتا ہے۔ اب اگر غور کیا جائے تو گھڑی کا استعمال جوتوں کے استعمال سے مختلف ہے، اسی طرح دونوں کی شکل و صورت بھی مختلف ہے۔ مگر ایک چیز جو دونوں میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں کو بنانے میں انسانی محنت عمل میں آئی ہے۔ یعنی کہ ان میں جو چیز مشترک ہے وہ ”انسانی محنت“ ہے۔ یہ انسانی محنت ہی ہے جو کسی بھی شے میں قدر (value) پیدا کرتی ہے۔ اب یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ کسی شے میں کتنی قدر موجود ہے؟ قدر کا پتہ لگانے کیلئے ہمیں یہ پتہ لگانا ہوگا کہ اُس شے کو بنانے میں کتنی انسانی محنت لگی ہے۔ اب جس طرح وزن کو کلو گرام میں ماپا جاتا ہے، فاصلے کو کلومیٹر میں وغیرہ، اسی طرح انسانی محنت کو وقت میں ماپا جائے گا۔ یعنی کہ گھنٹوں اور منٹوں کے حساب سے۔ اسی طرح پتہ چل سکتا ہے کہ ایک شے میں کتنی انسانی محنت صَرف ہوئی ہے۔ یعنی کہ گھڑی کو بنانے میں کتنا وقت لگا ہے اور جوتوں کو بنانے میں کتنا وقت لگا ہے۔ان کا موازنہ کیا جائے گا اور اس بنیاد پر دونوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔ لیکن گھڑی کو بنانے والی محنت اور جوتوں کو بنانے والی محنت ایک دوسرے سے مختلف ہے کیونکہ دونوں اشیا کو بنانے کے لیے الگ قسم کے ہنر کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ ایک جیسی بھی ہے کیونکہ یہ دونوں ہنر انسانی محنت کی ہی مختلف شکلیں ہیں۔ اس فرق کو مخصوص محنت اور مجرد محنت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ”عمومی طور پر اشیا پیدا کرنے والا نظام“ ہے، یعنی کہ ہر سطح پر چیزیں تبادلے (فروخت) کیلئے پیدا کی جاتی ہیں، لہٰذا منڈی میں تبادلے کے دوران ان اشیا پر صَرف ہونے والی مخصوص محنت غائب ہو جاتی ہے۔ اور تمام اشیا عمومی محنت یا مجرد محنت کے اجزا کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔ مثلاً گھڑیوں اور جوتوں پر لگنے والی مخصوص محنت، یعنی کہ اُن کو بنانے کا الگ الگ طریقہ کار، ختم ہو جاتی ہے اور جو چیز باقی بچتی ہے وہ صرف مجرد انسانی محنت ہے۔ لہٰذا جب اشیا کا ایک دوسرے سے تبادلہ کیا جاتا ہے تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ انہیں کس طرح بنایا گیا ہے اور کس نے کس ملک میں بنایا ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ انہیں بنانے میں کتنا وقت محن لگا ہے۔ یعنی کہ جتنا زیادہ وقت محن ہوگا اُتنی زیادہ شے کی قدر ہو گی۔

سماجی ضروری وقت محن اور قیمت

مگر یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بالفرض کسی جینز کی پینٹ بنانے والی فیکٹری کا مالک اپنے مزدوروں کو کہتا ہے وہ ایک جینز بنانے میں زیادہ وقت لگائیں تا کہ اُس میں قدر زیادہ ہو، تا کہ وہ اسے مہنگے داموں بیچ سکے۔ اس طرح تو پھر ہر کوئی دوسرے سے زیادہ وقت میں اشیا پیدا کرنے میں لگ جائے مگر ایسا تو ہمیں کہیں بھی ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ بلکہ اس کے اُلٹ نظر آتا ہے اورہر سرمایہ دار کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اشیا پیدا کرے۔ اور جو سرمایہ دار ایسا نہیں کرتا وہ دیوالیہ ہو کر مقابلے سے باہر ہو جاتا ہے۔ مارکس نے اس معمے کا جواب دیا تھا۔ مارکس نے بتایا تھا کہ ہر فیکٹری کو ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ کر کے ہر فیکٹری میں ہونے والی پیداوار کی بنیاد پر اشیامیں موجود قدر کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ دوسرے الفاظ میں، کسی ایک فیکٹری کے مزدوروں کی بنائی گئی اشیا کی قدر کو اُس فیکٹری کے مزدوروں کے وقت محن کے حساب سے نہیں جانا جا سکتا کیونکہ وہ فیکٹری اور مزدور سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہیں یعنی کہ سماج میں باقی فیکٹریاں بھی موجود ہیں اور اشیا پیدا کر رہی ہیں۔ اور سماج میں عمومی طور پر اشیا پیدا ہو رہی ہیں اور تبادلے میں آرہی ہیں۔ اسی طرح کسی ایک فیکٹری کی عمارت سے لے کر اُس میں استعمال ہونے والی مشینری اور خام مال تک اور خام مال کی ترسیل سمیت کئی اور تانے بانے اس فیکٹری کو باقی فیکٹریوں اور پیداواری عمل سے جوڑتے ہیں۔ دوسری طرف تکنیک بھی مسلسل جدید ہو رہی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں اشیا کی پیداوارکا وقت بھی کم سے کم تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ لہٰذا مارکس نے وضاحت کی تھی کہ قدر کا تعین سماجی ضروری وقت محن کرتا ہے۔ سماجی ضروری وقت محن سے مراد ہے کہ کسی بھی سماج میں عمومی طور پر کسی بھی مخصوص شے کو بنانے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ مثلاً آج کے دور میں فیکٹریوں میں ایک جینز کی پینٹ کتنے وقت میں تیار ہوتی ہے۔ یاد رہے یہاں جینزکا ایک جیسا ہونا ضروری ہے مثلاً صرف ایک ہی معیار کی جینزکا موازنہ کیا جائے گا۔ اب چونکہ سرمایہ دارانہ نظام مقابلہ بازی پر مبنی نظام ہے لہٰذا اگر کسی فیکٹری میں وہ جینز دیگر فیکٹریوں کی نسبت زیادہ دیر سے تیار ہوتی ہے تو اِس صورت میں اُس فیکٹری کا مالک دیگر فیکٹری مالکان سے پیچھے رہ جائے گا اور مقابلے سے باہر ہو جائے گا۔ جبکہ دوسری جانب اگر کوئی فیکٹری کا مالک جدید تکنیک کے باعث وہی جینزکم وقت میں تیار کر لے گا توو ہ دوسروں کی نسبت سستی پیداوار کر کے زیادہ منافع کما سکے گا اور باقی فیکٹری مالکان کو بھی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جدید تکنیک کو اپنانا پڑے گا۔ اس طرح سماجی ضروری وقت محن کا دورانیہ بھی پہلے کی نسبت بتدریج کم ہو جائے گا۔

یہاں البتہ یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اشیا کی قیمتوں کا تعین کیسے ہوتا ہے اور قدر اور قیمت میں کیا فرق ہے؟ سرمایہ دارانہ معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ اشیا کی قیمتوں کا تعین مکمل طور پر منڈی کے اُتار چڑھاؤ یعنی طلب اور رسد کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یعنی کہ اگر منڈی میں کسی شے کی طلب زیادہ ہو گی تو اس کی قیمت بھی زیادہ ہوگی اور اسی طرح سے رسد کے زیادہ ہونے سے قیمتیں کم ہوں گی۔ مگر یہاں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ آخر ایسا وہ کونسا نکتہ ہے جس سے زیادہ اور کم پر وہ اشیا فروخت ہو رہی ہیں؟ مارکس نے واضح کیا کہ اشیا کی قیمتوں کاحتمی تعین طلب اور رسد کی بجائے ان میں موجود قدر سے ہوتا ہے۔ یعنی کہ ان میں صَرف ہونے والی کُل انسانی محنت سے ہوتا ہے، جس میں مشینری اور خام مال بھی شامل ہیں۔ کیونکہ مشینری اور خام مال بھی درحقیقت قدریں ہی ہیں جنہیں انسانی محنت نے ہی بنایا یا استعمال کے قابل کیا ہے۔ لہٰذا آخری تجزیے میں کسی بھی شے میں موجود قدر ہی وہ نکتہ ہے جو اس کی قیمت کاحتمی طور پر تعین کرتا ہے۔ البتہ منڈی میں طلب اور رسد کے تحت یہ قیمت اپنی اصل قدر سے اوپر یا نیچے ضرور جاسکتی ہے، مگر وہ بھی ایک خاص حد تک ہی، یعنی قدر وہ مرکزی نکتہ ہے جس کے گرد کسی شے کی قیمت طلب اور رسد کے اوپر یا نیچے ہونے کے باعث گردش کرتی ہے۔ ہاں چند ایسی اشیا ضرور ہیں جو قدر کے اس قانون سے آزاد ہیں مثلاً پینٹنگ اور دیگر فن پارے، موسیقی، کسی کھلاڑی، اداکار یا مذہبی رہنما کے کپڑے وغیرہ۔ یہ تمام وہ اشیا ہیں جن کا تعلق انسان کی خواہشات، جمالیاتی پسند اور عقائد سے ہے۔ بہر حال عمومی طور پر تمام اشیا کی قیمتوں کا آخری تجزیے میں تعین قدر سے ہی ہوتا ہے۔

زر (Money)

سرمایہ دارانہ نظام سے پہلے کے نظاموں میں (غلام داری اور جاگیر داری) عمومی طور پر چیزیں منڈی میں بیچنے کیلئے نہیں پیدا کی جاتی تھیں بلکہ ذاتی استعمال کیلئے بنائی جاتی تھیں۔ بہت کم تعداد میں چیزیں بیچنے کیلئے بنائی جاتی تھیں۔ مگر سرمایہ دارانہ نظام میں عمومی پیداوار ہی بیچنے کی غرض سے کی جاتی ہے۔ پرانے نظاموں میں اشیا کا تبادلہ اشیا سے کیا جاتا تھا جو بعد میں جا کر ضرورت کے تحت کسی ایک شے کے ساتھ ہونا شروع ہوا۔ آغاز میں اونٹوں اور دیگر مال مویشیوں نے ایسی شے کا کردار ادا کیا۔ مگر جوں جوں اشیا کی پیداوار میں اضافہ ہوا تو ضرورت کے تحت سونا ایک ’آفاقی متبادل (زر)‘ بن گیا۔ سونا ایک نایاب دھات تھا اور کانوں سے نکلنے اور صفائی ستھرائی کے بعد صاف شکل اختیار کرنے میں کافی وقت لیتا تھا، یعنی انتہائی چھوٹی سی مقدار کے لیے بھی اوسط ضروری سماجی وقت محن بہت زیادہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے چھوٹے چھوٹے حصے بھی کیے جا سکتے تھے اور میلوں دور اسے باآسانی لے کر بھی جایا جا سکتا تھا۔ اسی طرح اس کی کم مقدار سے دیگر اشیا کی زیادہ مقدار کا تبادلہ بھی کیا جا سکتا تھا۔ ان وجوہات کی بنا پر سونا زر کی شکل اختیار کر گیا۔ اس کے علاوہ چاندی کو بھی ایسے ہی مخصوص کردار کی وجہ سے استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد دیگر دھاتوں بالخصوص تانبے نے سونے کی جگہ لے لی۔ یہاں تک آتے آتے زر کی اب اپنی ایک الگ حیثیت بن چکی تھی لہٰذا اب ضروری نہیں تھا کہ سونا یا کوئی قیمتی دھات ہی بطور زر استعمال کیا جائے۔ ایسے میں زر کاغذ کے نوٹ کی شکل اختیار کر گیا اگرچہ اسے چھاپنے کیلئے ریاستیں اور مرکزی بینک سونے کو بطور گارنٹی رکھتے تھے جو بعد میں ختم کر دی گئی۔

استحصال، منافع اور اُجرت

سرمایہ دارانہ نظام در حقیقت ایک طبقاتی نظام ہی ہے جس میں ذرائع پیداوار (وہ تمام ذرائع جن سے دولت پیدا ہوتی ہے جیسے زمین، فیکٹریاں وغیرہ) سرمایہ دار طبقے کے کنٹرول میں ہوتے ہیں لہٰذا ساری پیداوار کا مالک بھی وہی ہوتا ہے۔ آئے روز فیکٹریوں میں جو کچھ بھی مزدور بناتے ہیں ان تمام اشیا کو منڈی میں بیچ کر سرمایہ دار منافع کماتا ہے۔ کیا یہ منافع کمانا ایک درست عمل ہے؟ اس سوال پر مارکس کے علاوہ تمام تر نظریے اسے درست عمل قرار دیتے ہیں۔ اگر تنقید کی بھی جاتی ہے تو بس یہ کہا جاتا ہے کہ دو نمبری اور فراڈ سے منافع نہیں کمانا چاہیے۔ مگر یہ سوال کوئی نہیں پوچھتا کہ آخر یہ منافع آتا کہاں سے ہے؟ مارکس نے اس کی وضاحت کی کہ منافع کی بنیاد قدر زائد کی پیداوار میں ہے۔ مارکس سے پہلے اور بعد میں آنے والے تمام معیشت دان اس پر متفق ہیں کہ منافع منڈی میں سرمایہ دار کی چالاکی سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی کہ ایک سرمایہ دار اپنی اشیا کی مارکیٹنگ اچھی کر کے یا دیگر حربوں سے گاہک کو پھنساکر ان سے منافع کماتا ہے۔ لیکن مارکس نے واضح کیا کہ منافع کی بنیاد منڈی یا تبا دلے کے دوران نہیں بلکہ پیداواری عمل میں موجود ہوتی ہے۔ منافع قدر زائد کی پیداوار سے ممکن ہوتا ہے اور قدر زائد درحقیقت مزدور کے استحصال سے پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ سرمایہ دار جو مشینری خریدتا ہے وہ کوئی نئی قدر نہیں پیدا کرتی بلکہ جوں جوں گھستی جاتی ہے توں توں وہ اپنی قدر نئی اشیا میں منتقل کرتی جاتی ہے۔ اسی طرح خام مال بھی پیداواری عمل میں محض اپنی شکل تبدیل کرتا ہے اور نئی قدر پیدا نہیں کرتا۔

مارکس نے واضح کیا کہ سماج میں ایک ہی ایسی شے ہے جو خود سے زیادہ قدر پیدا کرتی ہے، وہ انسان کی ’قوت محنت‘ ہے۔ یاد رہے کہ ’محنت‘ اور ’قوت محنت‘ میں فرق ہے۔ قوت محنت سے مراد مزدور کی کام کرنے کی جسمانی و ذہنی صلاحیت ہے۔ سرمایہ داری میں باقی اشیا کی طرح قوت محنت بھی ایک شے ہی ہوتی ہے جو مزدور کی ملکیت ہوتی ہے۔ مزدور کے پاس واحد یہی شے ہوتی ہے جسے وہ منڈی میں سرمایہ دار کو ایک مخصوص دورانیے کیلئے بیچتا ہے۔ اس کے بدلے سرمایہ دار اسے اُجرت دیتا ہے۔ جبکہ ’محنت‘ وہ عمل ہے جو مزدور اُس دورانیے میں کرتا ہے۔ مزدور کا استحصال کیسے ہوتا ہے؟

اس کو سمجھنے کیلئے ایک مثال لیتے ہیں، بالفرض ایک جوتے بنانے والی فیکٹری میں مزدور دن میں 10 گھنٹے کام کرنے کیلئے فیکٹری مالک کو اپنی قوت محنت بیچتا ہے۔ وہ 10 گھنٹے میں بالفرض دس جوڑے جوتے تیار کرتا ہے جو منڈی میں پندرہ ہزار روپے کی مالیت کے ہیں یعنی فی جوڑا مالیت ڈیڑھ ہزار روپیہ ہے، جبکہ مزدور کو10 گھنٹے کام کرنے کے یومیہ ایک ہزارروپے دیے جاتے ہیں۔اب اگر بالفرض ایک جوڑے کو بنانے میں بارہ سو روپے کا خام مال،بجلی کا بل اور مشینوں کی گھسائی وغیرہ لگتی ہے تو اس کا مطلب سرمایہ دار کو دس جوڑے جوتوں کی منڈی میں فروخت سے جو پندرہ ہزار روپے حاصل ہوئے ان میں سے بارہ ہزارتو ان سب چیزوں کی لاگت تھی۔بقیہ بچے تین ہزار روپے جن میں سے ایک ہزار روپیہ اس اجرت کی مد میں چلا گیا جو سرمایہ دار نے مزدور کو دی۔پیچھے بچ جانے والے دو ہزار روپے مزدور کی پیدا کردہ قدر زائد ہے(جس میں سے فیکٹری کی عمارت کا کرایہ، بنک قرض کے سود کی قسط اور اس کی اپنی کی ہوئی محنت یا مینجمنٹ کی اجرت/قیمت وغیرہ نکال کر سرمایہ دار کا خالص منافع بچتا ہے) جو سرمایہ دار کی ملکیت بن جاتی ہے۔ یعنی مزدور ہر گھنٹے میں دوسو روپے کی قدر زائد تخلیق کرتا ہے(سو روپیہ فی گھنٹہ کے حساب سے اپنی اجرت کے ایک حصے کے برابر قدر پیدا کرنے کے علاوہ)۔ یوں مزدور دن کے کام کے پہلے پانچ گھنٹوں میں اتنی قدر زائد پیدا کر دیتا ہے جو اسے دی جانے والی یومیہ اجرت کے برابر ہوتی ہے یعنی ایک ہزار روپے۔ عملی طور پر تو مزدور کام کے اوقات کار کے ہر گھنٹے میں خام مال، مشینری وغیرہ کی قدر بھی نئی پراڈکٹ میں ٹرانسفر کر رہا ہوتا ہے، اپنی اجرت کے ایک حصے کے برابر قدر بھی پراڈکٹ میں شامل کر رہا ہوتا ہے اور ساتھ ہی قدر زائد بھی تخلیق کر رہا ہوتا ہے لیکن اگر ہم اوقات کار کو دو حصوں میں تقسیم کریں اور یہ فرض کریں کہ پہلے حصے میں وہ صرف اپنی یومیہ اجرت کے برابر قدر نئی پراڈکٹ میں شامل کرتا ہے تو کام کے اوقات کار کا یہ حصہ(مندرجہ بالا مثال میں 3 گھنٹے20 منٹ) مارکس کے مطابق لازمی وقت محن کہلاتا ہے۔ مگر سرمایہ دار نے مزدور کی محنت کو نہیں، بلکہ قوت محنت کو خریدا ہوتا ہے؛ لہٰذا وہ لازمی وقت محن کے بعد بھی مزدور سے کام لیتا ہے۔ کام کے دن کے اس دوسرے حصے(مندرجہ بالا مثال میں 6 گھنٹے40 منٹ) کو مارکس زائد وقت محن کہتا ہے اور اسی میں قدر زائد تخلیق ہوتی ہے۔ یہ وہ قدر ہوتی ہے جسے مزدور کی محنت نے تخلیق کیا ہوتا ہے لیکن اُسے اِس قدر زائد کی قیمت ادا نہیں کی جاتی۔

اسے مارکس مزدور کی محنت کا استحصال کہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں استحصال سے مراد مزدور کی غیر ادا شدہ اُجرت ہے۔ اور منافع بھی اسی غیر ادا شدہ اُجرت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ اگرچہ قدر زائد سرمایہ دار کے پاس تو چلی جاتی ہے پر اس سے منافع تب تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک وہ شے منڈی میں فروخت نہیں ہوتی یعنی دوسری اشیا یا زر کے ساتھ تبادلے میں نہیں جاتی۔ اس طرح مزدور سے جتنی زیادہ قدر زائد پیدا کروائی جائے گی سرمایہ دار کا منافع اتنا زیادہ ہوتا جائے گا۔ لہٰذا سرمایہ دار کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ مزدور کا زیادہ سے زیادہ استحصال کر کے زیادہ سے زیادہ قدر زائد پیدا کرائی جائے جسے منڈی میں بیچ کر وہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکے۔

مشینری اور اُجرت

زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ سرمایہ دار مزدور کی اُجرت کو کم سے کم کرتا جائے۔ دوسرے طریقے میں لازمی وقت محن کو مسلسل کم اور زائد وقت محن کو بڑھاتا جائے۔ اسکے لیے سرمایہ دار متعدد طریقے استعمال کرتا ہے۔ سب سے پہلا طریقہ تو یہ ہوتا ہے کہ کام کے دن کو لمبا کر دیا جائے۔ یعنی کہ اگر پہلے 8 گھنٹے تھا تو اب اسے 8 سے بڑھا کر 10، 14، 18 گھنٹے کر دے۔ مگر اسکی بھی آخر حدود ہوتی ہیں۔ اول تو کام کے دن کو 24 گھنٹے سے زیادہ نہیں کیا جا سکتا۔ دوم کام کے اوقات کار کو اتنا زیادہ بڑھانے سے مزدوروں کی صحت متاثر ہوتی ہے اور وہ کام کرنے کی قابل ہی نہیں رہتے۔ اس کے ساتھ ساتھ مزدور اسکے خلاف ہڑتالیں بھی کرسکتے ہیں۔ اس عمل کو مارکس مطلق قدر زائد کی پیداوار کہتا ہے۔ انیسویں صدی میں اسی عمل کے خلاف مزدوروں نے بہت بڑی ہڑتالیں کر کے کام کے دن کو 8 گھنٹے تک کروایا تھا، اس سے پہلے 20، 20 گھنٹے تک بھی پیداوار کروائی جاتی تھی۔ مگر اب کئی ممالک میں مزدور یونین قیادتوں کی غداریوں اور مزدور تحریک کی کمزوری کی وجہ سے دوبارہ 12 اور 14 گھنٹے مزدوروں سے کام لیا جا رہا ہے۔کئی جگہوں پر آٹھ گھنٹے کے بعد کام کرنے پر اوور ٹائم بھی دیا جاتا ہے جو اصل سے ڈیڑھ یا دو گنا ہوتا ہے۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ اوور ٹائم کے دوران سرمایہ دار مزدور سے دس سے بیس گنا قدر زائد نچوڑتا ہے کیونکہ اس دوران سرمایہ دار کے الگ شفٹ کے بہت سے اخراجات بچ جاتے ہیں جبکہ مزدور کی پیداوارتقریباً پہلے والے تناسب سے جاری رہتی ہے۔

سرمایہ دار استحصال بڑھانے کیلئے جو دوسرا طریقہ استعمال کرتے ہیں وہ یہ ہوتا ہے کہ جدید مشینری لا کر کم وقت میں زیادہ پیداوار کرائی جائے۔ کیونکہ مشین درحقیقت محنت کی پیداواریت کو ہی بڑھاتی ہے۔ یعنی کہ وہ کام جو پہلے زیادہ مزدور ایک مخصوص وقت میں کر رہے ہوتے ہیں ایک جدید مشین کیساتھ وہی کام کم مزدوروں کے ساتھ پہلے سے کم وقت میں ہو جاتا ہے۔ اس طرح مشین ایک سرمایہ دار کیلئے شرح استحصال کو بڑھاتے ہوئے محنت کشوں سے زیادہ قدر زائد نچوڑنے کا ایک ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس سے ایک مخصوص صنعت کے مزدور وقتی طور پر بیروزگار بھی ہو جاتے ہیں اگرچہ بعد میں مشینری کی بدولت پیداوار کی نئی راہیں بھی کھلتی ہیں اور نیا روزگار بھی جنم لیتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ قدر زائد کے حصول کیلئے سرمایہ دار کے لیے ایک اور اہم حربہ یہ ہے کہ مزدور کو کم سے کم اُجرت دے۔مشینری یا خام مال پر سرمایہ کاری کرنا سرمایہ دار کی مجبوری ہوتا ہے اور دیگرسرمایہ داروں سے مقابلہ بازی کے باعث وہ اس میں زیادہ کمی نہیں کر سکتا اسی لیے قدر زائد بڑھانے کے لیے اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اجرتوں کو کم سے کم کیا جائے۔

مگر یہاں سوال یہ اُبھرتا ہے کہ اُجرت کا تعین کیسے ہوگا؟ مارکس اس کا جواب یوں دیتا ہے کہ اُجرت در حقیقت مزدور کی قوت محنت کی قیمت ہوتی ہے۔ اور چونکہ باقی اشیا کی طرح قوت محنت بھی ایک شے ہے لہٰذا اس کی قدر کا تعین بھی انہی اصولوں کے مطابق ہوگا جن کی بنیاد پر دیگر اشیا کی قدر کا تعین ہوتا ہے۔ یعنی کہ قدر کے قانون کی بنیاد پر۔ دوسرے الفاظ میں قوت محنت کی قدر جاننے کیلئے یہ جاننا ہوگا کہ اس کی تخلیق میں کتنا سماجی ضروری وقت محن لگا ہے۔ اب اگر غور کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ قوت محنت ایک ایسی شے ہے جو مزدور کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور اس کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ اگر مزدور ہوگا تو قوت محنت ہوگی ورنہ نہیں۔ یعنی کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ مزدور کو روزانہ کام کیلئے تیار کرنے میں کتنا سماجی ضروری وقت محن لگتا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ مزدور کے گھر کا راشن اور کرایہ، خاندان کی پرورش، بجلی کے بِل وغیرہ کا کتنا خرچہ ہوتا ہے۔اگر ہنر مند مزدور ہے تو اس کی تعلیم و تربیت پر ہونے والے اخراجات بھی شامل ہوں گے۔ یاد رہے کہ یہ بنیادی اصول ضرور ہے مگر آج دنیا بھر میں جتنی مہنگائی ہو چکی ہے اُس حساب سے مزدوروں کی حقیقی اجرتوں میں اضافہ نہیں کیا جا رہا اور ان کے حالات زندگی بد سے بدتر ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ اور دیگر اشیا کی طرح قوت محنت کی قیمت میں اُتار چڑھاؤ میں طلب اور رسد کا بھی کردار ہوتا ہے۔ یعنی کہ اگر مزدوروں کی طلب زیادہ ہے تو اُن کی اُجرت بھی زیادہ ہوگی اور رسد زیادہ ہے تو اُجرت کم ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے اتحاد اور جدوجہد کی بدولت بھی اُجرتوں میں اضافہ ممکن ہو پاتا ہے۔ اسی لیے سرمایہ داروں کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ مزدوروں کی یونینیں نہ بننے دی جائیں اور اِن کے اتحاد کو کمزور کیا جائے۔

مختصر یہ کہ پیداوار کا تمام تر عمل مزدور طبقے کے استحصال پر مبنی ہے اور یہ پورا نظام سرمایہ دار طبقے کے منافعوں کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ اس کو تبدیل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ذرائع پیداوار کی ملکیت سرمایہ دار کے ہاتھوں سے نکال کر مزدوروں کی اجتماعی ملکیت میں منتقل کر دی جائے۔ تمام فیکٹریاں، صنعتی، تجارتی اور مالیاتی ادارے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں ہوں گے تو سماج میں ہونے والی تمام تر پیداوار بھی کسی ایک شخص کی ملکیت نہیں ہو گی۔ ایسے میں تمام اشیا کی پیداوار کا مقصد منافع کے حصول کی بجائے وہاں رہنے والے افراد کی ضروریات کی تکمیل ہوگا۔ کتنے کپڑے کی ضرورت ہے، کتنے جوتے، کتنے مکان، کتنے بجلی گھر، کتنے ہسپتال اور تعلیمی ادارے درکار ہیں۔ اس حوالے سے ایک جمہوری منصوبہ بند معیشت کے ذریعے مرکزی منصوبہ بنا کر تمام صنعتوں اور فیکٹریوں کو دیا جا سکتا ہے جو پیداوار کے ذریعے اس منصوبے کی تکمیل کریں اور سماج میں رہنے والے ہر شخص کی بنیادی ضرورت پوری ہو سکے۔ ایسا صرف ایک سوشلسٹ سماج میں ہو سکتا ہے جس میں انسان کے ذریعے انسان کے استحصال کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گا اور سرمائے کی محنت پر حاکمیت ختم ہو جائے گی۔اس وقت ہی مزدور اپنی پیداوار کے خود اجتماعی طور پر مالک بن جائیں گے۔

Comments are closed.