یورپ کا صنعتی بحران اور نظام کا زوال

|تحریر: نے شاہ، ترجمہ: عرفان بلوچ|

صنعتی انقلاب کی جنم بھومی بننے سے اب تک یورپ ایک طویل زوال سے گزرا ہے۔ اس زوال کا ایک پہلو صنعت کاری کے عمل سے اس کی صنعتی بنیاد کا بتدریج خاتمہ رہا ہے، جس نے 2008ء کے بحران کے بعد زور پکڑنا شروع کیا اور کرونا وبا نے اس کی رفتار کو تیز تر کر دیا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

چاہے کسی بھی میزان سے پرکھا جائے، یورپ پسپا ہو رہا ہے، امریکہ جو اپنے نسبتی زوال کے باوجود بھی غالب عالمی طاقت ہے اور چین جو حالیہ سست روی کے باوجود تیزی سے ابھر رہا ہے، کے درمیان یورپ پس رہا ہے۔ اس سے حکومتوں کے غیر مستحکم ہونے، آبادی میں بھوک و ننگ کی بڑھتی ہوئی تہیں اور امریکی آقاؤں کے ساتھ یورپ کی غلامی میں اضافے جیسے دیوہیکل اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

حالیہ پیش رفت کے بارے میں دو چیزیں توجہ طلب ہیں۔ ایک تو یہ کہ صنعت کاری کے عمل سے متاثر ہونے والے ممالک یورپ کے کوئی چھوٹے موٹے سرحدی ممالک نہیں ہیں بلکہ یہ تو یورپی سرمایہ داری کے مرکزی ستون ہیں۔ جرمنی، جو یورپ کی سب سے بڑی اور دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے، اس سے بدترین سطح پر متاثر ہوا ہے۔

دوسرا یہ کہ یورپ کی کوئی ایک آدھ چھوٹی صنعت نہیں جو رو بہ زوال ہے، بلکہ اس کی بنیادی صنعتوں کی ایک پوری کھیپ ہے جو بیک وقت ایک ہی طرح سے تنزلی کی صورتحال سے دو چار ہو رہی ہیں۔ پچھلے عرصے میں بڑے پیمانے پہ تنزلی کا شکار ہونے والی صنعتوں میں خاص طور پہ بنیادی دھاتوں، ٹیکسٹائل، کیمیکلز، آٹوموٹیو (Automotive)، مشینری اور الیکٹرانکس کی صنعتیں شامل ہیں۔

سٹیل انڈسٹری کا زوال

سٹیل کی صنعت جو دوسری کئی صنعتوں کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے، اس عمل کی ایک واضح تصویر پیش کرتی ہے۔ 2018ء سے 2022ء تک یورپی یونین نے سالانہ اوسطاً 149.48 ملین ٹن سٹیل پیدا کیا، لیکن 2024ء تک یہ پیداوار 129.5 ملین ٹن تک گر گئی۔ اس میں سب سے زیادہ جرمنی، چیک ریپبلک اور شمالی سپین متاثر ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر یورپی یونین میں 2008ء سے سٹیل کی پیداوار 30 فیصد تک گر چکی ہے۔

فرانس میں سٹیل سازی کی بھٹیوں کی تعداد 1961ء میں 150 ہوا کرتی تھی جو اب 2025ء میں کم ہو کر محض 5 رہ گئی ہیں۔ سٹیل کے ان کارخانوں میں سے کچھ میں برسوں سے کوئی سرمایہ کاری نہیں دیکھی گئی۔ ایک فرانسیسی سٹیل ماہر نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:

”ہم نے اپنے پیدواری یونٹس کی تجدید نہیں کی جس کے نتیجے میں یورپ سرمایہ کاری کے فنڈز کو اپنی طرف مرغوب کرنے میں ناکام ہے اور ایشیا کے تقابل میں مقابلہ کرنے کی قابلیت سے محروم ہو چکا ہے۔ بلکہ ترکی اور الجیریا جیسے ترقی پذیر ممالک کے سامنے بھی شکست کھا چکا ہے۔“

جرمنی میں خام سٹیل کی پیداوار 2008ء کے بحران سے لے کر 2022ء تک اپنی کم ترین سطح پہ گر کر 37 ملین ٹن پر پہنچ گئی۔ یہ پیداوار 2021ء کی 40 ملین ٹن اور 2010ء سے 2019ء کی اوسط سالانہ پیداوار 42.6 ملین ٹن سے بہت کم ہے۔ 2025ء میں پچھلے سات مہینوں سے پیداواری حجم میں مسلسل گراوٹ آئی ہے، جو ایک سال یعنی جولائی 2025ء سے پہلے کی نسبت 13.7 فیصد کم ہو چکا ہے۔ ٹیسن کُپ(Thyssenkrupp)، جو یورپ کی سب سے بڑی سٹیل کمپنیوں میں سے ایک ہے، نے حال ہی میں اعلان کیا کہ وہ اس دہائی کے آخر تک گیارہ ہزار نوکریوں کو ختم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے، یہ تعداد اس کے جملہ مزدوروں کی 40 فیصد بنتی ہے۔

یورپی صنعت کے زوال کا یہ عرصہ چین کے ایک صنعتی قوت کے طور پر ابھرنے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ چین اب دنیا میں سٹیل کا سب سے بڑا پیدا کنندہ اور برآمد کنندہ بن چکا ہے۔ اندرونی محدود منڈیوں کا مطلب یہ ہے کہ چین کی زبردست صنعتی بنیاد کی تمام توجہ برآمدات پر مرکوز ہو چکی ہے، صرف 2024ء میں اس نے 1 بلین ٹن سٹیل پیدا کیا اور 110.72 ملین ٹن برآمد کیا، جو یورپی یونین کی سالانہ پیداوار کے قریب قریب ہے۔

2024ء سے دنیا میں سٹیل کی کُل پیداوار کا 53 فیصد سے زیادہ حصہ اب چین پیدا کر رہا ہے، جبکہ یورپی یونین صرف 14 فیصد پر منجمد ہے۔ درحقیقت، یورپی یونین اب دنیا میں سٹیل کی سب سے بڑی درآمد کنندہ صنعت بن چکی ہے۔ دنیا کی بڑی 50 سٹیل کمپنیوں میں سے 27 کے ہیڈکوارٹر چین میں ہیں۔ امریکہ جو چار ہیڈکوارٹرز کی میزبانی کرتا ہے اور یورپی یونین، جو صرف تین کی میزبانی کرتی ہے، بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔

براعظم کی یورپی قوتوں کو اپنے انجام کا اندازہ لگانے کے لیے صرف انگلش چینل کے پار برطانیہ کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 1960ء کی دہائی کے اواخر میں برطانیہ دنیا میں سٹیل کا پانچواں سب سے بڑا پیدا کنندہ تھا۔ 1980ء کی دہائی تک یہ دسویں اور 2023ء تک چھبیسویں نمبر پر آ چکا تھا۔ 1990ء سے لوہے اور سٹیل کی صنعت میں مجموعی طور پر 73 فیصد کا انقباض ہوا ہے۔ اب یہ طویل مدتی زوال مہلک بن گیا ہے۔

محض 2024ء میں برطانیہ میں خام سٹیل کی پیداوار میں 29 فیصد کی گراوٹ آئی۔ پچھلے سال برطانوی حکومت کو پورٹ ٹالباٹ (Port Talbot) (جس کی مالک بھارتی کمپنی ٹاٹا ہے) اور اپنے آخری تپائی بھٹی والے کارخانے سکن تھورپ (Scunthorpe) (برطانوی سٹیل، جس کی مالک چینی کمپنی جنگیے گروپ (Jingye Group) ہے)، دونوں میں مداخلت کرنی پڑی تاکہ ان کارخانوں کو بند ہونے سے بچایا جا سکے۔

ان بندشوں کی صورت میں برطانیہ G7 ممالک میں واحد ایسا ملک بن جاتا جو اپنا خود کا سٹیل پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، جو کہ معیشت کے تمام شعبوں اور خاص طور پر فضائی صنعت میں اس کی سٹریٹجک اہمیت کو دیکھتے ہوئے ایک پریشان کن صورت حال کو ظاہر کرتا ہے۔

ایک طرف صدر ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ 50 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے اور دوسری طرف چین سے آنے والے سستے سٹیل کی بہتات کا، ایسے میں یورپ کی سٹیل کی صنعت کا مستقبل مایوس کن ہے۔

توانائی کا بحران

یورپی صنعت کی راہ میں دیرینہ رکاوٹ توانائی کی مہنگی لاگت ہے۔ پورے یورپ میں توانائی کی قیمتیں اوسطاً امریکہ اور چین کے مقابلے میں تین گنا ہیں اور برطانیہ میں یہ پانچ گنا زیادہ ہیں۔ اس کا توانائی کا زیادہ استعمال کرنے والی صنعت (Energy Intensive Industries – EII) پر نمایاں اثر پڑا ہے۔ ان میں کاغذ اور کاغذی مصنوعات، پیٹروکیمیکلز، بنیادی دھاتیں اور ڈھلائیاں (Castings) اور غیر نامیاتی غیر دھاتی مصنوعات شامل ہیں۔

برطانیہ میں، ان صنعتوں کی مجموعی مقدار اور پیداوار 1990ء کے بعد سے اپنی کم ترین سطح پر ہے اور 2021ء سے اب تک اس میں ایک تہائی (One-Third) کی کمی واقع ہوئی ہے۔ 2021ء سے 2024ء کے دوران، کاغذ اور کاغذی مصنوعات کی صنعت میں خالص قدر میں اضافہ (Gross Value Added) 29 فیصد کم ہوا، پیٹروکیمیکلز میں 30 فیصد، غیر نامیاتی غیر دھاتی مصنوعات میں 31 فیصد اور بنیادی دھاتیں اور ڈھالنے کے کام (Castings) میں 46 فیصد کی کمی ہوئی۔

یورپ بھر میں کم و بیش یہی صورتِ حال ہے۔ 2019ء سے اب تک مشینری کی پیداوار میں 3 فیصد، تیار شدہ دھاتوں (fabricated metals) میں 6 فیصد، غیر دھاتی معدنی مصنوعات (non-metallic mineral products) میں 11 فیصد، بنیادی دھاتوں (basic metals) میں 12 فیصد اور کیمیکلز اور آٹوموٹو (Automotive) دونوں صنعتوں میں 14 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ جرمنی خاص طور پر بری طرح متاثر ہوا ہے۔ 2022ء سے اب تک، جرمنی کی مجموعی صنعتی پیداوار میں 10 فیصد کی کمی آئی ہے۔

اگرچہ مفسرین توانائی کے اس بحران کی بنیادی وجہ یوکرین کی جنگ کو قرار دیتے ہیں اور واضح طور پر اس نے جلتی پہ تیل چھڑکا ہے، مگر یہ وہ عمل ہے جو جنگ سے پہلے، یہاں تک کہ کرونا کی وبا سے بھی قبل ہی شروع ہو چکا تھا۔

یہ سب کچھ سرمایہ کاری کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ 2019ء میں وبا سے پہلے، یورپی توانائی کی پیداوار اور بنیادی ڈھانچے میں عوامی اور نجی سرمایہ کاری 260 بلین ڈالر تھی، جبکہ امریکہ میں یہ 420 بلین ڈالر اور چین میں 560 بلین ڈالر تھی۔ یوکرین کی جنگ نے اس بحران کی وجہ ہونے کی بجائے اسے محض تیز کر دیا اور یورپی سرمایہ داری کی ان کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا جو اس سے قبل کے دور میں پوشیدہ تھیں۔

2024ء تک روسی توانائی کے ذرائع منقطع کرنے کے بعد، جو کہ اپنے ہی پاؤں پہ مارا گیا کلہاڑا تھا!، یورپ نے توانائی میں اپنی مجموعی سرمایہ کاری کو بڑھا کر سالانہ 450 بلین ڈالر کر دیا۔ لیکن یہ اب بھی امریکہ سے کم ہے، جو 550 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے اور چین سے بہت پیچھے ہے جو سالانہ 850 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ اور جو تیل اور گیس یہ خریدتا ہے اس کا ایک بڑا حصہ اب بھی روسیوں سے آتا ہے، فرق بس یہ ہے کہ یہ زیادہ مہنگے ورژن ہیں جو ہندوستان جیسے ثالثیوں کے ذریعے حاصل کیے جا رہے ہیں۔

بہت سے یورپی منصوبہ سازوں نے اپنی تمام امیدیں قابل تجدید توانائی (renewable energy) پر لگا رکھی ہیں، اِسے وہ ہر مرض کا علاج سمجھتے ہیں جو یورپ کو دوبارہ سب سے آگے لے آئے گی۔ مثال کے طور پر ’یورپی گرین ڈیل‘ جو کہ ایک سرمایہ کاری کا پروگرام ہے جو مبینہ طور پر ”یونین کو ایک جدید، وسائل کو مؤثر کن اور مسابقتی معیشت میں تبدیل کر دے گا۔“

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یورپی ایک ایسی مارکیٹ میں دراندازی کی کوشش کر رہے ہیں جس پر پہلے ہی دوسروں کا، خاص طور پر چین کا، غلبہ ہے۔ یہ مارکیٹ پہلے ہی سیر شدہ ہے، جس کی وجہ سے قیمتیں گر رہی ہیں اور نئے کھلاڑیوں کا داخلہ بھی ناممکن بن جائے گا۔

اعداد و شمار سے حقیقت واضح ہے۔ 2024ء میں، یورپی یونین نے قابل تجدید توانائی میں 370 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی، جبکہ چین نے اس سے تقریباً دگنی رقم یعنی مجموعی طور پر 680 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ گرین ٹیک کے میدان میں، چین شمسی پینلز، ونڈ ٹربائنز، لیتھیم بیٹریاں اور الیکٹرک گاڑیوں (EV) سمیت دیگر اشیاء کی پیداوار میں دنیا کو پیچھے چھوڑتے جا رہا ہے۔

2023ء میں چین نے اتنی ونڈ ٹربائنز نصب کیں جتنی پوری دنیا نے 2022ء میں کی تھیں۔ صرف اس سال جنوری سے مئی کے دوران، چین نے اپنے گرڈ میں اِتنی شمسی اور بادی (wind) توانائی شامل کی جو ترکی اور انڈونیشیا کی مجموعی توانائی کی صلاحیت کے برابر ہے۔

مختصراً، اگرچہ یوکرین جیسے واقعات یورپ کو درپیش بحران کے محرکات ہیں، مگر ہم مجموعی صورتحال میں یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ہچکولے محض اس بنیادی حقیقت کو بے نقاب کر رہے ہیں کہ یورپ واضح طور پہ غیر مسابقتی ہے۔

کار کی صنعت

آٹوموٹو صنعت یورپی یونین کی اہم ترین صنعتوں میں سے ایک ہے۔ یہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر 13.8 ملین افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے اور یورپی یونین کے مجموعی جی ڈی پی (GDP) کا 7 فیصد بناتی ہے۔ بھاری مقدار میں توانائی استعمال کرنے والی بڑی صنعت ہونے کی وجہ سے جو متعدد دوسرے شعبوں کو آپس میں جوڑتی ہے، جن میں سے زیادہ تر خود تنزلی کا شکار ہیں، یورپی آٹوموٹو صنعت میں گراوٹ اس پورے عمل کا نچوڑ پیش کرتی ہے۔

2024ء کے دوران، یورپی یونین کے مختلف کار ساز اداروں میں مجموعی طور پر اٹھاسی ہزار چھ سو انیس ملازمتوں میں کٹوتی کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا۔ مثال کے طور پر فرانس میں ایک ہزار دو سو نواسی، اٹلی میں ایک ہزار چھ سو ستر، سویڈن میں دو ہزار، پولینڈ میں دو ہزار آٹھ سو اڑتالیس، بیلجیئم میں پانچ ہزار پانچ سو سنتالیس اور جرمنی میں ارسٹھ ہزار تین سو پچاسی ملازمتوں کی کٹوتی کا اعلان کیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر ملازمتوں میں کٹوتی کا اعلان وولکس ویگن (Volkswagen) نے کیا، جو یورپ کی سب سے بڑی اور دنیا کی سب سے بڑی کار ساز کمپنیوں میں سے ایک ہے۔

جرمنی کی کار انڈسٹری طویل عرصے سے اس کی صنعتی طاقت کی علامت رہی ہے، لیکن اب یہ اس کی صنعتی گراوٹ کی علامت بن چکی ہے۔ بی بی سی کے ایک حالیہ مضمون میں یہ اجاگر کیا گیا ہے کہ جرمنی میں کاروں کی پیداوار 2017ء میں 5.65 ملین سے کم ہو کر 2023ء میں 4.1 ملین رہ گئی ہے۔ وولفسبرگ (Wolfsburg) میں واقع وولکس ویگن فیکٹری، جو ساٹھ ہزار سے زیادہ محنت کشوں پہ مشتمل دنیا کی سب سے بڑی فیکٹریوں میں سے ایک ہے، جس میں سالانہ آٹھ لاکھ ستر ہزار کاریں تیار کرنے کی صلاحیت ہے۔ تاہم، 2023ء میں یہ صرف چار لاکھ نوے ہزار کاریں تیار کر رہی تھی، جو صلاحیت کے استعمال (utilisation of capacity) کا صرف 56 فیصد ہے۔ صلاحیت کے استعمال کی اس قدر کم شرح پورے یورپ میں معمول ہے۔

حالات کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے 70 فیصد کی صلاحیت کا استعمال عام طور پر منافع برقرار رکھنے کے لیے کم از کم سمجھا جاتا ہے اور مکمل لاگت کی افادیت (cost-effectiveness) اور لچکداری کے لیے 80 سے 90 فیصد درکار ہے۔ چھوٹی گاڑیوں کے لیے، جرمنی کی آٹوموبائل صنعت میں استعمال کی شرح 56 فیصد ہے، برطانیہ میں 2024ء میں صلاحیت کا استعمال صرف 52 فیصد تھا، فرانس میں 50 فیصد اور اٹلی میں صرف 38 فیصد تھا۔ جمہوریہ چیک، سلوواکیہ، ترکی اور اسپین جیسے ممالک کی کارکردگی کسی حد تک بہتر رہی ہے، یہ سب 70 فیصد سے اوپر برقرار ہیں، لیکن رجحان اب بھی رو بہ زوال ہے۔

چین جو کہ دنیا کی سب سے بڑی کاروں کی منڈی ہے، نے ماضی میں جرمن کاروں کی برآمدات کے لیے نفع آور ترقی کا ذریعہ ثابت کیا تھا، جہاں 2019ء میں وولکس ویگن، مرسڈیز بینز اور بی ایم ڈبلیو کا چینی مارکیٹ میں 26 فیصد حصہ تھا۔ یہ حصہ کم ہو کر 18.7 فیصد ہو گیا ہے اور مزید گر رہا ہے۔ صرف 2023ء میں، چین میں وولکس ویگن کی فروخت میں 9.5 فیصد، مرسڈیز بینز کی 7 فیصد اور بی ایم ڈبلیو کی 13.4 فیصد کمی ہوئی۔

اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ الیکٹرک گاڑیوں (EVs) کی بڑھتی ہوئی اہمیت ہے، جس میں چین نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے اور اب وہ اس میں دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔ چینی EV بنانے والی کمپنی BYD اب دنیا میں EVs کی سب سے بڑی فروخت کنندہ ہے، جو ٹیسلا جیسی امریکی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ رہی ہے۔ سوئس بینک یو بی ایس (UBS) کی ایک رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ BYD اپنی ’سیل‘ (Seal) ماڈل کی کار وولکس ویگن کے اسی طرح کے ماڈل کے مقابلے میں تقریباً 35 فیصد سستی تیار کر سکتی ہے۔

بات صرف یہ نہیں کہ چینی EVs سستی ہیں، بلکہ وہ اپنے یورپی حریفوں کے مقابلے میں معیاری بھی ہیں۔ نیو سٹیٹس مین (New Statesman) کے 2024ء کے ایک مضمون میں وضاحت کی گئی ہے:

”تمام کہانی مسابقت کے گرد گھومتی ہے۔ اگر اجرتیں کم ہوتیں یا حکومت مزید سبسڈی دیتی، تو حالات بہتر ہوتے۔ لیکن جرمن الیکٹرک کاروں کے ساتھ مسئلہ یہ نہیں کہ وہ بنانے میں بہت مہنگی ہیں، بلکہ وہ جدید ترین نہیں ہیں۔ چینی الیکٹرک کاریں سستی اور غیر معیاری نہیں ہیں۔ وہ بہتر ہیں۔“

اگر جرمن سرمایہ داری یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ آگے کیا ہو سکتا ہے، تو اسے برطانیہ پہ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال برطانیہ میں آٹوموٹو صنعت کی پیداوار کم ہو کر تقریباً سات لاکھ پچاس ہزار رہ گئی، جو کہ 2020-21ء میں کرونا وبا کے لاک ڈاؤن کے دوران اور 2008ء کے بحران کے دوران بھی کم تھی اور 1950ء کی دہائی کے بعد سے ریکارڈ کی گئی سب سے کم سطح ہے۔ سوسائٹی آف موٹر مینوفیکچررز اینڈ ٹریڈرز کے سربراہ نے بجا طور پر اسے ’افسوسناک‘ قرار دیا۔ برطانوی آٹوموٹو صنعت کا انہدام تقریباً دو لاکھ ملازمتوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

فرانس کی کارکردگی بھی کچھ خاص بہتر نہیں رہی ہے۔ گزشتہ سال، اس کی اپنی آٹوموٹو صنعت نے تیرہ لاکھ ستاون ہزار سات سو ایک گاڑیاں تیار کیں، جو اس کی 2020ء میں وبا کے دوران کی گئی پیداوار سے 38 فیصد کم اور اس کی 2002ء کی پیداوار سے 63 فیصد کم ہے۔ برطانوی حریفوں کے مقابلے میں قدرے نرمی سے، صنعت کے ماہرین نے اسے ’تشویشناک‘ قرار دیا ہے۔ اس میں مزید دو لاکھ ملازمتیں شامل ہیں۔

جیسا کہ اعداد و شمار سے ظاہر ہے، یہ ایک یک رُخی عمل نہیں ہے، جہاں ہر صنعت اپنی ایک مستحکم رفتار سے گراوٹ کا شکار ہو۔ ایک صنعت میں بحران کا اثر دوسری صنعتوں پر پڑتا ہے اور یہ مل کر شدت اختیار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کاروں کی پیداوار کے لیے سٹیل، کیمیکلز، تیار شدہ دھاتیں اور بے شمار دوسری اشیاء درکار ہوتی ہیں، جو اپنی متعلقہ صنعتوں میں مانگ پیدا کرتی ہیں۔ لہٰذا، خاص طور پر کار انڈسٹری کا بحران معیشت پر تباہ کن اثر مرتب کر سکتا ہے۔

شعبہ کوئی بھی ہو، کہانی وہی پرانی ہے؛ امریکی محصولات، چینی مسابقت، خام مال کی بڑھتی ہوئی لاگت اور توانائی کی زیادہ قیمتیں، یہ سب مل کر یورپی صنعت کی اندرونی کمزوریوں کو سامنے لا رہے ہیں۔

سرمایہ کاری کا بحران

2025ء میں یورپی یونین کی ایک رپورٹ بعنوان The Future of European Competitiveness، یورپ کے امکانات کی ایک شرمناک تصویر پیش کرتی ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ 1995ء میں یورپی یونین پیداواری صلاحیت میں امریکہ کے قریب ترین پہنچی تھی، جب وہ امریکیوں کی پیداواری صلاحیت کا 95 فیصد تھی۔ اب یہ فرق اتنا بڑھ چکا ہے کہ یورپی یونین امریکہ کی پیداواری صلاحیت کا صرف 80 فیصد ہے۔

اس کی وضاحت رپورٹ اس حوالے سے کرتی ہے کہ ان طاقتوں نے کہاں سرمایہ کاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق:

”2017 سے اب تک تقریباً 70 فیصد بنیادی آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) کے ماڈلز امریکہ میں تیار کیے گئے ہیں اور صرف تین امریکی ’ہائپر سکیلرز‘ (بڑے کلاؤڈ سروس فراہم کنندگان) عالمی اور یورپی کلاؤڈ مارکیٹ کے 65 فیصد سے زیادہ پر قابض ہیں۔ سب سے بڑے یورپی کلاؤڈ آپریٹر کا یورپی یونین کی مارکیٹ میں صرف 2 فیصد حصہ ہے۔ کوانٹم کمپیوٹنگ اگلی بڑی جدت بننے کے لیے تیار ہے، لیکن کوانٹم سرمایہ کاری کے لحاظ سے دنیا کی بڑی دس ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سے پانچ امریکہ میں اور چار چین میں قائم ہیں۔ یورپی یونین میں کوئی بھی قائم نہیں ہے۔“

جبکہ امریکہ اور چین نے نئی ٹیکنالوجیز کو اپنایا ہے اور ان میں سرمایہ کاری کی ہے، یورپ ماضی میں بہت زیادہ پھنسا رہا ہے۔ رپورٹ وضاحت کرتی ہے: ”گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، تحقیق اور جدت (R&I) پر خرچ کرنے والی بڑی تین امریکی کمپنیوں نے 2000ء کی دہائی میں آٹوموٹو اور فارما صنعتوں سے، 2010ء کی دہائی میں سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کمپنیوں کی طرف، اور پھر 2020ء کی دہائی میں ڈیجیٹل سیکٹر کی طرف رخ کر لیا ہے۔“

دوسری طرف، ”یورپ جمود کا شکار رہا ہے جہاں آٹوموٹو کمپنیاں مسلسل ٹاپ 3 R&I خرچ کنندگان پر حاوی رہی ہیں“۔ مزید برآں، ”سرمایہ کاری پختہ ٹیکنالوجیز اور ان شعبوں پر مرکوز رہی ہے جہاں نئی کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کی شرح سست رو ہے“۔

مزید یہ کہ تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کی مقدار بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ 2021ء میں، یورپی کمپنیوں نے R&I پر 270 بلین یورو خرچ کیے، جو (جی ڈی پی کے تناسب سے) اپنے امریکی ہم منصبوں کے مقابلے میں تقریباً آدھا ہے۔

ایک دفعہ پھر کار انڈسٹری ہی اس مسئلے کی تجسیم ہے۔ چین، جس نے برسوں تک EVs اور تمام ضروری پرزہ جات، جیسے کہ بیٹریوں میں بھاری سرمایہ کاری کی، کے برعکس یورپی کار انڈسٹری نے اپنی دگنی قوت ڈیزل انجن پر ہی صرف کی۔ اسی وجہ سے، حالیہ سکینڈل سامنے آیا جہاں وولکس ویگن کی کاریں اپنے ڈیزل کاروں کے ماحولیاتی معیار پر پورا نہ اتر سکیں، بجائے اس کے کہ وہ درحقیقت قابل عمل EVs تیار کرتیں جو ٹیسٹ پاس کر سکتیں۔

The Future of European Competitiveness کی رپورٹ یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ یورپی یونین کو ان مسائل میں سے کچھ کی اصلاح شروع کرنے کے لیے کم از کم 800 بلین یورو جمع کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اسی طرح کی دیگر رپورٹیں کم پرامید ہیں، جو کھربوں میں اعداد و شمار پیش کر رہی ہیں۔

آگے کنواں، پیچھے کھائی

یہ موجودہ صورتحال کا پس منظر ہے، جہاں جدید صنعتوں کی سب سے بڑی کمپنیاں یا تو امریکی ہیں یا چینی۔ رپورٹ نشاندہی کرتی ہے کہ:

”درحقیقت گزشتہ پچاس سالوں میں صفر سے شروع ہونے والی کوئی بھی یورپی یونین کی کمپنی ایسی نہیں ہے جس کی مارکیٹ میں سرمایہ کاری 100 بلین یورو سے زیادہ ہو، جبکہ امریکہ میں 1 ٹریلین یورو سے زیادہ مالیت کی تمام چھ کمپنیاں اسی عرصے کے دوران بنائی گئی ہیں“۔

واضح طور یورپی اشرافیہ نے گزشتہ 30 سالوں میں نئی ٹیکنالوجی، بنیادی ڈھانچے، مشینری وغیرہ میں بمشکل ہی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کی بجائے انہوں نے ماضی کی کمائی پر گزارا کیا اور ہر خامی پر پردہ ڈالنے کے لیے امریکیوں کے ساتھ اپنے آسودہ تعلقات پر انحصار کیا۔ یہ چیز اب اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔

سرمایہ داری کا ایک عالمی بحران، امریکی سامراجیت کا نسبتی زوال، تجارتی جنگیں اور گزشتہ 80 سالوں سے رائج عالمی نظام کی بخیہ دری کا مطلب ہے کہ اب ہر کوئی اپنی اپنی فکر کرے۔ اس سے بچنے کی کوششوں کے باوجود یورپ کوئی واحد اکائی نہیں ہے، بلکہ چھوٹی ریاستوں کا ایک مجموعہ ہے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی قومی اشرافیہ ہے اور ہر ایک کے اپنے متضاد قومی مفادات ہیں۔ یہ امریکہ اور چین کی متحدہ، قومی منڈیوں سے مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔

ایسی صنعتیں بھی ہیں، جیسے کہ کمبشن انجن گاڑیاں، جہاں یورپی کی سبقت ثابت شدہ ہے بلکہ غالب ہے۔ لیکن نئی صنعتوں، جیسے کہ AI اور EVs کو بہت بڑی سرمایہ کاری درکار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ کاغذ پر ایک واحد مارکیٹ موجود ہے، عملی طور پر یورپی یونین کی 27 رکن ریاستوں میں 27 مختلف سرمایہ دار منڈیاں ہیں، جن میں کم از کم پانچ بڑے اسٹاک ایکسچینج شامل ہیں۔ ہر ریاست اور ہر حکمران طبقہ تنہا اتنا چھوٹا ہے کہ ناقابل برداشت خطرہ مول لیے بغیر مسابقتی رہنے کے لیے درکار سرمایہ اکٹھا نہیں کر سکتا۔ اس کی بجائے، زیادہ تر سرمایہ کاری پرانی صنعتوں کو بہترین بنانے میں لگائی جاتی ہے۔

کچھ لوگوں نے اسے ’مڈ ٹیک‘ (mid tech) جال کے طور پر بیان کیا ہے کہ یورپ کی معیشت ادنیٰ ٹیکنالوجی پہ مشتمل نہیں ہے، لیکن یہ اب اتنی چھوٹی ہے کہ اعلیٰ ٹیکنالوجی والی صنعتوں میں داخل نہیں ہو سکتی اور اس طرح یہ مسلسل اپنی پرانی اور فرسودہ صنعتوں پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور ہو رہی ہے۔

دوسری طرف امریکہ اور چین، کمپنیوں کو وسیع اجارہ داریوں میں پھلنے پھولنے کا کہیں زیادہ امکان فراہم کرتے ہیں، جو وسیع پیداوار سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ واضح طور پر ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور قومی ریاست کی وجہ سے ترقی میں حائل رکاوٹ کو ظاہر کرتا ہے۔

یوکرین کی جنگ پر یورپ کے ردعمل نے ان میں سے کئی حدود کو بے نقاب کیا۔ جب بات اسلحہ کی خریداری اور فوجی ساز و سامان کی پیداوار کی آتی ہے، تو یورپی صنعت کوششوں کو دہرانے، اتحادیوں کے درمیان مسابقت اور اپنی مقامی صنعت کی ناکافی صلاحیت کے سبب پرزوں اور گولہ بارود کو تبدیل کرنے کی نااہلی جیسے طاعونی مسائل میں گری ہوئی ہے۔

مثال کے طور پر، جنگ کے آغاز پر یہ پایا گیا کہ یورپ نائٹرو سیلولوز (گولے بنانے کے لیے استعمال ہونے والا مواد) کی خود کی افزودگی نہیں کر سکتا کیونکہ اس صنعت کا زیادہ تر حصہ چین منتقل ہو چکا تھا! ایک رپورٹ یورپ کی پوزیشن کو یوں بیان کرتی ہے:

”ملکی مینوفیکچرنگ کو تحفظ دینے کی دائمی کوشش نے اتحادیوں کے درمیان سخت مقابلے کو ہوا دی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سرمایہ کاری کی قدر کم ہو گئی، بجائے اس کے کہ اسے پورے براعظم میں پیداوار کی کارکردگی کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے تعاون کی حوصلہ افزائی کے لیے استعمال کیا جاتا۔“

یوکرین جنگ معاشی زوال اور سیاسی عوامل کے درمیان تعلق کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ امریکی پابندیوں کے نفاذ کے بعد یورپ کا روسی گیس سے انقطاع یورپیوں کی طرف سے خود کو پہنچایا گیا شدید نقصان تھا اور اس نے ان کی پہلے سے مہنگی توانائی کی قیمتوں کو مزید بڑھا دیا۔ اب صدر ٹرمپ یورپیوں پر چائنہ پر سو فیصد محصولات نافذ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے، تاکہ یوکرین میں امن معاہدے کے لیے چین کے ذریعے پیوٹن پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ ایسا اقدام پہلے سے ہی جدوجہد کرنے والی کئی صنعتوں کے لیے موت کا فرمان ثابت ہو گا۔

یورپ ایک طرف کنواں اور ایک طرف کھائی جیسی صورت حال سے دو چار ہے۔ امریکہ یورپ کی برآمدات کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے اور چین اس کی درآمدات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایک کے حق میں دوسرے کو منقطع کرنا خودکشی کے مترادف ہو گا۔

لیکن ایسی کشمکش آج ہوبہو یورپی سرمایہ داری کو درپیش ہے۔ امریکی صدر کی طرف سے محصولات، توہین اور یہ الزامات کہ وہ سب ’جہنم میں جا رہے ہیں‘، لگائے جانے کے باوجود بھی، یورپ واشنگٹن کے دامن سے چمٹا ہوا ہے۔ اور یوں یورپ چین کے معاملے میں امریکہ سے ہی رہنمائی حاصل کرنا جاری رکھے ہوئے ہے، یہاں تک کہ جب چین کو تجارت سے باہر کرنے کا سب سے بڑا نقصان اٹھانے والا خود یورپ ہی ہے۔

یورپی سرمایہ دار کنوئے اور کھائی کے بیچ پھنسا ہوا ہے۔ منجمد شدہ ترقی یا واضح کساد بازاری کے پس منظر میں، سماجی اخراجات، فلاح و بہبود، صحت کی دیکھ بھال اور بہت سی دوسری چیزوں میں کٹوتیوں کی ایک لمبی فہرست ایجنڈے کا حصہ ہے۔ معاشی جمود کا اظہار سیاسی بحران کی صورت میں ہو رہا ہے، کیونکہ کسی بھی نمائندے کو جسے سرمایہ داری کے مطالبات کو پورا کرنا پڑے گا، وہ لامحالہ طور بہت غیر مقبول ہو جائے گا۔

یورپی محنت کش طبقے سے اس بحران کا خمیازہ بھرنے کی توقع کی جا رہی ہے، لیکن وہ ان حملوں کو خاموشی سے برداشت نہیں کرے گا۔ یہ مستقبل میں طبقاتی جدوجہد کے ایک دھماکے کی ترکیب ہے۔

Comments are closed.