سوشلسٹ انقلاب پاکستان کے عوام کے تمام مسائل کیسے حل کرے گا؟

|تحریر: آدم پال|

 

پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بد ترین بحران سے گزر رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اس بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے پر لادا جا رہا ہے اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت اور ذلت کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ اس بحران نے اس نظام کی کمزور بنیادوں کو بھی عیاں کر دیا ہے اور حکمران طبقے کی تمام تر پر تعیش زندگیوں اور لوٹ مار کے لیے قائم اس نظام کی بنیادیں لرز رہی ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں حکمران اپنی تمام تر جمع پونجی، جائیدادیں اور کاروبار تیزی سے بیرون ملک منتقل کرتے جا رہے ہیں جبکہ اس ڈوبتے جہاز میں سے لوٹ مار کا عمل بھی تیز تر کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف اس ملک کا مالیاتی بحران ہے جو دیوالیہ پن کی نہج تک پہنچ چکا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہاں پر بہت ہی گہرا سیاسی اور ریاستی بحران بھی موجود ہے جو اس پورے نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتا جا رہا ہے۔ اس تمام عمل کے پورے سماج پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہ ایک ایسا سلگتا ہوا آتش فشاں بن چکا ہے جو کسی بھی لمحے پھٹنے کے لیے تیار ہے۔آنے والے عرصے میں یہ تمام تر صورتحال بہت بڑی سماجی تبدیلیوں اور عوامی تحریکوں کو جنم دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور اس ملک کے کروڑوں محنت کشوں کو حکمران طبقے کے ظلم، جبر اور استحصال کیخلاف سڑکوں پر آنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ حکمران طبقہ پہلے سے اس کی پیش بینی کر رہا ہے اور محنت کش طبقے کی تحریک کو توڑنے کے لیے قوم، زبان، مذہب، فرقے سمیت تمام تر تعصبات سماج پر پوری قوت سے مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ عوام کو باہمی اختلافات میں الجھا کر اپنی حکمرانی کو جاری و ساری رکھا جا سکے۔ اسی طرح افق پر موجود تمام تر سیاسی پارٹیوں کو میڈیا اور ریاستی مشینری کی حمایت کے ذریعے مسلط رکھا جا رہا ہے اور عوام کو انہی مردار اور رد کی جانے والی سیاسی پارٹیوں میں سے کسی ایک کو چننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس تمام عمل کی حدود بھی ظاہر ہو رہی ہیں اور ان تمام عوام دشمن سیاسی پارٹیوں کے باہر سے عوامی تحریکیں ہر طرف نہ صرف ابھر رہی ہیں بلکہ پھیل بھی رہی ہیں اور عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے عملی جدوجہد کر رہی ہیں۔

اس تمام عمل میں سرمایہ دارانہ نظام کی حدود بھی محنت کش عوام کے ایک حصے پر آشکار ہو رہی ہیں اور واضح ہوتا جا رہا ہے کہ اس نظام میں رہتے ہوئے کسی بھی بنیادی مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ ہو یا پٹرول اور آٹے کی قیمتوں میں بڑھوتری ہر طرف محنت کش عوام غربت کی چکی میں ہی پس رہے ہیں۔ دوسری جانب روزگار بڑے پیمانے پر ختم ہو رہے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق گزشتہ چار سالوں میں تین کروڑ سے زائد محنت کش اپنا روزگار کھو چکے ہیں۔ آنے والے عرصے میں معیشت کی شرح نمو کے جو اندازے پیش کیے جا رہے ہیں اس کے مطابق معیشت مزید سکڑنے کی جانب بڑھے گی جس کا واضح مطلب ہے کہ کروڑں مزدور مزید بیروزگار ہوں گے جبکہ دوسری جانب مہنگائی اور افراطِ زر میں تیز ترین اضافہ ہوگا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر پہلے ہی انتہائی تیزی سے گر رہی ہے اور آنے والے مہینوں میں اس گراوٹ میں بہت بڑا اضافہ ممکن ہے۔ ایسے میں اگر کسی دیوانے کو اس نظام میں رہتے ہوئے کسی تھوڑی سے بھی بہتری کی امید تھی وہ بھی ختم ہو جائے گی اور اس نظام سے شدید نفرت اور دشمنی نظر آئے گی۔

لیکن اس تمام صورتحال میں کسی بھی جگہ پر متبادل نظام کی کوئی بھی بحث دکھائی نہیں دیتی اور تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈر، تمام معیشت دان، تمام دانشور اور تجزیہ نگار اس نظام میں رہتے ہوئے ہی مختلف حل پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خواہ معیشت ہو، سیاست ہو، فوج کے ادارے کا ریاست پر کنٹرول ہو یا سرکاری اداروں میں کرپشن اور لوٹ مار کی کہانیاں ہوں ہمیں کہیں بھی ایک متبادل سماجی-معاشی نظام کی بحث نظر نہیں آتی۔ ایسا لگتا ہے کہ بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نظام پر تمام ”سیانے“ لوگ مکمل ایمان لا چکے ہیں اور اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ ان نام نہاد دانشوروں میں سب سے زیادہ ”انقلابی“ دکھنے والے بھی صرف یہی تجویز دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ امیروں پر کچھ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کر دیا جائے یا پھر یہ کہ عالمی سامراجی طاقتوں سے قرض معاف کروانے کی بھیک مانگی جائے یا پھر دفاعی بجٹ میں تھوڑی بہت کمی سے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

اس سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں میں موجود مزدور کا استحصال، سرمائے کا ارتکاز اور اس تمام تر بربادی کی بنیادوں کو سمجھنا یا ان کو قصور وار ٹھہرانا ان تمام کرائے کے دانشوروں کی لغت میں موجود ہی نہیں۔ ان کے نزدیک بینکوں، سٹاک ایکسچینجوں اور سامراجی طاقتوں کی گماشتگی کا یہ نظام ہی انسانی تاریخ کا آخری اور حتمی نظام ہے اور محنت کش طبقے کا مقدر اس میں ہمیشہ پستے رہنا ہے۔ یہ تمام تر تجزیہ درحقیقت انقلابات کی تاریخ سے لاعلمی یا جان بوجھ کر منافقانہ طریقے سے اسے نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح یہ تمام افراد سامراجی طاقتوں کے پٹھو کے طور پر اپنے آقاؤں کو دیو مالائی طاقت کے مالک قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان آقاؤں کی کسی بھی صورت حکم عدولی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی بھی حقیقی مزاحمت کی جا سکتی ہے۔ ان کے نزدیک مزاحمت کا مطلب ایک آقا کی بجائے دوسرے سامراجی آقا کی گود میں بیٹھنے کا چکمہ دینا یا ہوشیاری دکھانا ہے۔ اس سے بھی زیادہ چالاکی دکھاتے ہوئے مختلف سامراجی طاقتوں کو ”بیوقوف“ بنانے کی کوشش ہے جس میں سب سے ہی پیسے بٹورے جائیں اور سب کو ہی ان کی کاسہ لیسی اور غلامی کرنے کا یقین دلا دیا جائے۔ ان کرائے کے ٹٹوؤں کے نزدیک یہی سامراجی طاقتیں ہی ہمیشہ سے انسانیت کی تقدیر کے فیصلے کرتی آئی ہیں اور آئندہ بھی کرتی رہیں گی۔ اس گھن چکر سے باہر ان گماشتوں کی سوچ کا داخلہ ممنوع ہے اور نہ ہی وہ ایسی جرات مندانہ طرز پر سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سامراجی طاقتوں کے ان دلال دانشوروں اور تجزیہ کاروں کے نزدیک محنت کش عوام کی تقدیر صرف سر جھکا کر زندگی گزارنا ہی ہے اور وہ نہ تو کبھی کوئی انقلابی تحریک برپا کر سکتے ہیں اور نہ ان میں سوچنے اور سمجھنے کی اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کے بارے میں ان نام نہاد ”پڑھے لکھے“ افراد سے بہتر سوچ سکیں۔ اس لیے وہ عوام کو غلامی کی تمام شرائط قبول کرنے کی تلقین بھی کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان بحرانوں کا کوئی حل نہیں اور عوام کو مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور ذلت کو ہر صورت میں برداشت ہی کرنا پڑے گا۔

لیکن تاریخ گواہ ہے کہ حکمران طبقے کی صبر کی تمام تلقین کے باوجود عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے بار بار انقلابی تحریکوں میں ابھرتے ہیں اور اپنے زور بازو کے ذریعے ان تمام مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ ایسی تحریکوں میں وہ مختلف نظریات کا امتحان بھی لیتے ہیں، انہیں آزماتے ہیں اور آخر میں صرف اس نعرے اور پروگرام کو اپنی حمایت دیتے ہیں جس کے متعلق انہیں یقین ہو جائے کہ یہ ان کے تمام مسائل حل کرے گا۔ اسی لیے حقیقی انقلابی قوتوں کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ درست انقلابی نظریات پر مبنی ایک سیاسی و معاشی پروگرام ترتیب دیں جسے عوام کے سامنے نہ صرف پیش کیا جا سکے بلکہ انقلابی تحریکوں کی کامیابی کی صورت میں اس پر عمل کرتے ہوئے عوام کی نجات کی منزل بھی حاصل ہو سکے۔

انقلابی تحریکوں کی ناگزیریت اور عوام کی انقلابات برپا کرنے کی صلاحیت سے انکار کرنے والے اکثر انہیں روٹی کی جگہ کیک کھانے کا مشورہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان سب کا انجام بھی اکثر فرانس کی اس ملکہ کی طرح ہی ہوتا ہے جس نے بھوک اور بیماری سے تنگ عوام کو یہ مشورہ دیا تھا اور کچھ عرصے بعد انقلاب کے دوران اس کا سر کاٹ کر نیزے پر رکھا گیا تھا اور پورے پیرس شہر میں گھمایا گیا تھا۔ انقلاب یقینا اپنے دشمنوں سے تمام بدلے لیتا ہے اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچاتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ عوام کی اکثریت کو یہ موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ وہ ماضی کی تمام تر فرسودہ رسوم و رواج کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے اور پرانے سماجی معاشی نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک بالکل نئے اور تازہ نظام کی بنیاد رکھے جس میں ہر طرح کا ظلم اور جبر ختم ہو سکے۔ یہ صلاحیت صرف محنت کش عوام کی ایک انقلابی تحریک میں ہی موجود ہوتی ہے کہ وہ جب اجتماعی حیثیت میں تاریخ کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو ماضی کا ہر و ہ نشان اور ہر وہ ادارہ ختم کر دیتے ہیں جو ان پر جبر کرتا رہا ہے اور اس سارے عمل میں ایک نئے سماج کو جنم دیتے ہیں جو انسانی سماج، تہذیب اور تمدن کو نہ صرف ترقی دے سکے بلکہ وہاں پر رہنے والی اکثریت کو ماضی کی جکڑ بندیوں سے بھی آزادی دلائے۔ کوئی بھی لیڈریا انقلابی پارٹی عوام کی حمایت کے بغیر یہ فریضہ سر انجام نہیں دے سکتی اور نہ ہی عوام کومصنوعی طور پر مجبور کر سکتی ہے کہ وہ انقلاب برپا کرنے کے لیے باہر نکلیں۔ مارکس اور اینگلز اس نکتے پر متفق تھے کہ حکمران طبقے کے جبر سے نجات حاصل کرنے کا فریضہ محنت کش طبقہ خود ہی ادا کرتا ہے اور کوئی بھی شخص یا گروہ ان کے ایماپر یہ فریضہ سر انجام نہیں دے سکتا۔ لیکن دوسری جانب محنت کش عوام کی راہنمائی کے لیے درست نظریات اور انقلابی قوتوں کی موجودگی کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا اور فیصلہ کن لمحات میں درست نظریات اور انقلابی قیادت ہی انقلابی تحریکوں کو منزل مقصود تک پہنچانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں جبکہ درست نظریات سے عاری، مفاد پرست اور بزدل قیادتیں انقلابی تحریکوں کو گمراہ کرنے یا انہیں پرانے نظام کی حدود میں ہی محدود رکھنے کا گھناؤنا جرم کرتی ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ یہاں کے محنت کش عوام کو درپیش مسائل کے حقیقی حل کا خاکہ پیش کیا جائے اور اس منزل کے حصول کی جدوجہد کو تیز تر کیا جائے۔

سامراجی طاقتوں کی جکڑ بندی اور سرمایہ دارانہ نظام کا زوال

اس ملک میں جب بھی انقلابی تحریک کے امکانات پر بحث کا آغاز کریں تو”سیانے“ اور نام نہاد سمجھدار افراد کی جانب سے ایسے ایسے ناممکنات کے دعوے پیش کیے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اس ملک کے لوگوں میں وہ مادہ ہی نہیں کہ وہ انقلاب برپا کر سکیں اور یہ کہ یہاں پر اتنی کرپشن اور بے ایمانی ہے کہ کوئی انقلاب ہو ہی نہیں سکتا اور بھی بہت کچھ۔ کچھ لوگ یہاں پر ریاستی جبر اور جرنیلوں کے مارشل لا کی مثالیں دیتے ہیں جیسے کسی بھی دوسرے ملک میں انقلاب کرنے والوں کو حکمران طبقہ پھولوں کے ہار پیش کرتا ہے۔ کچھ سال قبل تحریک انصاف کے ایک ”انقلابی“ نوجوان کی ایک ایسی ہی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں وہ کہہ رہا تھا کہ ”اگر پولیس ہمیں مارے گی تو ہم انقلاب کیسے کریں گے“۔ یہ بیان در حقیقت اس ملک کے تمام نام نہاد انقلابیوں اور تبدیلی کے خواہشمندوں کی سوچ اور جذبات کی عکاسی کرتا ہے جو ریاستی اداروں کی پشت پناہی کے ذریعے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ یہ احمق سمجھتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ اس طریقے سے اقتدار حاصل کر لیں خواہ اس کے لیے کتنی ہی کاسہ لیسی اور چاپلوسی نہ کرنی پڑے تو پھر وہ قانون اور آئین کی حقیقی حکمرانی قائم کر لیں گے اور سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کی حرکیات سے غافل یہ افراد آخر میں اسی نظام کے رکھوالوں کے گماشتے کا کردار ادا کرتے ہیں۔

اسی طرح سامراجی طاقتوں کی دیو ہیکل قوت کو بھی بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی مرضی کے بغیر یہاں کچھ نہیں ہو سکتا اور کوئی بھی سیاسی تبدیلی امریکہ کے اشاروں پر ہی ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ اس ملک کے حکمران طبقے کی لگام امریکی سامراج کے ہاتھ میں ہی ہے اور مالیاتی، سیاسی، دفاعی اور دیگر تمام امور میں امریکہ براہ راست مداخلت کرتا ہوا اس ملک کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن دوسری جانب سامراجی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو ناقابلِ تسخیر اور تقدیر کا لکھا ہوا ثابت کرنا بھی حماقت اور انتہا درجے کی بیوقوفی ہے۔ اسی امریکی سامراج کے پچھواڑے میں کیوبا سے لے کر وینزویلا تک بہت سی انقلابی تحریکیں نہ صرف برپا ہو چکی ہیں بلکہ اتنی دیو ہیکل سامراجی طاقت کا کئی دہائیوں تک مقابلہ بھی کر تی رہی ہیں۔اسی طرح ویت نام کی جنگ میں امریکی سامراج کی عبرتناک شکست بھی تاریخ کے اوراق میں ثبت ہے اور اپنی تمام تر عسکری قوت کے باوجود امریکی افواج کو ویت نام کے عوام نے ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا تھا۔

اسی طرح عراق اور افغانستان کی سامراجی جنگوں میں امریکی سامراج اپنے تمام تر اتحادیوں کی حمایت اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اپنے زیادہ تر مقاصد حاصل نہیں کر سکا اور ان تباہ حال ممالک کے عوام پر براہ راست اپنی حاکمیت قائم نہیں رکھ سکا۔ اور اب کابل اور بغداد میں اپنے گماشتوں کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ کابل میں طالبان ہوں یا بغداد میں اقتدار میں موجود لبرل یا ملا تمام قوتیں اسی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت امریکی سامراج کی شکستہ بیساکھیوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتی ہیں لیکن دونوں جگہ انہیں عوام کے غیض و غضب کا سامنا ہے جو اس سے پہلے امریکی سامراج کی شکست کا باعث بنا تھا۔

امریکی سامراج کی بنیادیں اس سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں اور ماضی کی نسبت یہ نظام بدترین بحران کا شکار ہو چکا ہے اور اس کا زوال ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہو رہا ہے۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کھل کر سطح پر ابھرے تھے اور پوری دنیا میں عوامی تحریکوں کے طوفان امنڈ آئے تھے۔ عرب ممالک میں دہائیوں پرانی آمریتوں کا خاتمہ تھا یا نیو یارک سے شروع ہونے والی عالمگیر آکو پائی وال سٹریٹ سے لے کر یونان میں بائیں بازو کی ایک چھوٹی سے پارٹی سائریزا کا وسیع تر عوامی حمایت کے ساتھ پہلی دفعہ اقتدار میں آنے کا واقعہ، ہر طرف سرمایہ داری کے رکھوالے پسپا ہو رہے تھے۔ اس دوران دنیا بھر میں خانہ جنگیوں اور جنگوں میں بھی شدت آتی چلی گئی اور پوری دنیا کی سیاست انتہائی بائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کے درمیان ہچکولے کھانے لگی۔ اس دوران ٹرمپ کا امریکہ میں بر سر اقتدار آنا اور جیرمی کوربن کے گرد برطانیہ میں عوامی تحریک کا ابھرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔

لیکن کرونا وبا کے بعد سے صورتحال مزید سنگین شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اور اب 2008ء سے کئی گنا بڑے بحران کی پیش گوئی خود سرمایہ داروں کے اپنے معیشت دان اور تجزیہ نگار کر رہے ہیں۔ کرونا وبا کے دوران بھی ہمیں 2020ء میں امریکی حکمران طبقے کے خلاف اس کے اپنے ہی ملک میں ملک گیر عوامی تحریک نظر آئی جس میں تین کروڑ سے زائد افراد نے سینکڑوں شہروں میں حصہ لیا۔اس وقت امریکہ کے میڈیا کے بہت سے حصے امریکہ میں ایک نئی خانہ جنگی کی گفتگو کر رہے ہیں۔ امریکہ کی پچھلی خانہ جنگی 1861ء میں برپا ہوئی تھی جسے مارکس وادی امریکہ کا دوسرا انقلاب بھی کہتے ہیں۔ امریکہ کا پہلا انقلاب 1776ء میں برپا ہوا تھا جب برطانوی سامراج کے تسلط سے نہ صرف آزادی حاصل کی گئی تھی بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں بھی استوار کی گئیں تھیں۔ اس وقت سرمایہ داری یقیناً ایک ترقی پسند نظام تھا۔ اس انقلاب کے ادھورے سفر کو 1861ء کی خانہ جنگی میں مکمل کیا گیا جب ابراہام لنکن کی قیادت میں امریکہ کی جنوبی ریاستوں کے رجعتی عناصر کو شکست فاش دے کر سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو مستحکم کیا گیا۔

لیکن آج سرمایہ دارانہ نظام آخری ہچکیاں لے رہا ہے اور امریکہ جیسے ملک میں بھی کروڑوں لوگوں کو بھوک اور بیماری میں دھکیل رہا ہے۔ امریکہ میں افراط ِزر اس وقت چالیس سالہ ریکارڈ توڑ کر 8 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ شرح نمو گراوٹ کا شکار ہے۔ امریکی سٹاک ایکسچینج بھی بد ترین گراوٹ کا شکار ہے اور امریکہ عالمی سطح پر تیل کی سپلائی پر اپنی اجارہ داری کھوتا جا رہا ہے۔ اسی تمام تر بحران کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور آنے والے عرصے میں مہنگائی اور بیروزگاری کا طوفان امریکہ میں کروڑوں افراد کو مزید غربت میں دھکیلے گا۔ اس دوران امیر ترین افراد کی دولت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور امریکہ کے ایک فیصد افراد ملک کی کُل دولت کے 32.3 فیصد کے مالک ہیں جبکہ غریب ترین پچاس فیصد آبادی کُل دولت کے صرف 2.6 فیصد کی مالک ہے۔ واضح طور پر طبقاتی تفریق بڑھتی جا رہی ہے اور اگلی خانہ جنگی طبقاتی بنیادوں پر لڑے جانے کی پیش گوئی کی جارہی ہے جس میں امریکہ کا محنت کش طبقہ امیر ترین افراد کے خلاف علم بغاوت بلند کرے گا۔ اس دوران امریکہ کی مزدور تحریک بھی ایک طویل عرصے کی نیند سے بیدار ہوکر انگڑائی لے رہی ہے اور امیزون سے لے کر ایپل تک جیسی کمپنیوں میں یونین سرگرمی اور ہڑتالوں کی جانب پیش قدمی بڑھ رہی ہے۔ آنے والے عرصے میں اس جانب سفر زیادہ تیزی سے ہو گا اور امریکہ کا حکمران طبقہ اپنے اقتدار کو بچانے کی کوششوں میں زیادہ سے زیادہ مصروف ہو گا۔ پہلے ہی ٹرمپ کے دور اقتدار میں عوامی تحریک کے دوران وائٹ ہاؤس پر براہ راست حملہ ہو چکا ہے جس کے دوران دنیا کے طاقتور ترین ملک کا سربراہ زیر زمین بنکر میں چھپ کر خوف کے عالم میں کئی گھنٹے گزار چکا ہے۔

امریکہ کے علاوہ یورپ کے طاقتور سرمایہ دارانہ ممالک کی صورتحال بھی مختلف نہیں اور وہاں بھی بدترین مالیاتی بحران اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ سب سے شدید بحران اس وقت برطانیہ میں ہے جو یورپ کی سب سے مستحکم معیشت سے اب سب سے غیر مستحکم اور بحران زدہ معیشت بن چکا ہے۔ افراطِ زر اس وقت دس فیصد سے زائد ہے جو آئندہ چند ماہ میں دگنا ہونے کی پیش گوئی ہے جبکہ معیشت تیزی سے سکڑ رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر معیشت کی بحالی کی تمام کوششیں بحران کو مزید گہرا کررہی ہیں۔ ستمبر میں براجمان ہونے والی نئی وزیر اعظم لیز ٹرس ایک ماہ میں ہی تاریخ کی غیر مقبول ترین وزیر اعظم بن کر مستعفی بھی ہو چکی ہیں۔ اس نئی وزیر اعظم نے درحقیقت بحران کو حل کرنے کے لیے سرمایہ داروں پر ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی تھی لیکن اس کا جواب معیشت کی مزیدگراوٹ کی شکل میں نکلا اور برطانوی پاؤنڈ امریکی ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے پانچ دہائیوں کی کم ترین سطح پر جا پہنچا اور بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ برطانیہ سے باہر منتقل ہو گیا۔ اس عمل پر آئی ایم ایف جیسے ادارے نے بھی برطانوی وزیراعظم کی سرزنش کی جبکہ پہلے یہ ادارہ صرف غریب ممالک کو ہی ایسا کہتا دیکھا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ آنے والے عرصے میں ایک ترقی پذیر ملک بن سکتا ہے۔ اس دوران اس کی ٹوری پارٹی مقبولیت میں تین دہائیوں کی نچلی ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جبکہ پارٹی کے اندر موجود خانہ جنگی عروج پر ہے۔ اس دوران مزدور تنظیموں کی اجرتوں میں اضافے اور دیگر مطالبات کے لیے ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے اور ایک ملک گیر عام ہڑتال کی بحث زور پکڑتی جا رہی ہے۔ ان سردیوں میں برطانیہ سمیت جرمنی، فرانس، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں لوڈ شیڈنگ کے واضح امکانات ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سخت سردی میں کروڑوں لوگوں کو یورپ میں ہیٹر کی سہولت میسر نہیں ہوگی اور انہیں ٹھٹھرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث آبادی کا ایک خاطر خواہ حصہ اس سہولت سے یکسر محروم ہو جائے گا اور مستقل بنیادوں پر سخت سردی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوگا۔ جرمنی، فرانس اور اٹلی کی معیشتیں بھی کساد بازاری اور بدترین مالیاتی بحرانوں کی زد میں ہیں اور آنے والے مہینوں اور سالوں میں اس بحران کے حل کے کوئی امکان نہیں ہیں۔ یہ تمام صورتحال بہت بڑے پیمانے پر طبقاتی جدوجہد کو مہمیز دے گی اور ہر طرف ہمیں حکمران طبقات کے خلاف عوامی تحریکیں ابھرتی نظر آ رہی ہیں۔ فرانس میں پہلے ہی تیل کی صنعت کے محنت کشوں کی ہڑتال جاری ہے جس پر ریاستی جبر کے نتیجے میں 18 اکتوبر کوملک گیر عام ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔

اس دوران امریکی سامراج اور یورپی طاقتوں کی عالمی سطح پر اجارہ داری بھی کمزور ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔یوکرائن کی جنگ نے ان طاقتوں کی تمام تر قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اپنی تمام تر عسکری قوت کے باوجود یہ طاقتیں یوکرائن میں اپنی کٹھ پتلی حکومت کے دفاع کے لیے براہِ راست میدان میں نہیں اتر سکیں اور صرف مالی اور عسکری امداد کے ذریعے ہی جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس جنگ میں جس وقت روس کا پلڑا بھاری تھا اس وقت پورے یورپ میں اس جنگ کے پھیلنے کا خوف اور سراسیمگی طاری تھی۔ حکمران طبقے نے اس موقع کو بھی اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اور دفاع کے لیے مختص بجٹ میں بہت بڑے اضافے کر دیے جس کا براہ راست فائدہ اسلحہ ساز کمپنیوں کے مالکان کو پہنچا۔ لیکن اس دوران گیس اور تیل کے بحران اور مہنگائی کی شدید لہر نے عوام کی حکمرانوں کے خلاف نفرت میں بھی اضافہ کیا اور سماج کے تمام تر تضادات ابھر کر سطح پر آنے لگے۔ اس تمام عمل میں ان ممالک کی سامراجی قوت کی حدود بھی پوری دنیا پر واضح ہو گئیں اور عالمی سطح پر طاقتوں کا توازن بھی واضح انداز میں تبدیل ہونے لگا ہے۔ اس صورتحال میں عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام میں پہلے موجود ہم آہنگی، تعاون اور جڑت ٹوٹنے لگی ہے اور مختلف بلاک ترتیب پاتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک جانب روس اور چین کا بلاک واضح شکل بناتا ہوا نظر آ رہا ہے جبکہ دوسری جانب یورپی یونین اور امریکہ کا پہلے والا اتحاد اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور ان میں اختلافات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ ایسے ہی سعودی عرب جیسے ممالک جو اپنے جنم سے لے کر آج تک سامراجی طاقتوں کے ٹکروں پر ہی پلتے رہے ہیں، آج اپنی نسبتاً آزادانہ پالیسیاں بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لیے تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ یہ تمام عمل سرمایہ د ارانہ نظام کو کسی بھی صورت مضبوط نہیں کرے گا اور نہ ہی کوئی بھی بلاک مضبوط ہو گا اور نہ مستقل بنیادوں پر قائم رہ سکے گا۔ یہ تمام عمل تضادات اور ٹوٹ پھوٹ سے بھرپور ہوگا اور اس میں تمام ممالک میں مالیاتی بحران، ریاست اور سیاست کا بحران اور عوامی تحریکوں کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوگا اور نظام کا بحران گہرا ہوتا ہوا کھائی میں گرتا چلا جائے گا۔

ایسی صورتحال میں یہاں پر موجود کوئی بھی شخص اگر سامراجی طاقتوں کی حکمرانی کو ازلی اور ابدی بنا کر پیش کرتا ہے یا انہیں مافوق الفطرت طاقت ودیعت کرتے ہوئے ہر سماجی عمل کو کنٹرول کرنے کی صلاحیتوں کا مالک سمجھتا ہے تو وہ خود احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ ماضی کے تمام تر انقلابات کی تاریخ واضح کرتی ہے کہ اگر سامراجی طاقتیں اپنے عروج کی انتہا پر بھی ہوں پھر بھی عوامی تحریکوں اور انقلابات کا رستہ نہیں روک سکتیں اور انقلابات ان طاقتوں کا سینہ چیرتے ہوئے اپنا جھنڈا گاڑ دیتے ہیں اور تمام تر مشکلات کے باوجود کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ انقلابات کے پسپا ہونے یا پرانے نظام کی حدود میں مقید رہ جانے کی زیادہ تر وجہ کوئی بیرونی قوت یا حکمران طبقہ نہیں ہوتا بلکہ اسی انقلاب کی قیادت کرنے والے افراد ہوتے ہیں جو درست نظریات اور لائحہ عمل کی عدم موجودگی کے باعث پوری تحریک اور تاریخی عمل کو ہی زائل کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

پاکستان کا مالیاتی بحران

عالمی سطح پر موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے اثرات پاکستان جیسی کمزور معیشت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں اور یہ بھی دیوالیہ پن کے دہانے پر لڑکھڑا رہی ہے۔ سری لنکا کی معیشت پہلے ہی دیوالیہ ہو چکی ہے اور اس کے سماج پر اثرات اور عوامی تحریک کا ابھار پہلے ہی دنیا بھر میں دیکھا جا چکا ہے۔ پاکستان کی معیشت کے متعلق بھی یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ یہ سامراجی قرضوں کے بوجھ تلے دبتے ہوئے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ موجودہ حکومت کے بننے کے بعد یہ واویلا زور و شور سے سنائی دیا کہ ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے اور اگر آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہ ہوا تو ملک مکمل طور پر دیوالیہ ہو جائے گا۔ اس شور شرابے میں بجلی، پٹرول سمیت تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا اور عوام کا خون نچوڑنے کا عمل تیز تر کر دیا گیا۔ اس دوران روپے کی قدر میں بھی تیز ترین کمی ہوئی اور اس بحران کا تمام تر بوجھ بھی عوام پر لاد دیا گیا۔ سرمایہ داروں پر کوئی ٹیکس نہیں لگائے گئے اور نہ ہی حکمرانوں کی عوام کے پیسوں سے جاری پر تعیش زندگیوں میں کوئی کٹوتی کی گئی۔اس تمام تر پالیسی کی بنیاد یہ بنائی گئی کہ ایک دفعہ آئی ایم ایف سے قرض کی قسط کا اجرا ہو گیا تو معاملات بہتری کی جانب بڑھیں گے اور حالات بہتر ہو جائیں گے۔ لیکن آئی ایم ایف کی قسط ملنے کے باوجود معاشی بحران گہرا ہوتا گیا اور اب دوبارہ ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکانات واضح ہو رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ دسمبر کے مہینے میں پاکستان نے جو بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کرنی ہے اس کے لیے درکار رقم موجود نہیں اور یہ ممکن ہے کہ ان قرضوں کی عدم ادائیگی کے باعث ملک کو دیوالیہ قرار دے دیا جائے۔ ملک کا انتہائی ماہر سمجھا جانے والے سزا یافتہ وزیر خزانہ بھی 27 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ری شیڈولنگ کی کوشش کر رہا ہے یعنی کہ ان قرضوں کی ادائیگی میں مزید کچھ مہینوں کی مہلت مل سکے۔

اس دوران ملک کا وزیر اعظم شہباز شریف پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ دوست ممالک بھی پاکستان کے معاشی بحران کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے ہیں اور مزید امداد کی توقع نہیں۔ چین، سعودی عرب اور دیگر ممالک سے اب نئے قرضے ملنے کی امید بہت کم ہے بلکہ وہ پہلے سے دیے گئے قرضوں کے ڈوب جانے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر موجود ایک ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ گرا کر بد ترین کر دی ہے۔ اپنی رپورٹ میں اس ایجنسی نے کہا ہے کہ پاکستانی ریاست کو قرضہ دینے والا اپنے رسک پر ہی ایسا کرے گا کیونکہ ان قرضوں کے ڈوب جانے کے واضح امکانات ہیں۔ ایک اور انٹرنیشنل لیول کے بینک جے پی مارگن نے بھی اپنی رپورٹ میں اس امکان کو دہرایا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان سے قرضوں کی واپسی کے امکانات تیزی سے کم ہو چکے ہیں اور معیشت ڈوب رہی ہے۔

اس ملک کے حکمرانوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں کو بھی اپنی سرمایہ دارانہ معیشت کی بحالی کے لیے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ پہلے بھی قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد ملنے والی تمام امداد حکمرانوں کی لوٹ مار کی نذر ہوتی رہی ہے اور متاثرہ عوام بھوک، بیماری اور ذلت کے ہاتھوں موت کے منہ میں جاتے رہے ہیں۔ اس دفعہ بھی سیلاب کی بدترین تباہی کے بعد یہی کچھ ہوا ہے۔ لیکن دوسری جانب حکمران طبقے کو بھی اس دیوالیہ معیشت کو چلانے اور اپنی لوٹ مار کے لیے بڑے پیمانے پر امداد نہیں مل سکی جس کی وجہ سے ان کے چہرے لٹکے ہوئے ہیں اور وہ انتہائی للچائی ہوئی نظروں سے مختلف سامراجی ممالک کی جیبوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کبھی شاید سیلاب یا غریبوں کی داد رسی کے نام پر ان کی جھولی میں چند ٹکے ڈال دیے جائیں اور وہ انہیں آسانی سے ہڑپ کر جائیں۔

لیکن سب سے دلچسپ صورتحال ان نام نہاد دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی ہے جو اس بد ترین بحران کے ”جادوئی“ حل پیش کر رہے ہیں۔ زیادہ تر تجزیہ نگار اور معیشت دان آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر پوری تندہی سے عمل درآمد کا مشورہ دے رہے ہیں اور اسی کو راہِ نجات قرار دے رہے ہیں۔ لیکن یہ کوئی بھی نہیں بتاتا کہ گزشتہ سات دہائیوں سے انہی مالیاتی اداروں اور سامراجی طاقتوں کی متعین کردہ پالیسیوں کا نتیجہ اس بحران کی شکل میں نکلا ہے جس میں آبادی کی وسیع اکثریت بدترین بھوک، بیماری اور بدحالی کا شکار ہے۔ ایسے میں ان ہی اداروں کی پالیسیوں پر مزید عملدرآمد سے بحران کیسے حل ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر امریکہ اور یورپ کے ان پالیسی سازوں اور ”اعلیٰ“ دماغوں میں اتنی ہی اہلیت ہوتی تو وہ امریکہ برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ معیشتوں کے بحران کو کیوں نہ حل کر لیتے۔ درحقیقت یہ بحران ان ہی کی پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ یہی معیشت دان پہلے کہتے تھے کہ افراط زر ماضی کا قصہ بن چکا ہے اور اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے اور اسی لیے امریکہ اور یورپ میں ریاستوں نے نوٹ چھاپنے کے ایک طویل سلسلے کو جاری رکھا جس کے اثرات اب نظر آ رہے ہیں۔ 2008ء سے پہلے یہ کہتے تھے کہ معاشی بحران اور زوال اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں لیکن 2008ء کے واقعات نے ان کو چونکا کر رکھ دیا۔ اسی طرح امریکی سامراج کی لا امتناہی طاقت عراق، شام، افغانستان اور اب یوکرائن میں رسوا ہوتے دیکھ کر بھی یہ اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر پا رہے اور نہ ہی یورپ کے انرجی بحران کے اثرات کا مکمل جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے میں ان لوگوں سے یہ توقع رکھنا کہ ان کے مشوروں اور پالیسیوں کے تحت پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکالا جا سکتا ہے ایک دیوانے کا خواب ہے۔

کچھ نام نہاد دانشور یہ کہتے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ ہمیں غریب ممالک کے قرضے معاف کروانے کی کمپئین کرنی چاہیے جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ سرمایہ داروں پر مزید ٹیکس لگا دیے جائیں یا دفاعی بجٹ میں کچھ کمی کر دی جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ لیکن یہ دونوں اقدامات بھی اسی نظام کے تحت اول تو ہوتے دکھائی نہیں دیتے اور اگر بہت بڑے عوامی دباؤ اور تحریکوں کے باعث یہ ممکن ہو بھی جائیں تو اس نظام کے اصولوں کے تحت کچھ عرصے بعد یہ دونوں اقدامات واپس لے لیے جائیں گے اور سرمائے کا ارتکاز پہلے کی نسبت زیادہ بڑے پیمانے پر چند ہاتھوں میں ہو جائے گا۔سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد مزدور کی محنت کااستحصال ہے جس میں یہ اصول ہے کہ امیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے اور غریب غریب تر۔ سرمایہ دار طبقہ نہ صرف ذرائع پیداوار پر قابض ہوتا ہے بلکہ سیاسی اور ریاستی طاقت کو بھی اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اگر کسی عوامی تحریک کے دباؤ میں اسے اجرتوں میں اضافہ کرنا پڑے یا کچھ دیگر مراعات مزدور طبقے کو دینی پڑیں تو اس نظام کا گھن چکر دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو کچھ عرصے بعد پہلے سے بھی بڑے پیمانے پر بڑھا دیتا ہے اور سماج کی پیدا کردہ تمام تر دولت کا بڑا حصہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتا ہے جبکہ دوسری جانب بھوک، بیماری اور ذلت کا سمندر موجود ہوتا ہے۔ کارل مارکس نے اپنی تحریروں میں اس تمام عمل کی شاندار وضاحت کی ہے اور آج یہ عمل پوری دنیا میں واضح طور پر دیکھا بھی جا سکتا ہے۔ سرمایہ داروں کے منافعوں یا دولت پر اضافی ٹیکس لگانے سے اگر دولت کی منصفانہ تقسیم اس نظام میں ممکن ہو سکتی تو امریکہ اور یورپ میں کبھی بھی امیر اور غریب کی اتنی بڑی خلیج موجود نہ ہوتی جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ اسی طرح دفاعی اخراجات میں کٹوتی کا مطلب اسلحہ ساز کمپنیوں کے منافعوں پر ضرب لگانے کے ساتھ ریاست کے ادارے کو کمزور کرنا ہے جس کا اس نظام میں مقصد ہی مزدور طبقے کو غلام بنا کر رکھنا ہوتا ہے۔ ایسے میں اس ریاست کے تحت اپنی حاکمیت قائم رکھنے والوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنی طاقت کو کم کریں گے ایسا ہی ہے جیسے کسی درندے سے رحم کی اپیل کرنا۔

اسی طرح عالمی سطح پر غریب ممالک کے قرضے معاف کرنے کی روایت اگر شروع ہوگئی تو اس نظام کی بنیادیں ہی ختم ہو جائیں گی اور ہر طرف قرضے معاف کرنے کا مطالبہ پیدا ہوگا جو اس نظام کی بنیادوں کے ہی خلاف ہے۔ اگر یہ تاثر قائم ہو جائے کہ قرضے معاف کرنے کے لیے ہی دیے جانے ہیں تو بینکوں، سود خور کمپنیوں اور پورے مالیاتی نظام کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا اور وہ زمین بوس ہو سکتا ہے۔ یہ بینکوں اور سود خوروں کا نظام لوٹ مار کرنے اور امیروں کی حاکمیت قائم رکھنے کے لیے قائم ہے اس میں غریب کو بھوک سے مرنے کی تو اجازت ہے لیکن بھوکے کو مفت میں کھانا دینے یا مرتے ہوئے مریض کو مفت ادویات دینے کی اجازت نہیں۔ اس ظالمانہ نظام سے ایسی توقعات رکھنا ہی بیوقوفی ہے اور اگر کچھ قرضے بالفرض ختم بھی ہوجائیں تو یہ بحران کچھ عرصے کے لیے ہی ٹلے گا اور کچھ عرصے بعد پھر یہ صورتحال واپس اسی نکتے پر پہنچ جائے گی اور دیوالیہ پن کا امکان پھر موجود ہوگا۔ اسی طرح قرضوں کی ری شیڈولنگ کا مقصد بھی اس معیشت کو مرنے سے بچانے کے لیے کچھ سانسیں ادھار دینے کے مترادف ہو گا جیسے مریض کو وینٹی لیٹر پر ڈال دیا جائے لیکن یہ کبھی بھی مستقل حل نہیں اور نہ ہی کوئی بھی بنیادی مسئلہ حل ہوگا۔

ایسے میں کچھ لوگ امریکہ اور یورپ کی بجائے چین اور روس پر انحصار کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ دونوں ممالک بھی آج سرمایہ دارانہ نظام کا ہی حصہ ہیں اور ان سامراجی ممالک کی معیشتیں بھی اسی عوام دشمن نظام کی بنیاد پر چل رہی ہیں۔ اس نظام کا بحران چین اور روس کی معیشتوں کو بحران میں دھکیل رہا ہے اور وہاں بھی مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل موجود ہیں۔ چین میں رئیل اسٹیٹ کی دیوہیکل کمپنی ایور گرانڈ دیوالیہ ہو چکی ہے اور دیوالیہ پن کی لہر رئیل اسٹیٹ کے پورے شعبے میں پھیل چکی ہے جو چین کی معیشت کا ایک چوتھائی کے قریب ہے۔ایسے میں ان معیشتوں پر انحصار کرنا کسی مسئلے کو حل نہیں کرے گا۔ پہلے ہی پاکستان کے کُل بیرونی قرضوں کا ایک تہائی چین کے قرضوں پر مشتمل ہے اور موجود بحرانی کیفیت کی ایک وجہ چین کے قرضے اور ان کی بلند شرح سود بھی ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ایک کو چھوڑ کر دوسری سامراجی طاقت کے تلوے چاٹنے سے اگر تمام مسئلے حل ہو جاتے تو اس نظام میں ماضی میں کبھی انقلاب ابھرتے ہی نہیں اور نہ ہی نظام بحرانوں کا شکار ہوتا۔ اس نظام میں رہتے ہوئے ان مالیاتی بحرانوں کا آنا ناگزیر ہے اور یہ نظام عالمی سطح پر اب جس بحران کا شکار ہو چکا ہے اس میں گزشتہ دہائیوں کا معیار زندگی اور سہولیات عوام کی اکثریت کے لیے برقرار رکھنا ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ نظام اگر مزید چلتا رہا تو یہ لاکھوں عوام کی مسلسل بلی چڑھا کر ہی قائم رہ سکے گا اس کے علاوہ اس کے پاس دوسرا کوئی رستہ نہیں۔

پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں یہ امکانات موجود ہیں کہ دیوالیہ ہونے کے باعث ملک میں غذائی ضروریات، ادویات اور دیگر بنیادی اشیا کی شدید قلت پیدا ہوجائے اور بھوک اور بیماری سے مرنے والوں کی تعداد میں تیزی ترین اضافہ ہو۔ پٹرول اور ڈیزل کی قلت کی وجہ سے بجلی کی پیداوار کم ترین سطح پر پہنچ جائے اور ملک کا بڑا حصہ مستقل لوڈ شیڈنگ کا شکار ہوجائے۔ دوسری جانب اسی باعث سفر کی سہولیات کا پہیہ رک جائے۔ ایسی صورتحال میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تیز ترین گراوٹ ہو سکتی ہے اور عوام کی تمام تر بچتیں اور جمع پونجی محض کاغذ یا اعداد وشمار کا ڈھیر بن کر رہ جائے۔ بیروزگاری کا عفریت عام ہو جائے اور بنیادی راشن کے حصول کے لیے روزانہ کئی گھنٹے تگ و دو کرنا عمومی روٹین بن جائے۔ اسی طرح تعلیم اور علاج کی سہولیات کا خاتمہ سمیت دیگر بہت سے ایسے امکانات ہیں جو آنے والے عرصے میں عوام کے سامنے حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں۔ ایسے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث قدرتی آفات، وبائیں اور دیگر مسائل بھی کئی گنا زیادہ شدت اختیار کر سکتے ہیں اور پہلے کی نسبت تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ اس تمام عرصے میں بھی حکمران طبقے کے اپنی مراعات سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہونے کی توقع کرنا بیوقوفی ہوگی اور وہ اس تمام صورتحال کو قسمت کا لکھا بنا کر پیش کریں گے اور یہی کہیں گے کہ وہ عوام کی خوشحالی کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ اپنی لوٹ کا مال محفوظ مقام پر منتقل کر رہے ہوں گے۔

اگر یہ سب انتہائی اقدام تک صورتحال ایک جھٹکے میں نہیں بھی پہنچتی تو بتدریج اسی جانب بڑھتی رہے گی اور وقتاً فوقتاً ایک یا دوسری مصیبت نازل ہونے کی رفتار میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ آئی ایم ایف یا کسی بھی دوسرے سامراجی ادارے کی پالیسیوں کے نتیجے میں کوئی بھی افاقہ ہونے کے امکانات موجود نہیں بلکہ یہ تمام ادارے اپنی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ تمام عمل ہر قسم کے ہیجانی واقعات اور تضادات سے بھرپور ہوگا اور سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھے گا۔

کیا پاکستان میں انقلابی تحریک ابھر سکتی ہے؟

یہ تمام عمل اس ملک کے سماج کو اوپر سے لے کر نیچے تک مسلسل جھنجوڑ رہا ہے اور تمام سماجی رشتوں کو ان کی بنیادوں سے ہلا رہا ہے۔ ایسے میں بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جو کسی بھی انقلابی تحریک کے ابھرنے کے امکانات کو مکمل طور پر رد کر دیتے ہیں اور اس تمام صورتحال میں خوف اور سراسیمگی کا اضافہ کرتے ہوئے رجعت کے حاوی ہونے کا تناظر پیش کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان تمام افراد کا محنت کش طبقے کی طاقت پر بالکل بھی یقین نہیں ہوتا اور وہ اس طبقے کے انقلابی پوٹینشل سے لاعلم ہونے کے ساتھ ساتھ موجود ریاستی مشینری کی طاقت اور جبر کے سامنے سر نگوں ہوتے ہیں۔ مارکسی فلسفے جدلیاتی مادیت کے بنیادی اصولوں سے عدم واقفیت بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے کیونکہ اس فلسفے کے مطابق ہر شے جلد یا بدیر اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ بظاہر نظر آنے والی سماج پر مسلط یہی بڑی طاقتیں عوامی تحریکوں کے دوران ہوا میں معلق ہو جاتی ہیں اور ان دانشوروں کو مجہول اور جاہل نظر آنے والا محنت کش طبقہ اپنے انقلابی اقدامات کے ذریعے تاریخ کا رخ موڑ دیتا ہے۔ یہ دانشور اور تجزیہ نگار اس ملک کے محنت کش طبقے کی حقیقی تاریخ کو بھی یکسر فراموش کر دیتے ہیں اور اپنی بنائی ہوئی تاریخ سے یہی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہاں کبھی کوئی انقلابی تحریک نہ پہلے کبھی ابھری ہے اور نہ دوبارہ ابھرے گی۔

1968-69 کے طوفانی سالوں کے دوران پاکستان کے محنت کشوں کے ایک احتجاج کا منظر

 

اگر بٹوارے سے پہلے ابھرنے والی مزدور تحریکوں کا فی الحال تذکرہ نہ بھی کریں تو 1968-69ء کی انقلابی تحریک کا ذکر انتہائی اہم ہے۔ اس تحریک کے دوران محنت کش طبقے نے اس وقت کے طاقتور ترین مارشل لا کو اکھاڑ کر پھینک دیا تھا اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو چیلنج کر دیا تھا۔ مزدوروں نے پورے ملک میں فیکٹریوں پر قبضے شروع کر دیے تھے اور ہر طرف جاگیروں پر مزارعوں کے قبضوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان خود اپنی ڈائری میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ ریاستی مشینری ہوا میں معلق ہے اور ملک کا تمام تر کنٹرول مزدوروں کی کمیٹیوں کے پاس ہے۔ نومبر 1968ء سے لے کر 25 مارچ 1969ء تک متعدد ہڑتالیں اور عام ہڑتالیں ہوئی تھیں اور بالآخر ایک غیر معینہ مدت کی ملک گیر عام ہڑتال کے نتیجے میں جنرل ایوب خان استعفیٰ دے کر گھر چلا گیا تھا۔ اس وقت اگر ایک انقلابی پارٹی ہوتی تو ملک میں سوشلسٹ انقلاب کیا جا سکتا تھا اور صرف مرکز سے اعلامیہ جاری کرنے کی ضرورت تھی اور عملی طور پر ملک کا تمام تر کنٹرول مزدور طبقے کے پاس تھا۔ فوج، پولیس اور ریاستی جبر کے تمام ادارے ہوا میں معلق ہو چکے تھے اور عملی طور پر مزدور کمیٹیوں کے احکامات کے پابند تھے۔ اس وقت اس سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے اسے جڑسے اکھاڑا جا سکتا تھا لیکن ایک انقلابی پارٹی اور مارکسی نظریات سے لیس قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ انقلاب کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد کے عرصے میں حکمران طبقے نے انقلابی تحریک سے بد ترین انتقام لیا اور اسے خون میں ڈبونے کی پوری کوشش کی لیکن اس کے باوجود محنت کش اپنے لیے بہت سی حاصلات لینے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن اس نظام کی حدودو قیود میں رہتے ہوئے وہ تمام تر حاصلات بعد ازاں چھین لی گئیں اور اب ہم موجودہ بدترین صورتحال تک پہنچ چکے ہیں۔ اس سے نجات کا رستہ دوبارہ 1968-69ء سے بڑے پیمانے پر تاریخ کو دہرانے پر منحصر ہے اور اس کو منزل تک پہنچانے کے لیے انقلابی پارٹی کی تعمیر کی ضرورت ہے۔

انقلاب روس 1917ء اور آج کا پاکستان

آج بھی دنیا بھر میں ابھرنے والی انقلابی تحریکوں کے لیے 1917ء کا انقلاب روس مشعل راہ ہے اور اسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج دنیا بھر کا محنت کش طبقہ اپنی نجات حاصل کر سکتا ہے۔ اس انقلاب کے تمام تر عمل، اس کی تیاری اور اس کے بعد ہونے والے واقعات پر مارکسی اساتذہ بہت کچھ لکھ چکے ہیں جو آج کے عہد کے انقلابیوں کے لیے اہم اسباق سے بھرپور ہے۔ دوسری جانب آج کے عہد میں بہت سے اعتراضات کا جواب دینے اور بہت سے سوالات کا جواب دینے کے لیے اس انقلاب کے تحت ہونے والے اقدامات اور ان اقدامات کے نتیجے میں ہونے والی انسانی تاریخ کی تیز ترین ترقی کی مثالیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

روس میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کے بعد جو اقدامات کیے گئے اور سرمایہ دارانہ معیشت کی جگہ منصوبہ بند معیشت قائم کی گئی تو یہ ملک دو دہائیوں میں دنیا کی ترقی یافتہ معیشتوں کا مقابلہ کرنے لگا۔

1917ء کا روس آج کے پاکستان سے بھی پسماندہ اور پچھڑا ہوا ملک تھا جس میں آبادی کا ایک بڑا حصہ زراعت سے وابستہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود ملک میں سرمایہ دارانہ رشتے حاوی ہوچکے تھے اور مزدور طبقہ پیداوار میں کم حجم کے باوجود کلیدی کردار ادا کر رہا تھا۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کے بعد یہاں جو اقدامات کیے گئے اور سرمایہ دارانہ معیشت کی جگہ منصوبہ بند معیشت قائم کی گئی تو یہ ملک دو دہائیوں میں دنیا کی ترقی یافتہ معیشتوں کا مقابلہ کرنے لگا۔ اس پسماندہ ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے اتنی تیز ترین ترقی کی کہ پہلا مصنوعی سیارچہ اور خلا میں پہلا انسان بھیجنے والا یہی ملک تھا اور سرمایہ دار ممالک اس معاملے میں کہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ ہر شخص کو روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی کے ساتھ ساتھ علاج اور تعلیم سمیت تمام بنیادی سہولیات کی مفت فراہمی کا آغاز ہوا جس نے سرمایہ دارانہ ممالک کو بھی فلاحی ریاست کی جانب بڑھنے پر مجبور کیا۔ خواتین کو سماجی جکڑ بندیوں سے آزادی ملی اور انہیں طلاق کے حق کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی آزاد کیا گیا تاکہ وہ سماج کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔ خلا میں جانے والی پہلی خاتون کا تعلق بھی سوویت روس سے ہی تھا۔ اسی طرح مظلوم قومیتوں کو بھی قومی جبر سے مکمل چھٹکارا حاصل ہوا۔

اس پسماندہ ملک میں برپا ہونے والے مزدوروں کے انقلاب کو کچلنے کے لیے اس وقت دنیا بھر کی سامراجی طاقتوں نے اس نوزائیدہ مزدور ریاست پر ہلہ بول دیا تھا لیکن دنیا بھر کے مزدور طبقے کی حمایت اور سرخ فوج کے سپاہیوں کی انقلابی جنگ کے باعث ان سامراجی طاقتوں کو شکست فاش ہوئی اور سوشلسٹ انقلاب کی فوقیت پوری دنیا پر واضح ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ میں بھی سٹالن کی تمام تر غداریوں اور مصالحانہ پالیسیوں کے باوجود منصوبہ بند معیشت کی فوقیت کے باعث سوویت یونین ہٹلر کی افواج کو بدترین شکست دینے میں کامیاب ہوا اور پوری دنیا پر سوشلسٹ نظریات کی برتری ثابت ہوئی۔ اس انقلاب کی تمام تر حاصلات اور کامیابیوں پر الگ سے مضامین موجود ہیں اور ساتھ ہی اس مزدور ریاست پر براجمان بیوروکریٹک پرت کی غداریوں کے باعث اس کی زوال پذیری اور انہدام کی تفصیلات کا بھی مختلف تصنیفات میں ذکر ہو چکا ہے۔ لیکن یہاں ضروری ہے کہ یہ واضح کیا جائے کہ اگر اسی طرز کا انقلاب محنت کش طبقے کی حمایت اور جڑت کے تحت آج کے عہد میں پاکستان میں کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تو فوری طور پر ایسے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے عوام کے تمام مسائل نہ صرف فوری طور پر حل کیے جائیں بلکہ ان سے ہمیشہ کے لیے بھی نجات حاصل کر لی جائے۔

سوشلسٹ انقلاب کے بعد پاکستان؟

اس ملک کے مزدور طبقے میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اگر ایک دفعہ وہ حرکت میں آگیا تو اس پورے ملک کو عام ہڑتال کے ذریعے نہ صرف مکمل طور پر جام کر کے رکھ دے بلکہ ذرائع پیداوار پر مکمل کنٹرول حاصل کرتے ہوئے انہیں اپنی ملکیت میں لے۔ کسی بھی انقلاب کا آغاز ملکیت کے رشتوں کو چیلنج کرنے سے ہوتا ہے۔ موجودہ نظام کو نجی ملکیت کا نظام بھی کہا جاتا ہے اور اس نظام میں کسی بھی مذہبی شخصیت اور ریاستی ادارے سے زیادہ مقدس ترین شے نجی ملکیت ہے۔ تمام تر عدالتیں، پولیس اور فوج اسی مقدس ترین شے کے تحفظ کے لیے موجود ہیں اور تمام تر قوانین بھی اسی مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ایک سوشلسٹ انقلاب سب سے پہلے اسی مقدس ترین اور بنیادی شے کو چیلنج کرتا ہے اور نجی ملکیت کا تقدس تسلیم کرنے سے یکسر انکار کر دیتا ہے۔ موجودہ نظام میں فیکٹریوں، معدنی ذرائع، جاگیروں، بینکوں اور کمپنیوں کی ملکیت کا حق مسلمہ ہے اور کوئی بھی شخص اس نام نہاد ”آفاقی“ قانون سے رو گردانی کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن ایک انقلاب کے دوران محنت کش طبقہ تمام تر ذرائع پیداوار اور معیشت کے کلیدی شعبوں کی نجی ملکیت کا حق تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اور انہیں نجی ملکیت سے نکال کر اجتماعی ملکیت میں لیتا ہے۔

اس انقلاب کے تحت فیکٹریوں کی ملکیت کا حق سرمایہ داروں کا نہیں بلکہ محنت کش طبقے کا اجتماعی طور پر ہوتا ہے۔ یہ حق ایک فیکٹری تک محدود نہیں رہتا بلکہ ملک گیر سطح تک پھیلتا ہے اور ہر طرف مزدور فیکٹریوں پر قبضے کرتے ہوئے اور انہیں اپنی ملکیت میں لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح جاگیروں پر ملکیت کا حق وہاں پر موجود مزارعوں کا اور اجتماعی طور پر مزدور ریاست کا ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، معدنیات کی کانوں اور معیشت کے دیگر کلیدی شعبوں کا ہوتا ہے اور بتدریج تمام شعبے اجتماعی ملکیت میں آ جاتے ہیں۔ 1968-69ء کے انقلاب میں یہ عمل ہمیں یہاں بھرپور انداز میں ہوتا ہوا نظر آیا تھا اور جہاں لوگوں نے یہ کہہ کرمکانوں، بسوں اور ٹرینوں کے کرائے دینے سے انکار کر دیا کہ ہم ان کے مالک ہیں وہاں مزدوروں نے بھی فیکٹریوں پر قبضوں کا آغاز کر دیا تھا اور انہیں اپنے کنٹرول میں لے کر منصوبہ بندی کے تحت پیداوار کا آغاز کر دیا تھا۔

ایسے میں انقلابی پارٹی جب مزدوروں کی اکثریت کی حمایت لے کر اقتدار میں آنے کا اعلان کرتی ہے تو وہ سب سے پہلے ان تمام اقدامات کو قانون کا درجہ دینے کا حکم صادر کرتی ہے۔ یعنی کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر فیصلہ کن حملے سے آغاز کیا جاتا ہے اور نجی ملکیت کے نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے اجتماعی ملکیت کے نظام کا آغاز کیا جاتا ہے۔یہاں پر ایسے اقدامات کرنے کا مطلب ہے کہ پٹواری کے ادارے سے لے کر رجسٹریوں کے نظام تک اور ڈپٹی کمشنر سے لے محکمہ مال تک پورے کا پورا نظام ختم ہو جائے گا۔ اسی بنیاد پر عدالتوں اور تمام تر قوانین کا بھی خاتمہ ہو جائے گا جو برطانوی سامراج نے یہاں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد رکھتے ہوئے ڈیڑھ سو سال قبل بنائے تھے اور وہ آج بھی مسلط ہیں۔ اسی طرح پولیس اور بورژوا فوج کے اداروں کا بھی مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا اور مزدور ریاست کے دفاع کے لئے مسلح محنت کشوں پر مشتمل سرخ فوج تخلیق کی جائے گی۔ اس نظام کی بنیاد پر فیصلہ کن وار کے بعد مالیاتی نظام کا کردار بھی مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا اور اسے بھی بنیادوں سے تبدیل کر دیا جائے گا۔

ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد بینکوں میں موجود تمام تر دولت مزدور طبقے کے اجتماعی کنٹرول میں آ جائے گی۔ تمام نجی و سرکاری بینکوں کا خاتمہ کرتے ہوئے مزدور ریاست کے مرکزی بینک کی بنیاد رکھی جائے گی جس کا مقصد قرضوں اور سود کے نظام کو جاری رکھنے کی بجائے منصوبہ بند معیشت کی مدد ہوگا۔ سرمایہ داری کے آغاز پر بینکوں کو بنانے کا مقصد تھا کہ سرمایہ داروں کو قرضوں کی فراہمی کے لیے سرمایہ مہیا ہو سکے اور سرمایہ دار اس قرضے کے ذریعے اپنی پیداوار میں مسلسل اضافہ کر سکے۔ لیکن وقت کے ساتھ مالیاتی سرمائے کی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا اور بیسویں صدی کے آغاز پر، مالیاتی سرمائے نے صنعتی سرمائے پر غلبہ حاصل کر لیا۔ آج کے عہد میں بینک اور مالیاتی ادارے ہی معیشت کی سمت کا تعین کرتے ہیں اور یہ سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحت کیا جاتا ہے۔ تمام تر بینکوں اور مالیاتی اداروں کو مزدور طبقے کے اجتماعی کنٹرول میں لینے سے نہ صرف مالیاتی سرمائے کی اس اجارہ داری کا خاتمہ ہو گا بلکہ سرمائے کے اس نظام اور منافع خوری کا بھی خاتمہ ہوگا۔ سٹاک ایکسچینج خود بخود ختم ہو جائے گی اور سماج میں پیدا ہونے والی دولت کے کلیدی حصے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرنے کے لیے دستیاب ہوں گے۔

سوشلسٹ انقلاب کے بعد آئی ایم ایف سمیت تمام عالمی مالیاتی اداروں کے قرضے دینے سے انکار کر دیا جائے گا اور واضح کیا جائے گا کہ ان قرضوں کی ادائیگی نہ صرف کی جا چکی ہے بلکہ اس سے زائد رقم عوام کی جانب سے واپس کی جا چکی ہے۔ اسی طرح ملکی بجٹ کے اس پچاس فیصد خرچ سے مکمل طور پر جان چھڑوا لی جائے گی۔ یہی کچھ چین سمیت تمام سامراجی ممالک کے قرضوں اور داخلی قرضوں کے ساتھ بھی کیا جائے گا اور منصوبہ بند معیشت کے تحت ان سامراجی قرضوں اور سود کا لین دین مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔

انقلاب کے بعد ملک میں ہونے والی تمام تر امپورٹ اور ایکسپورٹ مزدور ریاست کے زیر کنٹرول ہو گی اور اس میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی منافع خوری، حکمرانوں کی کرپشن اور اسمگلنگ کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ بہت سے لوگ یہ خدشہ بھی ظاہر کریں گے کہ ایسے اقدامات سے عالمی سطح پر ملک کی معاشی ناکہ بندی ہو جائے گی اور یہاں پر اشیائے ضرورت کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی۔ پہلے تو یہ صورتحال موجودہ حالات میں بھی پیدا ہو رہی ہے اور پاکستان ٹماٹر اور پیاز بھی درآمد کرنے کے قابل نہیں رہ پا رہا۔ دوسرا، انقلاب کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی تمام تر اجناس اور پیداوار کا مقصد منافع خوری یا ایکسپورٹ نہیں ہوگا بلکہ اس تمام تر پیداوار سے ملک کے عوام کی ضروریات پوری کی جائیں گی اور اس کے بعد ایکسپورٹ کی کوشش کی جائے گی۔ مزدور ریاست میں ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ، اسمگلنگ وغیر کی گنجائش بالکل بھی موجود نہیں ہو گی اور منڈی کی معیشت کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ اس لیے ملک میں نہ صرف اجناس کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوگا بلکہ عوام کی ضروریات کی تکمیل کی اولین ترجیح کے باعث بہت سی اجناس کی امپورٹ کی ضرورت ہی ختم ہو جائے گی۔ یہی کچھ معدنی وسائل کے ساتھ بھی ہوگا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اس شعبے میں موجود لوٹ مار کا بھی خاتمہ ہوگا۔ ملک کے اندر موجود گیس اور دیگر معدنی وسائل کو منصوبہ بندی کے تحت استعمال میں لاتے ہوئے انرجی کے لیے ملک خود انحصاری کی جانب تیزی سے بڑھ سکتا ہے جبکہ منڈی کی معیشت میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

زراعت میں ہونے والی انقلابی تبدیلیوں اور زمین کی ملکیت کے قانون کے خاتمے سے زرعی پیداوار میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگا۔ کھاد، بیج، زرعی ادویات اور بجلی وغیرہ کی قیمتوں میں مصنوعی اضافے اور چند کمپنیوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوگا اور مزدور ریاست کے تحت تمام تر پیداوار ریاست کی جانب سے خرید کر عوام کو براہ راست پہنچائی جائے گی جس سے ملک کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے تمام وسائل ملک کے اندر سے ہی پورے کیے جا سکیں گے۔

کپڑے، اسٹیل، سیمنٹ کی صنعت سمیت تمام کلیدی شعبے جب منافع کی ہوس کے نظام سے آزاد ہوں گے تو ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت اس صنعت کا مقصد عوام کی ضروریات کی تکمیل ہوگا۔ اسی مقصد کے تحت ایک مرکزی منصوبے کے تحت وسائل اور پیداوار کی تقسیم صلاحیت کے اعتبار سے تمام صنعتوں میں کی جائے گی۔ ان صنعتوں سے پیدا ہونے والا کپڑا اور دیگر مصنوعات عوام تک پہنچانا ریاست کی ذمہ داری ہوگا جبکہ ہر شخص کو چھت فراہم کرنا اور تمام خاندانوں کی رہائش کے لیے مکان تعمیر کر کے دینا بھی مزدور ریاست کی ذمہ داری ہوگی جس کے لیے تمام صنعتیں دن رات کام کریں گی۔ روس میں انقلاب کے بعد مزدور ریاست نے چار کروڑ نئے گھر بنا کر عوام میں تقسیم کیے تھے۔

مزدور ریاست میں علاج اور تعلیم کی مفت فراہمی ریاست کی ترجیحات میں شامل ہوں گی اور ہر شخص کو جدید ترین علاج اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے وسائل مہیا کیے جائیں گے۔ اگر صرف ملک میں موجود دوا ساز کمپنیوں کے منافعوں کو ہی عوامی کنٹرول میں لے لیا جائے تو ہر شخص تک یہ ادویات مفت فراہم کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح ملک کے کونے کونے میں جدید ہسپتال تعمیر کرنے کا بجٹ چند ایف سولہ جہازوں یا بحری جنگی جہازوں کے اخراجات سے کم ہے۔ آج بھی میزائلوں سے لے کر ایٹم بم بنانے پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں جبکہ صحت اور تعلیم کی سہولیات میں مسلسل کٹوتی لگائی جاتی ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد اخراجات کا یہ توازن درست کیا جائے گا اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اولین ترجیح ہو گی۔

سوشلسٹ انقلاب کے بعد مظلوم قومیتوں پر ہر طرح کا قومی جبر ختم ہوگا اور ان کے حق خود ارادیت اور حق علیحدگی کا بھرپور دفاع کیا جائے گا۔ 1917ء کے روس کے انقلاب کے بعد لینن نے عملی طور پر اس حق کا بھرپور دفاع کیا تھا اور روس جسے مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ کہا جاتا تھا اسے مختلف قومیتوں کی ایک آزاد اور خود مختار سوشلسٹ فیڈریشن بنا دیا تھا۔ جس روسی قوم کے نام پر یہ قومی جبر مظلوم اقوام پر مسلط کیا جاتا تھا لینن نے ملک کے نام میں سے روس کا لفظ ہی ختم کر دیا تھا اور اسے سوویت یونین قرار دیا تھا۔ اس کے مطابق عالمی سوشلسٹ انقلاب کے تحت بتدریج اس سوویت یونین میں تمام ممالک کے محنت کش شامل ہوتے چلے جائیں گے اور پوری دنیا میں مزدور راج قائم ہوگا۔

یہاں بھی انقلاب کے بعد کسی بھی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا جائے گا اور تمام زبانوں کی ترقی و ترویج کی کوششیں کی جائیں گی۔ منصوبہ بند معیشت کے تحت جمہوری انداز میں وسائل کی تقسیم ہو گی اس لیے ہر علاقے کے لوگوں کا وہاں کے وسائل اور پیداوار کے حوالے سے اولین حق تسلیم کیا جائیگا۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد نجی ملکیت اور قبضے کے نظام کے خاتمے سے ہی بھائی چارے اور قومی ہم آہنگی کاآغاز ہو جائے گا اور ایک دوسرے پر قبضے اور غلبہ حاصل کرنے کی سوچ کی بجائے تعاون اور اشتراک کے نظریات فروغ پائیں گے جس سے امن اور خوشحالی کے دور کا آغاز ہوگا۔

انقلاب کے بعد سرمایہ دارانہ ریاست کے تمام ادارے بھی ختم ہو جائیں گے اور مزدور ریاست کے ادارے تشکیل پائیں گے۔ موجودہ الیکشن کمیشن، پارلیمنٹ اور آئین سازی کے اداروں کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا مزدور جمہوریت کے نئے ادارے ابھر کر سامنے آئیں گے۔ کوئی بھی انقلابی پارٹی انتخابات کے ذریعے اقتدار میں نہیں آتی بلکہ انتخابات کے اس سرمایہ دارانہ ادارے کو شکست دے کر اور اس کے مقابلے میں مزدور جمہوریت کے متوازی اداروں کے ابھرنے اور ان کے غلبہ پانے سے اقتدار میں آتی ہے۔ موجودہ انتخابی ادارے اتنے گل سڑ چکے ہیں اور اتنے بد عنوان ہیں کہ ان سے کسی بھی طرح سے مزدور طبقے کی نمائندگی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس کے متوازی فیکٹریوں، اداروں، کھیتوں، کھلیانوں میں محنت کش اپنی منتخب کمیٹیاں بنا کر انقلابی عمل کا آغاز کرتے ہیں اور ان کمیٹیوں میں جمہوری انداز میں بحثیں ہوتی ہیں اور نمائندے منتخب ہوتے ہیں۔ یہ نمائندے مقامی سطح سے لے کر ملکی سطح تک ایک منظم اور مربوط انداز میں آگے بڑھتے ہوئے تمام تر اقتدار اپنے کنٹرول میں لیتے ہیں۔ 1917ء کے روس میں ان کمیٹیوں کو سوویت کہا جاتا تھا۔ ان کا آغاز فیکٹری کمیٹیوں کی شکل میں ہوا جنہوں نے فیکٹریوں کا کنٹرول سنبھالنا شروع کیا۔ اس کے بعد انقلابی صورتحال میں پورے شہر کا انتظامی اور سیاسی کنٹرول بھی بتدریج ان ہی کمیٹیوں کے زیر اثرآتا گیا۔ اسی قسم کی کمیٹیاں یا سوویتیں کسانوں نے بھی بنا لیں اور جاگیروں پر قبضے شروع کر دیے جبکہ فوج میں سپاہیوں نے اپنی کمیٹیاں بنا کر افسران کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا اور تمام تر کنٹرول اپنے ہاتھوں میں جمہوری انداز میں لے لیا۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے نعرہ لگایا کہ پرانی ریاست اور زار روس کے تحت چلنے والے ریاستی اداروں، پارلیمنٹ، عدالتوں اور تمام ریاستی ڈھانچے کا خاتمہ کیا جائے اور ”تمام اقتدار سوویتوں کے حوالے کیا جائے“۔ اسی نعرے نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور ایک نئی مزدور ریاست کا جنم ہوا۔

یہاں بھی انقلابی تحریکوں میں یہ عمل ابھر کر سامنے آسکتا ہے اور ایک سوشلسٹ انقلاب اس کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔ انقلاب کے بعد موجودہ عدالتی اور ریاستی نظام مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ مزدور ریاست میں ڈپٹی کمشنر اور مجسٹریٹ کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی برطانوی سامراج کی بنائی ہوئی ان تمام تر عدالتوں کی۔ مزدوروں کی کمیٹیاں اور ان کے منتخب نمائندے مقامی اور ملکی سطح پر جہاں قانون سازی کریں گے وہاں ایگزیکٹو اختیارات بھی ان ہی منتخب نمائندوں کے پاس ہوں گے اور قوانین پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ داری بھی ان کی ہی ہوگی۔ نجی ملکیت کے نظام کے خاتمے سے نوے فیصد جرائم ویسے ہی ختم ہو جائیں گے اور عدالتوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ اگر کہیں ضرورت ہوئی بھی تو مزدوروں کی کمیٹی جج کو منتخب کرے گی اور وہ سب کی رائے سے کم سے کم وقت میں فیصلہ دینے کا پابند ہوگا۔ اسی نظام کے تحت پولیس، تھانے اور کچہری کے نظام کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا اور ظلم اور جبر کے اس تمام تر ادارے کی ضرورت ہی ختم ہو جائے گی اور عوام اپنے فیصلے خود کریں گے۔ آج یہاں کوئی بھی پارٹی یا دانشور تھانے کے نظام کو ختم کرنے کا خیال پیش نہیں کرتا بلکہ اگر کوئی بہت زیادہ ہوشیاری کا مظاہرہ کرے تو اصلاحات کا راگ الاپتا ہے۔ جبکہ جتنی بھی اصلاح کر لی جائے پولیس کا کردار یہی رہے گا جو آج نظر آتاہے۔ امریکہ جیسی جدید سرمایہ دارانہ ریاست میں بھی جارج فلوئیڈ جیسے واقعات نظر آتے ہیں جب ایک پولیس والے نے ایک بے گناہ شخص کا دن دیہاڑے گلا گھونٹ کر اسے قتل کر دیا۔ ایسے بہت سے دیگر واقعات بھی رپورٹ ہوچکے ہیں اور پوری دنیا میں تمام سرمایہ دارانہ ممالک میں پولیس کے ادارے اور عدلیہ کا یہی ظالمانہ کردار ہے جس کا مقصد سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا تحفظ ہے۔

مزدور ریاست میں فوج کے ادارے کا کردار بھی مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا اور فوج کا مقصد عوام کو سرمایہ دار طبقے کے خلاف بغاوت سے روکنے کی بجائے انقلاب کا سامراجی طاقتوں سے دفاع ہوگا۔ جہاں ایک طرف دنیا بھر کے محنت کش طبقے سے اس انقلاب کو کامیاب کرنے اور اس کا دفاع کرنے کی اپیل کی جائے گی اور انہیں سامراجی طاقتوں کی جارحیت کا حصہ بننے سے روکنے کی درخواست کی جائے گی وہاں سرخ فوج کی تعمیر بھی کی جائیگی۔ اس میں سب سے پہلی ذمہ داری تو خود محنت کشوں کی ہوگی اور انقلابی بنیادوں پر تمام محنت کشوں کو مسلح کیا جائے گا تاکہ وہ وقت پڑنے پراپنی مزدور ریاست کا دفاع کر سکیں۔ جنگ نہ ہونے کی صورت میں وہی مزدور فیکٹریوں میں کام کریں گے اور فوج کا صرف ایک عمومی ڈھانچہ ہی موجود رہے گا۔ اسی طرح سرخ فوج میں سرمایہ دارانہ فوج کی طرز پر افسران کی غلامی کا نظام موجود نہیں ہوگا بلکہ سپاہیوں کی کمیٹیاں خود اپنے افسران منتخب کریں گی جو انقلابی جنگ کی حکمت عملی طے کریں گے۔

مزدور ریاست میں کسی بھی ریاستی اہلکار کی تنخواہ اور مراعات ایک ہنر مند مزدور کی اجرت سے زیادہ نہیں ہوں گے اور کسی بھی منتخب نمائندے کو کسی بھی وقت واپس بلائے جانے کا اختیار کمیٹی کے پاس ہوگا۔ مقامی سطح سے لے کر ملکی سطح تک تمام منتخب اداروں میں یہی اصول لاگو ہوں گے۔ اسی طرح ذمہ داریوں کی تقسیم میں بھی مسلسل تبدیلی ہوگی تا کہ باورچی وزیر اعظم بن سکے اور وزیر اعظم باورچی۔

سوشلسٹ انقلاب کے بعد تمام تر جمہوری آزادیاں ممکن بنائی جائیں گی اور ہر کسی کو اپنی رائے رکھنے اور جمہوری انداز میں اس کی ترویج کرنے کا پورا حق ہوگا۔ لیکن کسی گروہ یافرد کی طرف سے اگر انقلاب کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے اور کروڑوں محنت کشوں کی قربانیاں دے کر حاصل ہونے والی اس تاریخی کامیابی کو چھیننے کی کوشش کی جائے تو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے علاوہ ہر قسم کی رائے رکھنے اور اس کے تحت سیاست کرنے کی پوری اجازت ہو گی۔

مزدور ریاست میں میڈیا بھی سرمائے کی جکڑ بندی سے آزاد ہوگا اور خبروں سے لے کر فلموں اور ڈراموں تک حقیقی موضوعات اور عوامی ایشوز ہی زیر بحث آئیں گے۔ موجودہ نظام میں اشتہارات کے حصول کے لیے ہر شے قربان کر دی جاتی ہے اور خبریں بلیک میلنگ، جھوٹ پھیلانے اور عوام دشمن سرکاری پراپیگنڈے کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ ایک مزدور ریاست میں میڈیا کا مقصد عوام کی ترقی اور خوشحالی ہوگا اور اسی مقصد کے لیے تمام تر تخلیقی قوتیں بروئے کار لائی جائیں گی۔ اس منافع خوری اور ہوس پرستی سے آزادی ہی ہر شعبے میں ترقی کے نئے رستے کھولے گی۔

سوشلسٹ انقلاب کے بعد خواتین پر موجود تمام تر سماجی جبر اور تسلط ختم ہوگا اور وہ پہلی دفعہ آزادی سے سانس لے سکیں گی۔ مزدور ریاست میں انہیں گھر کے اندر اور گھر کے باہر کسی بھی قسم کے تشدد، ہراسگی اور جبر کے خلاف تحفظ فراہم کیا جائے گا اور عورت کی سماج میں کمتر حیثیت کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ عورتوں کی خرید و فروخت اور جسم فروشی سے لے کر جبری شادیوں اور کاروکاری سمیت تمام جرائم اور فرسودہ روایات کا مکمل خاتمہ ہوگا اور انہیں مردوں کے برابر تمام تر سہولیات دی جائیں گی۔ علاج اور تعلیم کی مفت سہولیات کی فراہمی سے ان کے حالات بہت تیزی سے بہتری کی جانب بڑھیں گے اور وہ سماج کی تعمیر و ترقی میں اہم ترین کردار ادا کریں گی۔

انقلاب کے بعد انہیں گھروں کے روز مرہ کے کاموں کی غلامی سے بھی نجات ملے گی اور ان تمام کاموں کی ذمہ داری مزدور ریاست خود لے گی۔ کھانا پکانے، کپڑے دھونے اور دیگر کاموں کے لیے ہر گلی اور محلے کی سطح پر اجتماعی کھانا گھر اور لانڈریاں بنائی جائیں گی تاکہ خواتین کو گھریلو غلامی سے نجات ملے۔ مزدور ریاست کی جانب سے بچوں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا بھی انتظام کیا جائے گا تاکہ خواتین اپنے شعبے میں کام پر توجہ دے سکیں۔ زچگی کے دوران چھ ماہ تک کی چھٹی اور علاج کی تمام سہولیات کی مفت فراہمی خواتین کی عمومی صحت کو بہتر کرنے میں کردار ادا کرے گی۔ بچوں کی تمام تر غذائی ضروریات اور علاج اور تعلیم کی ذمہ داری بھی مزدور ریاست کی ہو گی اور یہی نئی نسل پھر اس انقلاب کے سفر کو کامیابی سے آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔

مارکسی نظریات کے مطابق ایک ملک میں برپا ہونے والا سوشلسٹ انقلاب کبھی بھی دیرپا عرصے تک قائم نہیں رہ سکتا اور اس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا کے دیگر ممالک تک تیزی سے پھیلے اور سرمایہ دارانہ نظام کو اس کرۂ ارض سے اکھاڑ پھینکے۔ اس مزدور ریاست کی خارجہ پالیسی اسی اصول کے تحت ترتیب پائے گی اور دنیا بھر میں مزدور تحریک کی حمایت اور سرمایہ دار طبقے کے خلاف طبقاتی جنگ کا آغاز کیا جائے گا اور اسی بنیاد پر انٹرنیشنل کی تعمیر و ترویج کے کام کو فروغ دیا جائے گا۔ مزدور ریاست اقوام متحدہ جیسے اداروں کے متوازی مزدور طبقے کے نمائندوں پر مبنی ایک عالمگیر سطح کی انٹرنیشنل کی تعمیر کے عمل کو تیز کرے گی جس سے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد منظم اور برق رفتار ہوگی۔

کیا یہ سب ممکن ہے؟

یہ سب نہ صرف ممکن ہے بلکہ انسانیت کے لیے آگے بڑھنے کا واحد رستہ بھی یہی ہے۔ اس کے علاوہ تمام تر رستے محنت کش عوام کو بربادی میں دھکیلنے کی طرف جاتے ہیں۔ ان تمام تراقدامات کی جانب بڑھنے کے مواقع حالیہ سالوں میں ہمیں دنیا کے مختلف ممالک میں نظر آئے۔ سری لنکا میں چند ماہ قبل ایسا انقلاب برپا کرنے کا واضح موقع تھا جب عوام نے صدارتی محل پر قبضہ کر لیا تھا اور پورے ملک میں عوامی کمیٹیاں تمام کلیدی جگہوں کا کنٹرول سنبھال چکی تھیں۔ اگر ایک انقلابی پارٹی ایک واضح پروگرام کے ساتھ موجود ہوتی تو صرف ان اقدامات کا اعلان کرنا باقی تھا باقی سب کچھ انہی اقدامات کے نتیجے میں آگے بڑھتے جانا تھا۔ اسی طرح دو سال قبل سوڈان میں یہی مواقع موجود تھے جبکہ انقلابی تحریک کی قیادت نے تمام تر مواقع موجود ہونے کے باوجود یہ کہہ کر اقتدار قبول نہیں کیا کہ ہم غیر سیاسی لوگ ہیں۔ اس کے بعد اقتدار واپس اسی طبقے اور فوجی جرنیلوں کے پاس چلا گیا جنہوں نے تحریک کی قیادت کو قتل کر کے اپنی حاکمیت کو بحال کیا۔ اسی طرح لاطینی امریکہ کے ملک ایکواڈور میں بھی چند سال قبل یہی مواقع موجود تھے جنہیں ضائع کر دیا گیا اور اب پھر یہ ملک پاکستان کی طرح دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آج کل ایران میں ایک ملک گیر عوامی تحریک موجود ہے اور آنے والے عرصے میں وہاں بھی ایسی ہی صورتحال ابھر سکتی ہے جس میں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نہ صرف ملا اشرافیہ اور رجعتی ریاست کا خاتمہ کرتے ہوئے جمہوریت بحال کی جائے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کو ہی مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔

پاکستان میں اس وقت ایسی کوئی ملک گیر عوامی تحریک موجود نہیں اور بظاہر سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ سیاسی پارٹیاں ہی افق پر موجود ہیں۔ مزدور طبقے کی کوئی انقلابی تحریک موجود نہیں اور سب سے جرات مند مزدور لیڈر بھی اجرتوں میں کچھ اضافے یا نوکریوں سے بیدخلی سے بچنے کے مطالبے ہی کرتا نظرآتا ہے۔ لیکن آنے والے عرصے میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہونے کے امکانات موجود ہیں اور حکمران طبقے کا ظلم اور جبر بہت بڑی عوامی تحریکوں کو ابھار سکتا ہے۔ ان تحریکوں کو کچلنے کی حکمرانوں کی کوششیں انقلاب اور رد انقلاب کی لڑائی کو فیصلہ کن موڑ کی جانب بھی لے جا سکتی ہیں۔ یقینا یہ تمام عمل سیدھی لکیر میں نہیں ہوگا بلکہ اس میں کئی اتار چڑھاؤ آئیں گے۔جہاں انقلابی قوتوں کو آگے بڑھنے کے مواقع ملیں گے وہاں عوام دشمن قوتیں بھی تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے بدترین حملے کریں گی۔ یہ سماج میں موجود زندہ طاقتوں کی جنگ ہوگی اور اس میں طبقات کی صف بندی میں دونوں جانب سے فیصلہ کن کامیابی کی کوششیں کی جائیں گی۔ اس جنگ میں محنت کش طبقے کی حتمی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر درست نظریات اور پروگرام سے لیس ایک انقلابی پارٹی موجود ہو تو مزدور طبقے کا پلڑا بھاری ہونے پر اسے شکست دینا ممکن نہیں رہتا۔ ایسے میں انقلابی پارٹی ہچکچاہٹ، تذبذب اور فیصلہ کن حملے میں تاخیر کرنے کی بجائے درست وقت اور مقام پر درست فیصلے کرتی ہے تو یہاں ایک سوشلسٹ انقلاب نہ صرف برپا کیا جاسکتا ہے بلکہ اسے عوام کو تمام مسائل سے نجات دلانے کے لیے بڑھایا اور پھیلایا بھی جا سکتا ہے۔ یہی انقلاب یہاں سے بھوک، بیماری، ذلت اور جہالت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرے گا۔ اس کے علاوہ تمام حل، دعوے، نعرے اور بیانات محض دھوکہ اور فریب ہیں۔

Comments are closed.